میری ڈائری کا ایک ورق

شمشاد بھائی ،اتنی پرانی لڑی کی طرف متوجہ کرنے کا بے حد شکریہ اورآپ نے زندگی کے جس اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے اُس کا شکر توممکن نہیں ہے ۔ میں اِس لڑی کی پوسٹیں فرصت میں پڑھوں گا،ا ن شاء اللہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
اداسی اور محبت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔۔کبھی کبھی اداسی بن بلا ئے مہمان کی طرح خود ہی چلی آتی ہے، آپ لاکھ سر پٹخو،منتیں ترلے کر لو یہ آپ کا دامن نہیں چھوڑتی۔یہ جسم میں پیوست گولی کی مانند باقاعدہ آپریشن مانگتی ہے۔ اور لازمی نہیں کہ اداسی محبوب کی محبت میں ہی ہو، اداسی ماں سے دوری کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ اداسی اپنے 3 سال کے بچے سے دوری کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے، چمکتے ہوئے چودیویں کے چاند کو دیکھ کے بھی ہو سکتی ہے، مگر اداسی ہر حساس دل میں سردیوں کی دھند کی طرح موجود ضرور رہتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
دوست
ایک دوست نے دوسرے دوست سے کہا
دوست کا مطلب کیا ہوتا ہے؟
دوست نے مسکرا کر کہا
پاگل، ایک دوست ہی تو ہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اور جہاں مطلب ہو وہاں دوست نہیں ہوتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھائی ،اتنی پرانی لڑی کی طرف متوجہ کرنے کا بے حد شکریہ اورآپ نے زندگی کے جس اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے اُس کا شکر توممکن نہیں ہے ۔ میں اِس لڑی کی پوسٹیں فرصت میں پڑھوں گا،ا ن شاء اللہ۔
ضرور پڑھیے گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ لظف اٹھائیں گے۔
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا روم سے کسی نے پوچھا کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے؟
مولانا روم نے فرمایا،دنیا کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جنگل کی طرف جاتا ہے اس نے دیکھا کہ اس کے پیچھے شیر آرہا ہے وہ بھاگا جب تھک گیا تو دیکھا کہ سامنے ایک گڑھا ہے اس نے چاہا کہ گڑھے میں چھلانگ لگا کر جان بچائے لیکن گڑھے میں ایک خوفناک سانپ نظر آیا اب آگے سانپ اور پیچھے شیرکا خوف اتنے میں ایک درخت کی شاخ نظر آئی وہ درخت پر چڑھ گیا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ درخت کی جڑ کو کالا چوہا کاٹ رہا ہے وہ بہت خائف ہوا کہ تھوڑی دیر میں درخت کی جڑ کٹے گی پھر گر پڑوں گا پھر شیرکا لقمہ بننے میں دیر نہیں۔ اتفاق سے اسے ایک شہد کا چھتہ نظر آیا۔وہ اس شہد شیریں کو پینے میں اتنا مشغول ہوا کہ نہ ڈر رہا سانپ کا اور نہ شیر کا۔اتنے میں درخت کی جڑ کٹ گئی وہ نیچے گر پڑا۔شیر نے اسے چیر پھاڑ کر گڑھے میں گرا دیا اور وہ سانپ کی خوارک بن گیا۔ جنگل سے مراد یہ دنیا ،شیر سے مراد یہ موت ہے جو انسان کے پیچھے لگی رہتی ہے،گڑھا قبر ہے ،چوہا دن اور رات ہیں،درخت عمر ہے اور شہد دنیا ئے فانی سے غافل ہو کر دینے والی لذت ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
کبھی کبھی ہم رستہ بھول بھی جاتے ہیں۔ ایسے میں وہیں رک نہیں جاتے، اور نہ ہی اسی رستے پر چلتے چلے جاتے ہیں بلکہ جہاں سے پہلا یو-ٹرن ملے، وہاں سے واپسی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زندگی میں بھی بارہا ہم سے غلطیاں ہونگی۔ جیسے ہی احساس ہو جائے کہ غلطی ہوئی، پلٹ آنا ہے۔ جتنا آگے جاتے جائیں گے، واپسی کرنا اتنا ہی طویل اور کٹھن ہو گا۔
– سب سے اہم سبق جو میں نے سیکھا: ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے۔ گاڑی میں لگے back-view mirrors ہمیں تین مختلف زاویوں سے پیچھے دیکھنے میں مدد کرتے ہیں، لیکن چلنا پھر بھی آگے ہی ہے۔ زندگی کی گاڑی میں بیٹھ کر بھی مختلف زاویوں سے گزرے حالات کا جائزہ لیں، اپنی غلطی جانچیں، دوسرے کی پرکھیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں، اور آگے بڑھ جائیں۔ Move on! اگر، مگر، کاش۔۔۔ ان سب کو بھول جائیں۔ ماضی کو مستقبل میں ساتھ ساتھ مت گھسیٹیں۔ بس چلتے چلتے ایک اچٹتی سی نگاہ مختلف زاویوں سے گزرتے لمحات پر ڈالتے رہیں اور آگے بڑھتے رہیں۔ یہی زندگی ہے!!!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
علامہ ابن القیم نے فرمایا:’’زبان کی دو بڑی آفتیں ہیں:
۱۔ کلام کی آفت
۲۔ سکوت کی آفت
ان میں سے ہر ایک کا گناہ اپنے وقت کے حساب سے دوسرے سے عظیم ہوتا ہے۔
پس حق بات سے خاموش و ساکت گونگا شیطان اور اللہ کا نافرمان ہے۔
باطل کے ساتھ کلام کرنے والا شیطان ناطق اور اللہ کا نافرمان ہے۔
مخلوق میں سے اکثر اپنے کلام اور سکوت میں انحراف کرتے ہیں وہ انہی دو انواع میں ہوتے ہیں۔ اور درمیانہ طبقہ ان لوگوں کا ہے جو سیدھے راستے والے ہیں وہ اپنی زبانوں کو باطل سے روک کے رکھتے ہیں اور وہاں اپنی زبانوں کو استعمال کرتے ہیں جہاں سے آخرت کا فائدہ حاصل ہو‘‘{الداء والدواء: ٢٣٤}
 
Top