محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
پیش قدمی
نواز شریف نے بالآخر خاموشی توڑ دی۔ اہم بات یہ کہ اُنھوں نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ بہت کھلے اور واضح الفاظ میں اسٹبلشمنٹ پر قومی اتفاق رائے کو بگاڑنے اور سیاسی عمل کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا الزام لگایا۔اس سے بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں۔ نواز شریف کو ایسا لہجہ اختیار کرنے کی کس نے شہ دی؟ تحریک انصاف کی حکومت نے اُن کی تقریر نشر کرنے کی اجازت کیوں دی؟ کیا اُن کی اسٹبلشمنٹ مخالف تقریر نے مسلم لیگ نون کو تقویت پہنچائی ہے یا زک؟ کیا ن لیگ اسٹبلشمنٹ مخالف اور اسٹبلشمنٹ نواز دھڑوں میں بٹ جائے گی، جس کی پیش گوئی سیاسی نجومی، شیخ رشید کرتے رہے ہیں؟
بہت دیر سے یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ نواز شریف کی خاموش جلاوطنی کے پیچھے شہباز شریف اوراسٹبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی کسی قسم کی ”مفاہمت“ کا عمل دخل ہے۔ اس کے مطابق اسٹبلشمنٹ کی اہم ضروریات کا خیال رکھنے کے عوض مسلم لیگ ن کی قیادت کو نسبتاً محفوظ راستہ دیا جاسکتا ہے۔ زیادہ شفاف سیاسی بندوبست کا اہتمام بھی ہوجائے گا۔ بلاشبہ یہی وجہ تھی کہ عمران خان مسلم لیگ ن کی قیادت پر بلا تکان حملے کررہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ن لیگ کی قیادت این آر او لینے کی کوشش میں ہے جسے سبوتاژ کرنا ضروری ہے۔ عمران خان کی پوری کوشش رہی ہے کہ ایسے تعلقات کو شروع ہونے سے پہلے ہی بگاڑ دیا جائے۔اب تازہ نیب کیسز مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے تعاقب میں ہیں۔ اُن کے خلاف بھی جو شہباز شریف کی قیادت میں اسٹبلشمنٹ کے حامی سمجھے جاتے تھے۔ ان واقعات نے ن لیگ کے اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ کے غبارے سے ہوا نکال کر نوا زشریف کے اسٹبلشمنٹ مخالف موقف کو تقویت دی ہے۔
اس سفر کا آغاز گزشتہ نومبر کو ہواتھا جب ”سلیکٹرز“ کے خلاف مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کو شہباز شریف کے بیانیے نے نقصان پہنچایا تھا۔اب یہ سفر ایک مرتبہ پھر شروع ہونے جارہا ہے۔ اب اسے نواز شریف کے بیانیے کی حمایت حاصل ہے۔ اگلے مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات سے پہلے اس کاوش کا نتیجہ سامنے آجانا چاہیے۔ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے الائنس کا برقرار رہنا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے لیے موت کی گھنٹی ثابت ہوگا۔ تحریک انصاف کو دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہوجائے گی۔وہ آئین میں ترمیم کرکے ملک پر ہمیشہ کے لیے یک جماعتی نظام مسلط کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ چنانچہ حالات ”اب،یا کبھی نہیں“ تک پہنچ چکے ہیں۔
عمران خان نے نواز شریف کی تقریر پر پابندی لگانے کا سوچا تھا لیکن جب انٹیلی جنس رپورٹس ملیں کہ تقریر عمران مخالف کی بجائے اسٹبلشمنٹ مخالف ہوگی تو اُنھوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ تحریکِ انصاف کی دلیل یہ تھی کہ اس صورت میں اسٹبلشمنٹ فوری ردعمل دکھائے گی اور مسلم لیگ ن کی سرکوبی کرتے ہوئے عمران خان کے ساتھ الائنس کو مزید تقویت دے گی۔ لیکن اُنہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ تقریر کو اتنی پذیرائی ملے گی اور یہ تقریر ن لیگ کے حامیوں میں زندگی کی لہر دوڑادے گی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے ہاتھ ملانے سے کل جماعتی کانفرنس پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کے قیام کا باعث بن جائے گی۔
نواز شریف کی سیاسی فعالیت نے پاکستان مسلم لیگ ن کی توقعات کی مدہم پڑتی ہوئی آنچ کو تیز کردیا ہے۔ بلوچستان، فاٹا، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں اسٹبلشمنٹ مخالف جذبات کی کمی نہیں۔ پی ڈی ایم کی شروعات سے اسٹبلشمنٹ عوامی جذبات کی براہِ راست زد میں آجائے گی۔ ملک کے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر ہونے والی کشمکش میں شدت آتی جارہی ہے۔ قومی سلامتی کے محافظ کے طور پر اسٹبلشمنٹ عوامی جذبات کے مخالف چلنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
ان معروضات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کے پیہم اصرار کے باوجود اسٹبلشمنٹ ایک قدم پیچھے ہٹا کر اپنے دیگر آپشنز پر غور کرسکتی ہے۔ اس صورت میں نیب اور عدلیہ کی طرف سے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے ساتھ نرمی برتنے کا اشارے دکھائی دینا شروع ہوجائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر مزید کریک ڈاؤن ملک کو آئینی بحران سے دوچار کرکے معیشت کو مفلوج کردے گا۔ اور یہ وہ وقت ہے جب معاشرہ بمشکل کوویڈ 19 سے سنبھل کر بحالی کی سانسیں لینے کے قابل ہوا تھا۔
مختصر یہ کہ گھیر ے میں آئی ہوئی نیم جان اپوزیشن کی بحال ہوتی ہوئی سانسیں اسٹبلشمنٹ کے جارحانہ رویے کے نتائج کے برعکس ہیں۔ چنانچہ توقع کی جانی چاہیے کہ کچھ دروازے رفتہ رفتہ کھلنے شروع ہوجائیں گے، ہر چند بہت محتاط طریقے سے۔ اسی نسبت سے تحریک انصاف کی حکومت کے لیے جگہ سکڑتی جائے گی کیونکہ اسٹبلشمنٹ اسے حز ب اختلاف کو دیوار کے ساتھ لگانے کی ذمہ دار سمجھے گی جس کی وجہ سے حزب اختلاف نے اسٹبلشمنٹ کو براہ راست سیاسی محاذ آرائی کا ہدف بنایا ہے۔
شیخ رشید غصے سے بوکھلائے پھرتے ہیں۔ اُن کامسکراہٹ سے لبریز اعتماد ہوا ہوچکا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے نرم مزاج رہنماؤں کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ روابط کی خبریں فاش ہونے سے تصدیق ہوتی ہے کہ عین وقت پر طاقت کا استعمال کیوں موقوف کیا گیا۔ ایسا کرنا فریقین کے لیے کسی طور بہتر نہ تھا۔ کسی کو بھی ایسے روابط پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ در حقیقت نواز لیگ کے حامیوں کو یقین ہے کہ ایسی ملاقاتوں سے ناانصافی کا ازالہ ہونے میں ناکامی سے نواز شریف کے بیانیے کو تقویت ملی ہے۔
اب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی صلاحیت کا بہت بڑا امتحان ہے کہ یہ مل کر کس طرح جدوجہد کرتی ہے۔ اس الائنس میں سب سے کمزور کڑی پیپلز پارٹی ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے گرنے، سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب اوربعد میں عدم اعتماد کے ووٹ میں قدم پیچھے کھنچ لینے سے اس کی موقع پرستی کی ایک طویل فہرست ترتیب پاتی ہے۔ اس کے سامنے مشکل یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو تو صرف اپنے راہ نماؤں کی قید و بند کی پریشانی ہے، لیکن اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے سندھ حکومت نکل سکتی ہے اگرپی ڈی ایم کی محاذ آرائی کا نتیجہ اس کے حق میں نہ نکلا۔
نواز شریف اور فضل الرحمن اُس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں اُن کے پاس زنجیریں کھونے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ چنانچہ اُنھوں جارحانہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ آگے قدم بڑھاتے ہوئے آصف زرداری اور شہباز شریف اگر نوشتہ ئ دیوار پڑھنے میں ناکام رہے تو وہ سب کے پاؤں پر کلہاڑی بھی مارسکتے ہیں
پیش قدمی
نواز شریف نے بالآخر خاموشی توڑ دی۔ اہم بات یہ کہ اُنھوں نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ بہت کھلے اور واضح الفاظ میں اسٹبلشمنٹ پر قومی اتفاق رائے کو بگاڑنے اور سیاسی عمل کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا الزام لگایا۔اس سے بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں۔ نواز شریف کو ایسا لہجہ اختیار کرنے کی کس نے شہ دی؟ تحریک انصاف کی حکومت نے اُن کی تقریر نشر کرنے کی اجازت کیوں دی؟ کیا اُن کی اسٹبلشمنٹ مخالف تقریر نے مسلم لیگ نون کو تقویت پہنچائی ہے یا زک؟ کیا ن لیگ اسٹبلشمنٹ مخالف اور اسٹبلشمنٹ نواز دھڑوں میں بٹ جائے گی، جس کی پیش گوئی سیاسی نجومی، شیخ رشید کرتے رہے ہیں؟
بہت دیر سے یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ نواز شریف کی خاموش جلاوطنی کے پیچھے شہباز شریف اوراسٹبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی کسی قسم کی ”مفاہمت“ کا عمل دخل ہے۔ اس کے مطابق اسٹبلشمنٹ کی اہم ضروریات کا خیال رکھنے کے عوض مسلم لیگ ن کی قیادت کو نسبتاً محفوظ راستہ دیا جاسکتا ہے۔ زیادہ شفاف سیاسی بندوبست کا اہتمام بھی ہوجائے گا۔ بلاشبہ یہی وجہ تھی کہ عمران خان مسلم لیگ ن کی قیادت پر بلا تکان حملے کررہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ن لیگ کی قیادت این آر او لینے کی کوشش میں ہے جسے سبوتاژ کرنا ضروری ہے۔ عمران خان کی پوری کوشش رہی ہے کہ ایسے تعلقات کو شروع ہونے سے پہلے ہی بگاڑ دیا جائے۔اب تازہ نیب کیسز مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے تعاقب میں ہیں۔ اُن کے خلاف بھی جو شہباز شریف کی قیادت میں اسٹبلشمنٹ کے حامی سمجھے جاتے تھے۔ ان واقعات نے ن لیگ کے اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ کے غبارے سے ہوا نکال کر نوا زشریف کے اسٹبلشمنٹ مخالف موقف کو تقویت دی ہے۔
اس سفر کا آغاز گزشتہ نومبر کو ہواتھا جب ”سلیکٹرز“ کے خلاف مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کو شہباز شریف کے بیانیے نے نقصان پہنچایا تھا۔اب یہ سفر ایک مرتبہ پھر شروع ہونے جارہا ہے۔ اب اسے نواز شریف کے بیانیے کی حمایت حاصل ہے۔ اگلے مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات سے پہلے اس کاوش کا نتیجہ سامنے آجانا چاہیے۔ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے الائنس کا برقرار رہنا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے لیے موت کی گھنٹی ثابت ہوگا۔ تحریک انصاف کو دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہوجائے گی۔وہ آئین میں ترمیم کرکے ملک پر ہمیشہ کے لیے یک جماعتی نظام مسلط کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ چنانچہ حالات ”اب،یا کبھی نہیں“ تک پہنچ چکے ہیں۔
عمران خان نے نواز شریف کی تقریر پر پابندی لگانے کا سوچا تھا لیکن جب انٹیلی جنس رپورٹس ملیں کہ تقریر عمران مخالف کی بجائے اسٹبلشمنٹ مخالف ہوگی تو اُنھوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ تحریکِ انصاف کی دلیل یہ تھی کہ اس صورت میں اسٹبلشمنٹ فوری ردعمل دکھائے گی اور مسلم لیگ ن کی سرکوبی کرتے ہوئے عمران خان کے ساتھ الائنس کو مزید تقویت دے گی۔ لیکن اُنہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ تقریر کو اتنی پذیرائی ملے گی اور یہ تقریر ن لیگ کے حامیوں میں زندگی کی لہر دوڑادے گی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے ہاتھ ملانے سے کل جماعتی کانفرنس پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کے قیام کا باعث بن جائے گی۔
نواز شریف کی سیاسی فعالیت نے پاکستان مسلم لیگ ن کی توقعات کی مدہم پڑتی ہوئی آنچ کو تیز کردیا ہے۔ بلوچستان، فاٹا، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں اسٹبلشمنٹ مخالف جذبات کی کمی نہیں۔ پی ڈی ایم کی شروعات سے اسٹبلشمنٹ عوامی جذبات کی براہِ راست زد میں آجائے گی۔ ملک کے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر ہونے والی کشمکش میں شدت آتی جارہی ہے۔ قومی سلامتی کے محافظ کے طور پر اسٹبلشمنٹ عوامی جذبات کے مخالف چلنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
ان معروضات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کے پیہم اصرار کے باوجود اسٹبلشمنٹ ایک قدم پیچھے ہٹا کر اپنے دیگر آپشنز پر غور کرسکتی ہے۔ اس صورت میں نیب اور عدلیہ کی طرف سے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے ساتھ نرمی برتنے کا اشارے دکھائی دینا شروع ہوجائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر مزید کریک ڈاؤن ملک کو آئینی بحران سے دوچار کرکے معیشت کو مفلوج کردے گا۔ اور یہ وہ وقت ہے جب معاشرہ بمشکل کوویڈ 19 سے سنبھل کر بحالی کی سانسیں لینے کے قابل ہوا تھا۔
مختصر یہ کہ گھیر ے میں آئی ہوئی نیم جان اپوزیشن کی بحال ہوتی ہوئی سانسیں اسٹبلشمنٹ کے جارحانہ رویے کے نتائج کے برعکس ہیں۔ چنانچہ توقع کی جانی چاہیے کہ کچھ دروازے رفتہ رفتہ کھلنے شروع ہوجائیں گے، ہر چند بہت محتاط طریقے سے۔ اسی نسبت سے تحریک انصاف کی حکومت کے لیے جگہ سکڑتی جائے گی کیونکہ اسٹبلشمنٹ اسے حز ب اختلاف کو دیوار کے ساتھ لگانے کی ذمہ دار سمجھے گی جس کی وجہ سے حزب اختلاف نے اسٹبلشمنٹ کو براہ راست سیاسی محاذ آرائی کا ہدف بنایا ہے۔
شیخ رشید غصے سے بوکھلائے پھرتے ہیں۔ اُن کامسکراہٹ سے لبریز اعتماد ہوا ہوچکا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے نرم مزاج رہنماؤں کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ روابط کی خبریں فاش ہونے سے تصدیق ہوتی ہے کہ عین وقت پر طاقت کا استعمال کیوں موقوف کیا گیا۔ ایسا کرنا فریقین کے لیے کسی طور بہتر نہ تھا۔ کسی کو بھی ایسے روابط پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ در حقیقت نواز لیگ کے حامیوں کو یقین ہے کہ ایسی ملاقاتوں سے ناانصافی کا ازالہ ہونے میں ناکامی سے نواز شریف کے بیانیے کو تقویت ملی ہے۔
اب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی صلاحیت کا بہت بڑا امتحان ہے کہ یہ مل کر کس طرح جدوجہد کرتی ہے۔ اس الائنس میں سب سے کمزور کڑی پیپلز پارٹی ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے گرنے، سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب اوربعد میں عدم اعتماد کے ووٹ میں قدم پیچھے کھنچ لینے سے اس کی موقع پرستی کی ایک طویل فہرست ترتیب پاتی ہے۔ اس کے سامنے مشکل یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو تو صرف اپنے راہ نماؤں کی قید و بند کی پریشانی ہے، لیکن اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے سندھ حکومت نکل سکتی ہے اگرپی ڈی ایم کی محاذ آرائی کا نتیجہ اس کے حق میں نہ نکلا۔
نواز شریف اور فضل الرحمن اُس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں اُن کے پاس زنجیریں کھونے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ چنانچہ اُنھوں جارحانہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ آگے قدم بڑھاتے ہوئے آصف زرداری اور شہباز شریف اگر نوشتہ ئ دیوار پڑھنے میں ناکام رہے تو وہ سب کے پاؤں پر کلہاڑی بھی مارسکتے ہیں
پیش قدمی