میں اجنبی سہی - سید آلِ‌ احمد

نوید صادق

محفلین
غزل

اندر کا ہر کرب چھپاتے پھرتے ہیں
ہم دیوانے لوگ ہنساتے پھرتے ہیں

چہرہ چہرہ ہر دل کی دیوار سے ہم
اپنے نام کے حرف مٹاتے پھرتے ہیں

شاخ سے ٹوٹ کے قریہ قریہ برگِ سبز
فصلِ بہار کا حال سناتے پھرتے ہیں

وہ جو دل کو دل کی رحل پہ رکھتے تھے
اب ہم ان کا کھوج لگاتے پھرتے ہیں

پہلے دھوپ کے لمس کو ہم نے برف کیا
اب ہم برف پہ پاؤں جلاتے پھرتے ہیں

اب تو اپنے سائے سے آئینہ لوگ
اپنا عیب ثواب چھپاتے پھرتے ہیں

احمد قحطِ سماعت سے دیواروں کو
تازہ غزل کے شعر سناتے پھرتے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
غزل

دل یہ کہتا ہے کہ تعبیر کا گھر دیکھوں گا
رات آنکھوں میں گزاروں تو سحر دیکھوں گا

اے غم زیست! کوئی موڑ بھی منزل کا نہیں
اور کب تک میں مسلسل یہ سفر دیکھوں گا

یہ جو ہر لمحہ دھڑکتی ہے مرے سینے میں
اس کسک کو بھی کبھی جسم بدر دیکھوں گا

مجھ کو تصویر کا بس ایک ہی رُخ بھاتا ہے
کس طرح سے ترا ویران نگر دیکھوں گا

اب تو اس خواب سے پتھرانے لگی ہیں آنکھیں
کب سراپا کو ترے ایک نظر دیکھوں گا

یہ مرا شہر ہے‘ اس شہر میں میں رہتا ہوں
کیسے ان آنکھوں سے جلتے ہوئے گھر دیکھوں گا

اُفقِ شرق سے پو پھوٹ رہی ہے احمد
اب میں بستی کا ہر اک فرد نڈر دیکھوں گا
 

نوید صادق

محفلین
غزل

بے سبب کون سا سینہ ہے جو شق ہوتا ہے
بعض ایثار کا اک عمر قلق ہوتا ہے

لفظ اخلاص کا دھڑکن میں چھپا رہتا ہے
لبِ اظہار تو اک سادہ ورق ہوتا ہے

آئنہ صاف خدوخال دکھا دیتا ہے
چہرہ غیروں کا نہیں اپنوں کا فق ہوتا ہے

میں تجھے کون سے لہجے میں ملامت بھیجوں
اچھے گھوڑے کو تو چابک بھی سبق ہوتا ہے

میرے ہر جرمِ وفا سے ہے شناسا عالم
تیرے اخلاص کا احساس ادق ہوتا ہے

جب بھی ماتھے پہ چمکتا ہے عرق بن کے لہو
مطلعِ دل پہ عجب رنگِ شفق ہوتا ہے

کون محروم رہا خُلقِ وفا سے احمد
تیرا چہرہ تو مسرت کی رمق ہوتا ہے
 

نوید صادق

محفلین
غزل

دل خزینے کا امیں ہوگا نہ رہزن ہوگا
کتنے چہروں کے تبسم کا یہ مدفن ہوگا

تو اگر مجھ سے گریزاں ہے کوئی بات نہیں
کوئی چہرہ تو مرے قلب کی دھڑکن ہوگا

مجھ سے آئے گی تجھے شعلۂ کردار کی آنچ
میرے معیار پہ اُترے گا تو کندن ہوگا

نہ کوئی خواب‘ نہ تعبیر‘ نہ خواہش‘ نہ کسک
اتنا ویران کسی گھر کا نہ آنگن ہوگا

عمر بھر دُکھ کے الاؤ میں جلیں گے احمد
تن کے دوزخ کا غمِ زیست ہی ایندھن ہوگا
 

نوید صادق

محفلین
غزل

میں ہوں دھوپ اور تو سایا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں
جگ میں کس کا کون ہوا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں

من مورکھ ہے‘ مت سمجھاؤ‘ کرنی کا پھل پائے گا
چڑھتا دریا کب ٹھہرا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں

تم تو اب بھی مجھ سے پہروں دھیان میں باتیں کرتے ہو
ترکِ تعلق کیا ہوتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں

جانے والے حد یقیں تک‘ ہم نے جاتے دیکھے ہیں
واپس لوٹ کے کون آتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں

میں سوچوں کی جلتی دھوپ اور وہ تسکین کی گہری چھاؤں
میرا اس کا ساتھ ہی کیا ہے‘ سب کہنے کی باتیں ہیں

اک تجھ پر ہی کیا موقوف کہ سب ہی پیٹ کے ہلکے ہیں
کس کا ظرفِ دل گہرا ہے؟ سب کہنے کی باتیں ہیں

احمد اس کا چہرہ اس کے جھوٹ کی چغلی کھاتا ہے
تیرے دُکھ میں وہ رویا ہے‘ سب کہنے کی باتیں ہیں
 

نوید صادق

محفلین
غزل

گراں ہے جنسِ وفا شہر میں خوشی کی طرح
پرانے دوست بھی ملتے ہیں اجنبی کی طرح

کبھی تو آئے گا چشمِ یقیں کے حلقے میں
بساطِ دل پہ جو اُبھرا ہے چاندنی کی طرح

کوئی چراغ نہ ہو جس کے صحن میں روشن
مرا وجود ہے اس شب کی تیرگی کی طرح

وہ ابرِ خاص کہ جس سے بڑی توقع تھی
دیارِ روح سے گزرا ہے اجنبی کی طرح

مری نظر میں کوئی منزلِ خرد نہ جچی
سدا سفر میں رہا ذوقِ گمرہی کی طرح

کچھ اور دور ہو مجھ سے کہ اور نکھرے گا
ترا شعور مرے فن شاعری کی طرح

تھے جتنے جسم کے عقدے وہ حل ہوئے احمد
لہو کی خاک بھی چھانی تو دشت ہی کی طرح
 

نوید صادق

محفلین
غزل

دُکھوں میں ضبط کی زنجیر تو پہن لوں گا
میں اپنا سر کسی دہلیز پر نہ رکھوںگا

میں تیرے قرب کے تسکین بخش پہلو میں
یہ ایک رات تو کیا ساری عمر جاگوں گا

میں اپنا دُکھ نہ سناؤں گا شہر والوں کو
ترے وقار کی اے دوست لاج رکھوں گا

وہ ایک شخص بھی اخلاص سے تہی نکلا
وفا کی سرد ترازو میں کس کو تولوں گا

شکستِ شیشۂ دل سے تو موت بہتر ہے
کوئی بتائے کہ کب تک یہ زہر چاٹوں گا

میں ایک شعلۂ احساس ہوں‘ اے شہر سکوت!
دماغ و دل بھی ہوئے منجمد تو بولوں گا

یہ تیرے ماتھے پہ تازہ شکن جو اُبھری ہے
اسی لکیر کے گرداب سے میں اُبھروں گا

ترے لبوں کے تبسم کے سرخ پتھر پر
میں اپنی روح کے لرزیدہ ہونٹ رکھ دوں گا

وہ میرے پاس بھی آ کر ستائے گا احمد
میں اُس سے دور بھی رہ کر دُعائیں ہی دوں گا
 

نوید صادق

محفلین
غزل

خواب میں کچھ اور تھا چہرہ تری تصویر کا
مہر برلب تھا مسافت میں بدن تعبیر کا

رنگ لاتا ہے بہرصورت لہو شبیر کا
سلسلہ در سلسلہ پھیلاؤ ہے زنجیر کا

ڈھونڈتا ہے کس گئی رُت کی رمیدہ خواہشیں
جبر کے سکرات میں افتادہ دل تقدیر کا

ایک ہالہ سا ملامت کا بنا رہتا ہے گرد
رُخ دمکتا ہی نہیں شادابیٔ توقیر کا

رات کی گہری سیاہی میں بھی مٹ جاتے ہیں نقش
دھوپ میں بھی رنگ اُڑ جاتا ہے ہر تصویر کا

جا نہیں سکتا کبھی شیشے میں بال آیا ہوا
مٹ نہیں سکتا لکھا انسان کی تقدیر کا

نااُمید آنکھوں کی تاریکی‘ دُعا کس سے کرے
کون ہے‘ کس نے جلانا اب دیا تاثیر کا

زندگی ایسی کئی قربان اس کی ذات پر
ہاتھ آ جائے کوئی نکتہ اگر تفسیر کا

کس کی جنبش کا تسلسل ہے زمیں سے تا اُفق
ہے معطر طاس‘ کس کی نگہتِ تحریر کا

قوتِ شوریدہ سے احمد کھلی چشمِ ہنر
کس تیقن سے ہوا مجرم قدم تاخیر کا
 

نوید صادق

محفلین
غزل

مسرتوں کی کرن کو ترس گئے ہم تم
ثبوتِ صبحِ وطن کو ترس گئے ہم تم

دلوں میں پھیل گئی رنجشوں کی تاریکی
خلوص و ربطِ بدن کو ترس گئے ہم تم

دل و نگاہ کی بے چہرگی کے صحرا میں
صباحتوں کی دُلہن کو ترس گئے ہم تم

نہ اتفاق کا لہجہ‘ نہ اختلاف کی ضد
صداقتوں کے دہن کو ترس گئے ہم تم

یہ کیسی رات ڈھلی‘ مصلحت کا دن نکلا
سکونِ روحِ بدن کو ترس گئے ہم تم

سکوتِ شام کے منظر میں ڈھل گئیں سوچیں
طوافِ قریۂ فن کو ترس گئے ہم تم

لبوں پہ حرفِ دُعا کے گلاب سوکھ گئے
جبیں پہ قوسِ شکن کو ترس گئے ہم تم

ہوائے شہر کا رُخ ہی بدل گیا احمد
نگارِ شیریں سخن کو ترس گئے ہم تم
 

نوید صادق

محفلین
غزل

پتھر کہیں گے لوگ‘ سر رہگذر نہ بیٹھ
چہروں کی دھوپ چھاؤں میں یوں بے خبر نہ بیٹھ

ناعاقبت شناس رفیقوں سے بچ کے رہ
کج بحث دوستوں میں کبھی دیدہ ور نہ بیٹھ

یہ تو شکستِ شیشۂ دل آشنا نہیں
ان پتھروں کی سامنے آئینہ گر نہ بیٹھ

اے رہروِ سکون وفا! حوصلہ نہ ہار
محرومیوں کی تپتی ہوئی ریت پر نہ بیٹھ

گرتی ہے جس پہ برق یہی وہ لباس ہے
سر پر دکھوں کی کالی ردا اوڑھ کر نہ بیٹھ

کوئی بھی رنگِ قوسِ نظر دائمی نہیں
یہ حبس عارضی ہے دل معتبر نہ بیٹھ

احمد ہوائے شہر مخالف بھی ہے اگر
خائف نہ ہو‘ نظر نہ چرا‘ چھپ کے گھر نہ بیٹھ
 

نوید صادق

محفلین
غزل

کاخِ جذبات کا در کھول تو سکتی ہے غزل
چپ کے اِس دور میں کچھ بول تو سکتی ہے غزل

اتنے مایوس ہو کیوں شہر کے ماحول سے تم
حبس کتنا بھی ہو پر تول تو سکتی ہے غزل

تلخ اتنا تو نہیں ذائقۂ صوت و حروف
ذہنِ ذی فہم میں رس گھول تو سکتی ہے غزل

اور کچھ روز اسی خاک پہ پتھرانا ہے
مجھ کو مٹی میں ابھی رول تو سکتی ہے غزل

کتنا بھی قحطِ مسرت ہو مگر خامۂ سرخ
غمِ ہر دل کی گرہ کھول تو سکتی ہے غزل

اس کھڑی جھیل میں احمد کوئی پتھر پھینکو
کسی لہجے میں سہی بول تو سکتی ہے غزل
 

نوید صادق

محفلین
غزل

زلفِ نگارِ درد کا سایہ نہ تھا کبھی
یہ وہ لباس ہے کہ جو پہنا نہ تھا کبھی

یادوں کا کارواں بھی گزرتا نہیں کوئی
دشتِ وفا میں اتنا تو تنہا نہ تھا کبھی

محرومیوں کی دھوپ میں جلتے ہوئے بدن
حد نگاہ تک تو یہ صحرا نہ تھا کبھی

کیا بات ہو گئی ہے بتا ظرفِ آبرو!
اس تیرہ خاکداں سے تو جھانکا نہ تھا کبھی

یہ اور بات ہے کہ تری جستجو تو تھی
اے دردِ شادماں! تجھے دیکھا نہ تھا کبھی

تم ڈھونڈتے ہو شہر میں جس کو گلی گلی
ایسا گیا ہے جیسے وہ رہتا نہ تھا کبھی

کچھ تو کہو اے دیدہ ورو کیا ہوا اسے
بے پیرہن تو روح کو دیکھا نہ تھا کبھی

کس تمکنت کے ساتھ ہے کانٹوں پہ محو خواب
پھولوں کی سیج پہ بھی جو سویا نہ تھا کبھی

احمد یہ اب سے پہلے تو ابر نشاطِ درد
پلکوں سے اتنا ٹوٹ کے برسا نہ تھا کبھی
 

نوید صادق

محفلین
یہ الگ بات‘ ہر اک دکھ نے لبھایا ہے مجھے

یہ الگ بات‘ ہر اک دکھ نے لبھایا ہے مجھے
اے مری کاہشِ جاں! کس نے ستایا ہے مجھے

اتنی نفرت تو مرے دل میں نہ جاگی تھی کبھی
سوچ‘ کس شخص نے یہ زہر پلایا ہے مجھے

پھر کوئی تازہ کسک دل کی تہوں میں اُتری
پھر کسی خواب نے آئینہ دکھایا ہے مجھے

کس نے لوٹا ہے مرے ذہن کی سوچوں کا سہاگ
اے مرے قلب تپاں! کس نے چرایا ہے مجھے

تیری چیخیں بھی کسی روز سنے گی دُنیا
مصلحت کیش! اگر تو نے رُلایا ہے مجھے

میں یہی سوچ کے چپ ہوں کہ کسی طور سہی
گنبدِ درد کے کنگرہ پہ سجایا ہے مجھے

ابر تزویر ہوا جب بھی کبھی سایہ فگن
حدتِ شعلۂ ادراک نے پایا ہے مجھے

میں تو سر تا بہ قدم تیرا فقط تیرا تھا
ظرفِ کم حوصلہ! خود تو نے گنوایا ہے مجھے

اُس کے گھر میں بھی کسی دُکھ کی سیاہی بھر دے
شب کی دہلیز کا پتھر تو بنایا ہے مجھے

تو مرا کیسا خدا ہے! مری لغزش تو بتا
زندگی بھر جو بلندی سے گرایا ہے مجھے

کس کے اخلاص سے کوتاہی ہوئی ہے احمد
کس نے اس ضبط کا انگارہ بنایا ہے مجھے
 

نوید صادق

محفلین
شہر کے محتاط موسم سے خبر آئی تو ہے

شہر کے محتاط موسم سے خبر آئی تو ہے
رقص میں ضد پر نشاطِ معتبر آئی تو ہے

شکر ہے توڑا تو قفلِ خامشی اک مرد نے
مدتوں میں جرأتِ عرضِ ہنر آئی تو ہے

گھپ اندھیرے میں تبسم کا دیا روشن کریں
زندہ رہنے کی یہ اک صورت نظر آئی تو ہے

قربتوں کے سرد ہاتھوں میں لیے خفگی کے پھول
دوستی نظارگی کے بام پر آئی تو ہے

ہم یہ سمجھے تھے کہ آنکھیں زرد ہو جائیں گی اب
فصلِ گل صحن چمن میں لوٹ کر آئی تو ہے

دُکھ تو ہم نے سہہ لیے اب دیکھئے آگے ہو کیا
انقلاب صبحِ نو کی رہگذر آئی تو ہے

ہے خجل قد سہی اخلاص کی تضحیک پر
آبرومندی کی اب اُمید بر آئی تو ہے

بے سبب جس نے قبیلے میں کیا رُسوا مجھے
اُس کے چہرے پر تھکن کی دوپہر آئی تو ہے

آؤ احمد بڑھ کے لیں تکریم سے اُس کے قدم
تم سے ملنے اِک غزالِ وقت گھر آئی تو ہے
 

نوید صادق

محفلین
دُکھ کے سکوں نہ سکھ کی خوشی کا سراب ہے

دُکھ کے سکوں نہ سکھ کی خوشی کا سراب ہے
اک رنج رائیگاں کی طلب بے حساب ہے

لغزش کے سہو پر مجھے شرمندگی نہیں
قربت کی ہر کجی مری گل آفتاب ہے

پچھلے برس بھی نیکیاں سب ضائع ہو گئیں
اب کے برس بھی جان! کڑا احتساب ہے

بے شک وہ بے وفا ہے مگر اس کی راہ میں
دل کی طرح چراغ جلانا ثواب ہے

اے صبح نو! لہو کی حرارت بھی کر عطا
ہیں برف حرف لب پہ یہی انقلاب ہے

نفرت بھی وہ کرے تو کوئی دُکھ نہ دے اُسے
اے رب ذوالجلال! مرا انتخاب ہے

آنکھوں میں نفرتوں کے مضامین درج ہیں
دل پر جو ہے رقم وہ ترا انتساب ہے

دریا کے دو کناروں کی صورت ہے ان دنوں
یا ضدِ اختلاف ہے یا اجتناب ہے

فرصت ملے تو اُس کو ہر اک زاویے سے پڑھ
وہ صرف ایک جسم نہیں ہے‘ کتاب ہے

اندھی سماعتوں کی زمیں پر مقیم ہوں
اب حرف مدعا بھی نشاطِ سراب ہے

احمد وفا کے لفظ کو بدذائقہ نہ کر
اس عہد میں تو اس کا تصور بھی خواب ہے
 

نوید صادق

محفلین
سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی

سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی
ملے ہیں زخم ترے قرب کی بہار سے بھی

متاعِ فقر بھی آئی نہ دستِ عجز کے ہاتھ
گریز پا ہی رہا دولتِ وقار سے بھی

ہم اہل دل ہی نہ سمجھے وفا کے منصب کو
ہوئی ہے ہم کو ندامت ستم شعار سے بھی

لہو ہے قلب ترے تمکنت کے لہجے سے
عرق عرق ہے جبیں حرفِ انکسار سے بھی

چراغِ ظلمتِ شب کی مثال ہے ہر سوچ
ہمیں تو کچھ نہ ملا صبحِ انتظار سے بھی

بجھا نہ شعلہ کوئی کرب کے الاؤ کا
ترے لبوں کے تبسم کے آبشار سے بھی

میں اُس کی ذات سے مایوس ہوں‘ محال ہے یہ
اُسے تو پیار ہے بے حد گناہگار سے بھی

یہ خواہشوں کی مسافت عذاب ہے احمد
نکل کے دیکھ شبِ جسم کے حصار سے بھی
 

نوید صادق

محفلین
لرزشِ لب کی دھنک ہیئت تمثیلی تھی

لرزشِ لب کی دھنک ہیئت تمثیلی تھی
میرے احساس نے خود میری زباں کیلی تھی

تو نے اے شیخِ حرم! چاک حسد تک نہ سیا
ہم فقیرانِ ہوس نے تو قبا سی لی تھی

آنکھ جس قلب میں اُتری وہی آئینہ تھا
ہاتھ جس شاخ پہ رکھا وہی لچکیلی تھی

حرفِ اخلاص بھی لہجے کی طرح سندر تھا
روح پر جسم کی پوشاک بھی چمکیلی تھی

دلِ ہر لفظ ہے آئینۂ احساس مجھے
لبِ اظہار! تری سوچ ہی زہریلی تھی

میں جسے شہر کے ہنگامے میں کھو آیا ہوں
چشمِ اخلاص و تعاون تھی مگر نیلی تھی

کس طرح پاؤں جماتا کوئی اندیشۂ غم
میرے ادراک کی مٹی ہی بہت گیلی تھی

اب تو ہر بندِ سخن جسم معانی پہ ہے چست
اس سے پہلے جو کہی تھی وہ غزل ڈھیلی تھی

وہ بھی ناواقفِ آدابِ وفا تھا احمد
اور کچھ آپ میں بھی پہلے سے تبدیلی تھی
 

نوید صادق

محفلین
قصرِ سحر میں ہوں کہ کسی شب کدے میں ہوں

قصرِ سحر میں ہوں کہ کسی شب کدے میں ہوں
آشوبِ زندگی! میں عجب مخمصے میں ہوں

کیوں جرم بے گناہی پہ دیتا ہے قید سخت
فردِ عمل تو دیکھ‘ میں کس قاعدے میں ہوں

تو میرے خال و خد کبھی پہچان کے تو دیکھ
آئینہ ساز! میں بھی ترے آئینے میں ہوں

اتنا نہ حد سے بڑھ کہ تجھے دُکھ ہو بعد میں
میں عاقبت شناس ہوں اور حوصلے میں ہوں

کچھ تو بتا اے ذہن حقیقت شناس دہر
حلقہ بگوش وہم میں کس سلسلے میں ہوں

وہ شورشیں تو دکھ کی لحد میں اُتر گئیں
زندہ اگرچہ چشم یقیں دیکھنے میں ہوں

چاہے میں تیرے دکھ کی تلافی نہ کر سکوں
لیکن شریکِ غم تو ترے سانحے میں ہوں

آنکھوں میں رَت جگوں کی تھکن ہی انڈیل دے
تشنہ خلش نہ رکھ کہ ترے میکدے میں ہوں

کن لغزشوں پہ منظر عبرت نظر ہوا
سنگِ رہ تماشہ‘ یہ کس سلسلے میں ہوں

احمد یہ اور بات تھکن سے ہے چور جسم
مصروف خاکِ خوابِ سکوں چھاننے میں ہوں
 

نوید صادق

محفلین
وہم ہر لحظہ مٹانے پہ تلا ہے مجھ کو

وہم ہر لحظہ مٹانے پہ تلا ہے مجھ کو
ایک تیشہ ہے کہ بس کاٹ رہا ہے مجھ کو

کس لیے آج یکایک مرا دل دھڑکا ہے
کیوں تبسم ترا‘ آوازہ لگا ہے مجھ کو

مجھ سے پھر آنکھ ملاتے ہوئے کیوں ڈرتا ہے
قتل کرنے پہ جو آمادہ ہوا ہے مجھ کو

مجھ کو اب شہر کے ہنگاموں میں کیوں کھینچتے ہو
کنج تنہائی میں آرام بڑا ہے مجھ کو

میں تجھے کون سی اب دولتِ تسکیں بخشوں
تو تہی دست زمانے میں ملا ہے مجھ کو

کس کو فرصت ہے مرے کرب کی فصدیں کھولے
تم نے اک حرفِ تسلی تو دیا ہے مجھ کو

ہے ابھی دوشِ معانی پہ وہی بارِ حروف
ہنر تیشہ زنی آ تو گیا ہے مجھ کو

پھر کسی خواب نے دی ہے درِ دل پر دستک
پھر دریچے سے کوئی جھانک رہا ہے مجھ کو

آخرِ شب ہے مرے خوں سے چراغاں رکھو
جرسِ صبحِ کی آمد کا پتا ہے مجھ کو

میرے انفاس میں اب دُکھ کی تھکن ہے احمد
اپنی تنہائی کا احساس بڑا ہے مجھ کو
 

نوید صادق

محفلین
دھوپ دل میں اُتر گئی ہے بہت

دھوپ دل میں اُتر گئی ہے بہت
شاخِ خواہش مگر ہری ہے بہت

دیکھ کر بے کسی کا پیرہن
آگہی ضبط پر ہنسی ہے بہت

ایسے شاداب لب جزیرے پر
چند ساعت کی ہمرہی ہے بہت

تیرگی کی اذیتوں کے سفر!
حوصلے میں شگفتگی ہے بہت

راستہ صبح کا بنانا ہے
یوں تو دیوار ڈھے گئی ہے بہت

اب مرا نام شہر جاں کی ہوا
آخری خط میں ڈھونڈتی ہے بہت

ایک کھڑکی جو بند ہے کب سے
دل کے اوراق کھولتی ہے بہت

عمر کی سیڑھیاں نہیں گنتے
جن کی خالق سے دوستی ہے بہت

بور آیا ہے اب تعلق پر
دوستی بے ثمر رہی ہے بہت

نا اُمیدی کے دشتِ تیرہ میں
تیری یادوں کی روشنی ہے بہت

تشنگی برہنہ مسافت ہے
خاک صحرا کی چھانتی ہے بہت

عکسِ آئینہ! آنکھ قاتل کی
وجہِ تسکین ڈھونڈتی ہے بہت

دینے والے کاظرف دیکھنا ہے
اپنا دامن ابھی تہی ہے بہت

بوئے گل کو بھی قید کر لیتے
اختیارات کی کمی ہے بہت

بند مٹھی کو کھول کر احمد
خود سے شرمندگی ہوئی ہے بہت
 
Top