"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھی شاعری ہے باجو اور یہ شعر

تمام رات چراُئے تو اوس کے موتی
تمام رات ستاروں کے گرُز کھاؤں میں

تو بہت ہی خوب ہے۔
 

ظفری

لائبریرین

تم نہ مانو ، مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے

حن ہی حسن ، جلوے ہی جلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے

اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوبصورت ہے

جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو میری ضرورت ہے​
 

ظفری

لائبریرین

خمارِ غم ہے مہکتی فضا میں جیتے ہیں‌
تیرے خیال کی آب و ہوا میں جیتے ہیں

بڑے تپاک ملتے ہیں ، ملنے والے مجھے
وہ میرے دوست ہیں ، تیری وفا میں جیتے ہیں

فراقِ یار میں سانسوں کو روکے رکھتے ہیں
ہر ایک لمحہ ، گذرتی قضا میں جیتے ہیں

نہ بات پوری ہوئی تھی کہ رات ٹوٹ گئی
ادھورے خواب کی آدھی سزا میں جیتے ہیں

تمہاری باتوں میں کوئی مسیحا بستا ہے
حیسن لبوں سے برستی شفا میں جیتے ہیں
 

ماوراء

محفلین

زمانے بھر کی نگاہوں میں جو خدا سا لگے
وہ اجنبی ہے مگر مجھ کو آشنا سا لگے

نجانے کب مِری دُنیا میں مُسکرائے گا
وہ ایک شخص کہ خوابوں میں بھی خفا سا لگے

عجیب چیز ہے یارو یہ منزلوں کی ہوس
کہ راہزن بھی مسافر کو رہنما سا لگے

دِل تباہ! تِرا مشورہ ہے کیا کہ مجھے
وہ پھول رنگ ستارہ بھی بے وفا سا لگے

ہُوئی ہے جس سے منور ہر ایک آنکھ کی جھیل
وہ چاند آج بھی محسن کو کم نما سا لگے


محسن نقوی​
 

ماوراء

محفلین
یہ گزرتے دن ہمارے
نرم بوندوں میں مسلسل بارشوں کے سامنے
آسماں کے نیل میں، کومل سروں کے سامنے
یہ گزرتے دن ہمارے پن چھیوں کے روپ میں
تنگ شاخوں میں کبھی خوابیدگی کی دھوپ میں
ہیں کبھی اور اوجھل کبھی سکھ کی حدوں کے سامنے
چہچہاتے، گیت گاتے بادلوں کے شہر میں
اک جمالِ بے سکوں کی حسرتوں کے سامنے
سبز میداں، بنوں میں، کوہساروں میں کبھی
زرد پتوں میں کبھی، اجلی بہاروں میں کبھی
قید غم میں یا کھلی آزادیوں کے سامنے

منیر نیازی​
 

عمر سیف

محفلین
یہ اگر انتظام ہے ساقی
پھر ہمارا سلام ہے ساقی

آج تُو اذنِ عام ہے
رات رندوں کے نام ہے ساقی

مرے ساغر میں رات اتری ہے
چاند تاروں کا جام ہے ساقی

ایک آئے گا، ایک جائے گا
مےکدے کا نظام ہے ساقی

جام ٹوٹے، صُراحیاں ٹوٹیں
یہ بھی اک قتلِ عام ہے ساقی

تیرے ہاتھوں سے پی رہا ہوں شراب
مےکدہ میرا نام ہے ساقی
 

ظفری

لائبریرین

میری تلاش کو، بے نام و بے سفر کر دے
میں تیرا راستہ چھوڑوں، تو در بدر کر دے

تیرے خیال کے ہا تھوں کچھ ایسا بکھرا ہوں
کہ جیسے بچّہ کتابیں، اِدھر اُدھر کر دے

جدائیوں کی یہ راتیں تو کاٹنی ہوں گی
کہانیوں کو کوئی کیسے مُختصر کر دے
 

ماوراء

محفلین
تیرے خیال کے ہا تھوں کچھ ایسا بکھرا ہوں
کہ جیسے بچّہ کتابیں، اِدھر اُدھر کر دے


بہت خوب ظفری۔
 

عمر سیف

محفلین
کسی کی یاد کی پرچھائیوں میں چھوڑ گیا
یہ کون پھر سے مجھے آندھیوں میں چھوڑ گیا

مہک رہا ہوں صبح و شام تیری یادوں مین
ترا وجود مجھے خوشبوؤں میں چھوڑ گیا

قدم قدم وہ مرے ساتھہ ساتھہ چلتا ہے
وہ اپنا آپ مرے راستوں میں چھوڑ گیا

!تمام عمر مرے ساتھہ وہ بھی جاگے گا
جو اپنی نیند مرے رتجگوں میں چھوڑ گیا

ابھی تو ڈوب کے ساحل کے پاس پہنچا تھا
یہ کون پھر سے مجھے پانیوں میں چھوڑ گیا

جلا رہا ہوں جسے چھو رہا ہوں میں عاطف
یہ کون آگ سی میری رگوں میں چھوڑ گیا
 

ظفری

لائبریرین

سوئے ہوئے جذبوں کو جگانا ہی نہیں تھا
اے دل ! وہ محبت کا زمانہ ہی نہیں تھا

مہکے تھے چراغ اور دہک اٹھی تھیں کلیاں
گو سب کو خبر تھی اُسے آنا ہی نہیں تھا

دیوار پہ‌‌ وعدوں کی امربیل چڑھا دی
رخصت کے لیئے اور بہانہ ہی نہیں تھا

اُڑتی ہوئی چنگاریاں سونے نہیں دیتیں
روٹھے ہوئے اس خط کو جلانا ہی نہیں تھا

نیندیں بھی نظر بند ہوئیں اور تعبیر بھی قیدی
زنداں میں کوئی خواب سنانا ہی نہیں تھا

پانی تو ہے کم ، نقل مکانی ہے زیادہ
یہ شہر سرابوں میں بسانا ہی نہیں تھا​
 

شمشاد

لائبریرین
اُڑتی ہوئی چنگاریاں سونے نہیں دیتیں
روٹھے ہوئے اس خط کو جلانا ہی نہیں تھا

بہت خوبصورت شاعری ہے۔ بہت مزہ آیا پڑھ کے۔
 

عمر سیف

محفلین
سُن لی جو خُدا نے وہ دُعا تم تو نہیں ہو
دروازے پہ دستک کی صدا تم تو نہیں ہو

سمٹی ہوئی، شرمائی ہوئی رات کی رانی
سوئی ہوئی کلیوں کی حیا تم تو نہیں ہو

محسوس کیا تم کو تو گیلی ہوئیں پلکیں
بھیگے ہوئے موسم کی ادا تم تو نہیں ہو

اِن اجنبی راہوں میں نہیں کوئی بھی میرا
کس نے یوں مجھے اپنا کہا، تم تو نہیں ہو
 

ظفری

لائبریرین

کشتی بھی نہیں بدلی ، دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا ، جذبہ بھی نہیں بدلا

تصویر نہیں بدلی ، شیشہ بھی نہیں بدلا
نظریں بھی سلامت ہیں ، چہرہ بھی نہیں بدلا

ہے شوقِ سفر ایسا ایک عمر سے یاروں نے
منزل بھی نہیں پائی، رستہ بھی نہیں بدلا

بے سمت ہواؤں نے ہر لہر سے سازش کی
خوابوں کے جزیرے کا نقشہ بھی نہیں بدلا​
 

عمر سیف

محفلین
روکتا ہے غمِ اظہار سے پندار مجھے
مرے اشکوں سے چُھپا لے مرے رُخسار مجھے

دیکھ اے دشتِ جُنوں بھید نہ کھلنے پائے
ڈھونڈنے آئے ہیں گھر کے در و دیوار مجھے

سِی دیئے ہونٹ اُسی شخص کی مجبوری نے
جِس کی قربت نے کیا مِحرمِ اسرار مجھے

میری آنکھوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اَنجُم
جیسے پہچان گئی ہو شبِ بیدار مجھے

جِنسِ ویرانیِ صِحرا میری دوکان میں ہے
کیا خریدے گا ترے شہر کا بازار مجھے

جرسِ گُل نے کئی بار بلایا لیکن
لے گئی راہ سے زنجیر کی جھنکار مجھے

ناوکِ ظُلم اُٹھا دَشنہِ اَندوہ سنبھال
لُطف کے خنجرِ بے نام سے مت مار مجھے

ساری دنیا میں گَھنی رات کا سنّاٹا تھا
صحنِ زِنداں میں ملے صُبح کے آثار مجھے
 

عمر سیف

محفلین
اب رت بدلي تو خوشبو کا سفر ديکھے گا کون
زخم پھولوں کي طرح مہکيں گے پر ديکھے گا کون

زخم جتنے بھي تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تيرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر ديکھے گا کون

ہم چراغ شب ہي جب ٹہرے تو پھر کيا سوچنا
رات تھي کس کا مقدر اور سحر ديکھے گا کون

وہ ہوس ہو يا وفا ہو بات محرومي کي ہے
لوگ پھل پھول ديکھيں گے شجر ديکھے گا کون

ہر کوئي اپني ہوا ميں مست پھرتا ہے فراز
شہر نا پرساں ميں تير چشم تر ديکھے گا کون​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top