اچھے، بُرے کبھی ہیں حالات آدمی کے
پیچھے لگے ہُوئے ہیں دن رات آدمی کے
رخصت ہُوئے تو جانا، سب کام تھے ادھورے
کیا کیا کریںجہاں میں، دو ہاتھ آدمی کے
مٹی سے وہ اُٹھا ہے، مٹی میں جا ملے گا
اُڑتے پھریں گے اک دن، ذرّات آدمی کے
اِک آگ حسرتوں کی، سوچوں کا اِک سمندر
کیا کیا وبال یا رب! ہیں ساتھ آدمی کے؟
اس دورِ ارتقا میں، منذر قدم قدم پر
پامال ہو رہے ہیں، جذبات آدمی کے
بشیر منذر