"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

پاکستانی

محفلین
ایک آواز کے ساتھ اٹہیں نگاہیں سب کی
جھک گئیں اٹھتے ہی، کچھ رنگ فضا میں ناچے
شور سا اٹھا،بہار آئ لہو سے کھیلو
خار و خس جامۂ گل پہن کر جاگے

خون پروردہ بہار آئ شہیدوں کے لئے
سبزہ و گل پہنے مگر پا نہ سکی
استخواں ہائے شکستہ بھی شہیدوں کے کہیں
اک نغمہ بھی سر مہفل گا نہ سکی

ایک آواز کے ساتھ اٹہیں نگاہیں سب کی
جھک گئیں اٹھتے ہی، آباد تہا ہُو کا دیار
گرم رفتار تھے ہر سو بگولے جس میں
رقص کرتی پھرتی تھی خزاں غم بکنار​
 

پاکستانی

محفلین
کوئ جو رہتا ہے رہنے دو مصلحت کا شکار
چلو کہ جشنِ بہاراں منائں گے سب یار

چلو نکھاریں گے اپنے لہو سے عارضِ گل
یہی ہے رسمِ وفا اور من چلوں کا شعار

جو زندگی میں ہے وہ زہر ہم ہی پی ڈالیں
چلو ہٹائں گے پلکوں سے راستوں کے خسار

یہاں تو سب ہی ستم دیدہ غم گزیدہ ہیں
کرے گا کون بھلا زخم ھائے دل کا شمار ؟

چلو کہ آچ رکھی جائے گی نہادِ چمنن
چلو کہ آج بہت دوست آئیں گے سرِدار


اختر الایمان​
 

عمر سیف

محفلین
کبھی مجھ کو ساتھ لے کر، کبھی میرے ساتھ چل کر
وہ بدل گیا اچانک میری زندگی بدل کر
ہوئے جس پہ مہرباں تم، کوئی خوش نصیب ہوگا
میری حسرتیں تو نکلیں میرے آنسوؤں میں ڈھل کر
 

پاکستانی

محفلین
سر سلامت ہے تو کیا سنگِ ملامت کی کمی
جان باقی ہے پیکانِ قضا اور بھی ہیں

منصفِ شہر کی وحدت پہ نہ حرف آجائے
لوگ کہتے ہیں کہ اربابِ جفا اور بھی ہی​
 

پاکستانی

محفلین
یہ بیتابی، یہ بے خوابی، یہ بے چینی، کہ ہے مجھ پر
اسی حالت میں دلبر کا گزر ہو وے تو کیا ہو وے

اُس اِک خور شید رُو کے نور کے فیضا ں سے ہم دم
شبِ تیرہ مری رشکِ سحر ہو وے تو کیا ہو وے​
 

پاکستانی

محفلین
اے خدا مجھ سے نہ لے میرے گنا ہوں کا حساب
میرے پاس اشکِ ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں

ساحر بھو پالی​
 

پاکستانی

محفلین
قصے تیری نظر نے سنائے نہ پھر کبھی
ہم نے بھی دل کے داغ دکھائے نہ پھر کبھی

اے یادِ دوست آج تو جی بھر کے دل دکھا
شاید یہ رات ہجر کی آئے نہ پھر کبھی​
 

پاکستانی

محفلین
لا الہ الا اللہ



خودي کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودي ہے تيغ، فساں لا الہ الا اللہ
يہ دور اپنے براہيم کي تلاش ميں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اللہ
کيا ہے تو نے متاع غرور کا سودا
فريب سود و زياں ، لا الہ الا اللہ
يہ مال و دولت دنيا، يہ رشتہ و پيوند
بتان وہم و گماں، لا الہ الا اللہ
خرد ہوئي ہے زمان و مکاں کي زناري
نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الہ الا اللہ
يہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہيں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ
اگرچہ بت ہيں جماعت کي آستينوں ميں
مجھے ہے حکم اذاں، لا الہ الا اللہ
(اقبال - ضرب کلیم)
 

حجاب

محفلین
مدّتوں اُن کو فقط اُن کو سنانے کے لئے
گیت گائے دلِ آشفتہ نوا نے اے دوست

پر اُنہیں گوشِ توجہ سے نوازا نہ گیا
ناشنیدہ ہی رہے اپنے افسانے اے دوست

عشقِ بے چارہ کو محرومِ نوا چھوڑ کر وہ
کھو گئے کون سی دنیاؤں میں جانے اے دوست

پھر کبھی فرصتِ اظہارِ تمنّا نہ ہوئی
ناشنیدہ ہی رہے دل کے افسانے اے دوست

اب وہ لوٹے ہیں تو کہتے ہیں جگا سکتے ہیں
دل کو تجدیدِ محبت کے بہانے اے دوست

اُن سے کہہ دو کہ وہ تکلیفِ مروت نہ کریں
اب نہ چھوٹیں گے کبھی اس سے ترانے اے دوست۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

عمر سیف

محفلین
کاش ایسا ہو کہ اب کے بےوفائی میں کروں
تو پھرے قریہ بہ قریہ کو بہ کو میرے لئے
میں تو لامحدود ہوجاؤں سمندر کی طرح
تو بہے دریا بہ دریا جو بہ جو میرے لئے

خالد شریف
 

پاکستانی

محفلین
يا اللہ
کھانے کو روٹي دے
پہننے کو کپڑا دے
رہنے کو مکان دے
عزت اور آسودگي کي زندگي دے
مياں يہ بھي کوئي مانگنے کي چيزیں ہيں؟
کچھ اور مانگا کر
بابا جي آپ کيا مانگتے ہيں؟
ميں؟
ميں يہ چيزيں نہيں مانگتا
ميں تو کہتا ہوں
اللہ مياں مجھے ايمان دے
نيک عمل کرنے کي توفيق دے
بابا جي آپ ٹھيک مانگتے ہيں
انسان وہي چيز تو مانگتا ہے
جو اس کے پاس نہيں ہوتي

ابن انشاء​
 

پاکستانی

محفلین
فرض کرو ہم تارے ہوتے

اک دوجے کو دور دور سے دیکھ دیکھ کر جلتے بجھتے

اور پھر اک دن

شاخِ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتے



دریا کے دو دھارے ہوتے

اپنی اپنی موج میں بہتے

اور سمندر تک اس اندھی، وحشی اور منہ زور مسافت

کے جادو میں تنہا رہتے



فرض کرو ہم بھور سمے کے پنچھی ہوتے

اڑتے اڑتے اک دوجے کو چھوتے اور پھر

کھلے گگن کی گہری اور بے وفا آنکھوں میں کھو جاتے


,اور باہر کے جھونکے ہوتے

موسم کی اک بے نقش سے خواب میں ملتے

ملتے اور جدا ہو جاتے

خشک زمینوں کے ہاتھوں پر سبز لکیریں کندا کرتے

اور ان دیکھے سپنے بوتے

اپنے اپنے آنسو رو کر چین سے سوتے،

!فرض کرو ہم جو کچھ اب ہیں وہ نہ ہوتے ۔۔۔


امجد اسلام امجد
 

پاکستانی

محفلین
میری تیری نگاہ میں

جو لاکھ انتظار ہیں

جو میرے تیرے تن بدن میں

لاکھ دل فگار ہیں

جو میری تیری انگلیوں کی بے حسی سے

سب قلم نزار ہیں

جو میرے تیرے شہر کی

ہر اک گلی میں

میرے تیرے نقشِ پا کے بے نشاں مزار ہیں

جو میری تیری رات کے

ستارے زخم زخم ہیں

جو میری تیری صبح کے

گلاب چاک چاک ہیں

یہ زخم سارے بے دوا

یہ چاک سارے بے رفو

کسی پہ راکھ چاند کی

کسی پہ اوس کا لہو

یہ ہے بھی یا نہیں ، بتا

یہ ہے کہ محض جال ہے

میرے تمھارے عنکبوتِ وہم کا بُنا ہوا

جو ہے تو اسکا کیا کریں

نہیں ہے تو بھی کیا کریں

بتا، بتا

بتا، بتا

فیض احمد فیض
 

پاکستانی

محفلین
زندگی کی راہوں میں

بار ہا یہ دیکھا ہے

صرف سُن نہیں رکھا

خود بھی آزمایا ہے

جو بھی پڑھتے آئے ہیں

اسکو ٹھیک پایا ہے

اسطرح کی باتوں میں

منزلوں سے پہلے ہی

ساتھ چھوٹ جاتے ہیں

لوگ روٹھ جاتے ہیں

یہ تمہیں بتا دوں میں

چاہتوں کے رشتوں میں

پھر گرہ نہیں لگتی

لگ بھی جائے تو اُس میں

وہ کشش نہیں رہتی

ایک پھیکا پھیکا سا رابطہ تو رہتا ہے

تازگی نہیں رہتی


۔۔۔ روح کے تعلق میں
زندگی نہیں رہتی ۔۔۔


بات پھر نہیں بنتی

لاکھ بار مل کر بھی

دل کبھی نہیں ملتے!

ذہن کے جھروکوں میں

سوچ کے دریچوں میں

تتلیوں کے رنگوں میں

پھول پھر نہیں کھلتے!

اس لئیے میں کہتا ہوں

اس طرح کی باتوں میں

احتیاط کرتے ہیں

اسطرح کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں!


محسن نظامی
 

پاکستانی

محفلین
تھی جلن بیشک مگر تکلیف دہ چھالا نہ تھا

سوز ایسا نہ تھا جب تک آبلہ پھوٹا نہ تھا

اب تو خود مجھ سے مری اپنی شناسائی نہیں

آئینے میں میَں نے یہ چہرہ کبھی دیکھا نہ تھا

وقت کے ہاتھوں نے یہ کیسی لکیریں ڈال دیں

ایسے ہو جائیں گے ایسا تو کبھی سوچا نہ تھا

موسمِ گل میں تھا جس ٹہنی پہ پھولوں کا حصار

جب خزاں آئی تو اس پہ ایک بھی پتا نہ تھا

پیار کے اک بول نے آنکھوں میں ساون بھر دئیے

اس طرح تو ٹوٹ کے بادل کبھی برسا نہ تھا

خامشی سے وقت کے دھارے پہ خود کو ڈال دوں

سامنے میرے کوئی اسکے سوا رستہ نہ تھا

کوئی مجھ کو نہ سمجھ پایا تو کیا شکوہ، مگر

آپ سے تو میرے احساسات کا پردہ نہ تھا

درمیاں میں اجنبیت کی تھی اک دیوار سی

جب تلک میں نے اسے، اُس نے مجھے پرکھا نہ تھا

چاند کو تکتے ہوئے گزریں کئی راتیں مگر

میرے ذہن و فکر میں تسکین تھی سودا نہ تھا

وقت نے کیسے چٹانوں میں دراڑیں ڈال دیں

رو دیا وہ بھی کہ جو پہلے کبھی رویا نہ تھا

جانے کیوں دل سے مرے اسُکی کسک نہیں جاتی

بات گو چھوٹی سی تھی اور وار بھی گہرا نہ تھا

کس لئیے احباب نے تیروں کی زد پہ لے لیا

میں نے تو دشمن کا بھی لوگو بُرا چاہا نہ تھا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top