ایک
تازہ غزل شیئر کی جس پر
عبدالقیوم چوہدری بھائی نے تبصرہ کیا:
یقین جانیے میں ادھر بھی کوئی خواب پڑھنے آیا تھا، لیکن مایوسی ہوئی۔
اگر آپ آخری شعر میں 'اشعار' کی بجائے 'خواب' لکھتے تو یہ کمی بھی پوری ہو جاتی۔ بہرحال آپ نا لکھیے گا میں خود ہی خواب پڑھ کر اپنی مایوسی کم کر لیتا ہوں۔
غزل اچھی ہے۔
خیال آیا کہ کافی عرصے سے کوئی خواب نہیں سنایا، آج سناتا ہوں۔
ان دو تین ماہ میں بہت سے خواب دیکھے، طرح طرح کے ۔۔
اور ایک مزیدار بات بتاؤں۔
سونے کے دوران فلم دیکھنے کا معما بھی حل ہو گیا ہے۔
لیکن اس لڑی میں نہیں، کسی اور میں اس کی تفصیل لکھوں گا۔
بہرحال آج کے خواب کی طرف آتے ہیں۔
چھوٹا سا ہے۔ دو تین ہفتے پہلے دیکھا تھا۔
ہوتا کچھ یوں ہے کہ میں ایک میدان میں کھڑا ہوں۔
دیہاتی ماحول ہے۔
(اگرچہ میں شہر میں پلا بڑھا ہوں)
آس پاس چھوٹی چھوٹی لال اینٹوں کے بنے ہوئے کچے گھر ہیں۔
اچانک مجھے میری امی نظر آتی ہیں جو مجھے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلاتی ہیں۔
میں اُن کی طرف بڑھتا ہوں کہ راہ کے ایک طرف بارش کے کھڑے پانی میں مجھے میرا عکس نظر آتا ہے۔
میں پھر سے بچہ بن چکا ہوتا ہوں، چار پانچ سال کا۔
بالکل جیسے
اس ویڈیو میں۔
(ضمناً ایک بات بتا دوں کہ میں خوابوں میں ایک دو بار پہلے بھی خود کو بچپن کے روپ میں دیکھ چکا ہوں۔ ہر بار میری عمر یہی تھی جو اس ویڈیو میں ہے۔ چونکہ یہ ویڈیو اتفاقاً محفوظ ہے اور مجھے اپنے بچپن کی جھلک دیکھنے کو ملی ہے، شاید اسی لیے ہر بار مجھے اسی سے ملتا جلتا روپ نظر آیا ہے)
خیر میں امی کی طرف بڑھتا ہوں۔
وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ایک گھر کے اندر لے جاتی ہیں۔
سامنے اس گھر کی بزرگ سی مالکن کھڑی ہوتی ہے۔
امی کہتی ہیں،
”منیب، یہ اس گھر کی مالکن ہیں اور تمھیں انھیں چل کر دکھانا ہے۔
تمھیں دکھانا ہے کہ تم سیڑھیاں چڑھ سکتے ہو، چھت پہ بھی جا سکتے ہو۔
اگر تم کامیاب ہو گئے تو یہ تمھیں گھر سے باہر آنے کی اجازت دے دیں گی،
بلکہ اجازت کیا دیں گی،
اگر تم ٹاپ سکو تو خود ہی چھت ٹاپ کے باہر آ جانا۔“
میں سوچتا ہوں یہ اچھی مصیبت ہے۔
اتنی مشکل سے بڑا ہوا، چلنا سیکھا۔۔ اب پھر سے بچہ بن گیا ہوں۔
پھر سے چلوں، سیڑھیاں چڑھوں، چھتیں پھلانگوں۔۔
بہرحال چونکہ گھر سے باہر نکلنے کی واحد صورت یہی ہوتی ہے کہ میں اس چیلنج کو قبول کروں لہٰذا میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھتا ہوں، سیڑھیوں تک پہنچتا ہوں اور چھت پہ چڑھنے کی کوشش کرنے لگتا ہوں لیکن ایک مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
گھر سیمنٹ اور گارے کے بغیر کچی اینٹوں سے بنا ہوتا ہے ایسے جیسے بنا مسالے کے اینٹوں کو جوڑ دیا جائے۔
میں سوچتا ہوں میں ان نازک سیڑھیوں پہ کیسے چڑھوں؟
جیسے ہی پاؤں رکھتا ہوں، وہ سرکتی ہیں اور میرے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔
خیر میں کسی طرح پھونک پھونک کے قدم رکھتا ہوں اور چھت قریب سے قریب تر ہوتی چلی جاتی ہے۔
میری امید بندھتی ہے کہ ہاں، اگر یونہی محتاط انداز سے آگے بڑھتا رہا تو باہر نکلنے میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا۔
اسی پرامید کیفیت کے ساتھ خواب ختم ہو جاتا ہے۔