میری ڈائری کا ایک ورق

F@rzana

محفلین
،

لاجونتی اور اس کی ڈیفینیشن، دل کو چھو گئی، بھئی بہت کوب، اسے پڑھ کے تو میرا بھی دل چاہنے لگا پرانی ڈائریاں ٹٹولنے کو، آجکل کی ڈائریوں میں تو صرف کب کہاں اور کس جگہ(اپائنٹمنٹس) کی تاریخوں کے علاوہ کچھ بھی لکھنے کا وقت نہیں ملتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنی سے شبیں چراتی ہوں
روز دکھ کے دیئے جلاتی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

شمشاد

لائبریرین
- - - ہندی کا انگ لیا، برج بھاشا کا سنگ ہوا، خسروین جاگی :

مصرعہ : تن میرا من پیہوا، دو بھئی اک رنگ

فارسی کی شیرینی ملی اور یوں گھلی کہ :

- - - آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائیش
- - - گوئم مشکل وگرنہ گوئم مشکل

عربی سے جان پڑی :

- - - ہم نے کی سب معاف بے ادبی
- - - سبقت رحمتی علٰی غضبی

انگریزی کو بھی سمو لیا، دلاور فگار نے کسی سوٹ پوش سے پوچھا کہ آپ ہیں کوئی سارجنٹ، کہنے لگے کہ اپکو معلوم بھی نہیں “ آئی ایم دی ہیڈ آف دی اردو ڈیپارٹمنٹ“
 

شمشاد

لائبریرین
- - - زبان خوب سے خوب تر ہوئی، شاعری نے کچھ اور رنگ بھرا، ایک تو حسن ہو اس پر بیان کس کا، حُسن دو آتشہ، عشق دیوانہ ہوا، ہیرے کا جگر پھول کی پتی سے کاٹا، بلبل کے پر رگِ گل سے باندھے، دہلی کی زبان، لکھنئو کے تکلفات، دکن کی باتیں بھل بھلیاں، جو بولے تو پوچھا “ کیا بول کے بولے“

گاڑی تیزی سے جا رہی تھی، ڈرائیور کوئی قصہ سنا رہا تھا، ہم اپنے خیالوں میں بالکل ہی کھوئے ہوئے ہوں گے اور شائد ہنکارا بھرنا بھول گئے ہوں گے، اس لیئے گردن موڑ کر کہا، “ ٹھیک ہے نا سر، بے نکوف کے ساتھ بے نکوف تو بننا ہی پڑتا ہے۔“
 

شمشاد

لائبریرین
،

فرزانہ نے کہا:
لاجونتی اور اس کی ڈیفینیشن، دل کو چھو گئی، بھئی بہت کوب، اسے پڑھ کے تو میرا بھی دل چاہنے لگا پرانی ڈائریاں ٹٹولنے کو، آجکل کی ڈائریوں میں تو صرف کب کہاں اور کس جگہ(اپائنٹمنٹس) کی تاریخوں کے علاوہ کچھ بھی لکھنے کا وقت نہیں ملتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنی سے شبیں چراتی ہوں
روز دکھ کے دیئے جلاتی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

پسندیدگی کا شکریہ - کچھ آپ بھی تو “ share “ کریں ناں

اور ہاں “ روشنی سے ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے “signature“ میں شامل کر لیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ بھی انداز ہمارے ہیں، تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہیں، تمہیں کیا معلوم

ایک تم ہو کہ سمجھتے ہی نہیں اپنا ہم کو
ایک ہم ہیں کہ تمہارے ہیں، تمہیں کیا معلوم
 

شمشاد

لائبریرین
حمد

سبحان اللہ ! کیا صنائع ہے کہ جس نے ایک مٹھی خاک سے کیا کیا صورتیں پیدا کیں۔ باوجود دو رنگ کے ایک گورا، ایک کالا اور یہی ہاتھ پاؤں سب کو دیئے، جس پر رنگ برنگ کی شکلیں جدا جدا بنائیں کہ ایک کی سج دھج سے دوسرے کا ڈیل ڈول ملتا نہیں، کروڑوں خلقت میں جس کو چاہیے پہچان لیجیئے۔ آسمان اس کے دریائے وحدت کا ایک بلبلا ہے اور زمین پانی کا بتاشا، لیکن یہ تماشا ہے کہ سمندر ہزاروں لہریں مارتا ہے اس پر اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ جس کو یہ قدرت اور سکت ہو، اس کی حمد و ثنا میں زبان ‘انسان کی گویا گونگی ہے‘ کہے تو کیا کہے۔
(میر امن دہلوی کی داستان “باغ و بہار“ سے ایک اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
عالمِ محبت میں

عالمِ محبت میں
اس کمالِ وحشت میں
بے سبب رفاقت کا
دکھ اٹھانا پڑتا ہے
تتلیاں پکڑنے کو
دور جانا پڑتا ہے
(نوشی گیلانی)
 
آب گم ایک خوبصورت کتاب ہے اور یوسفی صاحب کی تراکیب کی تو کیا بات ہے۔ خاص طور پر انکی فارسی تراکیب اور خانصاحب کے مکالمات، قاری کو زیرلب مسکرانے پر مجبور کردیتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
یوسفی کی ساری کی ساری ہی کتابیں بہت خوبصورت ہیں۔ اور سچی بات ہے میں تو بعض جگہوں پر بےاختیار قہقہ لگا کر ہنسا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
گزرتا ہوا وقت

گزرتا ہوا وقت بھی عجیب چیز ہے، یہ کچھ کے لیئے امید کا پیغام اور کچھ کے لیئے نقارہ تباہی ثابت ہوتا ہے۔

وقت کا سب سے بڑا المیہ یا خوشی یہ ہے کہ یہ رواں دواں رہتا ہے، رکتا نہیں۔

جس دن کی خوشی کے لیئے انسان ساری زندگی محنت کرتا ہے وہ دن بھی گزر جاتا ہے اور جس گھڑی کے خوف سے انسان ساری زندگی لرزاں رہتا ہے وہ گھڑی بھی گزر جاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جھوٹ

بچپن میں جھوٹ بولنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔
شادی سے پہلے اسے ایک خوبی تصور کیا جاتا ہے۔
محبت میں اسے ایک آرٹ کا درجہ حاصل ہے۔
اور شادی کے بعد جھوٹ کی پختہ عادت پڑ جاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
نئی تہذیب

دادی اماں کو نئی تہذیب سے بہت گلہ ہے۔ کہتی ہیں ہمارا زمانہ بھی کیا زمانہ تھا، کسی سے ملنے پر آداب، تسلیم ہوتے تھے، دعائیں ملتی تھیں اور دعائیں دی جاتی تھیں۔ آج کل کسی کو ملتے ہوئے ‘ ہائے - آئے ‘ کی آوازیں آتی ہیں- جیسے کہیں درد اٹھ رہا ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
جانوروں کی ایک فطرت ہوتی ہے ایک جبلت۔
اس جبلت کی روشنی میں ان کو سمجھا اور ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انسان کا معاملہ ان سے قطعی مختلف ہے۔

کتا وفادار ہوتا ہے، لومڑی عیار ہوتی ہے، اونٹ کینہ پرور اور مگرمچھ مکار، شیر بہادر اور گدھا احمق ہوتا ہے۔ یہ سب پہچانے جاتے ہیں، مگر انسان میں سارے ہی اوصاف اور خصائل پائے جاتے ہیں۔ یہ وفادار بھی ہوتا ہے اور غدار بھی، یہ بہادر بھی ہوتا ہے اور بزدل بھی، یہ احمق بھی ہوتا ہے اور عقلمند بھی۔ اس میں خود غرضی بھی ہوتی ہے اور جذبہ ایثار بھی۔ انسان بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔
 

تیشہ

محفلین
شمشاد نے کہا:
جانوروں کی ایک فطرت ہوتی ہے ایک جبلت۔
اس جبلت کی روشنی میں ان کو سمجھا اور ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انسان کا معاملہ ان سے قطعی مختلف ہے۔

کتا وفادار ہوتا ہے، لومڑی عیار ہوتی ہے، اونٹ کینہ پرور اور مگرمچھ مکار، شیر بہادر اور گدھا احمق ہوتا ہے۔ یہ سب پہچانے جاتے ہیں، مگر انسان میں سارے ہی اوصاف اور خصائل پائے جاتے ہیں۔ یہ وفادار بھی ہوتا ہے اور غدار بھی، یہ بہادر بھی ہوتا ہے اور بزدل بھی، یہ احمق بھی ہوتا ہے اور عقلمند بھی۔ اس میں خود غرضی بھی ہوتی ہے اور جذبہ ایثار بھی۔ انسان بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔


ویسے انسانوں سے زیادہ وفاداریاں جانوروں میں ہوتی ہیں :p :)
 

زیک

مسافر
میری ڈائری میں سے ایک شعر:

وقت آیا تو میں مقتلِ شب میں تھا اکیلا
یاروں کی گرہ میں فقط اقوال بندھے تھے
 

F@rzana

محفلین
؛

واہ واہ واہ
بہت پیارا شعر ہے ، بہت پسند آیا
اجازت ہو تو اپنی ڈائری میں اتارلوں؟

ٕ(پیسے تو نہیں لگیں گے؟)
 

زیک

مسافر
پیسے نہیں لگیں گے مگر اگر آپ دینا چاہیں تو میں بخوشی قبول کر لوں گا۔ :D

ویسے مجھے یاد نہیں کہ یہ کس شاعر کا ہے۔
 

زیک

مسافر
ایک اور شعر:

وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں
ہمارے حصے میں عذر آئے، جواز آئے، اصول آئے

شاید یہ اور پچھلا شعر دونوں امجد اسلام امجد کے ہیں مگر یقین سے نہیں کہہ سکتا۔
 
Top