ناروے میں اسلام مخالف ریلی

سید عمران

محفلین
غیرت مند مسلمان اپنے والدین کو گالیاں دینا برداشت نہیں کرسکتا چہ چائیکہ کلام اللہ کی توہین کی جائے۔۔۔
لبرل فسادی اور دہرئیے کیا جانیں غیرت ایمانی کس بلند اخلاقی درجہ کا نام ہے!!!
 

جاسم محمد

محفلین
لبرل فسادی اور دہرئیے کیا جانیں غیرت ایمانی کس بلند اخلاقی درجہ کا نام ہے!!!
کوئی بھی غیرت ایمانی اس ملک کے آئین و قانون سے بڑھ کر نہیں۔ جب ریاست پاکستان کا ترجمان ایک مجرم کو ہیرو بنا کر پیش کرے گا تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟
EJ_hFr6XYAUGby8.jpg
 

سید عمران

محفلین
غیر مسلم اس بات کو جان لیں کہ غیرت ایمانی کیا ہے؟؟؟
وہی ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِ یْمَانَ۔(ابوداؤد:۲؍۲۸۷)
ایمان اسی کا کامل ہے جو اللہ کے لیے محبت رکھے اور اللہ کے لیے بغض و عداوت رکھے۔۔۔

اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے نفرت کرنا وہ کیا سمجھیں جن کا کوئی مولیٰ نہیں۔۔۔
اللہ مولٰنا، و لا مولیٰ لکم!!!
 

سید عمران

محفلین
کوئی بھی غیرت ایمانی اس ملک کے آئین و قانون سے بڑھ کر نہیں۔ جب ریاست پاکستان کا ترجمان ایک مجرم کو ہیرو بنا کر پیش کرے گا تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟
جب جالب کہے:
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تو لبرل فسادی تالیاں پیٹ پیٹ کر بے حال ہوئے جاتے ہیں۔۔۔
اور جب مسلمان یہ بات کہے تو مجرم قرار دئیے جاتے ہیں۔۔۔
ہاہ۔۔۔ اچھا مذاق ہے!!!
 

فرقان احمد

محفلین
آپ یورپی کلچر سے نابلد ہونے کی وجہ سے ایسا سمجھ رہے ہیں۔ مغربی یورپ میں کلیسا کی طاقت کا خاتمہ اپنے آپ نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے باقاعدہ تحریکیں چلی جنہوں نے مسیحیت کی تنقید و تضحیک کو معمول بنایا ہے۔ ۱۹۳۳ میں معروف نارویجن شاعر Arnulf Øverland نے “مسیحیت دسویں طاعون” کے نام سے بھرے مجمع میں تقریر کی۔ ان کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ بھی ہوا مگر عدالت نے بری کر دیا۔ یہ ملک کی تاریخ کا آخری مقدمہ تھا جس میں توہین مذہب کا قانون لاگو ہوا۔ اور ۲۰۱۵ میں اس قانون کو آئین سے یکسر ختم کر دیا گیا۔
Word of Man: Christianity, the Tenth Plague

اب چونکہ مسلم تارکین وطن ایک ایسے ملک میں آگئے ہیں جہاں مذہب کی توہین و تنقید بالکل معمول کی بات ہے ۔ ایسے میں یہاں کے مقامی لوگ مسلمانوں کے جذبات کا خیال کیوں کریں؟
آپ کا ناروے کی حکومت سے اس حوالہ سے اقدامات کا مطالبہ کرنا ملک کے آئین، قانون اور کلچر میں مداخلت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جیسے مغرب کی فرمائش پر پاکستانی توہین رسالت، اینٹی قادیانی قوانین تبدیل نہیں ہو سکتے۔ ویسے ہی پاکستانیوں یا مسلم دنیا کی فرمائش پر ناروے اپنے قوانین تبدیل کرنے کا مجاز نہیں۔
مطالبہ کرنے میں حرج نہیں ہے اور اس کو چاہے آپ مداخلت تصور کریں تاہم اس رویے اور رجحان کے پنپنے سے ہماری دانست میں زیادہ بڑا نقصان ناروے کے باسیوں کو پہنچے گا۔ معاشرہ جس قدر چاہے لبرل ہو جائے، تاہم، حدود و قیود کا از سر نو تعین کچھ ایسا مشکل معاملہ نہیں۔ ہمارے خیال میں، لبرل معاشرے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تنقید اور تضحیک کے فرق کو مٹا دیا جائے۔ ایک لبرل فرد سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے شعائر کا احترام نہ کرے۔ دراصل، اسے ہم انتہاپسندانہ رویہ ہی کہیں گے کہ اربوں افراد کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے ان کی مذہبی کتاب کو آگ لگائی جائے۔ بہرصورت، آپ کا ملک ہے، جو چاہے کیجیے۔ ہم تو یہ مطالبہ کرتے رہیں گے۔ کیا لبرل معاشرے نے مطالبہ کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
اس صورت حال میں ناروے میں قرآن کا پیغام مزید پھیلانا چاہیے ایک وقت آئے گا کہ ناروے میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی۔ اس وقت ناروے کے ملحدوں کو اس بات کا غم ہے کہ مذہب کا فروغ کیوں ہو رہا ہے اور اگر اسی شرح سے اسلام پھیلتا رہا یا مسلمانوں کی تعداد امیگریشن کے نتیجے میں بڑھتی رہی تو وہ اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے جب کہ مسلمانوں میں شرح پیدائش بھی زیادہ ہے ، لہذا یورپی ممالک میں امیگریشن کے خلاف مزاحمت ہو رہی ہے اور مشروط امیگریشن پر زور دیا جا رہا ہے۔
اس بات کو شناخت کے بحران یا IDENTITY CRISIS سے منسلک کر کے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اور نہ ہی کسی کے ایسے شنیع فعل کا دفاع کرتا ہے۔
جب ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ نے رسول اللہؐ کے توہین آمیز خاکے بنائے تھے تو پاکستان کے بعض مشتعل مسلمانوں نے جہالت کی وجہ سے عجلت میں ناروے کے جھنڈے جلا دئے تھے۔ جس پر نارویجن قوم نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔
pakistani-islamists-shout-slogans-beside-a-burning-norwegian-flag-a-picture-id108814955

اب ایک انتہا پسند نارویجن نے مسلمانوں کا قرآن پاک جلا دیا ہے تو انتہا پسند مسلمان بھی ناروے کی کوئی چیز جلا کر حساب برابر کر لیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اور نہ ہی کسی کے ایسے شنیع فعل کا دفاع کرتا ہے۔

جب ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ نے رسول اللہؐ کے توہین آمیز بنائے تھے تو پاکستان کے بعض مشتعل مسلمانوں نے جہالت کی وجہ سے ناروے کے جھنڈے جلا دئے تھے۔ جس پر نارویجن قوم نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔
اب ایک انتہا پسند نارویجن نے مسلمانوں کا قرآن پاک جلا دیا ہے تو انتہا پسند مسلمان بھی ناروے کی کوئی چیز جلا کر حساب پورا کر لیں۔

یعنی انتہا پسندی سے بچنے کے لئے انتہا پسندوں کا دفاع کرنا چاہیے؟ :eek:
 

الف نظامی

لائبریرین
اشتعال دلانے والے ناروے کے ملحدین کو سمارٹ ری ایکشن دے کر حیران کیا جا سکتا ہے۔
اس طرح اشتعال دلانے والا اپنی برتری کھو بیٹھے گا۔
اشتعال دلانے والے کا بنیادی مقصد مشتعل ہونے والے کے ری ایکشن میں ہوتا ہے۔
اشتعال کی توانائی کو سمارٹ ری ایکشن کے ذریعے اسلام کے مزید فروغ میں استعمال کریں اور ان ممالک میں مزید تبلیغی جماعتوں کی تشکیل کریں۔ جب انہیں اسلام کا پیغام سمجھ آئے گا تو خود ہی اسلام کی طرف مائل ہوں گے۔
 

سید عمران

محفلین
جب ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ نے رسول اللہؐ کے توہین آمیز خاکے بنائے تھے تو پاکستان کے بعض مشتعل مسلمانوں نے جہالت کی وجہ سے عجلت میں ناروے کے جھنڈے جلا دئے تھے۔ جس پر نارویجن قوم نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔
کیوں؟؟؟
اظہار آزادیِ رائے کے اچار کا کیا ہوا؟؟؟
 

فرقان احمد

محفلین
کوئی بھی غیرت ایمانی اس ملک کے آئین و قانون سے بڑھ کر نہیں۔ جب ریاست پاکستان کا ترجمان ایک مجرم کو ہیرو بنا کر پیش کرے گا تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟
EJ_hFr6XYAUGby8.jpg
وہ مجرم نہیں ہے۔ اس نے آپ کی کس مقدس یا غیر مقدس کتاب کو جلایا۔ اگر ہمارے سامنے کوئی قرآن پاک کو جلاتا تو ہمارا ری ایکشن بھی یہی ہوتا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ ہماری مقدس کتاب کو اظہار رائے کی آزادی سمجھ کر جلاتا پھرے۔ قانون کو بروقت حرکت میں آنا چاہیے تھا اور اگر قانون اس معاملے میں خاموش رہتا ہے تو پھر فیصلہ میدان میں ہوتا ہے اور ایک معنی میں ہو کر رہا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک لبرل فرد سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے شعائر کا احترام نہ کرے۔ دراصل، اسے ہم انتہاپسندانہ رویہ ہی کہیں گے
اگر آج مغربی یورپ کے پبلک ، سیاسی اور کلچرل ڈومین سے مسیحیت و کلیسا کا غلبہ مٹ چکا ہے تو اس کا زیادہ تر کریڈٹ بائیں بازو کی لبرل جماعتوں اور ان سے منسلکہ تحریکوں کو جاتا ہے۔ جنہوں نےیورپی معاشرہ میں مسیحیوں کی مذہبی جنونیت ختم کر نے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کام کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ان میں مسیحیت کی تضحیک اور توہین بھی شامل تھی۔
اب مسلمان تارکین وطن چاہتے ہیں کہ مسیحیت پر تنقید کا جو معیار یورپی اقوام اپلائی کرکے اسے شکست فاش دے چکے ہیں وہ اسلام پر لاگو نہ ہو۔ تاکہ یورپی معاشرہ میں ان کے مذہب کی اجارہ داری ویسے ہی قائم رہے جیسا کہ ان کے ترک کئے ہوئے مسلم ممالک میں قائم تھی۔ یہ تو ممکن نہیں ہے۔ یورپی اقوام کسی صورت اسلام کیلئے یہ دہرا معیار قبول نہیں کریں گے۔
 
Top