نسخ کی حمایت میں۔۔۔

طالب سحر

محفلین
مجھے معلوم ہے کہ محفلین کی اکثریت اردو متن کو Perso-Arabic رسم الخط کے نستعلیق اسلوب میں لکھتی اور پڑھتی ہے، اور شاید زیک کے علاوہ کوئی بھی نسخ کا حمایتی نہیں ہے- مجھے بھی نستعلیق اچھا لگتا ہے، لیکن بعض اوقات نسخ میں لکھا ہوا متن زیادہ آسانی سے پڑھا جاسکتا ہے- گو کہ نستعلیق کا عادی ہونے کی وجہ سے مجھے نسخ کے بیشتر ٹائپ فیسز بہت بھدّے لگتے ہیں، لیکن کرلپ کا نفیس پاکستانی ویب نسخ فونٹ اور بی بی سی اردو پر استعمال ہونے والا اردو نسخ ایشیا ٹائپ فونٹ تو بھلا لگتا ہے- خیر یہ تو ہوئی میری ذاتی رائے-

اس سلسلے میں کمال ابدالی صاحب کا ایک مضمون بعنوان "اردو کے رسم الخط کا مسئلہ" نستعلیق کے بعض نظری اور عملی مسائل کی جانب توجہ دلاتا ہے اور نسخ کی حمایت کرتا ہے- یہ مضمون محفلین کی تنقید کا منتظر ہے- یہ پہلی دفعہ The Annual of Urdu Studies کے شمارہ 28 (سن 2013) میں شایع ہوا تھا، اور یہاں سے اتارا جاسکتا ہے- جو لوگ اسے کاغذ پر چھپا ہوا پڑھنا چاہتے ہیں، وہ "آج" کا شمارہ 83 (جون 2014) دیکھ سکتے ہیں-

تدوین: ڈاکٹر کمال ابدالی صاحب کے مضمون کا تازہ نسخہ!
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
فنی مسائل کے بارے میں تو رسم الخط یا فونٹس کے ماہرین ہی اپنی رائے دیں گے۔ لیکن چند ایک گزارشات میری:

-مضمون نگار نے مضمون کے آغاز ہی میں دیوناگری اور لاطینی (رومن) خط کی حمایت کر کے اپنا سارا موقف واضح کر دیا کہ وہ مضمون میں کیا سمت اختیار کریں گے۔ عرض یہ ہے کہ اردو کے عربی رسم الخط کی تبدیلی نہ ہمیں گاندھی جی کے دور میں منظور تھی اور نہ ہی جنرل ایوب کے زمانے میں اس کو لاطینی میں کرنے کی کوشش، اور نہ ہی آئندہ ہوگی۔ عربی رسم الخط، اردو کا جزو لاینفک ہے، اور یقینا ایسا ہی رہے گا۔
-کسی بھی زبان میں کچھ ایسے مسائل ضرور ہوتے ہیں کہ جو اس زبان کا جزو بن چکے ہوتے ہیں اور لوگوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود اس زبان کو استعمال کرنے والے ان مسائل کو قبول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکن لاکھ کوشش کر لیں، انگلش کے اولین استعمال کرنے والے یعنی برطانیہ کے گورے لفظ کلر میں U کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے اور نہ ہی ہونگے۔ لاکھ سر پیٹو کہ بچوں کو یاد کرنے میں آسانی ہوگی، اس کی افادیت بہت ہے لیکن برطانوی گورے تیار نہیں، چاہے امریکن اپنی انگریزی کو امریکن کہنا شروع کر دیں۔ سو اردو والے کیوں خ، ض، ظ، ز وغیرہ کو چھوڑیں۔ اگر اردو میں حروفِ علت کے مسائل ہیں تو ایسے مسائل ہر زبان میں ہوتے ہیں، کس زبان میں نہیں ہیں؟ اس کی وجہ سے صدیوں سے رائج رسم الخط ہی بدل دیں؟
-نستعلیق، اتنا خوبصورت فانٹ ہے کہ لفظ نستعلیق ایک صفت بن چکا ہے۔ نستعلیق فانٹ کہنے میں شاید وہ لطف نہ آئے جتنا یہ کہنے میں کہ "وہ ایک نستعلیق آدمی ہے"۔ فقط ایک لفظ موصوف کی ساری خوبیوں کو بکمال و تمام پڑھنے سننے والوں کی ذہن میں اجاگر کر دیتا ہے۔

ذاتی طور پر مجھے نسخ پڑھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، پڑھنے میں آسان ہے لیکن بعض اوقات بد نما بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن نسخ نستعلیق کی بحث کی آڑ لے کر، اردو کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کی ہر کوشش ناقابل قبول ہے۔

اور آخر میں محض آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ زیک کے علاوہ ایک اور دوست محترم حسان خان صاحب نسخ کے بہت بڑے حامی ہیں۔ اور زیک اور حسان میں شاید یہی ایک قدر مشترک ہے۔ :)
 

فہیم

لائبریرین
بات صرف پڑھنے میں آسانی کی ہو تو "تاہوما" کا کوئی مقابل نہیں دور تک بلکہ بہت دور تک :)
 

محمد وارث

لائبریرین
لیکن کرلپ کا نفیس پاکستانی ویب نسخ فونٹ اور بی بی سی اردو پر استعمال ہونے والا اردو نسخ ایشیا ٹائپ فونٹ تو بھلا لگتا ہے- خیر یہ تو ہوئی میری ذاتی رائے-
ذرا بی بی سی ربط پر کلک کریں، نسخ عمدہ ہے لیکن "موزوں ترین" کو "موضون ترین" لکھنا متنفر کر گیا :)
 
میری رائے میں نسخ اور نستعلیق کی بحث کو عربی اور دیگر رسم الخط کی بحث سے الگ رکھنا چاہئے۔

مضمون میں ایک نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ الفاظ کی ادائیگی واضح نہیں ہوتی اور ے مجہول کی مثال دی ہے۔
اس طرح کی تو کئی مثالیں انگریزی اور دیگر زبانوں سے دی جا سکتی ہیں۔
مثلاً
mint اور mind میں i کی ادائیگی مختلف ہے، کیا اس طرح کے "مسائل" کی بنا پر انگریزی رسم الخط کو تبدیل کیا جا سکتاہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بھئی ہم جیسے جہلاء کو تو تعلیق، فارسی میں نسخ ،عربی میں اور نستعلیق اردو میں اچھا لگتا ہے ۔ باقی اہل علم جانیں۔
 

عباس اعوان

محفلین
دیو ناگری خط تو اردو اہلِ زبان کو کبھی بھی قبول نہیں ہو گا کیوں کہ پھر اردو ختم ہو جائے گی اور صرف ہندی رہ جائے گی۔یہی صورتحال رومن میں تبدیل کرنے کی ہے کہ زبان ثقافت کا حصہ ہوتی ہے، اور ہم ثقافت کے اس اہم جزو کے ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ میں رومن اردو پڑھنا تو دور کی بات، نسخ میں لکھی اردو بھی نہیں پڑھتا، اردو نستعلیق تھی اور نستعلیق ہی رہے گی۔ اور یہ بات سمجھنی چاہیے کہ رسم الخط اور فونٹ دو الگ الگ چیزیں ہیں، کیسا ہی خوبصورت نسخ فونٹ کیوں نہ بنا دیں، ہم تو نستعلیق کے دیوانے رہیں گے۔
 

عباس اعوان

محفلین
دیو ناگری خط تو اردو اہلِ زبان کو کبھی بھی قبول نہیں ہو گا کیوں کہ پھر اردو ختم ہو جائے گی اور صرف ہندی رہ جائے گی۔یہی صورتحال رومن میں تبدیل کرنے کی ہے کہ زبان ثقافت کا حصہ ہوتی ہے، اور ہم ثقافت کے اس اہم جزو کے ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ میں رومن اردو پڑھنا تو دور کی بات، نسخ میں لکھی اردو بھی نہیں پڑھتا، اردو نستعلیق تھی اور نستعلیق ہی رہے گی۔ اور یہ بات سمجھنی چاہیے کہ رسم الخط اور فونٹ دو الگ الگ چیزیں ہیں، کیسا ہی خوبصورت نسخ فونٹ کیوں نہ بنا دیں، ہم تو نستعلیق کے دیوانے رہیں گے۔
فونٹ بنانے کی دشواریوں کی آڑ لے کر رسم الخط تبدیل کرنے کی کوشش مت کریں۔
 
کرنا چاہیئے۔ کئی یورپین زبانوں میں ایسے ریفارم کئے گئے ہیں۔
ریفارم کرنا اور رسم الخط ہی بدل لینا دو مختلف چیزیں ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ زبانوں کے رسم الخط بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ اور کم از کم مجھے یہاں ایسی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
میری رائے میں نسخ اور نستعلیق کی بحث کو عربی اور دیگر رسم الخط کی بحث سے الگ رکھنا چاہئے۔
آپ کی بات درست ہے لیکن کیا کریں کہ مضمون نگار نے اپنی بات ہی یہاں سے شروع کی ہے کہ اردو کو دیوناگری کر دو یا کاش ایسا کر دیتے، دیوناگری نہ سہی کم از کم رومن تو کر دیتے۔ بین السطور، وہ یہ حسرت دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں :)
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
ضمون نگار نے مضمون کے آغاز ہی میں دیوناگری اور لاطینی (رومن) خط کی حمایت کر کے اپنا سارا موقف واضح کر دیا کہ وہ مضمون میں کیا سمت اختیار کریں گے۔ عرض یہ ہے کہ اردو کے عربی رسم الخط کی تبدیلی نہ ہمیں گاندھی جی کے دور میں منظور تھی اور نہ ہی جنرل ایوب کے زمانے میں اس کو لاطینی میں کرنے کی کوشش، اور نہ ہی آئندہ ہوگی۔ عربی رسم الخط، اردو کا جزو لاینفک ہے، اور یقینا ایسا ہی رہے گا۔

آپ کی طرح میں بھی اردو کے فارسی-عربی رسم الخط کا شیدائی ہوں- یہ درست ہے کہ مضمون نگار نے مضمون کے آغاز میں دیوناگری اور لاطینی (رومن) کا ذکر کیا ہے- 13 صفحوں کے اس مضمون میں دو ڈھائی صفحوں کے بعد بات نستعلیق کے مسائل کی گئی ہے اور نسخ کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں۔ بنیادی طور پر اس مضمون کا فوکس رسم الخط کی تبدیلی کے بجائے اس کے اسلوب پر ہے- میری ذاتی رائے میں بات نستعلیق بمقابلہ نسخ کی ہونی چاہیئے- کم از کم میرے مراسلے کا تو یہی مقصد ہے-
 
Top