یہ گزرتے دن ہمارے
نرم بوندوں میں مسلسل بارشوں کے سامنے
آسماں کے نیل میں، کومل سروں کے سامنے
یہ گزرتے دن ہمارے پن چھیوں کے روپ میں
تنگ شاخوں میں کبھی خوابیدگی کی دھوپ میں
ہیں کبھی اور اوجھل کبھی سکھ کی حدوں کے سامنے
چہچہاتے، گیت گاتے بادلوں کے شہر میں
اک جمالِ بے سکوں کی حسرتوں کے سامنے
سبز میداں، بنوں میں، کوہساروں میں کبھی
زرد پتوں میں کبھی، اجلی بہاروں میں کبھی
قید غم میں یا کھلی آزادیوں کے سامنے