خوں مرا جس سے ہوا ہے خنجر احباب ہے
یہ حقیقت ہے مگر لگتا ہے جیسے خواب ہے
اس لیے مجھ سا نمایاں ہو گیا بے بال و پر
جس جگہ میں ہوں وہاں ہر آدمی سرخاب ہے
ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر ڈوب جاتا ہے وہی
جو تلاش گوہر یکتا میں زیر آب ہے
اب کسی جنگل میں جا رہئے کہ اپنے شہر میں
آدمی ہی آدمی کے واسطے نایاب ہے
زندگی اپنی بالآخر ہو گئی اس پر تمام
جو کتاب زندگی کا نا مکمل باب ہے
وہ تو یہ کہئے شکستہ ہو چکا ہے حوصلہ
ورنہ دل اب بھی کسی کے وصل کو بیتاب ہے
عابد جعفری