"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ماوراء

محفلین
مجھ سے اچھی غزل کوئی،تجھ سا غزل سرا کوئی
دنیا میں ہو اگر کہیں واضح کرو مثال سے
مجھ کو ہیں کام اور بھی کچھ تو کرو میرا خیال
آتے ہو جب خیال میں ،جاتے نہیں خیال سے​
 

ماوراء

محفلین
کرو کرم یا ستم ہم گلہ نہیں کرتے
خزاں میں پھول یقیناََََکھلا نہیں کرتے
ملا دو خاک میں ہم کو مگر خیال رہے
کہ ہم سے لوگ دوبارہ ملا نہیں کرتے​
 

عمر سیف

محفلین
یہ آج کیسی تھکن کا احساس ہے
جیسے جاگی ہوئی برسوں کی پیاس ہے

نکل پاؤں تیرے حصار سے کیسے
دور رہ کر بھی جیسے تو بہت پاس ہے

کھڑی رہتی ہوں کیوں دہلیز پر میں
شاید اب بھی تیرے لوٹ آنے کی آس ہے​
 

ظفری

لائبریرین
واہ بھئی واہ ۔۔۔ ضبط ، ماوراء ، شمشاد بھائی بہت خوب ۔۔۔ اور ظفری تمہارا بھی جواب نہیں ۔ :wink:
 

ظفری

لائبریرین

مسافروں میں ابھی تلخیاں پُرانی ہیں
سفر نیا ہے، مگر کشتیاں پُرانی ہیں

یہ کہہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا
کہ اس درخت میں کچھ ٹہنیاں پُرانی ہیں

ہم اسلئے بھی نئے ہمسفر تلاش کریں
ہمارے ہا تھ میں بیساکھیاں پُرانی ہیں

پرانی باتیں ہیں، اخبار سب پرانے ہیں
پرانے چہرے ہیں، اور کُرسیاں پُرانی ہیں

پلٹ کے گاؤں میں ، میں اسلئے نہیں آیا
میرے بدن پہ ابھی دھجّیاں پُرانی ہیں​
 

عمر سیف

محفلین
آنکھیں دیکھیں خواب
آنکھیں دیکھیں اور کسی کے خواب
اپنی آنکھیں ہی جب دیکھیں اور کسی کے خواب
کون بنے پھر خواب ہمارے، شکوے کون سنے!
کانٹے کون چُنے!

دل کو ہے بس ایک ہی اُلجھن
من چاہی تعبیر سے روشن سپنا، کیسے ہو؟
آنکھوں میں جو خواب بسا ہے، اپنا، کیسے ہو؟
تم دیکھو اک خواب
اپنی آنکھوں سے تم دیکھو میرا خواب
اپنی آنکھوں سے تم دیکھو کاش کبھی اک میرا خواب،
شکوؤں کی پرچھائیاں اوڑھے، مجھے سے کرو پھر بات،
مجھ سے کرو یہ بات

دل کو ہے بس ایک ہی اُلجھن،
من چاہی تعبیر سے روشن، سپنا کیسے ہو؟
آنکھوں میں جو خواب تیرا ہے “ اپنا “ کیسے ہو؟
 

عیشل

محفلین
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میّسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی
 

ماوراء

محفلین
عیشل نے کہا:
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میّسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میّسر تو آرزو ہی سہی

بہت خوب عیشل۔ :khoobsurat:
 

حجاب

محفلین
آگ لہرا کے چلی ہے اسے آنچل کردو
تم مجھے رات کا جلتا ہوا جنگل کردو
چاند سا مصرعہ اکیلا ہے میرے کاغذ پر
چھت پہ آجاؤ میرا شعر مکمل کردو
میں تمہیں دل کی سیاست کا ہنر دیتا ہوں
اب اسے دھوپ بنا دو مجھے بادل کردو
اپنی آنگن کی اداسی سے ذرا بات کرو
نیم کے سوکھے ہوئے پیڑ کو چندن کردو
تم مجھے چھوڑ کے جاؤ گے تو مرجاؤں گا
یوں کرو مجھے جانے سے پہلے پاگل کردو۔( بشیر بدر )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

ظفری

لائبریرین

سنتا نہ تھا جو اس کو سنانے میں لگا تھا
بنتی نہ تھی جو بات بنانے میں لگا تھا

لگتا ہے کہ تھا دشمن کوئی اپنی ہی جاں کا
اٹھتا نہ تھا جو بوجھ اٹھانے میں لگا تھا

میں بھول گیا تھا کہ نہیں بات مرے بس کی
میں پھول کھلانے کو ویرانے میں لگا تھا

اک بھائی نے ہنستے ہوئے قربان عمر کی
ایک بھائی کہ ، احسان جتانے میں لگا تھا

ایک میں تھا کہ ہر لمحہ اس کا دعا گو
ایک وہ تھا کہ دل ہی دکھانے کو لگا تھا

بجتی ہے بھلا ہاتھ اکیلے سے بھی تالی
نادان تھا رشتوں کو نبھانے میں لگا تھا

پھر ظلم ہوا اس کی وہ ذردیدہ نگاہیں
مشکل سے یہ دل اس کو بھلانے میں لگا تھا​
 

عمر سیف

محفلین
کہاں جانا تھا مجھ کو
کس نگر کی خاک بالوں میں سجانا تھی
مجھے کن ٹہنیوں سے دھوپ چُننا تھی
کہاں خیمہ لگانا تھا
مری مٹی راہِ سیارگاں کی ہمقدم نکلی
مری پلکوں پہ تارے جھلملاتے ہیں
بدن میں آگ لگتی ہے
مگر پاؤں میں خوں آ شام رستے لڑکھڑاتے ہیں
یہ کیا شیرازہ بندی ہے
یہ میری بےپری کس کُنج سے ہو کر بہم نکلی
نظر میں دن نکلتا ہے
پروں میں شام ڈھلتی ہے
مگر میں تو لہو کی منجمد سل ہوں
بدن کی کشتِ ویراں میں
یہ کس کی اُنگلیوں نے عمر بھر مجھ کو کریدا ہے
کہاں شریان میں چلتا ہوا یہ قافلہ ٹھہرا
کہ میں اس ہاتھ کی ریکھاؤں میں رنگِ حنا ٹھہرا
کہاں جانا تھا مجھ کو
کس جگہ خیمہ لگانا تھا
 

ظفری

لائبریرین

کبھی تو چاپ ملے گی، آتی صدیوں کی
کان دھرے بیٹھا ہوں، گئے زمانوں پر
کبھی کبھی تنہائی میں یُوں لگتا ہے
جیسے کسی کا ہاتھ ہے میرے شانوں پر​
 

عمر سیف

محفلین
شاید ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو سُنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
 

شمشاد

لائبریرین
سنا تھا کہ وہ آئیں گے انجمن میں
سنا تھا کہ ان سے ملاقات ہو گی
ہمیں کیا پتہ تھا ہمیں کیا خبر تھی
نہ یہ بات ہو گی نہ وہ بات ہو گی

میں کہتا ہوں اس دل کو دل میں بسا لو
وہ کہتے ہیں ہم سے نگاہیں ملا لو
نگاہوں کو معلوم کیا دل کی حالت
نگاہوں نگاہوں میں کیا بات ہو گی

ہمیں کھینچ کر عشق لایا ہے تیرا
تیرے در پے ہم نے لگایا ہے ڈیرا
ہمیں ہو گا جب تک نہ دیدار تیرا
یہیں صبح ہو گی یہیں رات ہو گی

محبت کا جب ہم نے چھیڑا فسانہ
تو گورے سے مکھڑے پہ آیا پسینہ
جو نکلے تھے گھر سے تو کیا جانتے تھے
کہ یوں دھوپ میں آج برسات ہو گی
(قمر جلال آبادی)
 

عمر سیف

محفلین
پاس رہ کر جُدا سی لگتی ہے
زندگی بےوفا سی لگتی ہے

میں تمھارے بغیر بھی جی لوں
یہ دُعا، بددُعا سی لگتی ہے

نام اُس کا لکھا ہے آنکھوں پر
آنسوؤں کی خطا سی لگتی ہے

وہ ابھی اِس طرف سے گزرا ہے
یہ زمیں آسماں سی لگتی ہے

پیار کرنا بھی جُرم ہے شاید
آج دُنیا خفا سی لگتی ہے

بشیر بدر
 

ظفری

لائبریرین
poem.gif
 

حجاب

محفلین
پہلے دل کی اُجڑی زمین پر
خواب محبت کے سجائے
پھر
میری آنکھوں میں کچھ دیپ
اُمیدوں کے جلائے
کبھی چاند کبھی گلاب کہا
کبھی سپنوں کی رانی کہا
پھر وہ میری زندگی بن گیا
اور جب اُس کی محبت
میری روح کو دیمک کی طرح لگ گئی
تو اُس نے مجھے چھوڑ دیا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

تیشہ

محفلین
کہا یہ کس نے کہ پھولوں سے دل لگاؤں میں
تیرے خیال کو چھوڑوں تو مر نہ جاؤں میں

عجیب توُ بھی کہ چمکے ہے چاکِ ابر میں تو
عجیب میں بھی کہ بارش کے تیر کھاؤں میں

عجب نہیں کہ تیری آنکھ میں بھی نور آئے
کرن سی بن کے کبھی تیرے در پہ آؤں میں

تمام رات چراُئے تو اوس کے موتی
تمام رات ستاروں کے گرُز کھاؤں میں

فقط یہ بات کہ تجھ بن رہی نہ بات کوئی
مگر یہ بات تجھے کس طرح بتاؤں میں ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top