جاسم محمد
محفلین
تیسری دنیا سے سری لنکا، ویتنام، تھائی لینڈ، چین، بھارت وغیرہ کے تارکین وطن بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں البتہ ان کے حالات مسلم دنیا سے آئے تارکین وطنوں جتنے خراب نہیں ہیں۔یہ صرف مسلمان کرتے ہیں یا دیگر تارکین وطن بھی؟؟؟
تیسری دنیا سے سری لنکا، ویتنام، تھائی لینڈ، چین، بھارت وغیرہ کے تارکین وطن بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں البتہ ان کے حالات مسلم دنیا سے آئے تارکین وطنوں جتنے خراب نہیں ہیں۔یہ صرف مسلمان کرتے ہیں یا دیگر تارکین وطن بھی؟؟؟
بھئی پیچھے سے تو ہم بھی پاکستانی یعنی مسلم دنیا سے ہی ہیںیہ ’ہماری‘ سے کیا مراد ہے ؟ آپ تو ان سب میں سے نہیں ہیں۔
اوہ۔۔۔۔بھئی پیچھے سے تو ہم بھی پاکستانی یعنی مسلم دنیا سے ہی ہیں
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ مکروہ فعل شدید قابل مذمت ہے۔البتہ یا تو آپ بھی دہریوں کے رنگ میں رنگے جا چکے ہیں بس ابھی تک رنگ چوکھا نہیں چڑھا یا پھر ڈرپوک ہیں کہ مرمت نہیں تو کم از کم مذمت ہی کر سکیں۔
اور آگے سے؟؟؟بھئی پیچھے سے تو ہم بھی پاکستانی یعنی مسلم دنیا سے ہی ہیں
مغرب اور مسلم دنیا میں بہرحال یہ نظریاتی فرق تو ہے کہ وہاں مذہب کی آمیزش کے بغیر ملک نہیں چلتے۔ جبکہ یہاں مذہب ہر شخص کا انفرادی مسئلہ ہے۔اور آگے سے؟؟؟
یعنی مستقبل کے ارادے!!!
ملٹی کلچرل ازم کو اس واقعے کی ذمہ داری لینی چاہیے اور سفید و سیاہ کے درمیان مساوات و مواخات قائم کرنی چاہیے۔
یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ ناروے کی اکثریت آج دہریہ ہے۔ اس لئے ملک کے آئین و قانون میں کسی خاص اقلیت کے جذبات کو مجروح ہونے سے بچانے کیلئے قانون سازی کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ملٹی کلچرل ازم کو اس واقعے کی ذمہ داری لینی چاہیے اور سفید و سیاہ کے درمیان مساوات و مواخات قائم کرنی چاہیے۔
کتنے فی صد؟ناروے کی اکثریت آج دہریہ ہے۔
The country where most people don't believe in God
Anders Behring Breivik - Wikipediaواضح رہے کہ ناروے میں ہی 2011 میں ایک اسلام مخالف شخص آندریس بریوک نے فائرنگ کرکے 77 افراد کو قتل کردیا تھا۔ عدالت نے اسے 21 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
چرچ کے ممبر نارویجن بچے پیدائش کے وقت از خود بن جاتے ہیں جب تک بڑے ہو کر اپنا نام اس رجسٹر سے خارج نہ کریں۔ اس کی عملی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اصل حقیقت یہی ہے جو نیچے بیان کی گئی ہے۔ناروے کی اکثریت کو دہریہ کہنا کسی طور صحیح نہیں ہے جب پچاس فیصد سے زائد نارویجین وہاں کے چرچ کے ممبر ہیں۔
چونکہ یہ دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیم ہے اس لئے ان کی حمایت میں لوگ باہر نہیں آتے۔ الٹا ان کے خلاف بائیں بازو کی لبرل جماعتیں بڑی تعداد میں کاؤنٹر احتجاج کیلئے آتی ہیں۔ جن میں مشتعل مسلمان بھی شامل ہوتے ہیں۔ جو قرآن پاک کی بے حرمتی ہوتے ہی فوری حملہ آور ہو جاتے ہیں۔آخری بات یہ کہ جس مضمون سے لڑی کا آغاز ہوا اس میں کہیں ذکر نہیں کہ کتنے لوگ اس اسلام مخالف جلسے میں شامل تھے۔ یہ نہ ہو پتا چلے دو چار لوگ ہی تھے
سوائے ایک دائیں بازو کی پارٹی Progress Party کے باقی سب امیگریشن کے حوالہ سے لبرل نظریہ رکھتی ہیں۔امیگریشن پالیسی کے حوالے سے ناروے میں سیاسی جماعتوں کا کیا نکتہ نظر ہے؟
آپ کی مرادیں پوری ہوئی۔ ناروے پورے ملک میں ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔ سب لوگ موبائل سم جہاد میں شامل ہو کر ثواب کمائیں۔اور کچھ نہیں تو ٹیلی نار ہی کا بائیکاٹ کرو
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں ۔آپ کی مرادیں پوری ہوئی
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں ۔