سید شہزاد ناصر
سرکار ! بڑی مشکل سے یہ عقدہ حل کیا تھا کہ پہلے مرغی پیدا ہوئی یا انڈا ۔ اب یہ دوسرا مسئلہ آگیا
سرکار میں تو بجز دو حرف لا الٰہ کچھ نہیں جانتا ۔ مذکورہ بحث سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ کیا یہ ساری کائنات، یہ سیارے ، ستارے ، حجر و شجر ، حیوانات و نباتات خود بخود تخلیق ہوگئے یا کوئی خالق ہستی ہے ۔ اگر خود بخود تخلیق ہو گئے تو ان میں جدا جدا خصوصیات کیسے پیدا ہوئیں ؟ ایک پتھر کو ہم کیلشیم کہتے ہیں تو دوسرے کو سوڈیم ، ایک تناور درخت پر چھوٹے چھوٹے بیر لگتے ہیں تو ایک نازک بیل پر تربوز ہر ایک کی اقسام بہت ۔ آکر یہ خود بخود کیسے تخلیق ہو گئیں ۔؟ یقیناً کوئی خالق ہوگا ۔ اور پھر کیا وہ خالق جو jelly fish سے لی کر وہیل مچھلی ، چیونٹی سے اژدہا ، چوہے سے لے کر ہاتھی اور چڑیا سے لے کر عقاب تک مخلوق تخلیق کر سکتا ہے اُس کے لئے کیا مجبوری تھی کہ ان تمام مخلوقات پر قدرت رکھنے والے انسان کو کسی اور مخلوق سے بتدرج ترقی دیتا ہوا اشرف المخلوقات بنائے ۔
اب رہی بات اس نظریہ کی ۔ نظریے تو بدلتے رہتے ہیں ۔ کبھی سائنس دان دنیا کو چپٹا سمجھتے تھے پھر گول ہوگئی پھر کہا کہ دنیا سورج کے گرد گھومتی ہے اب یہ بھی متنازعہ ہو گیا بعض سمجھتے ہیں کہ سورج دنیا کے گرد گھومتا ہے ۔ اسی طرح زرافہ کے بارے میں کہ پہلے اُس کی گردن چھوٹی تھی جب قحط پڑا تو اونچے درختوں کی وجہ سے اُس کی گردن لمبی ہوگئی ۔ اس طرح سب جانوروں میں تبدیلی ہوئی یہ ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے ۔ زیبرا گھوڑا نہ بن سکا ،اور صرف ظاہری شکل میں نہیں ان جانوروں کی فطرت اور اس کے مطابق ضروریات بھی مختلف ہیں
۔ہاں البتہ ذہنی ارتقا اور ماحول سے سے رویوں میں تبدیلی ضرور آتی ہے ۔ اور یہ تبدیل انسانوں کے علاوہ حیوانات میں بھی آتی ہے ۔ ان کے ماحول خوراک سے ان کی جسامت بھی متاثر ہوتی ہے مگر ایسی تبدیلی نہیں ہوتی کہ وہ اصل ہی ختم ہو جائے ۔
بہر حال سوائے قران مجید کے ہر نظریہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنا ارتقائی سفر جاری رکھے گا اور انجام کار وہی نظریہ درست ہوگا جو آخری الہامی کتاب میں ہے ۔