"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ظفری

لائبریرین

تتلیوں‌کا مجھے ٹوٹا ہوا پر لگتا ہے
دل پہ وہ نام بھی لکھتے ہوئےڈر لگتا ہے

رات آئی تو ستاروں بھری چادر تانی
خوبصورت مجھے سورج کا سفر لگتا ہے

یہ بھی سوتے ہوئے بچے کی طرح ہنستا ہے
آگ میں ‌پھول فرشتوں‌کا ہنر لگتا ہے

زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمین
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں‌ سر لگتا ہے

میں تیرے ساتھ ستاروں سے بھی گذر سکتا ہوں
کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے

(بشیر بدر)​
 

ظفری

لائبریرین

وہ چہرہ ساتھ ساتھ رہا ، جو ملا نہیں
کس کو تلاش کرتے رہے کچھ پتا نہیں

شدت کی دھوپ ، تیز ہواؤں کے باوجود
میں شاخ سے گرا ہوں ، نظر سے گرا نہیں

‌آخر غزل کا تاج محل بھی ہے مقبرہ
ہم زندگی ہیں ، ہم کو کسی نے جیا نہیں

جس کی مخالفت ہوئی ، مشہور ہوگیا
ان پتھروں سے کوئی پرندہ گرا نہیں

تاریکیوں میں اور چمکتی ہے دل کی دھوپ
سورج تمام رات یہاں ڈوبتا نہیں

کس نے جلائیں بستیاں ، بازار کیوں لُٹے
میں چاند پر گیا تھا مجھے کچھ پتا نہیں

( بشیر بدر )​
 

شمشاد

لائبریرین
یہ اہلِ درد کی بستی ہے زرگروں کی نہیں
یہاں دِلوں کا بہت احترام کرتے ہیں
یہاں پہ سکہ اہلِ ریا نہیں چلتا
کہ اہلِ درد نظر سے کلام کرتے ہیں
 

عمر سیف

محفلین
میں نے اس شخص کی آنکھوں میں فروزاں دیکھی
اس کے نکھرے ہوئی باطن کی چمک
اس کی تحریر کی خوشبو میں گُلفشاں دیکھی
اس کے مہکے ہوئے لہجے کی کھنک
اس کے کردار پردے میں نمایاں دیکھی
عظمتِ آدمِ خاکی کی جھلک
اس نے بتلایا مجھے !
کیسے فنکار کا فن
اس کے احساس کی قوّت سے جنم لیتا ہے
اس نے سکھلایا مجھے
کس طرح کوئی زمانے کو مسرّت دے کر
اپنے حصّے میں الم لیتا ہے
آسماں کون سے لوگوں کے قدم لیتا ہے !!
 

ظفری

لائبریرین


انہونی کوئی ہوگی ، یہ ڈر کیوں نہیں جاتا
قسمت کا لکھا سر سےگذر کیوں نہیں جاتا

سو بار میرے کانوں میں سرگوشی ہوئی ہے
جینا نہیں آتا تو ، مر کیوں نہیں جاتا

کیا بچپنا ہے میرا ، خیال آئے جو دل میں
دنیا کا ہر اک فرد سنور کیوں نہیں جاتا

بُوباس بسے اس کی ، ہر اک شے میں ہے چہرہ
تم پوچھتے ہو مجھ سے، میں گھر کیوں نہیں جاتا

ساحل پہ کھڑے ، میرے دعاگو کی یہ خواہش
کشتی کو لیے ساتھ ، بھنور کیوں نہیں جاتا

دستک سے تھکے ہاتھ صدا دیتا رہا میں
آنکھوں سے میری بند ، وہ در کیوں نہیں جاتا

احساس کو نہ ، اس کی وہ شدت کو ہی سمجھیں
جو پوچھتے ہیں دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
 

عمر سیف

محفلین
ہجر اُگنے لگا ہے پوروں پر
دل میں کیا بیج بو گئی ہو تم
ایک لمحے کو سوچتی بھی نہیں
کتنی مصروف ہوگئی ہو تم
(عاطف سعید)
 

عمر سیف

محفلین
جہاں ِخواب سے تعبیر سمجھوتہ نہیں کرتی
جہاں افکار سے تحریر سمجھوتہ نہیں کرتی

کچھ اتنی تیز رو ہے زندگی شہر کی مجھ سے
کہ اک لمحے کی بھی تاخیر سمجھوتہ نہیں کرتی

ود اپنی ہی انا میں ڈوب جاتی ہیں لب ساحل
سمندر سے مگر جاگیر سمجھوتہ نہیں کرنے

جو پہنا دی گئی ہے بے سبب اندیشے کی خاطر
مرے پاؤں سے وہ زنجیر سمجھوتہ نہیں کرتی

لئے اشک ندامت آگیا وہ تو کھلا مجھھ پر
کسی کی ہار سے تسخیر سمجھوتہ نہیں کرتی

تصور تیری یادوں کو مرے کمرے میًں لائے تو
مری تنہائی کی تصویر سمجھوتہ مہیں کرتی

نوائے شہر عرفاں نے مقید کرلیا تو پھر
نا جانے کیوں مری تقدیر سمجھوتہ نہیں کرتی
 

ظفری

لائبریرین

تعبیروں کے درد اُٹھا کر کیا کرنا ہے



تعبیروں کے درد اُٹھا کر کیا کرنا ہے
کیا کرنا ہے خواب سجا کر کیا کرنا ہے

اس کی صورت، اُس کی باتیں بھول گئے ہیں
پھر سوچا، خود دھوکا کھا کر کیا کرنا ہے

آپ نے جب لفظوں کے معانی بدل دئیے ہیں
پھر سورج سے اُوس چُھپا کر کیا کرنا ہے

کیا لینا ہے سڑکوں پر آوارہ پھر کر
اتنی جلدی گھر بھی جاکر کیا کرنا ہے

طارق عزیز​
 

شمشاد

لائبریرین
کیا لینا ہے سڑکوں پر آوارہ پھر کر
اتنی جلدی گھر بھی جاکر کیا کرنا ہے



ظاہر ہے،

تو ایسا کریں کہ گھر میں انتظار کرنے والی لے آئیں، پھر تو جا کر کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا، چاہے گھرداری ہی سہی

اور آجکل سڑکوں پر زیادہ نہ پھریں، خاصی سردی ہو گی آپ کے علاقے میں تو۔
 

ظفری

لائبریرین
شمشاد نے کہا:
کیا لینا ہے سڑکوں پر آوارہ پھر کر
اتنی جلدی گھر بھی جاکر کیا کرنا ہے



ظاہر ہے،

تو ایسا کریں کہ گھر میں انتظار کرنے والی لے آئیں، پھر تو جا کر کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا، چاہے گھرداری ہی سہی

اور آجکل سڑکوں پر زیادہ نہ پھریں، خاصی سردی ہو گی آپ کے علاقے میں تو۔


:D ۔۔۔شمشاد بھائی ابھی توگھر واپس جانے کا کچھ آسرا ‌‌ہوتا تو ہے نا ۔۔ ورنہ بعد میں ۔۔۔۔ :wink:

اور ہاں سردی تو واقعی بہت ہوگئی ہے یہاں ۔۔۔ سینٹی گریڈ میں غالباً منفی 16 یا 17 ہوگا ۔

ایک قطعہ عرض ہے ۔

سانس لینے نہیں دیتا جب شہر کا شور
خوشبو میں ڈوبا ہوا بن یاد آتا ہے
سردی سے جب ہونٹ چٹخنے لگتے ہیں
گرم لبوں کا گیلا پن یاد آتا ہے

(شہزاد احمد )
 

شمشاد

لائبریرین
بری بات، اچھے بچے سب کے سامنے ایسا نہیں کہتے۔

(دال میں‌ کچھ کالا کالا لگ رہا ہے۔)
 

ظفری

لائبریرین
اب تو پوری دال ہی کالی ہوگئی ۔۔ جناب ۔ :wink:

ویسے یہ قطعہ بہت مشہور شاعر شہزاد احمد کا ہے ۔ جن کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی تھی ۔ جس کا مطلع یہ تھا ۔


حال اس کا تیرے چہرے پر لکھا لگتا ہے
یہ جوچپ چاپ کھڑا ہے ، تیرا کیا لگتا ہے


ویسے قطعہ کا وہ مفہوم نہیں جو پہلی نظر میں سمجھا جاتا ہے ۔ :wink:
 

شمشاد

لائبریرین
تم لاکھ چھپاؤ احساس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھڑکا ہے تمہارا پیار وہاں آواز یہاں تک آئی ہے

ٕپتہ نہیں یار پہلا مصرعہ کیا ہے، بھول رہا ہوں۔
 

عمر سیف

محفلین
مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ میری ذات کے اندر
تیری چاہت بھرے موسم کی
بہت معصوم خواہش ہے
جسے بس یہ تمنا ہے
کہ تیرے نرم حرفوں کی ملاحت
تیرے لہجے کو بھی چھو لے ۔۔۔
اسے بس یہ تمنا ہے
کہ تیری آنکھ کی گرمی سے
میرا جسم تو پگھلے
لیکن حرارت اجنبیت سے دور ۔۔۔
محبت کے الاؤ سے دہکتی ہو ۔۔۔
مجھے بس اتنی حسرت تھی
تنہارا ہاتھ میرے ہاتھوں میں
ہمیشہ نہ رہے ۔۔۔ ذنجیر کی صورت ۔۔۔
مگر اس وقت تو ہو
کہ جب میرا احساس تنہا ہو ۔۔۔
اور میرا ہاتھ خالی ہو !
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری ذات ک اندر
تیری چاہت بھرے موسم کی بہت معصوم خواہش تھی
جسے بس اتنا سا دکھ ہے ۔۔
تمہارا ہاتھ مل جاتا!!!
 

شمشاد

لائبریرین
جان جب جب تیری یاد آتی ہے
میرے ارمان جاگ جاتے ہیں

اچھا نہیں لگتا کچھ تیرے بن
راتیں گزرتی ہیں تارے گن گن
آتے ہیں جب یہ ساون کے دن
دل میں لگا کر آگ جاتے ہیں

جان جب جب تیری یاد آتی ہے
میرے ارمان جاگ جاتے ہیں

ٹُوٹ کے چُور ہو جاتے ہیں
دل مجبور ہو جاتے ہیں
جب ہم دور ہو جاتے ہیں
ڈس یہ جدائی کے ناگ جاتے ہیں

جان جب جب تیری یاد آتی ہے
میرے ارمان جاگ جاتے ہیں

جان آتی ہے تیرے آنے سے
جان جاتی ہے تیرے جانے سے
جان کے یوں روز آنے جانے سے
دل کے ارمان جاگ جاتے ہیں

جان جب جب تیری یاد آتی ہے
میرے ارمان جاگ جاتے ہیں
 

ظفری

لائبریرین
بہت خوب شمشاد بھائی

-----------------------------------------------------


سب اپنی ذات کے کرب و بلا کی قید میں ہیں
اور ایک ہم کہ جو اب تک وفا کی قید میں ہیں

تھکے تو نظریں چھڑا لائے آسمانوں سے
مگر وہ لب کہ جو اب تک دعا کی قید میں ہیں

نظر ہوئی ھے بمشکل سکوت سے مانوس
سماعتیں تو ابھی تک صدا کی قید میں ہیں

کوئی خبر ھے سفر کی ، نہ منزلوں کا پتہ
ہمیں تو عمر ہوئی رہنما کی قید میں ہیں

سراب ہیں سبھی آزادیاں فضاؤں کی
کہیں پرندے کہیں پر ھوا کی قید میں ہیں

جب اپنے جیسی ہی مخلوق کے شکنجے سے
ہوئے رہا تو یہ دیکھا خدا کی قید میں ہیں​
 

عمر سیف

محفلین
ہمیں پچھاڑ کے کیا حیثیت تمھاری تھی
وہ جنگ تم بھی نہ جیتے جو ہم نے ہاری تھی

اور اب تمھیں بھی ہر اک شخص اچھا لگتا ہے
گئے دنوں میں یہی کیفیت ہماری تھی

ہمارے چہرے دمِ صبح دیکھتے آ کر
کہ ہم نے رات نہیں زندگی گزاری تھی

بچھڑ گیا وہ جُدائی کے موڑ سے پہلے
کی اس کے بعد محبّت میں صرف خواری تھی

 

عمر سیف

محفلین
تمنّاؤں کو زندہ، آرزوؤں کو جواں کو لوں
یہ شرمیلی نظر کہہ دے تو کچھ گُستاخیاں کر لوں

بہار آئی ہے، بُلبل دردِ دل کہتی ہے پھولوں سے
کہو تو میں ابھی اپنا دردِ دل تم سے بیاں کر لوں

ہزاروں شوخ ارماں چٹکیاں لے رہے ہیں دل میں
حیا ان کی اجازت دے تو کچھ بےباکیاں کر لوں

کوئی صورت تو ہو دُنیاِ فانی میں بہلنے کی
ٹھہر جا اے جوانی! ماتمِ عمرِ رواں کر لوں

چمن میں ہیں بہم پروانہ و شمع و گُل و بُلبل
اجازت ہو تو میں بھی حالِ دل اپنا بیاں کر لوں

بر آئیں حسرتیں کیا کیا اگر موت اتنی فرصت دے
کہ اک بار اور زندہ شیوہِ عشقِ جواں کر لوں

مجھے دونوں جہاں میں ایک وہ مل جائیں گر اختر
تو اپنی حسرتوں کی بےنیازِ دوجہاں کر لوں

اختر شیرانی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top