نظریہ ارتقاء پر اعتراضات اور ان کے جواب

تو پھر مسئلہ کیا ہے ؟ سائنس پر کوئی اچھی کتاب اٹھائے اور مطالعہ شروع کیجیے۔ عام افراد کی سمجھ کے لیے لکھی بہت سی کتب آپ کو مل جائیں گی۔ معاملہ آپ کے سامنے خودبخود صاف ہوتا چلا جائے گا۔ :)
اس لیے تو کہہ رہا ہوں کہ مذہب پر آپ کا کافی مطالعہ ہے۔ اب سائنس کو سمجھنے کے لیے مخلصی سے سائنس کا مطالعہ کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے۔ :)
جناب بائیالوجی صرف میٹرک میں پڑھی اس کے علاوہ فزکس اور میتھس تو بی ایس سی میں بھی پڑھتا رہا :) اور بائیالوجی چھوڑنے کی وجہ نظریہ ارتقا نہیں تھا ۔ میتھس اور فزکس کی طرف رجحان زیادہ ہونا تھا اور کمیوٹر سائنس بھی تو سائنس ہے :)
سائنس تو سخت محنت کرکے پڑھی اور کمائی بھی اسی سے کر رہے ہیں۔ :)
البتہ دینی علم صرف شوق کی وجہ سے پڑھا۔
بہرحال دونوں کے مطالعہ کا نتیجہ ہے کہ میں اسلام اور سائنس کو ایک دوسرے کا مخالف نہیں سمجھتا بلکہ ساتھی یا دوست سمجھتا ہوں۔
 

محمد سعد

محفلین
کیا کسی نے سائنس کا مطالعہ کرنے کا کہا؟ یہ یقیناً ایک عمدہ مشورہ ہے۔ اور سائنس کے مطالعے کے دوران آپ کے ذہن میں کئی سوالات بھی آئیں گے۔
تو ہم آپ کے لیے لائے ہیں، تجسس سائنس فورم!
کیا آپ سائنس پر سنجیدہ گفتگو کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کے حلقۂ احباب میں سائنسی نمک کم ہے؟ تو آئیے، تجسس سائنس فورم پر، اور سائنسی ماحول میں سائنسی گفتگو کا سائنسی مزا لیجیے! اپنی پسندیدہ مقدار میں نمک کے ساتھ!
(معذرت۔ خود کو روک نہیں پایا۔ :p )
 

عثمان

محفلین
جناب بائیالوجی صرف میٹرک میں پڑھی اس کے علاوہ فزکس اور میتھس تو بی ایس سی میں بھی پڑھتا رہا :) اور بائیالوجی چھوڑنے کی وجہ نظریہ ارتقا نہیں تھا ۔ میتھس اور فزکس کی طرف رجحان زیادہ ہونا تھا اور کمیوٹر سائنس بھی تو سائنس ہے :)
سائنس تو سخت محنت کرکے پڑھی اور کمائی بھی اسی سے کر رہے ہیں۔ :)
البتہ دینی علم صرف شوق کی وجہ سے پڑھا۔
بہرحال دونوں کے مطالعہ کا نتیجہ ہے کہ میں اسلام اور سائنس کو ایک دوسرے کا مخالف نہیں سمجھتا بلکہ ساتھی یا دوست سمجھتا ہوں۔
بھئی میں کب کہہ رہا ہوں کہ سائنس محض سکول کالج ہی میں پڑھی جا سکتی ہے۔ اگر لائبریری یا کتابوں کی کسی معقول دکان کا رخ کریں تو وہاں آپ کو بہت سے سیکشن نظر آئیں گے۔ جس میں آپ کو فکشن ، سیاست ، تاریخ وغیرہ کے علاوہ popular science کا سیکشن بھی مل جائے گا۔ حیاتیاتی ارتقاء کی بہت سے قابل فہم کتب وہاں ہونگی۔ انھیں پڑھنے یا سمجھنے کے لیے متعلقہ شعبہ میں کالج یونیورسٹی کی تعلیم ضروری نہیں۔ شوق اور وقت درکار ہے۔ :)
میں نے بھی بیالوجی محض سکول تک ہی پڑھی تھی۔ فزکس انٹر کے بعد نہیں پڑھی۔ تاہم اس کے باوجود میں لائبریری اور بک سٹور سے طبعیات اور حیاتیات کی عام فہم کتب اور معروف میگزین میں مضامین اکثر پڑھتا رہتا ہوں۔ :)
 
بھئی میں کب کہہ رہا ہوں کہ سائنس محض سکول کالج ہی میں پڑھی جا سکتی ہے۔ اگر لائبریری یا کتابوں کی کسی معقول دکان کا رخ کریں تو وہاں آپ کو بہت سے سیکشن نظر آئیں گے۔ جس میں آپ کو فکشن ، سیاست ، تاریخ وغیرہ کے علاوہ popular science کا سیکشن بھی مل جائے گا۔ حیاتیاتی ارتقاء کی بہت سے قابل فہم کتب وہاں ہونگی۔ انھیں پڑھنے یا سمجھنے کے لیے متعلقہ شعبہ میں کالج یونیورسٹی کی تعلیم ضروری نہیں۔ شوق اور وقت درکار ہے۔ :)
میں نے بھی بیالوجی محض سکول تک ہی پڑھی تھی۔ فزکس انٹر کے بعد نہیں پڑھی۔ تاہم اس کے باوجود میں لائبریری اور بک سٹور سے طبعیات اور حیاتیات کی عام فہم کتب اور معروف میگزین میں مضامین اکثر پڑھتا رہتا ہوں۔ :)
اگر بنیادی تعلیم سکول و کالج وغیرہ سے حاصل کی ہوتو ایڈوانس لیول کی تعلیم اور موضوعات کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ فزکس کے موضوعات اور کمپیوٹر کے بارے میں تو آج تک پڑھتا رہتا ہوں۔ حیاتیاتی ارتقا کو پڑھنے کی پھر سے کوشش کروں گا بس مشکل اصلاحات سے خوف آتا ہے جن کو شروع سے سمجھنا ہوگا۔ ویسے میں میڈیکل وغیرہ کے موضوعات کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔
 

عثمان

محفلین
اگر بنیادی تعلیم سکول و کالج وغیرہ سے حاصل کی ہوتو ایڈوانس لیول کی تعلیم اور موضوعات کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ فزکس کے موضوعات اور کمپیوٹر کے بارے میں تو آج تک پڑھتا رہتا ہوں۔ حیاتیاتی ارتقا کو پڑھنے کی پھر سے کوشش کروں گا بس مشکل اصلاحات سے خوف آتا ہے جن کو شروع سے سمجھنا ہوگا۔ ویسے میں میڈیکل وغیرہ کے موضوعات کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔
بے فکر رہیے۔ جس قسم کی کتب کا میں تذکرہ کر رہا ہوں وہاں آپ کو وہ مشکل اصطلاحات دیکھائی نہ دیں گی۔ نیز مصنف کتاب کے تعارف ہی میں وضاحت کرتا ہے کہ یہ کتب ان قارئین کے لیے ہے جو اس شعبہ میں پہلے سے کوئی تعلیم یا مہارت نہیں رکھتے۔ :)
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
لئیق احمد آپ رچرڈ ڈاکنز کی کتاب دا بلائنڈ واچ میکر کا مطالعہ کیجئے۔ شاید آپ کئی جگہ مصنف سے اختلاف کریں لیکن ایوولیوشن کو سمجھنے میں یہ کتاب خاصی مددگار ثابت ہو گی۔ :)
 

رانا

محفلین
دونوں ہی لگے ہاتھوں پڑھ لئے۔
قیصرانی بھائی ، امجد میانداد لگے ہاتھوں اس کتاب کے باب چہارم کے آخری تین چیپٹرز اور باب پنجم بھی پڑھ لیں۔ صرف معلومات کی غرض سے۔

صرف ان سائنسی نظریات کو قبول کیا گیا ہے جو مذہب کے حق میں ثابت ہو رہے تھے :)
اصل میں قیصرانی بھائی بات یہ ہوتی ہے کہ سائنس کے قوانین کیونکہ اس خدا نے بنائے ہیں جس نے مذہب کو نازل کیا ہے (یہاں مذہب سے مراد صرف قرآنی تعلیمات ہیں) تو یہ یقین رکھنے والے کے لئے دونوں میں حقیقی اختلاف ممکن ہی نہیں کہ خدا بنائے کچھ اور جبکہ انسان کو بتائے کچھ اور۔ یہ صرف ہماری سمجھ کا اختلاف ہوتا ہے۔ اس لئے جس نظریے کی واضح تردید قرآن میں مل جائے اسے بہرحال معقول انداز میں رد کرناپڑتا ہے۔اس لئے بعض جگہ یہ لگتا ہے کہ صرف قرآن کے ساتھ مطابقت رکھنے والے نظریات کو ہی قبول کیا گیا ہے۔
۔لیکن ہر چیز کے بارے میں ظاہر ہے کہ قرآن ذکر نہیں کرسکتا کہ قرآن سائنس کی کتاب تو ہے نہیں لیکن پھر بھی جتنا وہ سائنس سے تعلق رکھنے والے موضوعات کو چھیڑتاہے وہ بھی بہت دلچسپ اور حیران کن ہوتا ہے۔ لیکن صرف ضروری امور کا اجمالی طور پر ذکر کردیتا ہے۔ تفصیل سائنسدانوں کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔:)
آپ نے اوپر لکھا تھا کہ قرآن دوسری کہکشاوں کا ذکر نہیں کرتا۔ جبکہ تمام مذاہب کی کتب میں صرف قرآن ہی ہے جو پھیلنے والی کائنات کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس آیت میں بگ بینگ اور دوسری کہکشاوں کے وجود کا ذکر موجود ہے۔ کیونکہ جو چیز مسلسل پھیل رہی ہےوہ ظاہر کرتی ہے کسی وقت وہ سمٹی ہوئی بھی تھی اور اسے سمٹاتے ہوئے آپ بگ بینگ پر ہی پہنچیں گے۔ اس کا ایک دوسری آیت میں واضح طور پر ذکر ہے کہ زمین و آسمان مضبوطی سے بند تھے اور ہم نے انہیں پھاڑ کر الگ کردیا۔ دوسرا سورج کے حوالے سے یہ ذکر ہے کہ وہ اپنے مقررہ راستے پر ایک مخصوص منزل کی طرف محو سفر ہے۔ یہ بھی اشارہ ہے کہ سورج بھی کسی دوسری کشش کے زیراثر ہے۔ اس کی کچھ تفصیل اوپر شئیر کئے گئے ابواب میں بھی موجود ہے۔
کتاب کے باب پنجم کے آخر میں رچرڈ ڈاکنز کی بلائنڈ واچ میکر پر بھی ایک تفصیلی تبصرہ ہے جس میں ان کے خیالات سے اختلاف کیا گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
ابھی انسان کا ارتقاء جاری ہے
برمس قوم پولونگ










ابھی انسان کا ارتقاء جاری ہے
افریقی ارتقاء







ابھی انسان کا ارتقاء جاری ہے
امازون لوگ




















ابھی انسان کا ارتقاء جاری ہے
نئے اور مذہب ارتقاء
 
یونہی کچھ احباب کے تبصرہ جات پڑھ کر خیال آیا کہ اپنی رائے لکھ دوں۔

نظریۂ ارتقا کہیں کسی بھی مقام پر خدا کی نفی نہیں کرتا۔
نظریۂ ارتقا کا مطلق رد (جیسا کہ عمومی طور مذہبیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے) ممکن بھی نہیں اور یہ کوئی شائستہ بات بھی نہیں۔
نظریۂ ارتقا قران سے خصوصاً بالواسطہ کوئی تصادم نہیں رکھتا۔ البتہ احادیث میں جو تخلیق کے واقعات آتے ہیں ان میں تاویلات سے کام لیا جائے تو شاید نظریۂ ارتقا کو قبول کرنے میں کوئی ایسی قابلِ اعتراض بات نہیں۔
الہامی کتب خصوصاً قران سے جب نظریۂ ارتقا کا تصادم ہوتا ہے تو وہ تشریح اور تفسیر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ آیاتِ کونیہ کی تفسیر علم کے مشاہدات کے مطابق تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ تشرریح کرنے والے علماء ان آیات کی جس طرح تشریح کرتی ہیں حقیقت میں بھی ویسا ہی ہو، اس صورت میں نظریۂ ارتقا غلط ہوگا۔ اور دوسری صورت بھی ممکن ہے۔
کسی بھی سائنسی مشاہدے یا نظریے کو مطلق رد کرنا میری ناقص رائے میں درست نہیں۔ اعتراضات بالکل اٹھائے جاسکتے ہیں جن کے جوابات دینا یا ڈھونڈنا اس نظریہ کے حاملین کی ذمہ داری ہے۔
نظریۂ ارتقا سائنسی نظریہ ہے۔ اس نظریے کو حتمی سچ مان لینا اور بقیہ آراء کو مطلق مردود جاننا بھی غیر شائستہ بات ہے۔

والسلام۔
 
قیصرانی بھائی ، امجد میانداد لگے ہاتھوں اس کتاب کے باب چہارم کے آخری تین چیپٹرز اور باب پنجم بھی پڑھ لیں۔ صرف معلومات کی غرض سے۔


اصل میں قیصرانی بھائی بات یہ ہوتی ہے کہ سائنس کے قوانین کیونکہ اس خدا نے بنائے ہیں جس نے مذہب کو نازل کیا ہے (یہاں مذہب سے مراد صرف قرآنی تعلیمات ہیں) تو یہ یقین رکھنے والے کے لئے دونوں میں حقیقی اختلاف ممکن ہی نہیں کہ خدا بنائے کچھ اور جبکہ انسان کو بتائے کچھ اور۔ یہ صرف ہماری سمجھ کا اختلاف ہوتا ہے۔ اس لئے جس نظریے کی واضح تردید قرآن میں مل جائے اسے بہرحال معقول انداز میں رد کرناپڑتا ہے۔اس لئے بعض جگہ یہ لگتا ہے کہ صرف قرآن کے ساتھ مطابقت رکھنے والے نظریات کو ہی قبول کیا گیا ہے۔
۔لیکن ہر چیز کے بارے میں ظاہر ہے کہ قرآن ذکر نہیں کرسکتا کہ قرآن سائنس کی کتاب تو ہے نہیں لیکن پھر بھی جتنا وہ سائنس سے تعلق رکھنے والے موضوعات کو چھیڑتاہے وہ بھی بہت دلچسپ اور حیران کن ہوتا ہے۔ لیکن صرف ضروری امور کا اجمالی طور پر ذکر کردیتا ہے۔ تفصیل سائنسدانوں کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔:)
آپ نے اوپر لکھا تھا کہ قرآن دوسری کہکشاوں کا ذکر نہیں کرتا۔ جبکہ تمام مذاہب کی کتب میں صرف قرآن ہی ہے جو پھیلنے والی کائنات کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس آیت میں بگ بینگ اور دوسری کہکشاوں کے وجود کا ذکر موجود ہے۔ کیونکہ جو چیز مسلسل پھیل رہی ہےوہ ظاہر کرتی ہے کسی وقت وہ سمٹی ہوئی بھی تھی اور اسے سمٹاتے ہوئے آپ بگ بینگ پر ہی پہنچیں گے۔ اس کا ایک دوسری آیت میں واضح طور پر ذکر ہے کہ زمین و آسمان مضبوطی سے بند تھے اور ہم نے انہیں پھاڑ کر الگ کردیا۔ دوسرا سورج کے حوالے سے یہ ذکر ہے کہ وہ اپنے مقررہ راستے پر ایک مخصوص منزل کی طرف محو سفر ہے۔ یہ بھی اشارہ ہے کہ سورج بھی کسی دوسری کشش کے زیراثر ہے۔ اس کی کچھ تفصیل اوپر شئیر کئے گئے ابواب میں بھی موجود ہے۔
کتاب کے باب پنجم کے آخر میں رچرڈ ڈاکنز کی بلائنڈ واچ میکر پر بھی ایک تفصیلی تبصرہ ہے جس میں ان کے خیالات سے اختلاف کیا گیا ہے۔
میں پڑھے جارہاہوں، پڑھے جا رہا ہوں، پڑھ کر پھر رائے دوں گا۔
 
یونہی کچھ احباب کے تبصرہ جات پڑھ کر خیال آیا کہ اپنی رائے لکھ دوں۔

نظریۂ ارتقا کہیں کسی بھی مقام پر خدا کی نفی نہیں کرتا۔
نظریۂ ارتقا کا مطلق رد (جیسا کہ عمومی طور مذہبیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے) ممکن بھی نہیں اور یہ کوئی شائستہ بات بھی نہیں۔
نظریۂ ارتقا قران سے خصوصاً بالواسطہ کوئی تصادم نہیں رکھتا۔ البتہ احادیث میں جو تخلیق کے واقعات آتے ہیں ان میں تاویلات سے کام لیا جائے تو شاید نظریۂ ارتقا کو قبول کرنے میں کوئی ایسی قابلِ اعتراض بات نہیں۔
الہامی کتب خصوصاً قران سے جب نظریۂ ارتقا کا تصادم ہوتا ہے تو وہ تشریح اور تفسیر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ آیاتِ کونیہ کی تفسیر علم کے مشاہدات کے مطابق تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ تشرریح کرنے والے علماء ان آیات کی جس طرح تشریح کرتی ہیں حقیقت میں بھی ویسا ہی ہو، اس صورت میں نظریۂ ارتقا غلط ہوگا۔ اور دوسری صورت بھی ممکن ہے۔
کسی بھی سائنسی مشاہدے یا نظریے کو مطلق رد کرنا میری ناقص رائے میں درست نہیں۔ اعتراضات بالکل اٹھائے جاسکتے ہیں جن کے جوابات دینا یا ڈھونڈنا اس نظریہ کے حاملین کی ذمہ داری ہے۔
نظریۂ ارتقا سائنسی نظریہ ہے۔ اس نظریے کو حتمی سچ مان لینا اور بقیہ آراء کو مطلق مردود جاننا بھی غیر شائستہ بات ہے۔

والسلام۔

میں بالکل متفق ہوں اسی لیے اس ضمن میں میں نے یہ کہا کہ عین ممکن ہے کہ دونوں نظریات باہم جڑے ہوں اور ایک دوسرے کا لازم ملزوم ہوں لیکن ان کی باہمیت یا مشترکیت ہم تک ٹھیک سے پہنچ نہیں پا رہی، اسی لیے قرآن پاک میں بار بار تحقیق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ انسان کے لیے علم کے لا محدود وسائل اور راستے موجود ہیں اور بے شک علم لا محدود ہے۔ بس جانے کب یہ ممکن ہو کہ ارتقاء کی تمام گتھیوں کو سلجھانے والا ایک بہتر سوال کسی ذہن میں گونج اٹھے اور پھر اس تخلیق کے چنیدہ ذہن اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے گتھیاں سلجھاتے چلیں۔ میں سمجھتا ہوں کچھ سمجھنے اور جاننے کے لیے بہتر جواب سے زیادہ اہمیت بہتر سوال کی ہے۔

سیب تو سبھی کے سامنے گرتے ہوں گے لیکن سب کے لیے وہ ایک سوال نہیں چھوڑتے۔

باقی تمام جانداروں کی طرح انسانی علم بھی ارتقائی عمل میں ہے اور ترقی اور جدیدیت کی جانب رواں دواں ہے انشاءاللہ ایک دور ایسا ضرور ہو گا کہ دونوں کناروں پہ موجود سوال اور تشنگی کوئی ایک سوال حل کر پائے گا۔ اور ہمارا موجودہ علم جو ہمیں زیادہ بہتر طور پر نہیں سمجھا پاتا وہ سمجھا سکے گا۔

ذاتی طور پر میں قرآن کی کسی چیز کو جدیدیت کے کسی معنوں سے متصادم نہیں پاتا لیکن یہاں آپ ہی کی بات نقل کروں گا کہ تشریح اسے متصادم بنا دیتی ہے ممکن ہے کہ ابھی علم کے دروازے حضرتِ انسان پر پوری طرح نہیں کھلے اس لیے وہ اپنے اب تک کے حاصل کیے گئے اپنے محدود علم سے صحیح تشریح کر کے سمجھ اور سمجھا نہیں پاتا۔

ابھی تک تو لغات اور زبانوں کے علم قرآن پاک میں موجود بہت سے حروف اور الفاظ کے لفظی معنی بھی نہیں بتا پائے تفسیر تو بہت بعد کی بات ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی ، امجد میانداد لگے ہاتھوں اس کتاب کے باب چہارم کے آخری تین چیپٹرز اور باب پنجم بھی پڑھ لیں۔ صرف معلومات کی غرض سے۔


اصل میں قیصرانی بھائی بات یہ ہوتی ہے کہ سائنس کے قوانین کیونکہ اس خدا نے بنائے ہیں جس نے مذہب کو نازل کیا ہے (یہاں مذہب سے مراد صرف قرآنی تعلیمات ہیں) تو یہ یقین رکھنے والے کے لئے دونوں میں حقیقی اختلاف ممکن ہی نہیں کہ خدا بنائے کچھ اور جبکہ انسان کو بتائے کچھ اور۔ یہ صرف ہماری سمجھ کا اختلاف ہوتا ہے۔ اس لئے جس نظریے کی واضح تردید قرآن میں مل جائے اسے بہرحال معقول انداز میں رد کرناپڑتا ہے۔اس لئے بعض جگہ یہ لگتا ہے کہ صرف قرآن کے ساتھ مطابقت رکھنے والے نظریات کو ہی قبول کیا گیا ہے۔
۔لیکن ہر چیز کے بارے میں ظاہر ہے کہ قرآن ذکر نہیں کرسکتا کہ قرآن سائنس کی کتاب تو ہے نہیں لیکن پھر بھی جتنا وہ سائنس سے تعلق رکھنے والے موضوعات کو چھیڑتاہے وہ بھی بہت دلچسپ اور حیران کن ہوتا ہے۔ لیکن صرف ضروری امور کا اجمالی طور پر ذکر کردیتا ہے۔ تفصیل سائنسدانوں کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔:)
آپ نے اوپر لکھا تھا کہ قرآن دوسری کہکشاوں کا ذکر نہیں کرتا۔ جبکہ تمام مذاہب کی کتب میں صرف قرآن ہی ہے جو پھیلنے والی کائنات کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس آیت میں بگ بینگ اور دوسری کہکشاوں کے وجود کا ذکر موجود ہے۔ کیونکہ جو چیز مسلسل پھیل رہی ہےوہ ظاہر کرتی ہے کسی وقت وہ سمٹی ہوئی بھی تھی اور اسے سمٹاتے ہوئے آپ بگ بینگ پر ہی پہنچیں گے۔ اس کا ایک دوسری آیت میں واضح طور پر ذکر ہے کہ زمین و آسمان مضبوطی سے بند تھے اور ہم نے انہیں پھاڑ کر الگ کردیا۔ دوسرا سورج کے حوالے سے یہ ذکر ہے کہ وہ اپنے مقررہ راستے پر ایک مخصوص منزل کی طرف محو سفر ہے۔ یہ بھی اشارہ ہے کہ سورج بھی کسی دوسری کشش کے زیراثر ہے۔ اس کی کچھ تفصیل اوپر شئیر کئے گئے ابواب میں بھی موجود ہے۔
کتاب کے باب پنجم کے آخر میں رچرڈ ڈاکنز کی بلائنڈ واچ میکر پر بھی ایک تفصیلی تبصرہ ہے جس میں ان کے خیالات سے اختلاف کیا گیا ہے۔
رانا بھائی، معاف کیجئے گا کہ اس کتاب میں بھی وہی دلائل ہیں جو عام مذہبی رہنما دیتے ہیں۔ پانچواں باب شروع کر چکا ہوں لیکن ابھی تک ایک بھی دلیل ایسی نہیں دکھائی دی جو واقعی کوئی اچھوتی ہو۔ بلیک ہول بننے کے عمل سے لے کر پروٹان کی تقسیم تک کے عمل کے بارے بیان دراصل مصنف کی لاعلمی کی وضاحت کرتا ہے، معذرت۔ بگ بینگ کی وضاحت میں زمین اور آسمان کے ایک حالت سے پھٹنے اور پھر اس سے "کائنات" کا آغاز محض ایک استعارہ ہے، ورنہ آپ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری کائنات کے مقابلے ہماری زمین کی کیا حیثیت ہے؟ شطرنج کی بساط کی مثال دی جا رہی ہے تو یہ بات کیوں نہیں کی جا رہی کہ شطرنج دو فریق کھیلتے ہیں؟ اس کے علاوہ ایک نئی بات پتہ چلی ہے کہ جنات کو بیکٹیریا یا وائرسز قرار دینا، اس پر کسی اور دھاگے میں سیر حاصل بحث ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ آکسیجن لیول پر کی گئی بات اور ابتدائی جانداروں کی بات بھی درست نہیں لگ رہی کہ وہ آکسیجن کے بناء کیسے زندہ رہے ہوں گے (سائنس کے مطابق زندگی کی ابتداء پانی سے ہوئی اور بہت عرصے بعد جانداروں نے زمین کا رخ کیا تھا۔ اس کے علاوہ آکسیجن کے بناء زندہ رہنے والے جاندار بھی موجود ہیں)۔ کلوروفل پر کی گئی بحث شاید میں نے اردو میں پہلی بار پڑھی ہے اور مکڑیوں اور ریچھوں اور لومڑیوں کے بارے بھی :)
شیئرنگ کا شکریہ
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی ، امجد میانداد لگے ہاتھوں اس کتاب کے باب چہارم کے آخری تین چیپٹرز اور باب پنجم بھی پڑھ لیں۔ صرف معلومات کی غرض سے۔


اصل میں قیصرانی بھائی بات یہ ہوتی ہے کہ سائنس کے قوانین کیونکہ اس خدا نے بنائے ہیں جس نے مذہب کو نازل کیا ہے (یہاں مذہب سے مراد صرف قرآنی تعلیمات ہیں) تو یہ یقین رکھنے والے کے لئے دونوں میں حقیقی اختلاف ممکن ہی نہیں کہ خدا بنائے کچھ اور جبکہ انسان کو بتائے کچھ اور۔ یہ صرف ہماری سمجھ کا اختلاف ہوتا ہے۔ اس لئے جس نظریے کی واضح تردید قرآن میں مل جائے اسے بہرحال معقول انداز میں رد کرناپڑتا ہے۔اس لئے بعض جگہ یہ لگتا ہے کہ صرف قرآن کے ساتھ مطابقت رکھنے والے نظریات کو ہی قبول کیا گیا ہے۔
۔لیکن ہر چیز کے بارے میں ظاہر ہے کہ قرآن ذکر نہیں کرسکتا کہ قرآن سائنس کی کتاب تو ہے نہیں لیکن پھر بھی جتنا وہ سائنس سے تعلق رکھنے والے موضوعات کو چھیڑتاہے وہ بھی بہت دلچسپ اور حیران کن ہوتا ہے۔ لیکن صرف ضروری امور کا اجمالی طور پر ذکر کردیتا ہے۔ تفصیل سائنسدانوں کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔:)
آپ نے اوپر لکھا تھا کہ قرآن دوسری کہکشاوں کا ذکر نہیں کرتا۔ جبکہ تمام مذاہب کی کتب میں صرف قرآن ہی ہے جو پھیلنے والی کائنات کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس آیت میں بگ بینگ اور دوسری کہکشاوں کے وجود کا ذکر موجود ہے۔ کیونکہ جو چیز مسلسل پھیل رہی ہےوہ ظاہر کرتی ہے کسی وقت وہ سمٹی ہوئی بھی تھی اور اسے سمٹاتے ہوئے آپ بگ بینگ پر ہی پہنچیں گے۔ اس کا ایک دوسری آیت میں واضح طور پر ذکر ہے کہ زمین و آسمان مضبوطی سے بند تھے اور ہم نے انہیں پھاڑ کر الگ کردیا۔ دوسرا سورج کے حوالے سے یہ ذکر ہے کہ وہ اپنے مقررہ راستے پر ایک مخصوص منزل کی طرف محو سفر ہے۔ یہ بھی اشارہ ہے کہ سورج بھی کسی دوسری کشش کے زیراثر ہے۔ اس کی کچھ تفصیل اوپر شئیر کئے گئے ابواب میں بھی موجود ہے۔
کتاب کے باب پنجم کے آخر میں رچرڈ ڈاکنز کی بلائنڈ واچ میکر پر بھی ایک تفصیلی تبصرہ ہے جس میں ان کے خیالات سے اختلاف کیا گیا ہے۔
جی پڑھ چکا۔ اچھی شیئرنگ کا شکریہ :)
 
ذاتی طور پر میں قرآن کی کسی چیز کو جدیدیت کے کسی معنوں سے متصادم نہیں پاتا لیکن یہاں آپ ہی کی بات نقل کروں گا کہ تشریح اسے متصادم بنا دیتی ہے ممکن ہے کہ ابھی علم کے دروازے حضرتِ انسان پر پوری طرح نہیں کھلے اس لیے وہ اپنے اب تک کے حاصل کیے گئے اپنے محدود علم سے صحیح تشریح کر کے سمجھ اور سمجھا نہیں پاتا۔
میرے نزدیک کسی بھی سائنسی مشاہدے کا انکار کرنا درست نہیں۔ سائنس خدا کی زبان ہے۔ خدا کے اثرات کے مشاہدے کا ایک طریقہ۔ اس سے خدا کا انکار نہیں ہوتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسا مذہب جو ان علمی سطحوں کے تصرفات کو نہیں سہہ سکتا وہ باطل ہوجائے گا۔ اور ایسا مذہب سچا یا خالص الہامی مذہب نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
 
http://fgulen.com/ur/books-pk/islam...heses-have-been-challenged-and-even-disproved
ڈارون ازم کے غلط ثابت ہو چکنے کے باوجود اسے زندہ رکھنے کی کوششوں کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں؟

تحریر فتح اللہ گلن پر 17 نومبر 2011. میں پوسٹ کیا گیا اسلام اور دور حاضر
ٍمحمد فتح اللہ گلین مشرقی ترکی کے شہر ارض رو م میں ہوئے ۔آپ ایک مذہبی سکالر ،مفکر ،ممتازایل قلم اورشاعر ہیں ۔ انہوں نے مذہبی علوم میں بہت سے قابل ذکر مسلم علماء اور روحانی پیشواؤں سے تربیت حاصل کی ۔گلین نے جدید معاشرتی اورطبعی علوم کے اصول وضوابط اورنظریات کا بھی عمیق مطالعہ کیا۔علم وفضل میں غیر معمولی مہارت اورذاتی مطالعہ میں ارتکاز کی بناپر وہ جلد ہی اپنے ہم عصروں سے آگے نکل گئے ۔1958ء میں زبردست امتحانی نتائج کے حصول کی وجہ سے انہیں ریاستی مبلغ کا اجازت نامہ دیا گیا اور جلد ہی ترکی کے تیسرے بڑے صوبے ازمیر میں ایک اہم عہدہ پر ترقی دے دی گئی ۔یہاں پر گلین نے اپنے خیالات کو واضع کرنا شروع کیااوراپنے سامعین کی تعداد میں اضافہ کیا۔اپنے مواغط اورتقاریر میں انہوں نے وقت کے اہم معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا۔ان کا بنیادی مقصد نو جوانوں کو اس بات پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ دانشمندانہ روحانیت اوراحتیاط کے ساتھ عقلی روشن خیالی اورشریف النفس سرگرمیوں میں ہم آہنگی پیداکریں

ڈارون ازم واحد نظریہ ہے،جسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا گیا ہے اور اب اس پر جان کنی کی کیفیت طاری ہونے کے بعد اسے زندہ رکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ایک طرف بعض سائنس دان ڈارون کے نظریے کے دفاع کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تو دوسری طرف بعض سائنس دان اس پر تنقید کے تباہ کن تیر پھینک کر اسے پرزہ پرزہ کر رہے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس نظریے کو تسلیم کرنا دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔یہ بین الاقوامی علمی محافل کا موجودہ منظرنامہ ہے۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ ایک مخصوص عرصے تک یہ نظریہ علمی دنیا میں اپنے وجود کو برقرار رکھے گا۔ ماضی میں اس موضوع پر مشرق و مغرب میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں،اب بھی لکھی جا رہی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جاتی رہیں گی۔ہمیں آغاز میں ہی اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ آج مشرق و مغرب کی تہذیب مادہ پرستانہ فلسفے پر قائم ہے۔ امریکہ کی مادہ پرستی روس کی مادہ پرستی سے کچھ کم نہیں ہے۔آج کی مغربی تہذیب پر امریکی تہذیب کے گہرے اثرات ہیں۔جب ہم مشرق کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہمارا اشارہ جغرافیائی پہلو کی طرف ہوتا ہے۔فکری پہلو مراد نہیں ہوتا۔اس سے پہلے سوال کے جواب میں ہم یہ بات کہہ چکے ہیں کہ آج مشرق و مغرب کے درمیان جغرافیائی حدود مٹ چکی ہیں،اسی لیے ہم روس کو بھی مغرب ہی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
دین اور سائنس کے بارے میں فریقین کا نظریہ تقریباً ایک جیسا ہے۔دین کے بارے میں مغرب کا نظریہ روسو اور رینان کا پیش کردہ نظریہ ہے،جس کے مطابق دین معاشرتی زندگی کی ایک چھوٹی مگر ناگزیر اکائی ہے،دوسرے لفظوں میں ان کے ہاں دین کو کبھی بھی مقصد اور ہدف کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی،بلکہ وہ اسے سعادت کے حصول کے متعدد ذرائع میں سے ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسی لیے اسے اختیار کرنے کی اجازت بھی دیتے ہیں۔آج روس بھی یہی نقطہ نظر اختیار کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔{qluetip title=[(۱)]}(۱) مؤلف نے یہ بات ۱۹۸۲ء میں کہی تھی۔{/qluetip} اگرچہ اس نظریے کو روسی نظام کی ناکامی کا نقطہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن ہماری رائے میں یہ دین کا صحیح مفہوم نہیں ہے۔
علم اور اس کی تمام فروع کے بارے میں بھی ان کا نقطہ نظر ایک جیسا ہے۔ آج پوری دنیا کی یہی صورتحال ہے،لیکن اس کے باوجود یورپ اور امریکا میں مادہ پرستانہ نقطہ نظر کے حامل بہت سے سائنس دانوں نے ڈارون ازم پر شدید تنقید کی ہے اور اس کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جسے ہدفِ تنقید نہ بنایا ہو،تاہم روس میں ڈارون ازم پر تنقید کرنا بہت خطرناک اقدام سمجھا جاتا ہے اور اس قسم کی تنقید صرف خفیہ طور پر کی جاتی ہے۔
روس اور اس سے وابستہ ممالک اس نظریے پر اصرار اور اس کا دفاع کرتے ہیں۔چونکہ ان ممالک کی فاسد نظریاتی بنیادیں تاریخی مادہ پرستی (Historical Materialism) پر استوار ہیں،اس لیے ان کے لیے نظریہ ارتقا کا درست ثابت رہنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جونہی مادہ پرستانہ فلسفہ اورتاریخی مادہ پرستی کی عمارت زمین بوس ہوگی فوراً ماورائے طبیعت مظاہر سامنے آ جائیں گے اور انسان معاشی اور مادی اقدار کی بہ نسبت روحانی اور معنوی اقدار کو زیادہ اہمیت دینے لگے گا،جس کا نتیجہ اس پر قائم فکری نظام کے ناکام ثابت ہونے کی صورت میں نکلے گا۔یہی وجہ ہے کہ وہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد ڈارون ازم کو منظرعام پر لاتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک جاری رہے گا۔
ترکی میں اس نظریے کا دفاع اور اسے عام کرنے والے جامعات کے بعض اساتذہ اور سررشتہ تعلیم کے بعض ارکان ہیں،جو‘‘علم حیاتیات’’کی تعلیم دیتے ہوئے اس نظریے کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کر کے خام ذہنوں کو خراب کرتے ہیں۔
میں یہاں اس موضوع کا تفصیل کے ساتھ علمی جائزہ نہیں لوں گا۔میں اپنے ایک لیکچر میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کر چکا ہوں نیز بعض دوستوں نے عقیدے کی رو سے بھی اس کا جائزہ لیا ہے اور ان کی یہ کاوش مختلف کتابوں کی صورت میں منظرعام پر آچکی ہے،لہٰذا میں اس موضوع کی تفصیلات کے لیے ان کتابوں کی طرف مراجعت کا مشورہ دے کر یہاں صرف اسی پہلو کے ذکر پر اکتفا کروں گا جو سوال و جواب کی نشست کے لئے موزوں ہے۔
اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے پانی میں موجود امینوں ترشے یک خلوی حیوانات مثلاً امیبا میں تبدیل ہوئے اور پھر ارتقا کے نتیجے میں مختلف شکلوں کے حیوانات وجود میں آئے پھر یہ حیوانات مزید ارتقائی مراحل سے گزر کر نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ جانوروں مثلاً بندروں یا جیسے کہ بعض کا خیال ہے کتوں کی صورت اختیار کر گئے اور پھر ارتقائی مراحل کی آخری کڑی کے طور انسان وجود میں آیا۔یہ لوگ بعض مقامات سے دریافت ہونے والے بعض ڈھانچوں کو اس مفروضے کی صحت کی دلیل کے طورپر پیش کرتے ہیں۔
نیز انہوں نے ان ڈھانچوں کو جانوروں کی مختلف انواع و اقسام کی ابتدائی کڑیاں اور ان کے اسلاف قرار دیا ہے،مثلاًانہوں نے ان میں سے بعض کو گھوڑوں کے اسلاف قرار دیا ہے تو بعض کو جیلی فش(Jellyfish) اور کائی (Algae) کے آباء واجداد ٹھہرایا ہے اور دعوی کیا ہے کہ ان حیوانات نے ہزاروں سال کے بعد موجودہ شکل و صورت اختیار کی ہے۔ لیکن جدیدترین سائنسی انکشافات اس خیال کی تردید کرتے ہیں،چنانچہ حشرات الارض جنہیں سائنس دان سخت جان حیوانات تصور کرتے ہیں ساڑھے تین سو ملین سال پہلے اپنے ظہور سے لے کر اب تک ایک ہی شکل و صورت کے حامل ہیں۔
حشرات،رینگنے والے حیوانات اور سمندری بچھوؤں کی آج بھی بالکل وہی شکل و صورت ہے،جو پانچ سو سال پہلے ان کے ڈھانچوں کی تھی۔ماہرین حیوانات کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق موجود نہیں۔جب اتنے چھوٹے جانداروں میں بھی کسی قسم کا تغیروتبدل نہیں ہوا تو ڈارون ازم کے حامیوں کا یہ دعوی کہ گھوڑے کے سموں میں تغیر ہوا ہے درست نہیں۔انسٍان بھی اپنی تخلیق کے وقت سے آج تک اپنی شکل و صورت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ایک طرف ڈارون ازم کے حامی یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہزاروں قسم کے جانداروں میں تغیروتبدل ہوا ہے، لیکن دوسری طرف ہمارے سامنے پانچ سو ملین سال پرانے جاندار زندہ موجود ہیں اور ان لوگوں کے دعوے کو زبانِ حال سے جھٹلا کر کہہ رہے ہیں: ‘‘ہرگزنہیں ... ہم میں کسی قسم کا تغیروتبدل اور ارتقا نہیں ہوا۔‘‘
نظریہ ارتقا کے حامی کہتے ہیں کہ حیوانات کا ارتقا اور ان میں تبدیلی مصادفت کے طور پر ایک لمبے عرصے میں بہت سست رفتاری سے رونما ہوتی ہے اور کسی بھی جاندار کا ارتقا اور تغیر اس کے ماحول اور حالات پر موقوف ہوتا ہے،مثلاً زمین کا سورج سے تعلق،اس سے دوری یا نزدیکی،اس کے گرد گردش اور اس گردش کے نتیجے میں پیداہونے والی موسمی تبدیلیاں فطرت پر مثبت یا منفی اثرات مرتب کرنے والے عوامل ہیں،لہٰذا حالات کے مطابق تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں،مثلاً لاکھوں سال پہلے گھوڑا ایک چھوٹا سا جانور ہوتا تھا،جس کے پاؤں میں پانچ ناخن ہوتے تھے،لیکن مرورِزمانہ سے اس کی جسامت بڑھ گئی اور اس کا ایک سم رہ گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس اپنے دعوے پر کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ وہ زمانہ ماضی کی ایک مخلوق کے بارے میں گھوڑا ہونے کا دعوی کرتے ہیں،حالانکہ اس مخلوق کا گھوڑے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کو پیدا فرمایا اور پھر ایک مخصوص عرصے کے بعد اس کی نسل کو ختم فرما دیا،چنانچہ آج کل اس کی نسل کا کوئی جانور موجود نہیں ہے۔ہم یہ بات کیوں تسلیم کریں کہ وہ مخلوق گھوڑا ہی تھی؟اللہ تعالیٰ نے اُس دور میں اس حیوان کو پیدا فرمایا اور پھر اس کے صدیوں بعد گھوڑے کو پیدا فرمایا۔آخر ہم ان دو مختلف حیوانوں کے درمیان تعلق جوڑ کر ان میں سے ایک کو دوسرے سے کیوں منسوب کرتے ہیں؟
دس کروڑ سال پہلے بھی شہد کی مکھی اور شہد کے پائے جانے کے شواہد مل چکے ہیں اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ شہد کی مکھی دس کروڑ سال پہلے بھی اسی انداز سے شہد بناتی اور اسے مسدس ڈبوں میں محفوظ کرتی تھی جیسے آج کرتی ہے،دوسرے لفظوں میں دس کروڑ سال گزرنے کے باوجود شہد کی مکھی میں کسی قسم کا تغیروتبدل نہیں ہوا اور وہ ایک ہی طریقے سے شہد بنا رہی ہے۔اس دوران اس کے دماغ یا دیگر اعضاء میں کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ ہی شہد بنانے کا طریقِ کار بدلا۔اگر تغیر ہوا ہے تو کہاں ہوا ہے؟ اس قسم کے تغیر کی نشاندہی ہونی چاہیے،جس کی ذمہ داری نظریہ ارتقا کے حامیوں پر عائد ہوتی ہے۔
کئی سال پہلے نیو ڈارون ازم کے ایک حامی نے دنیا کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ اس نے ایک ایسی کھوپڑی دریافت کی ہے جس میں انسان اور بندر دونوں کے اوصاف پائے جاتے ہیں اور اس نے اس کھوپڑی کو بندر سے انسان کی طرف منتقلی کی دلیل کے طور پر پیش کیا،لیکن کچھ ہی سالوں کے بعد اس دعوے کی اصل حقیقت کھل گئی اور یہ ثابت ہو گیا کہ اس کھوپڑی کا نیچے والا جبڑا درحقیقت کسی بندر کی کھوپڑی کا حصہ ہے،جسے کسی حقیقی انسان کی کھوپڑی کے ساتھ جوڑا گیا ہے،گویا دو کھوپڑیوں کو ملا کر ایک کھوپڑی تیار کی گئی تھی۔اس کھوپڑی کو قدیم ظاہر کرنے کے لیے مخصوص مدت تک تیزاب میں رکھا گیا،اس کے دانتوں اور مسوڑھوں کو رگڑا گیا اور پھر اسے بندر اور انسان کی درمیانی کڑی کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ جعل سازی ایسی مہارت سے کی گئی تھی کہ قریب تھا کہ علمی حلقے اس کے دھوکے میں آجاتے۔ پیلٹ ڈاؤن نامی اس کھوپڑی نے سائنس دانوں کو تقریباً چالیس سال تک دھوکے میں مبتلا رکھا اور اس کے بارے میں امریکہ اور مغربی ممالک کے مختلف علمی رسائل میں تقریباً پانچ لاکھ مضامین شائع ہوئے،لیکن بالآخر ۱۹۵۲ء میں برطانیہ میں اس کا جعلی ہونا ثابت ہو گیا تاہم بعض سائنس دانوں کو اس جعل سازی کا علم ہو گیا اور انہوں نے اخبارات اور رسائل میں اس کی تشہیر کر دی۔ترکی کے اخبارات پر بھی اس واقعے کے اثرات پڑے اور یہاں بھی اس موضوع پر مختلف مقالات شائع ہوئے۔
جہاں تک حسبی تغیر (Mutation) کا تعلق ہے تو اس نظریے کے مطابق اگر کسی جاندار کو حسبی تغیرات کا سامنا ہو تو ان کی نسل میں تبدیلی رونما ہوتی ہے اور یہی تبدیلیاں جانداروں کی مختلف انواع کی بنیاد فراہم کرتی ہیں،لیکن دورِحاضر میں علم جینیات اور حیاتیاتی کیمیا (Biochemistery) کی ترقی کی بدولت یہ ثابت ہو چکا ہے کہ الل ٹپ اتفاقات پر مبنی حسبی تغیرات جانداروں کے ارتقا، تکمیل اور بہتری کا باعث نہیں بن سکتے،لہٰذا اس قسم کے دعوے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
برسہا برس تک کبوتروں اور کتوں کی مخلوط نسلیں پیدا کرنے کی کوششیں اور اس بارے میں تجربات کئے جاتے رہے،لیکن کتے کتے ہی رہے۔اگرچہ ان میں بعض جسمانی تبدیلیاں رونما ہوئیں،مثلاً ناک یا منہ کی شکل تبدیل ہوئی،لیکن کتے گدھے نہیں بنے اور نہ ہی کبوتر کسی اور پرندے کی نسل میں تبدیل ہوئے،بلکہ کبوتر ہی رہے۔ سائنس دانوں نے اس سے پہلے پھلوں کی ’’ڈروسوفیلا‘‘ نامی مکھی پر بھی متعدد تجربات کیے،لیکن وہ مکھی ہی رہی اور جب ان تجربات کرنے والوں کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو انہوں نے مایوس ہو کر اس کوشش کو چھوڑ دیا۔
تاہم ان تجربات کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ سائنس دانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ جانداروں کا ایک نوع سے دوسری نوع میں تبدیل ہونا ممکن نہیں،کیونکہ ان کے درمیان ناقابل عبور وسیع خلا ہے،نیزدرمیانی کڑیاں ہمیشہ بانجھ ہوتی ہیں۔یہ سب جانتے ہیں کہ خچر نر ہوتا ہے اور نہ مادہ،یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے اپنی نسل جاری رکھنا ممکن نہیں،لہٰذا اس طرح کی درمیانی کڑیوں سے حسبی تغیرات کے ذریعے انسان کا وجود میں آناکیسے ممکن ہے؟قیامت تک باقی رہنے والی ایسی ممتاز مخلوق کیونکر وجود میں آئی؟یہ بات نہ صرف غیرمعقول ہے،بلکہ دورازقیاس بھی ہے اور اس کی کوئی معقول دلیل پیش نہیں کی جا سکتی ۔
سائنس دانوں کو جزیرہ مڈغاسکر کے قریب ایک مچھلی کا ڈھانچہ ملا۔تحقیقات کے بعد ثابت ہوا کہ یہ ڈھانچہ چھ کروڑسال پرانا ہے اور انہوں نے فوراً اسے معدوم النسل مچھلیوں میں سے قرار دے دیا،لیکن کچھ ہی عرصے بعد ایک مچھیرے نے اسی جزیرے کے پاس سے اسی مچھلی کی نسل کی ایک مچھلی شکار کی،جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس کی نسل ناپید ہوچکی ہے۔سائنس دانوں نے دیکھا کہ یہ مچھلی چھ کروڑ سال پہلے پائی جانے والی مچھلی سے سو فیصد مشابہت رکھتی ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی،یہاں بھی نظریہ ارتقا کے حامیوں کو خفت کا سامنا کرنا پڑا اور زندہ مچھلی نے مچھلی کے ڈھانچے سے متعلق نظریہ ارتقا کے حامیوں کے مفروضے کو غلط ثابت کر دیا۔
لیکن اس کے باوجود چونکہ نظریہ ارتقا تاریخی مادہ پرستی کی اہم بنیاد،اس کا لازمی عنصر اور مادہ پرستی کا سہارا ہے،اس لیے مارکس اور اینجلز کو اس نظریے کو قبول کرنے پر شدت سے اصرار ہے۔یہی وجہ ہے سائنس سے متصادم ہونے کے باوجود مادہ پرست اس کی بے دھڑک حمایت کرتے ہیں اور وہ کبھی بھی اس سے دستبردار نہ ہوں گے۔
نظریہ ارتقا کے حامی ہر مسئلے کا مادہ پرستانہ نقطہ نظر سے حل پیش کرنا چاہتے ہیں۔وہ کبھی بھی اس بات کا اعتراف نہیں کرتے کہ چونکہ ہم اس مسئلے کی وضاحت نہیں کر سکتے،اس لیے ضرور کوئی خارجی روحانی طاقت موجود ہے۔ان کی تمام تر کوششیں اس اعتراف سے بچنے کے لیے ہیں،لیکن ان کی یہ مایوس کن کوششیں انہیں معقولیت،دانش مندی اور اعتدال پسندی سے اس قدر دور لے گئی ہیں کہ انہیں جعل سازی،دھوکادہی اور سائنسی شعبدہ بازیوں کا راستہ اختیار کرنا پڑا،جو نہ صرف اہل علم بلکہ عام انسان کو بھی زیب نہیں دیتا۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ جب بھی انہیں خفت اٹھانی پڑتی ہے تو وہ منہ چھپانے کے لیے کسی نہ کسی پناہ گاہ کی تلاش میں ہوتے ہیں،تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض خام ذہن ان کے فریب میں آ جاتے ہیں،لیکن جھوٹ کا کوئی سرپاؤں نہیں ہوتا اور ان لوگوں کی حالت تو اس سے بھی گئی گزری ہے۔کہاوت ہے کہ ایک بے وقوف کنویں میں پتھر پھینک کر چالیس عقلمندوں کو اسے نکالنے کی کوشش میں مصروف کر سکتا ہے،لیکن وہ پھر بھی اسے نہیں نکال سکتے۔یہی بات نظریہ ارتقا کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔
تاہم ڈارون نے غیرشعوری طور پر دنیائے علم کو فائدہ بھی پہنچایا ہے،کیونکہ جانداروں کی مختلف انواع کی تقسیم اور ترتیب کی دریافت اسی کی تحقیقات کا نتیجہ ہے اور یہ تقسیم دوسرے بہت سے دلائل کی طرح کائنات میں موجود حیرت انگیز ہم آہنگی اور نظم ونسق کی ایک دلیل ہے۔اس سے کائنات کے بے مثال نظام کے خالق کی قدرت کی عظمت بھی ثابت ہوتی ہے۔ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ڈارون کی تحقیقات سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوا،لیکن وہی تحقیقات اس کی گمراہی کا باعث بنیں۔
 
Top