سارہ پاکستان
محفلین
سمجھ نہیں آتی کہ بھلا ہاتھ میں بڑا سا مگ لیے اول فول بولتی خآ تون ،ورزش کے نام پر اچھلتی کودتی لڑکی اور خوش رہنے کے طریقوں پر مبنی گھنٹے بھر کا لیکچر جس کا ما حصل یہ ہو تا ہے کے خوش رہنے کے لیے ضروری ہے کہ خوش رہا جائے ناخوش نہ رہا جائےاور بس خوش رہا جائے۔۔بھلا یہ سب نوجوانوں پر منفی اثرات کیسے ڈال سکتا ہے۔۔۔۔
ہا ں مگر پھر بھی میڈیا ہمارے نوجوانوں پر منفی اثرات ڈال تو رہا ہے ان اثرات کو سمجھنے کے لیے ضڑوری ہے کہ پہلے ہم نوجوانوں کو سمجھیں ہمارے ہاں عموماً دو اقسام کے نوجوان پائے جاتے ہیںایک وہ جو با لکل بھی فارغ نہیں اور دوسرے جو با لکل ہی فارغ ہیں۔۔
اب جو با لکل ہی فارّغ ہیں وہ اب اتنے بھی فارّغ نہیں کہ مار ننگ شوز دہکھ پائیں اب نیند لینا بھی تو ان کے فرائض میں شامل ہے نا۔۔ یہ قسم عموماً سر شام سے رات گئے تک میڈیا کے زیر تسلط رہتے ہیں۔۔اور یوںہی کو ئی اوٹ پٹانگ قسم کا میوؤیکل شو دیکھتے ہوئے ان پر انکشاف ہوتا ہے کے کوئی ہے جو ان کے جذ بات کو سمجھتا ہے اور انہیں ملکہ عالیہ کو منانے کے لیے 12 آنے کا پیکج دے رہا ہے ۔۔۔ارے ز بردست!
سو یہ "نرگسوں" میں پلے " زخًم خوردہ " شاہیں منہ اندھیرے (ہعنی دن 12 بجے ہی، "را ہ رسم شہبازی "نبھانے کے لیے یہ پیکج خر یدنے نکل پڑتے ہیں۔۔۔اور گلی کے کسی کونے کھدرے میں بیٹھ کر جی جان ایک کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دوسری جانب نا راض بیٹھی ملکہ عالیہ بھی کوئی ایسے ہی فار غ نہیں بیٹھی ہو تیں۔۔۔ وہ میڈ یا سے پوری
ٹر یننگ لے رہی ہو تی ہیں۔۔۔ میڈیا انہیں بتا تا ہے کہ کیسے انہیں اپنے متوقع ظالم و جابر سسرال میں جا تے ہی ایک خؤ فنا ک بلا کا روپ دھار نا ہے یا پھر یہ کہ بے وقوفی کی حد تک معصؤ میت سے زندگی کے سنجیدگی طلب
مسا ئل سے نبرد آزما ہو نا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جو نوجوان زندگی میں لو میرج کے علاوہ بھی کچھ کر نا چا ہتے ہیں ۔۔۔اور زندگی میں بیت کچھ سیکھنا اور آگے بڑھنا چا ہتے ہیں ،ان کے لیے میڈیا کے پاس کچھ بھی نہیں۔۔۔کیر ئیر کونسلنگ کے پرو گرام آٹے میں نمک سے بھی کم۔۔میڈیا نہیں بتا تا کے آجکل کون کونسی فیلڈ ز میں کیا کیا موا قع ہیں ۔۔۔۔ کوئی فا صٌلاتی تعلیم کا پروگرام نہیں۔۔۔کوئی ادب ،تمیز کی بات نہیں۔۔۔۔میڈیا کو صرف اور صرف آرٹ اور کلچر کی بڑھوتی کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے اور کلچر بھی وہ جس سے دوری کی بنا پر اس مملکت کی بنیاد رکھی گئی۔۔۔۔آج اسکو اپنا کہلوانے کے لیے میڈیا دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
طاوس و رباب کو اولیت دینے والا میڈٰیا معا شرے مین اپنی ذمہ داری کو سمجھ ہی نہیں پا یا ۔۔۔۔ مذ ہبی پروگراموں میں بھی کردار کے غازیوں کی بجائے الفاظ کے جا دوگروں کا میلہ یوں لگتا ہے کہ ایک با شعور نوجوان خؤد کو مسلمان کہلوانے میں عار محسوس کر نے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اب بات رہی ہماری ذمہ داری کی تو ۔۔۔ نو جواں میڈیاکے منفی اثرات دیں سے دوری کی بنا پر لے رہے ہیں۔۔۔اس کے لیے مثال مغرب سے لی جا تی ہے کہ وہاں مذ ہب کو دنیاوی معا ملا ت سے ا لگ کر نے کی بنا پر ہی ترقی ہوئی ہے ،مگر اس دوری کے معاشرے پر اثرات کا جائزہ بہی تو لیا جائے۔۔۔۔۔۔مذ ہب کچھ بھی نہیں ہے صرف انسان اور حیوان میں پہچان کا ذریعہ اور انسان کو مہذ ب اور پر امن معا شرہ مہیا کر نے کا ضا من ۔۔۔۔۔
ریسرچ ،علم کے حصول اور ایجادات سے مذ ہب نے کب منع کیا ہے۔۔۔۔صر ف دین سے قر بت ہی میڈیا کے پھیلا ئے
ہوئے منفی اثرات کا واحد حل ہے۔۔۔
والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ جیسے انہوں نے اپنے بچے کو پاوں پاوں چلنا سکھا یا۔۔۔ نو جوانی میں ایک بر پھر اس
آُ پ کی ضرورت ہے ۔۔۔وہ چلتے ہوئے لڑکھڑاے گا۔۔۔شاید گر بھی پڑے۔۔۔اسے سہارا دیجیے۔۔پرائیویسی اور شخصی آزادی کے نام پر اسے اس بھیڑ میں تنہا مت چھو ڑیں۔۔۔۔۔
سارہ پاکستان۔
ہا ں مگر پھر بھی میڈیا ہمارے نوجوانوں پر منفی اثرات ڈال تو رہا ہے ان اثرات کو سمجھنے کے لیے ضڑوری ہے کہ پہلے ہم نوجوانوں کو سمجھیں ہمارے ہاں عموماً دو اقسام کے نوجوان پائے جاتے ہیںایک وہ جو با لکل بھی فارغ نہیں اور دوسرے جو با لکل ہی فارغ ہیں۔۔
اب جو با لکل ہی فارّغ ہیں وہ اب اتنے بھی فارّغ نہیں کہ مار ننگ شوز دہکھ پائیں اب نیند لینا بھی تو ان کے فرائض میں شامل ہے نا۔۔ یہ قسم عموماً سر شام سے رات گئے تک میڈیا کے زیر تسلط رہتے ہیں۔۔اور یوںہی کو ئی اوٹ پٹانگ قسم کا میوؤیکل شو دیکھتے ہوئے ان پر انکشاف ہوتا ہے کے کوئی ہے جو ان کے جذ بات کو سمجھتا ہے اور انہیں ملکہ عالیہ کو منانے کے لیے 12 آنے کا پیکج دے رہا ہے ۔۔۔ارے ز بردست!
سو یہ "نرگسوں" میں پلے " زخًم خوردہ " شاہیں منہ اندھیرے (ہعنی دن 12 بجے ہی، "را ہ رسم شہبازی "نبھانے کے لیے یہ پیکج خر یدنے نکل پڑتے ہیں۔۔۔اور گلی کے کسی کونے کھدرے میں بیٹھ کر جی جان ایک کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دوسری جانب نا راض بیٹھی ملکہ عالیہ بھی کوئی ایسے ہی فار غ نہیں بیٹھی ہو تیں۔۔۔ وہ میڈ یا سے پوری
ٹر یننگ لے رہی ہو تی ہیں۔۔۔ میڈیا انہیں بتا تا ہے کہ کیسے انہیں اپنے متوقع ظالم و جابر سسرال میں جا تے ہی ایک خؤ فنا ک بلا کا روپ دھار نا ہے یا پھر یہ کہ بے وقوفی کی حد تک معصؤ میت سے زندگی کے سنجیدگی طلب
مسا ئل سے نبرد آزما ہو نا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جو نوجوان زندگی میں لو میرج کے علاوہ بھی کچھ کر نا چا ہتے ہیں ۔۔۔اور زندگی میں بیت کچھ سیکھنا اور آگے بڑھنا چا ہتے ہیں ،ان کے لیے میڈیا کے پاس کچھ بھی نہیں۔۔۔کیر ئیر کونسلنگ کے پرو گرام آٹے میں نمک سے بھی کم۔۔میڈیا نہیں بتا تا کے آجکل کون کونسی فیلڈ ز میں کیا کیا موا قع ہیں ۔۔۔۔ کوئی فا صٌلاتی تعلیم کا پروگرام نہیں۔۔۔کوئی ادب ،تمیز کی بات نہیں۔۔۔۔میڈیا کو صرف اور صرف آرٹ اور کلچر کی بڑھوتی کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے اور کلچر بھی وہ جس سے دوری کی بنا پر اس مملکت کی بنیاد رکھی گئی۔۔۔۔آج اسکو اپنا کہلوانے کے لیے میڈیا دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
طاوس و رباب کو اولیت دینے والا میڈٰیا معا شرے مین اپنی ذمہ داری کو سمجھ ہی نہیں پا یا ۔۔۔۔ مذ ہبی پروگراموں میں بھی کردار کے غازیوں کی بجائے الفاظ کے جا دوگروں کا میلہ یوں لگتا ہے کہ ایک با شعور نوجوان خؤد کو مسلمان کہلوانے میں عار محسوس کر نے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اب بات رہی ہماری ذمہ داری کی تو ۔۔۔ نو جواں میڈیاکے منفی اثرات دیں سے دوری کی بنا پر لے رہے ہیں۔۔۔اس کے لیے مثال مغرب سے لی جا تی ہے کہ وہاں مذ ہب کو دنیاوی معا ملا ت سے ا لگ کر نے کی بنا پر ہی ترقی ہوئی ہے ،مگر اس دوری کے معاشرے پر اثرات کا جائزہ بہی تو لیا جائے۔۔۔۔۔۔مذ ہب کچھ بھی نہیں ہے صرف انسان اور حیوان میں پہچان کا ذریعہ اور انسان کو مہذ ب اور پر امن معا شرہ مہیا کر نے کا ضا من ۔۔۔۔۔
ریسرچ ،علم کے حصول اور ایجادات سے مذ ہب نے کب منع کیا ہے۔۔۔۔صر ف دین سے قر بت ہی میڈیا کے پھیلا ئے
ہوئے منفی اثرات کا واحد حل ہے۔۔۔
والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ جیسے انہوں نے اپنے بچے کو پاوں پاوں چلنا سکھا یا۔۔۔ نو جوانی میں ایک بر پھر اس
آُ پ کی ضرورت ہے ۔۔۔وہ چلتے ہوئے لڑکھڑاے گا۔۔۔شاید گر بھی پڑے۔۔۔اسے سہارا دیجیے۔۔پرائیویسی اور شخصی آزادی کے نام پر اسے اس بھیڑ میں تنہا مت چھو ڑیں۔۔۔۔۔
سارہ پاکستان۔