ناطقہ سر بگریباں ہے

1931 میں ریاضی دان کرٹ گوڈیل Kurt Gödel نے ریاضی کی فطرت کے متعلق اپنا مشہور "ادھورے پن "کا تھیورم ثابت کیا۔ اس تھیورم کے مطابق مقولوں (axioms)کے کسی بھی باقاعدہ نظام کے اندر ایسے سوالات ہمیشہ قائم رہتے ہیں جنہیں نظام کا تعین کرنے والے مقولوں کی بنیاد پر ثابت اور نہ ہی رد کیا جاسکتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر گوڈیل نے دکھایا کہ کچھ ایسے مسائل موجود ہیں جنہیں قوانین یا طریقہ ہائے کار کے کسی بھی سیٹ کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا۔
گوڈیل کے تھیورم نے ریاضی پر اساسی نوعیت کی حدود لاگو کیں۔ سائنسی کمیونٹی کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا کیونکہ اس نے یہ مقبول عام یقین باطل کر دیا تھا کہ ریاضی واحد منطقی اساس پر مبنی ایک مربوط اور مکمل نظام تھا۔
کائنات کی تاریخ از سٹیفن ڈبلیو ہاکنگ ؛ مترجم یاسر جواد سے اقتباس
متعلقہ:-
Kurt Gödel
کیا اس تھیورم میں کہی گئی بات اور کہانی سے اخذ کئے گئے نتیجے میں کوئی تضاد ہے؟
 
آپ کی یہ بات مندرجہ ذیل بات(کہانی کے سبق) سے کس طرح مختلف ہے؟ کیا دونوں جگہوں پر کم و بیش ایک ہی مفہوم پیش نہیں کیا گیا (اگرچہ عبارت اور الفاظ مختلف ہیں) مطابقت کی دنیا کے اندر رہتے ہوئے یا متعین کردہ حدود سے ماوراء ہوئے بغیر بعض منطقی نتائج اخذ نہیں کئے جاسکتے۔۔۔۔

کیا اس تھیورم میں کہی گئی بات اور کہانی سے اخذ کئے گئے نتیجے میں کوئی تضاد ہے؟

جی قطعی طور پر مختلف ہے۔
یہ حدود منطق کی نہیں بلکہ مطابقت کی مختلف ڈومینز اور مشاہدات کی مختلف دنیاؤں کی ہیں۔ یہی بنیادی فرق ہے جو میں اوپر بھی عرض کیا تھا۔
 
میرا خیا ل ہے ( جو غلط بھی ہوسکتا ہے) کہ دھاگہ شروع کرنے کا جو مقصد تھا یعنی کہانی سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا تھا اس کو غلط طور پر یہ سمجھ لیا گیا کہ گویا منطق اور فلسفے کو رد اور لایعنی ثابت کیا جارہا ہے،،،جبکہ ایسا ہرگز نہیں ، میں نے اس کی وضاحت بھی کی کہ منطق اور فلسفے کی کچھ limitations ہیں جن سے وہ ماوراء نہیں ہوسکتے۔ اور میرا خیال ہے کہ کرٹ گورڈیل کی جس تھیوری کا یہاں ایک دوست نے حوالہ دیا ہے اس سے بھی یہی بات نکل رہی ہے۔۔۔چنانچہ اس ریاضی دان کو یہ کہنا پڑا کہ جن postulates یا assumptions کو بدیہی اصولِ موضوعہ axioms کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان کو ثابت نہیں کیا جاسکتا، حل نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔۔تو کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ جن حقائق کو بغیر ثابت کئے یا حل کئے درست تسلیم کرلیا گیا ہے، ایسا غیر منطقی طور پر کیا گیا ہے۔۔۔
 
فیصلہ تو واضح ہے کہ یہ ایک لاجکل فالیسی ہے۔
حضرت، کیا آپ فالیسی اور پیراڈوکس کا فرق سمجھتے ہیں؟ اگر ہاں تو ذرا بیان کیجیے۔ اگر نہیں تو میں عرض کروں کہ یہ قصہ ایک پیراڈوکس کا اظہار کرتا ہے، فالیسی کا نہیں۔
استخراج درست ہے لیکن بات خلافِ واقعہ ہے اس لیے رد کیا جائے گا۔
اس میں کیا خلافِ واقعہ ہے بھلا؟
 
حضرت، کیا آپ فالیسی اور پیراڈوکس کا فرق سمجھتے ہیں؟ اگر ہاں تو ذرا بیان کیجیے۔ اگر نہیں تو میں عرض کروں کہ یہ قصہ ایک پیراڈوکس کا اظہار کرتا ہے، فالیسی کا نہیں۔

مجھے انتہائی خوشی ہوگی اگر آپ دو کام کردیں:

1۔ لاجکل پیراڈاکس اور فالیسی کی کسی "معتبر" حوالے کے ساتھ تعریف فرمادیں۔
2۔ پوسٹ میں مذکور قصہ کے پیراڈاکس ہونے کی وضاحت فرما دیں۔

شکریہ۔
 
میں نے اس کی وضاحت بھی کی کہ منطق اور فلسفے کی کچھ limitations ہیں جن سے وہ ماوراء نہیں ہوسکتے۔ اور میرا خیال ہے کہ کرٹ گورڈیل کی جس تھیوری کا یہاں ایک دوست نے حوالہ دیا ہے اس سے بھی یہی بات نکل رہی ہے۔۔۔چنانچہ اس ریاضی دان کو یہ کہنا پڑا کہ جن postulates یا assumptions کو بدیہی اصولِ موضوعہ axioms کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان کو ثابت نہیں کیا جاسکتا، حل نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔۔تو کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ جن حقائق کو بغیر ثابت کئے یا حل کئے درست تسلیم کرلیا گیا ہے، ایسا غیر منطقی طور پر کیا گیا ہے۔۔۔

اس سے جو آپ نے نتیجہ نکالا ہے وہ درست نہیں ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کی ہے کہ گرڈل کے تھیورمز نے منطق کے قضایا کو کلاسیفائی کیا ہے۔ اس بات کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم مختلف قضایا کو خلط ملط کرنے سے بچ جائیں۔ بہت سارے سوالات جو صرف اس وجہ سے پیدا ہوتے تھے کہ ہم قضایا کی حد بندی نہیں کر پاتے تھے ان تھیورمز کی وجہ سے انکا مسئلہ حل ہوگیا۔
ثابت یا حل نہ کیا جاسکنا جسے آپ منطق کے محدود ہونے کی دلیل بنارہے ہی یہ بھی نادرست بات ہے۔ کیونکہ اس کی کنڈیشن یہ ہے کہ قضایا ایک ہی ڈومین میں ہوں گے تو کم از کم کوئی ایک جملہ ایسا ضرور ہوگا جس کا اثبات ممکن نہ ہوگا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس اثبات مطلق طور پر ممکن نہیں۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس کے اثبات کے لیے اس ڈومین سے باہر جانا ہوگا جہاں مذکورہ ڈومین کی مطابقت کا اثبات بھی ہوگا اور اس مطابقت کی نفی بھی ہوگی۔ اس لیے یہ نتیجہ بھی درست نہیں کہ حقائق کو بغیر ثابت کیے حل کیا گیا اور یہ غیر منطقی طور پر ہوا۔ بلکہ ایسے حقائق کی ڈیریویشن دوسری ڈومینز میں ہوئی ہیں اس لیے یہاں ان کی مطابقت پائی جاتی ہے۔
 
اول حصہ پڑھ کر اسے عمومی نوعیت کی تحریر سمجھا اور لطف لیا ، مگر جب احباب نے اس پر سنجیدہ گفتگو کا آغاز کیا تو یہ دھاگہ واقعی دیدنی ہو گیا۔
 
مجھے انتہائی خوشی ہوگی اگر آپ دو کام کردیں:

1۔ لاجکل پیراڈاکس اور فالیسی کی کسی "معتبر" حوالے کے ساتھ تعریف فرمادیں۔
2۔ پوسٹ میں مذکور قصہ کے پیراڈاکس ہونے کی وضاحت فرما دیں۔

شکریہ۔
مغالطہ یہ ہے کہ آپ غیر منطقی اور غیر صائب اصولوں کا سہارا لے کر کسی نتیجے پر پہنچیں، خواہ وہ درست ہو خواہ غلط۔ یہ بنیادی طور پر منطق کا غلط استعمال ہے۔
دوسری جانب، قولِ محال وہ بیان یا صورتِ حال ہے جو حقیقی ہو یا نہ ہو مگر خود اپنے اندر تضاد رکھتی ہو اور اس کا منطقی حل محال ہو۔
"معتبر" حوالہ میں خود ہوں۔ اگر کوئی اور صائب الرائے شخص معاصرین یا سابقین میں سے اس رائے کا مخالف ہو تو بتلائیے۔
اب یہ دیکھیے کہ یہ واقعہ حقیقی تو بہر حال فرض کیا جا سکتا ہے۔ اس نوع کے نزاعات عدالتوں میں روز پیش ہوتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی ایک شخص نے عہد لیا تھا کہ جب تک پانی نہ پی لوں گا آپ مجھ پر حملہ نہ کریں گے۔ اور پھر پانی زمین پر انڈیل دیا تھا۔
قولِ محال کی تعریف کے عین مطابق یہ صورتَ حال حقیقی تو ہے مگر اپنے اندر تضاد کی حامل ہے۔ اگر آپ ہنوز اس کے برعکس سمجھتے ہیں تو واقعہ مذکور کے بیان میں غیر منطقی اصولوں کی کارفرمائی واضح کریں۔ یا میری بیان کردہ تعریفوں میں سقم کی نشاندہی کریں۔
بندگی۔
 
مغالطہ یہ ہے کہ آپ غیر منطقی اور غیر صائب اصولوں کا سہارا لے کر کسی نتیجے پر پہنچیں، خواہ وہ درست ہو خواہ غلط۔ یہ بنیادی طور پر منطق کا غلط استعمال ہے۔

نایاب چیزیں بہت مہنگی ہوتی ہیں
ایک روپے میں ایک گھوڑا نایاب ہے
اسلیے ایک روپے میں ایک گھوڑا بہت مہنگا ہے۔

بتائیے کیا یہ استدلال درست ہے؟ اگر نہیں تو اس میں کونسا غیر منطقی اصول استعمال کیا گیا ہے؟

دوسری جانب، قولِ محال وہ بیان یا صورتِ حال ہے جو حقیقی ہو یا نہ ہو مگر خود اپنے اندر تضاد رکھتی ہو اور اس کا منطقی حل محال ہو۔
پیراڈاکس کی تعریف آپ نے درست کی ہے۔ متفق۔ لیکن اس کی مثال میں آپ نے واقعہ پیش کیا ہے وہ قطعاً غلط ہے۔ کیونکہ نہ تو اس قول میں کوئی تضاد ہے۔ نہ کوئی منطقی محال لازم آتا ہے۔ اگر وہ شخص پانی نہ پیے تو اس پر حملہ نہ کیا جائے گا۔ چاہے وہ کبھی بھی نہ پیے۔ اس میں کونسا منطقی "محال" لازم آیا میں سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے پوسٹ کے قصے کو پیراڈاکس یا قول محال کہا۔ حالانکہ لاجکل پیراڈاکس کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ یہ سیلف ریفرنگ یا سیلف ڈسٹرکٹو ہوتا ہے۔ جب کہ پوسٹ میں مذکور مسئلہ سیلف ڈسٹرکشن یا سیلف ریفرنس کا ہے ہی نہیں۔ مثال میں عرض کردیتا ہوں:

مثال 1۔ میں ہمیشہ جھوٹ بولتا ہوں
اگر اس بات کو سچ مان لیا جائے تو میرا یہ جملہ بھی جھوٹ ہوجائے گا۔ اور جھوٹ مانا جائے تو سچ ہوجائے گا۔

مثال 2۔ کوئی سچ دائمی نہیں ہے۔
اگر اس بات کو سچ مان لیا جائے تو اس جملے کو دائمی سچ ماننا پڑے گا۔ اور اس صورت میں یہی جملہ جھوٹا ہوگا۔

میں یہ بات قطعاً سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پوسٹ والی صورتحال آخر کس طور پر پیراڈاکسکل ہے۔


شکریہ۔
 
اس سے جو آپ نے نتیجہ نکالا ہے وہ درست نہیں ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کی ہے کہ گرڈل کے تھیورمز نے منطق کے قضایا کو کلاسیفائی کیا ہے۔ اس بات کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم مختلف قضایا کو خلط ملط کرنے سے بچ جائیں۔ بہت سارے سوالات جو صرف اس وجہ سے پیدا ہوتے تھے کہ ہم قضایا کی حد بندی نہیں کر پاتے تھے ان تھیورمز کی وجہ سے انکا مسئلہ حل ہوگیا۔
ثابت یا حل نہ کیا جاسکنا جسے آپ منطق کے محدود ہونے کی دلیل بنارہے ہی یہ بھی نادرست بات ہے۔ کیونکہ اس کی کنڈیشن یہ ہے کہ قضایا ایک ہی ڈومین میں ہوں گے تو کم از کم کوئی ایک جملہ ایسا ضرور ہوگا جس کا اثبات ممکن نہ ہوگا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس اثبات مطلق طور پر ممکن نہیں۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس کے اثبات کے لیے اس ڈومین سے باہر جانا ہوگا جہاں مذکورہ ڈومین کی مطابقت کا اثبات بھی ہوگا اور اس مطابقت کی نفی بھی ہوگی۔ اس لیے یہ نتیجہ بھی درست نہیں کہ حقائق کو بغیر ثابت کیے حل کیا گیا اور یہ غیر منطقی طور پر ہوا۔ بلکہ ایسے حقائق کی ڈیریویشن دوسری ڈومینز میں ہوئی ہیں اس لیے یہاں ان کی مطابقت پائی جاتی ہے۔
معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ ہم ابھی تک دائرے میں ہی گھوم رہے ہیں آپ بار بار غیرمتعلقہ حوالے دے کر اس سارے معاملے کو لایعنی اور بے مقصد ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ثابت ہو نہیں سکا۔۔۔۔آپ تھوڑی دیر کے لئے گرڈل اور ہما و شما کو بھول جائیں اور منطقی اصطلاحات کو بھی ایک سائیڈ پر رکھ کر بطور جج اس مقدمے کا فیصلہ سنائیں۔۔۔فی الحال آپ کیس کی کو عدالت کے دائرہ کار سے باہر قرار دیکر اسکو ناقابلِ سماعت قرار دے رہے ہیں۔۔۔اور یہی اس کیس کی کامیابی ہے ۔
میں راحیل فاروق صاحب کی بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ یہ منطقی مغالطہ نہیں ہے بلکہ پیراڈاکس ہے اور مروجہ منطقی و فلسفیانہ قواعد کو استعمال کرتے ہوئے لاینحل ہے۔۔۔۔اور یہی پیراڈوکس کا مقصد ہوتا ہے۔ کہ انسانی استدلال کی نوعیت ایسی ہے کہ بسا اوقات آپ ہی اپنے دام میں صیاد آجاتا ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:
میرے نزدیک پیراڈوکس کی سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ یہ ایسا مبنی بر تضاد مسئلہ ہوتا ہے کہ جسکا مروجہ(یا تسلیم شدہ) قواعد اور اصول کے اندر رہتے ہوئے حل نکالنا اور تضاد رفع کرنا محال ہو۔۔۔۔ چنانچہ یہ مروجہ قواعد اور اصول کی محدودیت کو واضح کرتا ہے۔ زینو کی پیراڈوکس یقینا آپ نے پڑھی ہونگی۔ حالانکہ خلافِ واقع ہے لیکن اسکے باوجود پیراڈوکس تو ہے۔ یعنی مروجہ اصول و قواعد خلافِ واقع تک بھی پہنچا سکتے ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ملحدین کو فلسفہ و منطق کے مروجہ اصول و قواعد کے اندر رہتے ہوئے خدا کا قائل نہیں کیا جاسکتا، ہاں یہ ضرور ثابت کیا جاسکتا ہے کہ انہی قواعد و ضوابط کے تحت ملحدین کے اپنے اعتقادات بھی تضادات کا شکار ہورہے ہیں چنانچہ بالآخر یہ ثابت ہوتا ہے کہ منطق سے لازم نہیں کہ امرِ واقع تک پہنچا جاسکے۔۔۔۔۔امرِ واقعہ کا علم منطق کا محتاج نہیں ہے
 
آخری تدوین:
معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ ہم ابھی تک دائرے میں ہی گھوم رہے ہیں آپ بار بار غیرمتعلقہ حوالے دے کر اس سارے معاملے کو لایعنی اور بے مقصد ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ثابت ہو نہیں سکا۔۔۔۔آپ تھوڑی دیر کے لئے گرڈل اور ہما و شما کو بھول جائیں اور منطقی اصطلاحات کو بھی ایک سائیڈ پر رکھ کر بطور جج اس مقدمے کا فیصلہ سنائیں۔۔۔فی الحال آپ کیس کی کو عدالت کے دائرہ کار سے باہر قرار دیکر اسکو ناقابلِ سماعت قرار دے رہے ہیں۔۔۔اور یہی اس کیس کی کامیابی ہے ۔
میں راحیل فاروق کی بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ یہ منطقی مغالطہ نہیں ہے بلکہ پیراڈاکس ہے اور مروجہ منطقی و فلسفیانہ قواعد کو استعمال کرتے ہوئے لاینحل ہے۔۔۔۔اور یہی پیراڈوکس کا مقصد ہوتا ہے۔ کہ انسانی استدلال کی نوعیت ایسی ہے کہ بسا اوقات آپ ہی اپنے دام میں صیاد آجاتا ہے۔۔۔

حضور والا یہ قصہ پیراڈاکس کے حوالے سے میرا آخری تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔
دوسری بات: ہماری بحث کا کل مدعا منطق کے محدود ہونے پر ہے۔اور میرا تبصرہ اسی ضمن میں تھا۔
قصہ کے حوالے سے میں نے عرض کی ہے کہ اسے منطق میں معضلہ کی بازگشت یا تردیدی معضلہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ ایک فالیسی ہے۔
حل اس کا صرف یہ ہے کہ یواطلس صرف اسی وقت پیسوں کی ادائگی کا مستحق ہوگا جب وہ اپنا پہلا مقدمہ جیتے گا۔
اب اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً پرطاغورس اس معاہدے سے انکار بھی کر سکتا ہے کہ مقدمہ جیتنے کی کوئی شرط قائم نہیں کی گئی تھی۔ ایسی صورتحال میں یواطلس کو کوئی محکم ثبوت لانا ہوگا جس سے معاہدہ درست ثابت ہوجائے۔
اگر وہ ایسا ثبوت لانے میں ناکام رہتا ہے تو فیصلہ پرطاغورس کے حق میں بموجودگی ثبوت کے ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں یواطلس پر ادائیگی واجب ہوگی۔
اگر پرطاغورس بغیر کسی ثبوت اس معاہدے کا قبول کرتا ہے کہ مقدمہ جیتنے کی شرط رکھی گئی تھی تو مقدمہ بھی یو اطلس کے حق میں ہوگا لیکن وہ جیتنے کی وجہ سے ادائیگی کا موجب ٹھہرے گا۔
چنانچہ ادائیگی سے بچنے کی صورت کوئی نہیں ہے۔ اور معضلہ کی بازگشت کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ کیونکہ معاہدے کو سچ مانتے ہوئے اسے ہر حال میں ادائیگی کرنی ہوگی۔
 
حضور والا یہ قصہ پیراڈاکس کے حوالے سے میرا آخری تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔
دوسری بات: ہماری بحث کا کل مدعا منطق کے محدود ہونے پر ہے۔اور میرا تبصرہ اسی ضمن میں تھا۔
قصہ کے حوالے سے میں نے عرض کی ہے کہ اسے منطق میں معضلہ کی بازگشت یا تردیدی معضلہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ ایک فالیسی ہے۔
حل اس کا صرف یہ ہے کہ یواطلس صرف اسی وقت پیسوں کی ادائگی کا مستحق ہوگا جب وہ اپنا پہلا مقدمہ جیتے گا۔
اب اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً پرطاغورس اس معاہدے سے انکار بھی کر سکتا ہے کہ مقدمہ جیتنے کی کوئی شرط قائم نہیں کی گئی تھی۔ ایسی صورتحال میں یواطلس کو کوئی محکم ثبوت لانا ہوگا جس سے معاہدہ درست ثابت ہوجائے۔
اگر وہ ایسا ثبوت لانے میں ناکام رہتا ہے تو فیصلہ پرطاغورس کے حق میں بموجودگی ثبوت کے ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں یواطلس پر ادائیگی واجب ہوگی۔
اگر پرطاغورس بغیر کسی ثبوت اس معاہدے کا قبول کرتا ہے کہ مقدمہ جیتنے کی شرط رکھی گئی تھی تو مقدمہ بھی یو اطلس کے حق میں ہوگا لیکن وہ جیتنے کی وجہ سے ادائیگی کا موجب ٹھہرے گا۔
چنانچہ ادائیگی سے بچنے کی صورت کوئی نہیں ہے۔ اور معضلہ کی بازگشت کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ کیونکہ معاہدے کو سچ مانتے ہوئے اسے ہر حال میں ادائیگی کرنی ہوگی۔
جناب آپ بطور جج یہ نہ کہیں کہ اس مقدمے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں چنانچہ میں یہ فیصلہ بھی کرسکتا ہوں اور وہ بھی۔دو متضاد فیصلے کوئی جج ایک ہی مقدمے میں نہیں سناتا۔۔۔آپ نے بطور جج ایک فریق کے حق میں فیصلہ سنانا ہے یا پھر کیس کو ڈسمس کرنا ہے۔۔۔۔۔اگر اپ ڈسمس کرتے ہیں تو کہانی کا مقصد پورا ہوگیا۔۔۔لیکن اگر آپ کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں تو وہ فیصلہ یہاں لکھئیے اور اس کے حق میں دلائل دیجئے
 
جناب آپ بطور جج یہ نہ کہیں کہ اس مقدمے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں چنانچہ میں یہ فیصلہ بھی کرسکتا ہوں اور وہ بھی۔دو متضاد فیصلے کوئی جج ایک ہی مقدمے میں نہیں سناتا۔۔۔آپ نے بطور جج ایک فریق کے حق میں فیصلہ سنانا ہے یا پھر کیس کو ڈسمس کرنا ہے۔۔۔۔۔اگر اپ ڈسمس کرتے ہیں تو کہانی کا مقصد پورا ہوگیا۔۔۔لیکن اگر آپ کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں تو وہ فیصلہ یہاں لکھئیے اور اس کے حق میں دلائل دیجئے

میں اپنی بات مکمل لکھ چکا ہوں۔
کیونکہ معاہدے کو سچ مانتے ہوئے اسے ہر حال میں ادائیگی کرنی ہوگی۔

اس سے آگے کچھ بھی لکھنے سے قاصر ہوں۔
معذرت۔
خوش رہیں۔
 
بتائیے کیا یہ استدلال درست ہے؟ اگر نہیں تو اس میں کونسا غیر منطقی اصول استعمال کیا گیا ہے؟
استدلال صد فی صد غلط ہے۔ گھوڑے کا نایاب ہونا یا نہ ہونا اپنی آزادنہ حیثیت میں تو سند رکھتا ہے، ایک روپے میں نایاب ہونا نہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ارسطو کا بانئِ منطق ہونا فیِ نفسہ معنی خیز ہے مگر مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ وہ زید کی نسبت زیادہ یا کم بانئِ منطق ہے تو یہ بے معنی بات ہو گی۔ ایک پروپوزیشن اگر کلیتاً درست یا غلط ہے اور آپ اسے فقط جزو کے مقابل درست یا غلط قرار دیتے ہوئے استدلال کی بنیاد ہی اس پر رکھتے ہیں تو دلیل ضرور ناقص ہو گی۔ کسی پروپوزیشن کے کانٹنٹ میں موجود خامی کا محاکمہ کرنا منطق اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتی۔یہ بذاتِ خود منجملہ حدودِ منطق میں سے ہے۔
پیراڈاکس کی تعریف آپ نے درست کی ہے۔ متفق۔ لیکن اس کی مثال میں آپ نے واقعہ پیش کیا ہے وہ قطعاً غلط ہے۔ کیونکہ نہ تو اس قول میں کوئی تضاد ہے۔ نہ کوئی منطقی محال لازم آتا ہے۔ اگر وہ شخص پانی نہ پیے تو اس پر حملہ نہ کیا جائے گا۔ چاہے وہ کبھی بھی نہ پیے۔ اس میں کونسا منطقی "محال" لازم آیا میں سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے پوسٹ کے قصے کو پیراڈاکس یا قول محال کہا۔ حالانکہ لاجکل پیراڈاکس کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ یہ سیلف ریفرنگ یا سیلف ڈسٹرکٹو ہوتا ہے۔ جب کہ پوسٹ میں مذکور مسئلہ سیلف ڈسٹرکشن یا سیلف ریفرنس کا ہے ہی نہیں۔
حضرت علی والے واقعے میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بنیادی نزاع حملے کا ہے۔ پانی پینا صرف ایک شرط ہے جو حملے کو موخر کرنے کے لیے قبول کی گئی۔ شخصِ مذکور نے اس شرط کو بعد ازاں وہ بنیادی حیثیت عطا کر دی جو شروع میں اس کا حصہ نہیں تھی۔ جبکہ مولا علی کے نزدیک عموم کے موافق شرط کی حیثیت فقط تاخیر کی تھی۔ گڑبڑ یہ ہے کہ یہ صورتِ حال دونوں تاویلات کی گنجائش رکھتی ہے جو میرے نزدیک عین تضاد ہے۔
بعینہ مقدمے والے قصے میں بنیادی حیثیت علم کی مکمل تدریس کی تھی جو استاد کے ذہن میں رہی۔ مقدمہ جیتنا فقط تکمیل کی ایک علامت تھا جسے شاگرد نے بعدازاں بنیادی حیثیت تفویض کر دی۔ صورتِ حال یہاں بھی ہر دو تاویلات کی متحمل ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی بنا پر میں انھیں پیراڈوکسز قرار دیتا ہوں۔
 
مزمل شیخ بسمل بھائی، آپ سے گفتگو میں مزا آ رہا ہے۔ کم لوگ ہیں جو یہ فہم رکھتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ گفتگو جاری رکھیے۔ کٹ حجتی میں نہیں کروں گا۔ واللہ آپ دیکھیں گے کہ میں غلط ثابت ہوا تو مان جاؤں گا۔ لیکن کچھ دیر تو رک جاؤ برسات کے بہانے! میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ بار بار گریز کرتے ہیں۔ کوئی مصروفیت ہے تو الگ بات ہے ورنہ میں سننا چاہتا ہوں آپ کو۔:in-love:
 
مزمل شیخ بسمل بھائی، آپ سے گفتگو میں مزا آ رہا ہے۔ کم لوگ ہیں جو یہ فہم رکھتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ گفتگو جاری رکھیے۔ کٹ حجتی میں نہیں کروں گا۔ واللہ آپ دیکھیں گے کہ میں غلط ثابت ہوا تو مان جاؤں گا۔ لیکن کچھ دیر تو رک جاؤ برسات کے بہانے! میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ بار بار گریز کرتے ہیں۔ کوئی مصروفیت ہے تو الگ بات ہے ورنہ میں سننا چاہتا ہوں آپ کو۔:in-love:

دوست آپ کی خواہش سر آنکھوں پر۔ لیکن میں نے کسی بھی قسم کے مباحث میں حصہ لینا کافی عرصہ ہوا ترک کردیا ہے۔یہ تو اتفاق سے بات نکلی اور بڑھتی ہی چلی گئی۔
دوسری بات یہ ہے کہ میرا موضوع فلسفہ اور اس کے ضمنی تناظرات ہیں۔ اسی حوالے سے مضامین لکھا کرتا ہوں۔ اور قاری بھی تقریباً اسی شعبے کا ہوتا ہے تو ابلاغ میں کوئی زیادہ دقت نہیں ہوتی۔ میں نے تو اس لڑی میں ابتدائی طور پر ہی ہار مان لی ہے۔ اور یہ اندیشہ میرے پیش نظر رہا کہ میں اپنا مدعا بیان کرنے کے باوجود سمجھا نہیں سکوں گا۔ اس کی وجہ کسی کا صحیح یا غلط ہونا نہیں بلکہ تناظرات کا فرق ہے۔ لاجیکل پیراڈاکسز اور منطقی چیستانیں ہزار سال سے فلسفہ کے سوالات ہیں۔ اور مختلف فلاسفہ نے ان کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔ اس کے برعکس منطق کا عام طالب علم انہیں غیر مشروط طور پر ناقابلِ ادراک تصور کرتا ہے۔ جبکہ فلسفۂ منطق کا کام انکی درست توجیہہ کرنا ہے جو ایک اپیسٹیمولوجیکل بحث ہے۔ اسی حوالے سے میں کرٹ گرڈل کے تھیورمز کا حوالہ دے رہا تھا جو کہ پوسٹ سے غیر متعلق قطعاً نہیں بلکہ "فلسفۂ منطق" کی پہیلیوں کی مضبوط اور معتبر ترین توجیہہ ہے۔
خیر میں چونکہ ہار مان ہی چکا ہوں اس لیے غلط اور صحیح ثابت ہونے کی تو بحث ہی باقی نہیں رہتی۔ یوں بھی آج کل بحث و مباحث سے جان جاتی ہے کہ مشغولیات بہت کٹھن قسم کی ہیں۔ امید ہے برا نہیں منائیں گے۔ :) :) :)
سلامت رہیں۔
بار دگر۔
بہت آداب۔
 
Top