اس ایک تجربہ اور کہ اگر عماد نستعلیق کا ترچھا پن دور کرکے نقاط کی پلیسمنٹ کو درست کیا جائے تو پھر کیسا نظر آئے گا:
میرے خیال میں موخر الذکر فانٹ ہمارے روایتی لاہوری نستعلیق سے بہت ملتا جلتا ہوجائے گا۔ میرے خیال میں اس کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔
بھائی جی،
سب سے پہلے تو آپ سے درخواست ہے کہ عماد نستعلیق کا گرے سکیلنگ والا ورژن ڈاونلوڈ کر لیں۔ اسکے بغیر یہ فونٹ 10 یا 12 کے سائز پر اچھا ڈسپلے نہیں دیتا۔ جبکہ گرے سکیلنگ کے بعد اسکی خوبصورتی میں بہت بڑا اضافہ ہو جاتا ہے۔
دوسری بات، آپ نے اوپر عماد نستعلیق کو سیدھا کھڑا کرنے کی کوشش تو بہت اچھی ہے مگر عماد نستعلیق کو کھڑی حالت میں لاتے لاتے اسکا حسن یقینا کافی حد تک مثاثر ہو گا۔
ابتک فونٹز کے میدان میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھ کر میری رائے یہ ہے:
1۔ کہتے ہیں کہ کسی چیز کی اہمیت اور حسن اسکے متضاد سے پہچانا چاتا ہے۔ جیسے دن کے اجالے کی پہچان رات کے اندھیرے کی وجہ سے زیادہ بہتر ہوتی ہے۔
اسی طرح کہتے ہیں کہ جب دو چیزیں ایک دوسرے کے بہت قریب ہوں تو اُن کی اہمیت اور حسن کم ہو جاتا ہے۔ مثلا یورپ میں سارے گورے ہی گورے ہیں اس لیے ہر گورا شخص یہ کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ Sun Bath لے کر اپنے گورے رنگ کو کم کر سکے اور یون دوسرے گوروں میں ممتاز ہو سکے۔
یہی حال ہمارے ملک کا ہے جہاں گورا کرنے والی کریمیں استعمال کر کے لوگ باقیوں سے ممتاز ہونا چاہتے ہیں۔
تمہید کا مقصد یہ ہے کہ:
۔ اردو کے تمام فونٹز مثلا نوری نستعلیق، لاہوری نستعلیق ایک دوسرے سے بہت ملتے ہیں اور صرف ان میں انیس بیس کا فرق ہے۔ لوگ بہت آسانی سے اس بات پر کمپرومائیز کر سکتے ہیں کہ اگر انکے پاس لاہوری نستعلیق نہیں تو وہ نوری نستعلیق کے لگیچرز والے فونٹ پر اکتفا کر لیں۔
اسکے مقابلے میں عماد نستعلیق ان تمام اردو سٹائلز سے کافی ممتاز ہے اور یہی چیز اسے مزید اہمیت اور حسن بخشتی ہے۔
ذرا تصور کیجئیے، ایک صفحہ کے ٹیکسٹ میں سارا ٹیکسٹ نوری نستعلیق میں لکھا جا رہا ہے، مگر بیچ میں ایک مصرعہ یا شعر یا رباعی یا غزل آپ لاہوری نستعلیق میں لکھنا چاہیں گے یا پھر اس چیز کو باقی سے ممتاز کرنے کے لیے عماد نستعلیق کا استعمال کرنا چاہیں گے؟
۔ عماد نستعلیق پر بہت بڑا اعتراض ہے کہ لوگ اسکو اسکی ترچھی اداووں کی وجہ سے قبول نہیں کریں گے۔
جبکہ میرا مشاہدہ کہتا ہے کہ برصغیر کے لوگ اردو شعر و شاعری میں پچھلی صدی سے ہی عماد نستعلیق جیسے فونٹ ۔۔۔۔۔ اور صرف عماد نستعلیق جیسے فونٹ ہی کو قبول کرتے اور استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ اور اگر آج بھی انہیں عماد نستعلیق اور بقیہ اردو نستعلیقی سٹائیل کے فونٹز دے دیے جائیں، تو وہ شعر و شاعری کے لیے صرف اور صرف عماد نستعلیق کا ہی انتخاب کریں گے۔
عماد نستعلیق کے موجودہ ترچھے ورژن میں لگیچرز ڈالنے کا فائدہ
۔ ہمارے پاس جلد ہی نوری نستعلیق کا لگیچر بیسڈ فونٹ بھی ہاتھوں میں ہو گا۔ اسکی موجودگی میں اگر ہم لاہوری نستعلیق کا بھی لگیچر بیسڈ فونٹ بنائیں تو اس سے میدان میں کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ دونوں فونٹز کا ایک ہی صفحے پر استعمال انہیں ایک دوسرے سے زیادہ ممتاز نہیں کرتا۔
۔ اور پھر لاہوری نستعلیق میں لگیچرز ڈالنے میں فی الحال بنانے میں سب سےبڑی قباحت یہ ہے کہ ابتک ہمارے پاس بنیاد بنانے کے لیے کوئی بھی کریکٹر بیسڈ اچھا لاہوری نستعلیق فونٹ موجود نہیں ہے [نفیس نستعلیق کو بنیاد بنانا بہت بڑی غلطی ثابت ہو سکتا ہے]
۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم امجد علوی صاحب کے خط رعنا والے نستعلیق فونٹ کا انتظار کریں اور پھر یہ فیصلہ کریں کہ اس کو لاہوری نستعلیق میں ڈھال کر اس میں لاہوری نستعلیق کے لگیچرز کا اضافہ کیا جائے۔
۔ اور اس دوران میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی بجائے ہم اللہ کا نام لیکر عماد نستعلیق میں لگیچرز ڈالنے کا کام شروع کریں تاکہ اس کی رفتار میں اضافہ کیا جا سکے۔
اہم بات یہ ہے کہ عماد نستعلیق کی رفتار مستقبل میں تھوڑی اور کم ہو سکتی ہے کیونکہ اسکو پرفیکٹ بنانے کے لیے میں جواد صاحب سے بات کرنا چاہ رہی تھی کہ اس کے وولٹ ورک میں "تطویل" کا بھی اضافہ کر دیا جائے تاکہ اردو شعر و شاعری کے لیے یہ ایک پرفیکٹ فونٹ بن سکے۔
مگر چونکہ تطویل کو وولٹ ورک میں ڈالنے سے اسکی رفتاز مزید کم ہو سکتی ہے، تو اسکا ازالہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ اس میں لگیچرز بھی ڈال دیے جائیں۔