یہ کیسا کھیل ہے تقدیر کی بے نام بازی کا
کہ جو ہارے سوہارے ہیں
مگر جو جیت جاتے ہیں
انھیں بھی اک نئی الجھن کی دلدل گھیر لیتی ہے
کہ اک مشکل کے بعد اک اور مشکل گھیر لیتی ہے
سمجھنے کے لیے آئیں
چلیں ہم فرض کرتے ہیں
“ کسی لمحے کسی شخص کو پانا ہماری زندگی سے بھی زیادہ بیش قیمت تھا
ہم اس آرزو میں ساری دنیا بھول بیٹھے تھے
اسی کی دھن میں جیتے تھے اسی کے غم میںمرتے تھے
تو پھر کچھ یوں ہوا اک روز اس کو پالیا ہم نے
اسے رنگوں کی ڈولی میں بٹھا کر گھر میں لے آئے
تصور کی ہر اک خوشبو گل منظر میں لے آئے
کہانی آگے چلتی ہے
تو ہوتا اس طرح ہے زندگی کے کارخانے میں
دنوں کے آنے جانے میں
جہاں کے ان گنت کاموں کا چکر چلنے لگتا ہے
بدن تھکتا ہے
آنکھیں دیر تک بیدار رہنے سے سلگتی ہیں
زباں اک تاجرانہ اور مسلسل جھوٹ
کی تکرار سے اکتانے لگتی ہے
مگر مجبور ہوتی ہے
کہ دنیا کا دباؤ اس کو رکنے نہیں دیتا
کوئی بے کار سا قصہ وہ پھر سے دوہرانے لگتی ہے
تھکن اور نیند کی ملتی حدوں میں، سرد بستر پر
سحر سے رات تک کی بے نتیجہ گفتگو
یاد آنے لگتی ہے
تو اس لمحے
وہ عمروں کی ریاضیت کا ثمر، وہ گوہر یکتا
اسی شکنوں بھرے بستر کے اک حصے میں ہوتا ہے
مگر محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے وہ ہزاروں میل کی دوری پہ رہتا ہے
اسی دوری کے صحرا میں کئی راتیں بکھرتی ہیں
کئی دن فوت ہوتے ہیں
تو پھر اک دن
کسی بے نام سی آہٹ کی
ہمارے ہست کی خالی گلی میں گونجتی ہے
اور ہمیں بیدار کرتی ہے ، بتاتی ہے
کہ ہم جس گھر میں رہتے ہیں
وہاں کچھ خوبصورت خواب بھی آباد ہوتے تھے
چلیں ہم فرض کرتے ہیں
یہ سب کچھ اک کہانی ہے
مگر کتنی پرانی ہے!!!!!!