سائنس میں مذہب کو گھسانے کا نیتجہ یہ نکلتا ہے
اور یہ بھی اہم ہے
(مولوی محبوب عالم نے) اپنے 1900 کے سفرنامے میں برلن کے ٹیکنیکل ہائی اسکول کا ذکر کیا ہے۔ ہم نے بھی جا کر یہ اسکول دیکھا اگرچہ اب یہ یونیورسٹی بن گیا ہے لیکن عمارت وہی پرانی ہے جو مولوی محبوب عالم نے دیکھی تھی۔ ذرا ان کا بیان سنیئے کیسے لٹو ہوئے ان لوگوں پر کہ ہمارے کلاسیکل طرز تعلیم تک کی برائی کر دی۔
"جس چیز نے جرمنی کو بڑی شہرت اور عزت دی وہ یہاں کا پالی ٹکنی گم یعنی ٹیکنیکل ہائی اسکول ہے۔ یہ مدرسہ ایک سو ایک سال سے جاری ہے۔ میں ساڑھے پانچ گھنٹے برابر اس عالی شان تعلیم گاہ کی مختلف منزلوں اور درجوں کا طواف کرتا رہا۔ آدھا بھی نہ دیکھ سکا۔ آرگینگ اور ان آرگینگ کیمسٹری کے تجربے دیکھے۔ آجکل یورپ کے تین ہزار طالب علم یہاں تعلیم پاتے ہیں۔ سوائے ترکی کے یورپ کے ہر ملک کے طالب علم یہاں ہیں۔ ایک عجائب خانہ میں ہر قسم کی مشین کا چھوٹا سا نمونہ طالب علموں کے سمجھانے کے لئے رکھا ہے لیکن ایک دوسری جگہ ایک مکان میں مشینوں کے ہر پرزہ کے مختلف عمل اس کے مختلف حصوں سے دکھائے گئے ہیں۔ عمارات اور پلوں کے ماڈل، دخانی جہازوں کے نمونے، نقشہ کشی، نجاری، علم رنگ کے لکچر کے کمرے اور خدا جانے کتنے کمرے اور لکچر روم۔ جرمنوں کو یہ کہنا ذرا بھی بےجا نہیں کہ اتنا بڑا مدرسہ اس فن کا دنیا میں کوئی دوسرا نہیں۔ مسلمان بڑے ناز سے اب تک یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی میں ایک وقت میں دس ہزار طالب علم پڑھتے ہیں اور مراکو کے فیض کے دارلعلوم میں بھی کئی ہزار طالب علم پڑھتے ہیں ، مگر بھلے آدمیوں دیکھو تو سہی وہ کیا پڑھتے ہیں اور یہ کیا پڑھتے ہیں۔ جن علوم کو الازہر اور فیض میں پڑھایا جاتا ہے وہ اب بوسیدہ ہڈیاں ہو چکی ہیں۔ کو مینبدی پڑھنے والے کو ذرا امریکہ کی مشہور بک یونیورسٹی کی رصدگاہ میں یا گریخ (انگلستان) کی رصد گاہ میں لے جا کر مقابلہ تو کرے کہ وہ فرضی علم ہیت صحیح ہے یا عینی مشاہدہ ستاروں کا عظیم الشان دوربینوں سے۔ جو لوگ اس قسم کے مقابلوں کو پسند نہیں کرتے وہ مجھے معاف رکھیں"۔
آگے چل کر مولوی محبوب عالم دردمندی سے لکھتے ہیں ۔
"اس ٹیکنیکل اسکول کے معائنے کے دوران میں اس کی عظمت اور سامان کو دیکھ کر مجھے اپنا آپ حقیر معلوم ہوتا تھا اور مایوسی ہمت کو ایسا پست کر رہی تھی کہ دل میں خیال گزرتا تھا کہ اس قسم کی زندگی کا تو خود کشی سے خاتمہ کر لینا چاہیے جو ایسی ناکارہ ہے۔ یہ ایک ایسے سلسلہ خیالات کا نتیجہ تھا جس کے یہاں درج کرنے کی ضرورت نہیں لیکن یہ تو روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایسی تعلیم گاہ ابھی دو صدیوں تک قائم نہیں ہو گی"
سچ پوچھئیے تو آجکل ہمارا ایمان بھی ڈانو ڈول ہو رہا ہے کچھ دن پہلے تک ہمارا خیال تھا کہ ہمیں سچا مسلمان بننا چاہیے اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، اب ہمارا خیال ہے کہ سچے مسلمان بننے کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ قوم کو صعنتی تعلیم دینا ہو گی، کارخانے بنانا ہوں گے، اجتماعی فارموں میں ٹریکٹروں اور مشینوں سے کاشت کر کے پیداوار بڑھانی پڑے گی تاکہ ملک کی معیشت مستحکم ہو۔ سب اچھا کمائیں ، پیئیں ، ٹیلی ویژن جناب شیخ ہی کے گھر میں کیوں ہو ، مرید سادہ کے گھر میں کیوں نہ ہو۔یہ لوگ جو آج پڑھ لکھ کر کلرک اورچپڑاسی کی نوکری کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں ، کل مکینک اور خرادئیے ہوں گے تو اپنی خودی کو بھی بلند کر سکیں گے۔ میرے آپ کے محتاج نہیں ہوں گے۔ جب آپ کے کھیت آباد ،کارخانے رواں ، خزانے بھرپور اور لوگ خوش باش ہوں گے تو پھر کیا مجال ہے جو کوئی ہمسایہ یا غیر ہمسایہ ٹیڑھی نظر سے آپ کو دیکھ سکے۔ اس وقت سچے مسلمان بننے کا مزہ بھی زیادہ ہو گا۔ اس وقت تو
شب جو عقد نماز بربندم
چہ خورد بامداد فرزندم
صاحبو ! اوروں کی کیا کہیں۔ ہم نے بھی ساری عمر شاعری ہی کی۔ دوسروں کی شاعری پر واہ واہ اور مکرر ارشاد میں عمر گزار دی۔ کیا کریں ہماری تعلیم ہی سوداؔ اور میرؔ کے کلام سے شروع ہوئی۔ چھٹی جماعت کے اردو کورس میں میرؔ تھے ، خواجہ میر دردؔ تھے، آتشؔ تھے ، سوزوگداز تھا۔ وہ تو خدا بھلا کرے ماسٹر گوردیال سنگھ تھوڑٰی سائینس بھی پڑھا دیتے تھے جس سے کچھ تصور ایصال حرارت اور قوت انابیب شعری اور حیاتین وغیرہ کا اب تک علم ہے اور یہ معلوم ہے کہ فارن ہائیٹ کیا ہوتا ہے۔ مکتب میں پڑھے ہوتے تو جھوم جھوم کر پڑھنا، شام کو روٹیاں مانگ کر لانا ، چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر لڑنا، مین میکھ نکالنا اور اس بات سے غافل رہنا کہ دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی ہے۔ فضا میں کیا ہو رہا ہے خلا میں کیا ہو رہا ہے۔ علم الکلام کے رموز تو استاد نے پڑھا دئیے جابر بن حیان کا نام نہ بتایا۔
جب کپلر اور گلیلیو آسمان میں تھگلی لگا رہے تھے ۔۔۔ ۔ ہم شاعری کر رہے تھے۔
جب واٹ اور اسٹیفن بھاپ کو غلام بنا رہے تھے ۔۔۔ ۔ شاہ نصیر دہلوی کی کوشش تھی کہ کوئی قافیہ بندھنے سے نہ رہ جائے۔
جب ایڈیسن اور مارکونی برق اور آواز کے دیووں کو اسیر کر رہے تھے ۔۔۔ ۔ ہم شعری گلدستے فتنہؔ اور عطر فتنہ نکال رہے تھے۔
جب رائٹ برادران کلوں سے ہوا میں اڑ رہے تھے ۔۔۔ ہم اور رجب علی بیگ سرور لفظوں کے طوطا مینا بنا رہے تھے۔ ہر مصرع سے تاریخ نکال رہے تھے۔
اور جب امریکہ اور روس نے آسمان کے لئے نئے چاند ستارے بنا لئے ہم پرانے اختر شناس اب بھی جنتریوں اور فالناموں میں اپنی قسمت کا حال دیکھ رہے ہیں۔ اب بھی ہمارے ہوٹلوں کے بالا خانے عطائی معالجوں ، ہرڑ پوپوں سے آباد ہیں۔ عباسیوں کے عہد کو کتنی صدیاں ہوئیں۔ جاگو اور دیکھو کہ اب کس بادشاہ کی بادشاہی ہے ، بیچ میں قصیدہ گو و سوخت گو، قافیہ پیما، منشی احمد حسین قمر اور منشی محمد حسین جاہ تو ضرور ملیں گے لیکن مسلمانوں میں کوئی کوپر نیکس ، واٹ ، ایڈیسن اور مارکونی نہ ملے گا۔ جس نے کی شاعری کی ، مشاعرہ برپا کیا، گلدستہ سخن نکالا، یا پھر نئے فرقے پیدا کئے ، مقلد و غیر مقلد کی بحثیں چلیں ، آمین بالجہر پر فساد ہوئے ، ذبیحے اور روئت ہلال پر آ کر سفینہ کنارے لگا۔
ایمسٹرڈم اور برلن میں ایسے ڈپارٹمنٹل اسٹور دیکھے کہ پوری منزل کھلونے ہی کھلونے ہیں۔ ان میں گڑیاں بھی اور گڈے بھی ہیں۔ لیکن تمام مشینوں کے ماڈل بھی دیکھے جن سے پتہ چلے کہ پسٹن کیا ہوتا ہے، گئیر کیسے کام کرتے ہیں ، ابر کیا چیز ہے ، ہوا کیا ہے۔۔۔ ۔۔یہی التزام یہاں کی کتابوں اور کورسوں میں ہے۔ یارو ! کیا ہیں یہ قصے جن کو سینے سے لگائے پھرتے ہو۔ فارس کے شہزادوں کی کہانیاں ہیں ، جان عالم اور بدر منیر کو کب تک روؤ گے ؟ میر کی
بے زری کا نہ کر گلہ غافل
رکھ تسلی کہ یوں مقدر تھا
کب تک ہماری نئی نسل کے کورسوں میں رہے گی ؟ سکندرتو جب دنیا سے گیا تب خالی ہاتھ تھا، تم تو دنیا میں خالی ہاتھ ہو۔ غالب جیسے بھی ہستی کے فریب میں نہیں آئے عالم کو حلقہ دام خیال جانتے رہے اور ہم نے دنیا بھر کے علوم اس شاعر کے دیوان میں ڈھونڈ لئے۔ جیسے آریہ سماجی لوگ جیٹ ہوائی جہازوں کو ویدوں میں تلاش کر کے لاتے ہیں۔
اے صاحبو ! دن بھر مصاحبوں کے جلو میں بیٹھے ناؤ نوش کرنے والے، مجرا دیکھنے والے اور مشاعرے کرانے والے ، کچھ غدر کے ساتھ کچھ پچھلی صدی کے ساتھ گئے۔ کچھ پہلی جنگ میں فنا ہوئے کچھ دوسری جنگ کے ساتھ ختم ہوئے اور 1947 کے انقلاب کے بعد تو ان کی ایک یاد سی باقی ہے، سو وہ بھی کیا ہے اچھا ہے یہ لوگ ختم ہوئے۔ اچھا ہے ہم 1857ء کی جنگ آزادی ہار گئے ورنہ یہ بھی نہ ہوتے جو ہیں۔ مولوی محبوب عالم نے اپنے تاثرات اس وقت رقم کئے جب برطانوی راج کا سورج نصف النہار پر تھا۔ آزادی کا تصور بھی نہ تھا۔ ان کو دو سو سال تک کچھ ہوتا نظر نہ آیا۔ ہم اتنے مایوس نہیں۔ دست و بازو بھی مضبوط رکھتے ہیں۔ موقع ملے تو ذہن کی جودت میں بھی کم نہیں۔ اک ذرا یہ شاعری اور قناعت اور سوز گداز اور وحدت الوجود اور مراعاۃ النظیر اور روئت ہلال وغیرہ کے مباحث نہ ہوں تو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ !
(ابن انشاء کے سفر نامہ "آوارہ گرد کی ڈائری" سے اقتباس)
بشکریہ ادب لٹریچر، فیس بک