"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
اجنبي مجھ کو بنادو کہ ميں زندہ ہوں ابھي
فاصلے اور بڑھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھي

اک انوکھي سی سزا دو کہ میں زندہ ہوں ابھي
ميرا احساس مٹا دو کہ میں زندہ ہوں ابھي

اپني جانب سے جفاؤں کا سہارا لے کر
مجھ کو ترغيب وفا دو کہ میں زندہ ہوں ابھي

تم سے کچھ اور تو ھر گز نہ ديا جائے گا
صرف مرنے کي دعا دو کہ میں زندہ ہوں ابھي

ميرے ہونے سے اندھیروں کا پتہ ملتا ہے
مجھ راہوں سے ہٹا دو کہ ميں زندہ ہوں ابھي
(حافظ ذاکر دہلوي)
 

سارہ خان

محفلین
ہر ایک زخم کا چہرہ گُلاب جیسا ہے
مگر یہ جاگتا منظر بھی خواب جیسا ہے

تُو زندگی کے حقائق کی تہ میں یُوں نہ اُتر
کہ اس ندی کا بہاؤ چناب جیسا ہے

تِری نظر ہی نہیں حرف آشنا ورنہ
ہر ایک چہرہ یہاں پر کتاب جیسا ہے

چمک اُٹھے تو سمندر، بجھے تو ریت کی لہر
مِرے خیال کا دریا سراب جیسا ہے
 

عمر سیف

محفلین
تجھے اظہارِ محبّت سے اگر نفرت ہے
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا

بےنیازی سے، مگر کانپتی آواز کے ساتھ
تو نے گھبرا کے میرا نام نہ پوچھا ہوتا

یونہی بےوجہ بھٹکنے کی ضرورت کیا تھی
دمِ رخصت میں اگر یاد نہ آیا ہوتا

حوصلہ تجھ کو نہ تھا مجھ سے جُدا ہونے کا
ورنہ کاجل تیری آنکھوں کا نہ پھیلا ہوتا

تجھ کو اظہارِ محبّت سے اگر نفرت ہے
 

عمر سیف

محفلین
کہاں تھا اتنا عذاب آشنا میرا چہرہ؟
جلے چراغ تو بجھنے لگا مرا چہرہ

وہ تیرے ہجر کے دن وہ سفیر صدیوں کے
تو ان دنوں میں کبھی دیکھتا میرا چہرہ

جدائیوں کے سفر میں رہے ہیں ساتھ سدا
تری تلاش، زمانے، ہوا، میرا چہرہ

مرے سوا کوئی اتنا اداس بھی تو نا تھا
خزاں کے چاند کو اچھا لگا میرا چہرہ

کتاب کھول رہا تھا وہ اپنے ماضی کی
ورق ورق پہ بکھرتا گیا میرا چہرہ

سحر کے نور سے دھلتی ہوئی تیری آنکھیں
سفر کی گرد میں لپٹا ہوا میرا چہرہ

ہوا کا آخری بوسہ تھا یاں قیامت تھی ؟
بدن کی شاخ سے پھر گِر پڑا میرا چہرہ

جسے بجھا کے ہوا سوگوار پھرتی ہے
وہ شمعِ شامِ سفر تھی کہ میرا چہرہ

یہ لوگ کیوں مجھے پہچانتے نہیں محسن
میں سوچتا ہوں کہاں رہ گیا میرا چہرہ

محسن نقوی
 

شمشاد

لائبریرین
ايک ميں دل ريش ہوں ويسا ہي دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے
شمع کي مانند ہم اس بزم ميں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے
 

عمر سیف

محفلین
[align=center]وہ جو آجاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر
جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر

چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے
پیڑ گِرتا ہے تو آجاتے ہیں آرے لے کر

وہ جو آسودہِ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم
اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر

ایسا لگتا ہے کہ ہر موسمِ ہجراں میں بہار
ہونٹ رکھ دیتی ہے شاخوں پہ تمھارے لے کر

شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش
پھرتا رہتا ہے جو گلیوں میں غبارے لے کر

نقدِ جاں صرف ہوا خلفتِ ہستی میں‌فراز
اب جو زندہ ہیں تو کچھ سانس ادھارے لے کر

احمد فراز۔
 

عمر سیف

محفلین
زباں ہے تو نظر کوئی نہیں‌ ہے
اندھیرے ہیں، سحر کوئی نہیں ہے

محبت میں فقط صحرا ہیں جاناں
محبت میں شجر کوئی نہیں‌ ہے

خموشی چیختی جاتی ہے لیکن
کسی پر بھی اثر کوئی نہیں‌ ہے

بھری بستی میں‌ تنہا کر گئے ہو
کہ جیسے یاں خطر کوئی نہیں ہے

اگر انساں کے بارے پوچھتے ہو
بہت سے ہیں مگر کوئی نہیں ہے

میں اپنے آپ ہی سے ڈر رہا ہوں
مجھے تیرا تو ڈر کوئی نہیں‌ ہے

فرحت عباس شاہ
 

عمر سیف

محفلین
عادتاً تم نے کر دیئے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کیا

تیری راہوں میں بار ہا رُک کر
ہم نے اپنا ہی انتظار کیا

اب نہ مانگیں گے زندگی یا رب
یہ گناہ ہم نے ایک بار کیا

گُلزار
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top