طبقاتی فرق کا مقصد
یہ طبقاتی فرق انسان کے لیے ایک امتحان ہے کہ اس فرق کا استعمال بندہ کس طور پر کرتا ہے؟ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ہے:
وَہُوَ الذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰئِفَ الاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَا اٰتٰکُم انَّ رَبّک سریعُ العقابِ وَانہ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْم (۶:۱۶۶)
ترجمہ: اللہ پاک ہی نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور
باہم فرق مراتب رکھا تاکہ تم کو عطا کردہ چیز کے بارے میں آزمائے، بیشک تیرا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور وہ یقینا بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔
* والدین اور اولاد دو مختلف طبقے ہیں، مگر اسلام نے دونوں کے مراتب کا مکمل لحاظ رکھتے ہوئے قانونی ہدایات دی ہیں، ایک طرف والدین کا اتنا عظیم حق بتایا گیا کہ ان کے سامنے اُف تک کہنے کی اجازت نہیں ہے، قرآن کریم میں ہے:
وَبِالْوَالِدَیْنِ احْسَاناً امَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الکِبَرَ أحَدُہُمَا أوْ کِلاَہُمَا فَلا تَقُل لَّہُمَا أفٍ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْراً (الاسراء:۲۴)
ترجمہ: اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف نہ کہو اور نہ جھڑکو، ان سے اچھے لہجے میں بات کرو اور رحمت وانکسار کے ساتھ ان کے آگے جھک جاؤ اور ان کے لیے دعاکرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما، جس طرح انھوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔
احادیث میں والدین کے حق کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی مقدم بتایاگیا ہے، حضرت عبداللہ ابن مسعود روایت کرتے ہیں:
﴿قُلْتُ یَا رسولَ اللّٰہِ أیُّ العَمَلِ أحَبُّ الی اللّٰہِ؟ قَالَ: الصلاةُ علٰی وَقْتِہَا قُلْتُ ثُمَّ أيٌّ؟ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ، قُلْتُ ثُمَّ أيٌّ؟ قالَ الجہادُ فی سبیلِ اللّٰہ﴾
(بخاری مواقیت الصلوٰة: ۵۰۴، مسلم کتاب الایمان ۸۵، ترمذی باب البر والصلة ۱۸۹۸، نسائی المواقیت ۶۱۰، احمد ۱/۴۳۹، دارمی الصلوٰة ۱۲۲۵)
ترجمہ: میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ پاک کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا، وقت پر نماز پڑھنا، میں نے عرض کیا، اس کے بعد کس عمل کا درجہ ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، میں نے عرض کیا پھر کون سا عمل؟ آپ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ۔
دوسری طرف والدین کو اپنی اولاد کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی اورانسان پر اولاد کی تعلیم و تربیت کی پوری ذمہ داری ڈالی گئی اور کہا گیا کہ اس سلسلے میں اللہ کے دربار میں ان کو جوابدہی کا سامنا کرنا ہوگا، ایک حدیث کے الفاظ ہیں:
﴿وَالرَّجُلُ رَاعٍ فی أہلہ ومَسْئُولٌ عن رَعِیَّتِہ﴾ (بخاری باب الجمعہ:۸۵۳)
ترجمہ: مرد اپنے گھروالوں کا نگراں ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپرس ہوگی۔
اولاد کو انسان کی سب سے بڑی پونجی اور صدقہٴ جاریہ قرار دیاگیا، ارشاد نبوی ہے:
﴿اذا مَاتَ العبدُ انقطَعَ عَمَلُہ الاّ مِنْ ثلاثٍ: صَدَقَةٌ جَارِیةٌ أو عِلمٌ یُنْتَفَعُ بِہ مِنْ بَعْدہ أو وَلدٌ صَالِحٌ یَدْعُو لہ﴾ (مسلم الوصیة:۱۶۳۱)
ترجمہ: جب انسان مرجاتاہے تو اس کا عمل بند ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے کہ ان کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے: (۱) صدقہٴ جاریہ (۲) ایسا علم جس سے بعد میں بھی نفع اٹھایا جاسکے (۳) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔
* نکاح کے باب میں اولیاء کو ہدایت دی گئی کہ بالغ لڑکیوں کا نکاح ان کی مرضی کے بغیر نہ کیا جائے، ورنہ نکاح درست نہیں ہوگا۔
﴿وَالْبِکْرُ تُسْتَأذَنُ فی نَفْسِہا وَاذْنُہَا صمَاتُہا، متفق علیہ﴾ (مشکوٰة باب الولی فی النکاح ص:۲۷۰)
ترجمہ: کنواری لڑکی سے اجازت لی جائے گی، اور اس کی اجازت کا مطلب خاموشی ہے۔
دوسری طرف لڑکیوں کو متنبہ کیاگیا کہ اپنے اولیا کے مشورہ کے بغیر نکاح نہ کریں، جو عورت بغیر کسی مجبوری کے ایسا کرے گی وہ بے حیائی اور گناہ کی مرتکب قرار دی جائے گی، ارشاد نبوی ہے:
﴿أیُّمَا امْرَأة نَکَحَتْ نَفْسَہَا بِغَیْرِ اذنِ وَلِیِّہا فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، رواہ احمد والترمذی﴾ (مشکوٰة:۲۷۰)
ترجمہ: جو عورت اپنے ولی کی مرضی کے بغیر اپنا نکاح کرے گی اس کا نکاح باطل ہے۔
* میاں اور بیوی گھریلو زندگی کے بڑے ستون ہیں،
ازدواجی زندگی میں دونوں کو الگ الگ ہدایات دی گئیں، شوہر سے کہا گیا کہ تمہاری یک گونہ فضیلت کے باوجود ان کے حقوق کے معاملہ میں تم اسی طرح جواب دہ ہو جس طرح کہ وہ تمہارے معاملے میں جواب دہ ہیں:
﴿وَلَہُنَّ مِثْلُ الذِی عَلَیْہِنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلیہن درجة﴾ (بقرہ:۲۲۸)
ترجمہ:
عورتوں کا مردوں پر اتنا ہی حق ہے، جتنا مردوں کا ان پر ہے؛ البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔
جولوگ اپنے گھروالوں کے ساتھ اچھے طور پر رہتے ہیں، ان کو سوسائٹی کا اچھا آدمی قرار دیاگیا ، نبی کریم … نے ارشاد فرمایا:
خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَہْلِہ وَأنَا خَیْرُکُمْ لِاَہْلِی الحدیث رواہ الترمذی والدارمی․ (مشکوٰة باب عشرة النساء:۲۸۱)
تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔
عورتوں کی دلدہی کا اس قدر خیال رکھا گیا کہ ان کی جبری اصلاح سے بھی روکا گیا، ارشاد فرمایاگیا:
﴿انَّ الْمَرْأةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ وَلَنْ تَسْتَقِم لکَ علٰی طریقةٍ فانِ اسْتَمْتَعْتَ بِہَا اِسْتَمْتَعْتَ بِہا وَفِیْہا عِوَجٌ وَانْ ذَہَبْتَ تُقِیْمُہا کَسَرْتَہا وَکَسْرُہَا طَلاَقُہا﴾ (صحیح مسلم الرضاع: ۱۴۶۸)
ترجمہ:
بیشک عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور وہ کبھی تمہارے ایک راستے پر سیدھی نہیں چل سکتی، پس اس سے جو نفع اٹھاسکتے ہو اٹھالو، اس میں کجی ہے اگر تم اس کو ٹھیک کرنے کے درپے رہے تو اس کو توڑ ڈالوگے،( توڑنے کا مطلب طلاق ہے)۔
ایک حدیث میں ہے:
﴿لاَیَفرکُ موٴمنٌ موٴمنةً ان کَرِہَ منہا خُلُقاً رَضِیَ منہا خُلُقاً آخرَ﴾ (مسلم الرضاع ۱۴۶۹، احمد ۲/۳۲۹)
ترجمہ:
کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے؛ اس لیے کہ اگر ایک بات ناپسند ہوگی تو دوسری کوئی بات ضرور پسند آئے گی۔
دوسری طرف عورت کو تنبیہ کی گئی کہ:
﴿لَوْ کُنْتُ آمِراً أحداً ان یَسْجُدَ لِأحَدٍ لأمرتُ المرأةَ تَسْجُدُ لِزَوْجِہَا وَلَو أَمَرَہَا أنْ تَنْتَقِلَ مِنْ جَبَلِ أصفرَ الٰی جَبَلِ أسودَ وَمِنْ جَبَلِ أسودَ الٰی جَبَلِ أبْیَضَ کَانَ ینبغی لَہا أنْ تَفْعَلَہ﴾ (رواہ احمد والترمذی الرضاع ۱۵۹، مشکوٰة باب الخلع والطلاق ص۲۸۳)
ترجمہ:
اگرمیں کسی کو کسی کا سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کا سجدہ کرے اور اگر شوہر حکم دے کہ زرد پہاڑ سے سیاہ پہاڑ پر چلی جائے اور سیاہ پہاڑ سے سفید پہاڑ کی طرف منتقل ہوتو عورت کو یہ حکم مان لینا چاہیے۔
ایک حدیث میں ہے کہ:
﴿اذَا دَعَا الرَّجُلُ الٰی فِرَاشہ فَأبَتْ أَنْ تَجِیءَ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْہَا لَعَنَتْہَا المَلائِکَةُ حَتی تَصْبَحَ﴾ (بخاری باب بدء الخلق ۳۰۶۵، مسلم النکاح ۱۴۳۶)
ترجمہ:
مرد اگر اپنی بیوی کو اپنے پاس بلائے اور عورت آنے سے انکار کردے، پھر شوہر اس سے ناراض ہوکر سوجائے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔
ایک دوسری حدیث میں ہے:
﴿لَا یَحِلُّ لامْرَأةٍ أنْ تَصُوْمَ و زَوْجُہا شاہدٌ الّا باذنہ، ولا تأذن لأحد فی بیتہ الا باذنہ﴾ (البخاری، النکاح ۴۸۹۹، مسلم الزکاة ۱۰۲۶، احمد۲/۳۱۶)
ترجمہ:
کسی عورت کے لیے درست نہیں کہ شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفل) روزہ رکھے یاکسی کو اس کی مرضی کے بغیر اس کے گھر میں آنے کی اجازت دے۔
شوہر کی رضا مندی کو عورت کے لیے جنت میں داخلہ کا وسیلہ قرار دیاگیا، حضرت ام سلمہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ … نے ارشاد فرمایا:
أیُّما اِمْرَأةٍ مَاتَتْ وَزَوْجُہا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ (الترمذی الرضاع ۱۱۶۱، ابن ماجہ النکاح ۱۸۵۴)
ترجمہ:
جو عورت مرجائے اور اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔
* ایک طرف امراء وحکام کو عدل وانصاف، ادائے امانت، رحم وکرم، خوف خدا اور قانون کی بالادستی کی تاکید کی گئی، ﴿الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُہُمُ الرَّحمٰنُ اِرْحَمُوا مَنْ فِی الأرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فی السَّماء﴾ (رواہ ابوداؤد والترمذی:۴۳۲)
ترجمہ: رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، اہل زمین پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔