فرقان احمد
محفلین
مسیحت کی تضحیک نہیں کی گئی، مذہبی شخصیات کو نشانے پر رکھا گیا۔ آج بھی لبرل ازم کے پیروکار مذاہب کی توہین پر یقین نہیں رکھتے؛ کم از کم زبانی کلامی تو یہی کہا جاتا ہے مگر اصل رنگ تو اب دکھائی دے ہی رہا ہے۔ کیا کہا جائے؟ سر! اگر آپ نے لبرل ازم کی منزل تک پہنچنے کے بعد یہی کچھ کرنا تھا، تو پھر، اس سے بہتر تھا کہ یہ جدوجہد نہ ہی کی جاتی۔ بصد معذرت عرض ہے!اگر آج مغربی یورپ کے پبلک ، سیاسی اور کلچرل ڈومین سے مسیحیت و کلیسا کا غلبہ مٹ چکا ہے تو اس کا زیادہ تر کریڈٹ بائیں بازو کی لبرل جماعتوں اور ان سے منسلکہ تحریکوں کو جاتا ہے۔ جنہوں نےیورپی معاشرہ میں مسیحیوں کی مذہبی جنونیت ختم کر نے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کام کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ان میں مسیحیت کی تضحیک اور توہین بھی شامل تھی۔
مسلمان تارکین وطن چاہتے ہیں کہ جو معیار مسیحیت پر تنقید کا یورپی اقوام سیٹ کرکے اسے شکست فاش دے چکے ہیں وہ اسلام پر لاگو نہ ہو۔ تاکہ یورپی معاشرہ میں ان کے مذہب کی اجارہ داری ویسے ہی قائم رہے جو ان کے ترک کئے ہوئے مسلم ممالک میں قائم تھی۔ یہ تو ممکن نہیں ہے۔ یورپی اقوام کسی صورت اسلام کیلئے یہ دہرا معیار قبول نہیں کریں گے۔