مجھے لگتا ہے جیسے بڑا عرصہ ہوا میں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے ، حالانکہ یہ کوئی اتنی بھی پرانی بات نہیں ، میری عادت تھی کہ میں دل میں جو بھی ہوتا تھا کسی نا کسی سے شئیر کر لیتی تھی ، لیکن پھر لکھنا شروع کیا ، لفظ خود بہ خود ساتھ دیتے گئے ، جو بھی محسوس کرتی اس پر تقریر جھاڑ دیتی ، لیکن اب مجھے یوں لگتا ہے جیسے کسی نے میری لفظ صلب کر لیے ہوں ، ایک دن مجھے
نایاب لالہ نے کہا کہ ناعمہ بٹیا آپ لکھا کریں اور میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ہاں میں لکھوں گی ، لیکن بہت عرصہ سوچنے کے بعد بھی میں یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ میں کیا لکھوں ! میرا موضوع اکثر لوگوں کا رویہ ہوتا تھا ، جب بھی مجھے محسوس ہوتا میں لکھتی تھی ، اس طرح دل کی بھڑاس نکل جایا کرتی تھی ، اور دل صاف ہو جاتا تھا ، تو پھر بھول جاتی تھی ۔
لیکن جب سے بھائی گیا ہے زندگی بدل گئی ہے۔
ہم لوگ سب وہی کام کرتے ہیں ، ہنستے بھی ہیں روتے بھی ہیں ، کھاتے ، پیتے ،پڑھتے سب کچھ کرتے ہیں لیکن اندر جو ایک کسک ہے ، جو ایک کمی ہے وہ ہر وقت محسوس ہوتی ہے ، زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئیں ہیں ، اور سب سے بڑی تبدیلی یہ کہ اندر کی بنیاد کھوکھلی ہو گئی ہے ۔
مگر یہ سب زندگی کا حصہ ہے ۔ ہاں میں یہی سوچ کو خود کو بہلاتی ہوں ، میں چاہتی ہوں کہ میں ہر وہ کام کروں جو میں پہلے کرتی تھی ، اور لکھنا اس میں سے ایک ہے۔
پر آج کل خود پر عجب کشمش سوار رہتی ہے ! مجھے لگتا ہے مجھے عقل آرہی ہے ، حالانکہ ایک دن مقدس بتا رہی تھی کہ اس کی عقل داڑھ نکل رہی ہے ، تو داڑھ تو اس کی نکل رہی ہے مجھے کیسے عقل آسکتی ہے بھلا ؟ دراصل آج کل میں اللہ جی کو ڈھونڈنے کی اپنی سی سعی کر رہی ہوں ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ہمارے اندر رہتے ہیں میرا دل کرتا ہے آسمان کھول کر دیکھوں شاید وہ وہاں مل جائیں ! لیکن میں کون کا جن ہوں جو آسمان تک پہنچ جاؤں گی !
کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ مجھے کوئی ایسا فارمولا مل جائے کہ جس سے اللہ جی میرے اندر مجھے دکھنے لگیں ! آہ !!!! میرے پاس کوئی فارمولا نہیں ہے ۔ ہاں مجھے
نایاب لالہ نے ایک بار کہا تھا کہ ناعمہ بٹیا آپ رب زدنی علما کا ورد کیا کریں ۔ تو بڑے زرو شور سے میں اس کا ودر کرتی ہوں ، اور تو اور اپنی پرانی عادت ابھی تک برقرار رکھی ہے ، کہیں بھی اکیلے بیٹھ کر اللہ جی سے باتیں کرنا ، میں جب بھی اکیلی بیٹھتی ہوں تو مجھے یقین ہوتا ہے کہ اللہ جی میرے پاس بیٹھے ہیں پھر میں ساری باتیں ان سے کرتی ہوں ، سب کی شکایتیں لگاتی ہوں اپنی خامیوں کا ذکر بھی کرتی ہوں اور پھر یہ بھی کہتی ہوں کہ اللہ جی آپ تو یہ سب کر سکتے ہیں نا پھر آپ یہ سب کچھ ٹھیک کر دیں ۔
لیکن آج کل پرانی والی عادت سے بھی تسلی نہیں ہوتی ۔
یہ تو خیر میں نا لکھنے کی وجہ بیان کر رہی ہوں کہ میں نارمل ہوں گی تب ہی لکھوں گی نا !!! اور مسئلہ تو یہ ہے کہ میں کبھی بھی نارمل نہیں ہوتی ہمیشہ ابنارمل ہی رہتی ہوں ! آج ہی دراصل کسی نے مجھ سے جانے کس بات پر یہ بولا کہ یہ تو وہ کہے جو جناب کو جانتا نہ ہو اور میں نے جواب دیا کہ مجھے تو کوئی بھی نہیں جانتا بلکہ میں تو خود بھی خود کو نہیں جانتی ہی ہی ہی ۔
خیر آپ میں سے ہی کوئی مجھے ٹوٹکا بتا دے کہ لکھنا کیسے شروع کروں پھر سے ؟