ن شرارتوں اور اشتعال انڈیوس کرنے کے محرکات کے پیچھے کیا جذبہ کارفرما ہے اور اس کے ڈانڈے حقیقتاََ کہاں سے ملتے ہیں ؟
یہ سب ہمارے اپنے مسلمان بہن بھائیوں کا کیا دھرا ہے۔ ہم کہاں جا کر روئیں؟
مسکم دنیا سے آئے پیشتر تارکین وطن اوّل تو یہاں آکر مقامی زبان نہیں سیکھتے۔ اور اگر زور لگا کر سیکھ لیں تو کام کاج نہیں کرتے۔ سارا وقت فارغ بیٹھے رہتے ہیں اور سوشل بینیفٹ پر پلتے ہیں۔
مقامیوں کے زیادہ سے زیادہ دو بچے۔ ہماری اوسط ماشاءاللہ چار سے اوپر۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ بس محنت نہ کرنی پڑے اور اللہ کا دیا رزق بینک اکاؤنٹ میں پہنچ جائے۔ جتنے زیادہ بچے اتنا زیادہ بچوں کا سرکاری الاؤنس ملتا ہے۔
پھر آجائیں سکولوں کا حال۔ بچیوں کو سکول بھیجنا ہے تو تنگ سا حجاب پہنا کر۔ نارویجن ماحول میں اپنے بچوں کو مکس نہیں ہونے دینا کہ دہریے ہو جائیں گے۔ سکول کی کسی غیر نصابی ایکٹیویٹی میں شامل نہیں ہونے دیتے۔ پھر بچے بھی بڑے ہو کر باغی نکلتے ہیں۔ آدھے مسلمان آدھے دہریا۔ نہ دین میں کامیاب نہ دنیا میں۔ ریاست پہ بوجھ۔
ٹیکس چور ہم، کام چور ہم، غبن اور دھوکہ بازی میں اوّل نمبر ہمارا، جیلوں میں سب سے زیادہ قیدیوں کی تعداد ہماری۔ سب سے زیادہ پرتشدد جرائم میں ہم ملوث۔ پھر اگر مقامی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف احتجاج کریں تو برے بھی وہ!!!