نوید صادق
محفلین
میں ڈوبتے خورشید کے منظر کی طرح ہوں
زندہ ہوں مگر یاد کے پتھر کی طرح ہوں
آثار ہوں اب کہنہ روایاتِ وفا کا
اک گونج ہوں اور گنبد بے در کی طرح ہوں
اک عمر دلِ لالہ رُخاں پر رہا حاکم
اب یادِ مہ و سال کے پیکر کی طرح ہوں
کس کرب سے تخلیق کا در بند کیا ہے
مت پوچھ کہ صحرا میں بھرے گھر کی طرح ہوں
بپھرے تو کنارے نظر آتے نہیں جس کے
میں ضبط کے اُس ٹھہرے سمندر کی طرح ہوں
بجھ جائے گی صدیوں کی اگر پیاس بھی ہوگی
آغوش کشادہ ہوں میں کوثر کی طرح ہوں
اب کتنا نچوڑے گی لہو ساعتِ شفاف
تہذیب کے سینے پہ صنوبر کی طرح ہوں
بے مہر تعلق کی مسافت سے تھکا ہوں
میں صبح کی خوشبو کے مقدر کی طرح ہوں
خوابیدہ ہی اچھا ہوں کم و بیش سے احمد
بیدار جو ہو جاؤں تو محشر کی طرح ہوں
زندہ ہوں مگر یاد کے پتھر کی طرح ہوں
آثار ہوں اب کہنہ روایاتِ وفا کا
اک گونج ہوں اور گنبد بے در کی طرح ہوں
اک عمر دلِ لالہ رُخاں پر رہا حاکم
اب یادِ مہ و سال کے پیکر کی طرح ہوں
کس کرب سے تخلیق کا در بند کیا ہے
مت پوچھ کہ صحرا میں بھرے گھر کی طرح ہوں
بپھرے تو کنارے نظر آتے نہیں جس کے
میں ضبط کے اُس ٹھہرے سمندر کی طرح ہوں
بجھ جائے گی صدیوں کی اگر پیاس بھی ہوگی
آغوش کشادہ ہوں میں کوثر کی طرح ہوں
اب کتنا نچوڑے گی لہو ساعتِ شفاف
تہذیب کے سینے پہ صنوبر کی طرح ہوں
بے مہر تعلق کی مسافت سے تھکا ہوں
میں صبح کی خوشبو کے مقدر کی طرح ہوں
خوابیدہ ہی اچھا ہوں کم و بیش سے احمد
بیدار جو ہو جاؤں تو محشر کی طرح ہوں