ناصر علی مرزا
معطل
ایک رائے یہ بھی ہے
نظریہ ارتقا اور مسلم نوجوان
ایم ودودساجد
آج کل انسانی ارتقا کے نظریہ پر پھر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ایسے موضوعات وقفہ وقفہ سے اٹھائے جاتے رہتے ہیں۔جب مسلمان نظریہ ارتقا پر بحث کرتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔میں ان سے کچھ کہتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس دلائل ہیں تو آپ خائف کیوں ہیں اور یہ کہ علمی بحث تو ہونی چاہئے۔
انسانی ارتقا کا نظریہ دو صدیوں قبل سب سے پہلے چارلس ڈارون اور الفریڈ والیس نے پیش کیاتھا۔اس وقت بھی اس کی مخالفت ہوئی اور آج بھی ہوتی ہے۔یہاں تک کہ خودڈارون کے ہم مذہبوں نے بھی اس کو سخت ناپسند کیا۔سربیا میں اس نظریہ کی تعلیم پر پابندی عاید تھی لیکن اب اس پابندی کو اٹھا لیا گیا ہے۔جب میں غور کرتا ہوں کہ اس بحث کو اٹھانے سے کس کو فائدہ ہوتا ہے تو کوئی سرا نہیں ملتا۔لیکن جب اس کے نقصان پر غور کرتاہوں تواندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ہوتا ہے۔
انہیں اپنے وقت کی قیمت کا اندازہ نہیں ہے لیکن اس لغو بحث میں الجھ کر انتہائی قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں۔ اس طرح کی بحثوں میں مسلم نوجوانوں کوزیادہ لطف آتا ہے۔وہ موضوع کی حساسیت کو سمجھے بغیر اس میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ڈارون نے کیا کہا اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔سائنس ‘تاریخ اور دوسرے موضوعات کے طلبہ اس سے بخوبی واقف ہوہی جاتے ہیں۔لیکن مختصر یہ ہے کہ ڈارون کے خیال میں انسان آج جس شکل میں ہے وہ اس کی ارتقائی شکل ہے۔وہ کہتا ہے کہ انسان مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا بندر بنا اور پھرزمانے کے ساتھ ساتھ ارتقائی منزلیں طے کرتا ہوا وہ انسان بن گیا۔
مجھے ایک مرتبہ قرآن ‘سائنس اور کائنات کے موضوع پر منعقد ایک کانفرنس میں متعلقہ تقاریرکے بعد اظہار خیال کرنے کو کہا گیا۔میں نے محسوس کیا کہ بعض لوگ قرآن کی تصدیق کیلئے سائنس کو معیار تصور کرتے ہیں۔لہذا میں نے عرض کیا کہ اسلام علمی بحث سے نہیں روکتا لیکن بحث کے چند اصول ہوتے ہیں اور اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کوکچھ اصولوں کا پابند کیا ہے۔
مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ توحید اور اللہ کی قدرت کاملہ پرایمان بالغیب ہے۔اگر کوئی نظریہ اس بنیادی عقیدہ سے ٹکراتا ہے تو مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس نظریہ سے اجتناب کرے۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی تعلیمات ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی ہیں جبکہ سائنس انسان کی دریافت ہے ۔اس لئے سائنس کی کوئی بھی تحقیق تو تصدیق کی محتاج ہوسکتی ہے لیکن قرآن کا کوئی نظریہ اور اس کی کوئی اطلاع کسی تصدیق کی محتاج نہیں ہے۔
مجھے ڈارون کی تھیوری پر کوئی کلام کرنے کا اس لئے حق نہیں ہے کہ میں اس سلسلہ میں زیادہ کچھ نہیں جانتا۔لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس پر سانس لینے والے اولین انسان کا نام آدم تھااور اسی کی نسبت سے انسان کو آدمی کہا جاتا ہے۔
قرآن بتاتا ہے کہ جب خدانے انسان کی تخلیق کا ارادہ کیا تو فرشتوں سے کہا کہ’ میں زمین میں اپنا نائب بنانے جارہا ہوں‘۔فرشتوں نے کہا کہ کیا آپ زمین میں اس کو (اپنانائب )بنائیں گے جو اس میں فساد برپا کرے اور خون بہائے؟جب کہ ہم آپ کی حمد وثنااور تقدیس بیان کرتے(ہی) ہیں۔تو خدانے جواب میں کہا تھا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔قرآنی نظریہ اور اسلام کے عقیدہ کے مطابق انسان کو اللہ نے انسان کی ہی شکل میں پیدا کیا اور اس پر بھی اولین انسان کے طورپرآدم علیہ السلام جیسے جلیل القدر انسان کو پیدا کیا۔اور زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہی ان کی تشکیل کی۔قرآن میں دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے لقدخلقنا الانسان فی احسن تقویم یعنی ہم نے انسان کو بہترین صورت میں بنایا ہے۔سائنس کے مطابق دنیا اور انسان کی تاریخ اربوں کھربوں سال پرانی ہے۔اور مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ تخلیق آدم سے پہلے ہی نبی آخرالزماں کا ذکر مبارک‘ عرش الہی پر موجود تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اللہ کے منصوبہ کے عین مطابق ہوئی ہے۔اس لئے یہ تھیوری پیش کرنے والا ناقص العقل اور خداکے نظام تخلیق سے ناواقف انسان ہے۔جب کہ اس تھیوری پر بحث کرنے والے اس سے بھی زیادہ نادان ہیں۔دوسرے اس بحث میں الجھیں تو ان پر کوئی زور نہیں لیکن مسلمان اس بحث میں الجھیں تو افسوس ہوتا ہے۔
انسانی طبقات میں جو طبقہ قرآنی زبان میں ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ہے وہ اگر اس فضول اور لغو بلکہ متصادم بہ اسلام نظریہ پر بحث کرے تو اس کو نہ صرف وقت کا زیاں کہا جائے گا بلکہ اس کو اللہ کی قدرت وطاقت اور اس کے نظام تخلیق کے خلاف ’اہانت کی کوشش‘ سمجھاجانا چاہئے۔ خدانے حضرت آدم کو تخلیق کرکے انہیں قرآنی زبان میں ’تمام اشیا کے نام سکھائے‘۔اور نہ صرف یہ بلکہ آدم سے کہا کہ وہ فرشتوں کے سامنے ان تمام اشیا کے نام سنادیں۔ ڈارون کی تھیوری مفروضات پر مبنی ہے جبکہ اللہ کے نظام تخلیق کی تفصیل ہرلمحہ نظرآنے والے حقائق پرمبنی ہے جن کو قرآن نے صاف صاف بیان کردیا ہے۔
ڈارون کی تھیوری توقیر انسانی کے خلاف ہے ۔اس لئے کہ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات کا عنوان دیا ہے۔اس نے جس جانداراور بے جان کو جس کام کیلئے مناسب سمجھااسے ایک خاص شکل میں بنادیا۔اس کا سارا نظام قرآن کی زبان میں ’کل یجری لاجل مسمی‘ ہے۔یعنی ہر چیزایک معین میعاد تک کیلئے رواں دواں ہے۔ڈارون کی تھیوری پر ذرہ برابر بھی یقین کرکے بحث کرنے والے‘ خداکوبالواسطہ طورپر نعوذ باللہ منصوبہ سازی سے عاری ہستی قرار دیتے ہیں۔جبکہ اللہ کا کوئی کام پلاننگ اورعلت سے خالی نہیں ہے۔
ایسی لغو بحثوں میں اس لئے بھی نہیں الجھنا چاہئے کہ اس بھاگ دوڑ کی زندگی نے انسان کے ہاتھوں سے وقت کی برکت چھین لی ہے۔پہلے زمانہ کے لوگ عمر کا آدھے سے زیادہ حصہ عبادت میں گزارتے تھے ‘آج عبادت کیلئے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔تو کیا یہ دانشمندی کا تقاضا نہیں ہے کہ جب بھی وقت ملے آپ خدا کا ذکر کریں۔سفر میں ہوں یا حضر میں ‘فرصت ہو تو خدا کی کائنات میں غور وفکر کریں۔قرآن بارباراسی غور وفکر اور تدبر وتفقہ کی دعوت دیتا ہے۔
ہمارے پاس تمام انسانی سائنسوں سے بہترخدائی سائنس اور تمامفروضات سے بہتر حقائق موجود ہیں ۔ لیکن ہم ہیں کہ نادانوں کے ذریعہ چھیڑی گئی بے ہودہ بحث میں پڑکر اپنا قیمتی وقت بھی ضائع کرتے ہیں اور بالواسطہ طوپر اہانت الہی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔کوئی ڈارون کے ہم نواؤں سے پوچھے کہ آج یہ ارتقائی عمل کیوں رک گیا ہے؟اور کیوںآج کے بندر کوئی بامعنی جملہ ادا نہیں کرتے؟ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس طرح کی بحثیں مسلمانوں کو اصل کام سے ہٹاکر خداکے نظام سے باغی بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔کیا مسلمان اور خاص طورپربحث ومباحثہ میں وقت گزاری کرنے والے مسلم نوجوان اس نکتہ پر غور کریں گے؟
نظریہ ارتقا اور مسلم نوجوان
ایم ودودساجد
آج کل انسانی ارتقا کے نظریہ پر پھر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ایسے موضوعات وقفہ وقفہ سے اٹھائے جاتے رہتے ہیں۔جب مسلمان نظریہ ارتقا پر بحث کرتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔میں ان سے کچھ کہتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس دلائل ہیں تو آپ خائف کیوں ہیں اور یہ کہ علمی بحث تو ہونی چاہئے۔
انسانی ارتقا کا نظریہ دو صدیوں قبل سب سے پہلے چارلس ڈارون اور الفریڈ والیس نے پیش کیاتھا۔اس وقت بھی اس کی مخالفت ہوئی اور آج بھی ہوتی ہے۔یہاں تک کہ خودڈارون کے ہم مذہبوں نے بھی اس کو سخت ناپسند کیا۔سربیا میں اس نظریہ کی تعلیم پر پابندی عاید تھی لیکن اب اس پابندی کو اٹھا لیا گیا ہے۔جب میں غور کرتا ہوں کہ اس بحث کو اٹھانے سے کس کو فائدہ ہوتا ہے تو کوئی سرا نہیں ملتا۔لیکن جب اس کے نقصان پر غور کرتاہوں تواندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ہوتا ہے۔
انہیں اپنے وقت کی قیمت کا اندازہ نہیں ہے لیکن اس لغو بحث میں الجھ کر انتہائی قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں۔ اس طرح کی بحثوں میں مسلم نوجوانوں کوزیادہ لطف آتا ہے۔وہ موضوع کی حساسیت کو سمجھے بغیر اس میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ڈارون نے کیا کہا اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔سائنس ‘تاریخ اور دوسرے موضوعات کے طلبہ اس سے بخوبی واقف ہوہی جاتے ہیں۔لیکن مختصر یہ ہے کہ ڈارون کے خیال میں انسان آج جس شکل میں ہے وہ اس کی ارتقائی شکل ہے۔وہ کہتا ہے کہ انسان مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا بندر بنا اور پھرزمانے کے ساتھ ساتھ ارتقائی منزلیں طے کرتا ہوا وہ انسان بن گیا۔
مجھے ایک مرتبہ قرآن ‘سائنس اور کائنات کے موضوع پر منعقد ایک کانفرنس میں متعلقہ تقاریرکے بعد اظہار خیال کرنے کو کہا گیا۔میں نے محسوس کیا کہ بعض لوگ قرآن کی تصدیق کیلئے سائنس کو معیار تصور کرتے ہیں۔لہذا میں نے عرض کیا کہ اسلام علمی بحث سے نہیں روکتا لیکن بحث کے چند اصول ہوتے ہیں اور اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کوکچھ اصولوں کا پابند کیا ہے۔
مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ توحید اور اللہ کی قدرت کاملہ پرایمان بالغیب ہے۔اگر کوئی نظریہ اس بنیادی عقیدہ سے ٹکراتا ہے تو مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس نظریہ سے اجتناب کرے۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی تعلیمات ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی ہیں جبکہ سائنس انسان کی دریافت ہے ۔اس لئے سائنس کی کوئی بھی تحقیق تو تصدیق کی محتاج ہوسکتی ہے لیکن قرآن کا کوئی نظریہ اور اس کی کوئی اطلاع کسی تصدیق کی محتاج نہیں ہے۔
مجھے ڈارون کی تھیوری پر کوئی کلام کرنے کا اس لئے حق نہیں ہے کہ میں اس سلسلہ میں زیادہ کچھ نہیں جانتا۔لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس پر سانس لینے والے اولین انسان کا نام آدم تھااور اسی کی نسبت سے انسان کو آدمی کہا جاتا ہے۔
قرآن بتاتا ہے کہ جب خدانے انسان کی تخلیق کا ارادہ کیا تو فرشتوں سے کہا کہ’ میں زمین میں اپنا نائب بنانے جارہا ہوں‘۔فرشتوں نے کہا کہ کیا آپ زمین میں اس کو (اپنانائب )بنائیں گے جو اس میں فساد برپا کرے اور خون بہائے؟جب کہ ہم آپ کی حمد وثنااور تقدیس بیان کرتے(ہی) ہیں۔تو خدانے جواب میں کہا تھا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔قرآنی نظریہ اور اسلام کے عقیدہ کے مطابق انسان کو اللہ نے انسان کی ہی شکل میں پیدا کیا اور اس پر بھی اولین انسان کے طورپرآدم علیہ السلام جیسے جلیل القدر انسان کو پیدا کیا۔اور زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہی ان کی تشکیل کی۔قرآن میں دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے لقدخلقنا الانسان فی احسن تقویم یعنی ہم نے انسان کو بہترین صورت میں بنایا ہے۔سائنس کے مطابق دنیا اور انسان کی تاریخ اربوں کھربوں سال پرانی ہے۔اور مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ تخلیق آدم سے پہلے ہی نبی آخرالزماں کا ذکر مبارک‘ عرش الہی پر موجود تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اللہ کے منصوبہ کے عین مطابق ہوئی ہے۔اس لئے یہ تھیوری پیش کرنے والا ناقص العقل اور خداکے نظام تخلیق سے ناواقف انسان ہے۔جب کہ اس تھیوری پر بحث کرنے والے اس سے بھی زیادہ نادان ہیں۔دوسرے اس بحث میں الجھیں تو ان پر کوئی زور نہیں لیکن مسلمان اس بحث میں الجھیں تو افسوس ہوتا ہے۔
انسانی طبقات میں جو طبقہ قرآنی زبان میں ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ہے وہ اگر اس فضول اور لغو بلکہ متصادم بہ اسلام نظریہ پر بحث کرے تو اس کو نہ صرف وقت کا زیاں کہا جائے گا بلکہ اس کو اللہ کی قدرت وطاقت اور اس کے نظام تخلیق کے خلاف ’اہانت کی کوشش‘ سمجھاجانا چاہئے۔ خدانے حضرت آدم کو تخلیق کرکے انہیں قرآنی زبان میں ’تمام اشیا کے نام سکھائے‘۔اور نہ صرف یہ بلکہ آدم سے کہا کہ وہ فرشتوں کے سامنے ان تمام اشیا کے نام سنادیں۔ ڈارون کی تھیوری مفروضات پر مبنی ہے جبکہ اللہ کے نظام تخلیق کی تفصیل ہرلمحہ نظرآنے والے حقائق پرمبنی ہے جن کو قرآن نے صاف صاف بیان کردیا ہے۔
ڈارون کی تھیوری توقیر انسانی کے خلاف ہے ۔اس لئے کہ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات کا عنوان دیا ہے۔اس نے جس جانداراور بے جان کو جس کام کیلئے مناسب سمجھااسے ایک خاص شکل میں بنادیا۔اس کا سارا نظام قرآن کی زبان میں ’کل یجری لاجل مسمی‘ ہے۔یعنی ہر چیزایک معین میعاد تک کیلئے رواں دواں ہے۔ڈارون کی تھیوری پر ذرہ برابر بھی یقین کرکے بحث کرنے والے‘ خداکوبالواسطہ طورپر نعوذ باللہ منصوبہ سازی سے عاری ہستی قرار دیتے ہیں۔جبکہ اللہ کا کوئی کام پلاننگ اورعلت سے خالی نہیں ہے۔
ایسی لغو بحثوں میں اس لئے بھی نہیں الجھنا چاہئے کہ اس بھاگ دوڑ کی زندگی نے انسان کے ہاتھوں سے وقت کی برکت چھین لی ہے۔پہلے زمانہ کے لوگ عمر کا آدھے سے زیادہ حصہ عبادت میں گزارتے تھے ‘آج عبادت کیلئے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔تو کیا یہ دانشمندی کا تقاضا نہیں ہے کہ جب بھی وقت ملے آپ خدا کا ذکر کریں۔سفر میں ہوں یا حضر میں ‘فرصت ہو تو خدا کی کائنات میں غور وفکر کریں۔قرآن بارباراسی غور وفکر اور تدبر وتفقہ کی دعوت دیتا ہے۔
ہمارے پاس تمام انسانی سائنسوں سے بہترخدائی سائنس اور تمامفروضات سے بہتر حقائق موجود ہیں ۔ لیکن ہم ہیں کہ نادانوں کے ذریعہ چھیڑی گئی بے ہودہ بحث میں پڑکر اپنا قیمتی وقت بھی ضائع کرتے ہیں اور بالواسطہ طوپر اہانت الہی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔کوئی ڈارون کے ہم نواؤں سے پوچھے کہ آج یہ ارتقائی عمل کیوں رک گیا ہے؟اور کیوںآج کے بندر کوئی بامعنی جملہ ادا نہیں کرتے؟ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس طرح کی بحثیں مسلمانوں کو اصل کام سے ہٹاکر خداکے نظام سے باغی بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔کیا مسلمان اور خاص طورپربحث ومباحثہ میں وقت گزاری کرنے والے مسلم نوجوان اس نکتہ پر غور کریں گے؟