مسلمانوں کا ہیرو غیر مسلموں کے نزدیک یقیناً زیرو ہوگا!!!
کوئی بھی غیرت ایمانی اس ملک کے آئین و قانون سے بڑھ کر نہیں۔ جب ریاست پاکستان کا ترجمان ایک مجرم کو ہیرو بنا کر پیش کرے گا تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟لبرل فسادی اور دہرئیے کیا جانیں غیرت ایمانی کس بلند اخلاقی درجہ کا نام ہے!!!
جب جالب کہے:کوئی بھی غیرت ایمانی اس ملک کے آئین و قانون سے بڑھ کر نہیں۔ جب ریاست پاکستان کا ترجمان ایک مجرم کو ہیرو بنا کر پیش کرے گا تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟
ہر مسلمان میں دینی حمیت ہوتی ہے جبھی تو مسلمان ہے!!!ویسے ہمارا یہ خیال ہے کہ مسلمان ناروے تو کیا مریخ پر بھی رہے تب بھی اُس میں دینی حمیت ہونی چاہیے۔
اچھا مسلمان نہ کسی کی مذہبی کتاب جلاتا ہے نہ کسی کو ایسا کرنے دیتا ہے!!!
مطالبہ کرنے میں حرج نہیں ہے اور اس کو چاہے آپ مداخلت تصور کریں تاہم اس رویے اور رجحان کے پنپنے سے ہماری دانست میں زیادہ بڑا نقصان ناروے کے باسیوں کو پہنچے گا۔ معاشرہ جس قدر چاہے لبرل ہو جائے، تاہم، حدود و قیود کا از سر نو تعین کچھ ایسا مشکل معاملہ نہیں۔ ہمارے خیال میں، لبرل معاشرے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تنقید اور تضحیک کے فرق کو مٹا دیا جائے۔ ایک لبرل فرد سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے شعائر کا احترام نہ کرے۔ دراصل، اسے ہم انتہاپسندانہ رویہ ہی کہیں گے کہ اربوں افراد کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے ان کی مذہبی کتاب کو آگ لگائی جائے۔ بہرصورت، آپ کا ملک ہے، جو چاہے کیجیے۔ ہم تو یہ مطالبہ کرتے رہیں گے۔ کیا لبرل معاشرے نے مطالبہ کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے؟آپ یورپی کلچر سے نابلد ہونے کی وجہ سے ایسا سمجھ رہے ہیں۔ مغربی یورپ میں کلیسا کی طاقت کا خاتمہ اپنے آپ نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے باقاعدہ تحریکیں چلی جنہوں نے مسیحیت کی تنقید و تضحیک کو معمول بنایا ہے۔ ۱۹۳۳ میں معروف نارویجن شاعر Arnulf Øverland نے “مسیحیت دسویں طاعون” کے نام سے بھرے مجمع میں تقریر کی۔ ان کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ بھی ہوا مگر عدالت نے بری کر دیا۔ یہ ملک کی تاریخ کا آخری مقدمہ تھا جس میں توہین مذہب کا قانون لاگو ہوا۔ اور ۲۰۱۵ میں اس قانون کو آئین سے یکسر ختم کر دیا گیا۔
Word of Man: Christianity, the Tenth Plague
اب چونکہ مسلم تارکین وطن ایک ایسے ملک میں آگئے ہیں جہاں مذہب کی توہین و تنقید بالکل معمول کی بات ہے ۔ ایسے میں یہاں کے مقامی لوگ مسلمانوں کے جذبات کا خیال کیوں کریں؟
آپ کا ناروے کی حکومت سے اس حوالہ سے اقدامات کا مطالبہ کرنا ملک کے آئین، قانون اور کلچر میں مداخلت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جیسے مغرب کی فرمائش پر پاکستانی توہین رسالت، اینٹی قادیانی قوانین تبدیل نہیں ہو سکتے۔ ویسے ہی پاکستانیوں یا مسلم دنیا کی فرمائش پر ناروے اپنے قوانین تبدیل کرنے کا مجاز نہیں۔
جب ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ نے رسول اللہؐ کے توہین آمیز خاکے بنائے تھے تو پاکستان کے بعض مشتعل مسلمانوں نے جہالت کی وجہ سے عجلت میں ناروے کے جھنڈے جلا دئے تھے۔ جس پر نارویجن قوم نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔اور نہ ہی کسی کے ایسے شنیع فعل کا دفاع کرتا ہے۔
اور نہ ہی کسی کے ایسے شنیع فعل کا دفاع کرتا ہے۔
جب ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ نے رسول اللہؐ کے توہین آمیز بنائے تھے تو پاکستان کے بعض مشتعل مسلمانوں نے جہالت کی وجہ سے ناروے کے جھنڈے جلا دئے تھے۔ جس پر نارویجن قوم نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔
اب ایک انتہا پسند نارویجن نے مسلمانوں کا قرآن پاک جلا دیا ہے تو انتہا پسند مسلمان بھی ناروے کی کوئی چیز جلا کر حساب پورا کر لیں۔
کیوں؟؟؟جب ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ نے رسول اللہؐ کے توہین آمیز خاکے بنائے تھے تو پاکستان کے بعض مشتعل مسلمانوں نے جہالت کی وجہ سے عجلت میں ناروے کے جھنڈے جلا دئے تھے۔ جس پر نارویجن قوم نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔
مثلاً کیا؟؟؟اب ایک انتہا پسند نارویجن نے مسلمانوں کا قرآن پاک جلا دیا ہے تو انتہا پسند مسلمان بھی ناروے کی کوئی چیز جلا کر حساب برابر کر لیں۔
آپ بھی تو ناروے ہی کے ہیں اور مسلسل "جل" بھی رہے ہیں!مسلمان بھی ناروے کی کوئی چیز جلا کر حساب برابر کر لیں۔
وہ مجرم نہیں ہے۔ اس نے آپ کی کس مقدس یا غیر مقدس کتاب کو جلایا۔ اگر ہمارے سامنے کوئی قرآن پاک کو جلاتا تو ہمارا ری ایکشن بھی یہی ہوتا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ ہماری مقدس کتاب کو اظہار رائے کی آزادی سمجھ کر جلاتا پھرے۔ قانون کو بروقت حرکت میں آنا چاہیے تھا اور اگر قانون اس معاملے میں خاموش رہتا ہے تو پھر فیصلہ میدان میں ہوتا ہے اور ایک معنی میں ہو کر رہا۔کوئی بھی غیرت ایمانی اس ملک کے آئین و قانون سے بڑھ کر نہیں۔ جب ریاست پاکستان کا ترجمان ایک مجرم کو ہیرو بنا کر پیش کرے گا تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟
اگر آج مغربی یورپ کے پبلک ، سیاسی اور کلچرل ڈومین سے مسیحیت و کلیسا کا غلبہ مٹ چکا ہے تو اس کا زیادہ تر کریڈٹ بائیں بازو کی لبرل جماعتوں اور ان سے منسلکہ تحریکوں کو جاتا ہے۔ جنہوں نےیورپی معاشرہ میں مسیحیوں کی مذہبی جنونیت ختم کر نے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کام کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ان میں مسیحیت کی تضحیک اور توہین بھی شامل تھی۔ایک لبرل فرد سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے شعائر کا احترام نہ کرے۔ دراصل، اسے ہم انتہاپسندانہ رویہ ہی کہیں گے