میرے پسندیدہ اشعار

سارہ خان

محفلین
وہ تو مردوں کی دھاندلی اور سازشوں کی وجہ سے ہمیشہ ہی آتی تھی سپلی ۔۔:(۔۔ لیکن اب کلیئر ہو گئی ہے ۔۔ :tounge:
 

شمشاد

لائبریرین
تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں
اک بار اپنے آپ میں آؤں تو آؤں میں
دل سے ستم کی بے سروکاری ہوا کو ہے
وہ گرد اڑ رہی ہے کہ خود کو گنواؤں میں
(جون ایلیا)
 

تیشہ

محفلین
گرتی ہوں اگر میں تو سنبھل کیوں نہیں جاتی
اٹھتیُ ہوں تو گرنے کا عمل کیوں نہیں جاتا

ان چیختی خاموشیوں کو چھوڑ کر کبھی
تنہائیوں کے گھر سے نگل کیوں نہیں جاتی
روز زخم مل رہا ہے مستقل مجھے
لمحہ ہے تو پھر خود ہی بدل کیوں نہیں جاتا
آنسو کی شکل خون ِجگر آنکھ سے بہہ کر
ہر غم کی طرح یہ بھی پگھلِ ِ کیوں نہیں جاتا، ۔۔
 

سارہ خان

محفلین
کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرا نہیں ہے

یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے

جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے

ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اس کے
مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے

یہ کیسے خواب سے جاگی ہیں آنکھیں
کسی منظر پہ دل جمتا نہیں ہے

جو دیکھو تو ہر اک جانب سمندر
مگر پینے کو اک قطرہ نہیں ہے

مثالِ چوبِ نم خود وہ، یہ سینہ
سلگتا ہے، مگر جلتا نہیں ہے

خدا کی ہے یہی پہچان شاید
کہ کوئی اور اس جیسا نہیں ہے
 

عمر سیف

محفلین
تتلیوں کا ٹوٹا ہوا پر لگتا ہے
دل پر وہ نام بھی لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے

رات آئی تو ستاروں بھری چادر تانی
خوبصورت مجھے سورج کا سفر لگتا ہے

میں تیرے ساتھ ستاروں سے گذر سکتا ہوں
کتنا آساں محبت کا سفر لگتا ہے
 

سارا

محفلین
کتاب سادہ رہے گی کب تلک کبھی تو آغاز باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی کبھی تو ان کا حساب ہو گا

سحر کی خوشیاں منانے والو سحر کے تیور بتا رہے ہیں
کہ ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا محال ہوگا
 

عمر سیف

محفلین
منظروں سرابوں کی
شدتوں سے گھبرا کے
راہ تو بدل لی ہے
پر یہ دل سودائی
روک روک لیتا ہے
ڈوب ڈوب جاتا ہے
 

سارہ خان

محفلین
گمنام دیاروں میں سفر کیوں نہیں کرتے
اجڑے ہوےّ لوگوں پہ نظر کیوں نہیں کرتے

یہ خواب یہ خوشیوں بھرے ہنستے ہوےّ یہ خواب
یہ خواب مرے دل پہ اثر کیوں نہیں کرتے

خواہش کے ، طمانیتِ احساس کے پنچھی
کچھ روز میرے گھر بسر کیوں نہیں کرتے

صبحوں سے ہیں مغلوب تو پھر زُعم ہے کیسا
راتوں پہ ہیں غالب تو سحر کیوں نہیں کرتے

یہ لوگ مسلسل ہیں جو اک خوف کے قیدی
اس خوف کی دیوار میں در کیوں نہیں کرتے

کیوں آپ اٹھاتے ہو اداسی کے یہ اسباب
شاموں کے غلاموں کو خبر کیوں نہیں کرتے

فرحت عباس
 

ظفری

لائبریرین
کیسے بتائیں اور کس کو بتائیں
کہ کیسی تھیں وہ مسکراہٹیں
جن میں زندگی کے اُجالے تھے
کیسی تھیں وہ نگاہیں
جو اس دل کو چُھولیتیں تھیں
کیسی تھیں وہ خاموشیاں
جو کہانیاں سناتیں تھیں
کیسے تھے وہ ہاتھ
جو اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان ہاتھوں میں نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
کیا کروں بھائی اب سوات جانے میں اتنا زیادہ خطرہ ہے۔ ادھر آنکھیں بھی ٹھیک رہتی ہیں۔
 

حجاب

محفلین
میرے درد کو جو زباں ملے !!!!!!

میرا درد نغمہء بے صدا
میری ذات ذرہء بے نشاں
میرے درد کو جو زباں ملے
مجھے اپنا نام و نشاں ملے
میری ذات کو جو نشاں ملے
مجھے رازِ نظمِ جہاں ملے
جو مجھے یہ رازِ نشاں ملے
میری خاموشی کو بیاں ملے
مجھے کائنات کی سروری
مجھے دولتِ دو جہاں ملے
میرے درد کو جو زباں ملے۔۔۔( فیض )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 
Top