باہر کا دھن اتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے ،
ہر دھوپ میں جو مجھے سایا دے وہ سچا سایا گھر میں ہے
پاتال کے دکھ وہ کیا جانے جو سطح پر ہیں ملنے والے
،،،،، ہیں ایک حوالہ دوست میرے ، اور ایک حوالہ گھر میں ہے،
میری عمر کے اک اک لمحے کو میں نے قید کیا ہے لفظوں میں
،،،جو ہارا ہوں یا جیتا ہوں وہ سب سرمایہ گھر میں
تو ننھا منھا ایک دیا ، میں ایک سمندر اندھیرا
تو جلتے جلتے بجھنے لگا ، اور پھر بھی اندھیرا گھر مین ہے
کیا سوانگ بھرے روٹی کے لیے عزت کے
چلو شام ہوی گھر کو چلوکوکوٰی شخص اکیلا گھر میں ہے
اک ہجر زدہ بابل پیاری ، تیرے جاگتے بچوں سے ہاری
، ،،، اے شاعر کس دنیا میں ہے تو تیری تنہا دنیا گھر میں ہے
دنیا میں کھپاے سال کٰی ، اخر میں کھلا احوال یہی
، ،، وہ باہر کا ہو یا گھر کا ہو ، ہر دکھ کا مداوا گھر میں ہے