نظریہ ارتقاء پر اعتراضات اور ان کے جواب

حمیر یوسف

محفلین
ارتقاء کے وقوع پذیر ہونے کے شواہد کے بارے میں میرے خیال سے سب سے اہم شہادت ، جانداروں کے اجسام کی ساخت میںمماثلت ، تطابق(Homology) کا پایا جانا ہے۔ اس مماثلت اور تطابق کے مطابق کسی کی جاندار کے ڈھانچے اور مبدا کی مشابہت شکل اور استعمال سے قطع نظربہت سی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اور اگر انکی ہڈیوں کو بغور دیکھا جائے تو یہ بہت گہری مماثلت یقینا اس چیز کو واضح کرتی ہے کہ انکا مشترک آغاز ایک ہی تھا۔ جیسے زیل کی تصاویر پر غور کریں۔ اسمیں انسان، پرندے، کتے اور وہیل کے بازو ؤںکی ہڈیوں کی ساخت بتائی گئی ہے ۔ جانداروں کا یہ گروپ فقاریہ جانداروں یعنی ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانداروں کے گروپ (Vertebrate ) سے ہے، اور ان سب کے بازوں کی ہڈی میں ایک مشترک ہڈی جو تصویر میں سرخ رنگ سے ظاہر کی گئی ہے، بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ اس ہڈی کو اُلنا (Ulna)کہتے ہیں۔ اسکے علاوہ آپ انسان اور وہیل کے بازوں میں موجود پانچ پانچ انگلیوں کی موجودگی پر بھی غور کریں۔ وہیل کی پانچ انگلیاں اسکے فلپرز کے غلاف کے اندر چھپی ہوئی ہوتی ہیں، اس لئے نمایاں نظر نہیں آتی، لیکن جب وہیل کے فلپرز کی کھال کاٹ کر اسکے اندر کا ڈھانچہ دیکھا جائے تو پانچ انگلیوں کی واضح موجودگی نظر آتی ہے۔



اسکے علاوہ بھی ایک مماثلت پیش کرتا ہوں، اور وہ ہے مختلف قدیم اور جدید پرندوں کے پروں کی مماثلت۔ نیچے دئے گئی تصویر میں ایک پیٹرو سارس (ایک ڈائنو سار جو اڑ سکتا تھا، جراسک عہد میں پایا جاتا تھا)، چمگاڈر اور ایک عام پرندے کے پر کی اندرونی ساخت کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ تصویر کو دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ انکے پروں میں بہت حد تک مطابقت موجود ہے۔ حالانکہ پیٹرو سارس کا وجود آج سے لاکھوں سالوں قبل تھا ۔ اور چمگاڈر ایک میمل (Mammal ) ہے جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتا ہے اور پرندے انڈے دیتے ہیں اور سرد خون رکھنے والے جاندار ہیں۔



اب جو نظریہ ذہین پیدائش (Genius Creation) کا یہ بتاتا ہو کہ خدا نے سب جانداروں کو ایک ساتھ ہی پیدا کیا تھا، اس سے اگر پوچھے یہ اگر یہ بات تھی تو جانداروں کے اجسام میں اتنی زبردست مماثلت کیسے پائی گئی؟ کیا خدا نے مختلف زمانے اور مختلف آب وہوا (Environment) میں ایک جیسی ساخت رکھنے والےجانداروں کو کیوں پیدا کیا؟ اگر دس جاندار ہیں تو سبھی کو الگ الگ کیوں پیدا نہیں کیا؟ جسطرح ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والے چار یا پانچ بہن بھائیوں کو دیکھ کر انکے ایک ہی ماں باپ ہونے کا احساس انکی ملتی جلتی شکلیں دیکھ نہیں ہوتا؟ اسی طرح یہ احساس ان جانداروں کی ملتی جلتی ساخت دیکھ کر جاگزیں کیوں نہیں ہوتا کہ ان جانداروں کا نقطہ آغاز (Origin) ایک ہی تھا؟
 

arifkarim

معطل
کیا خدا نے مختلف زمانے اور مختلف آب وہوا (Environment) میں ایک جیسی ساخت رکھنے والےجانداروں کو کیوں پیدا کیا؟

جسطرح ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والے چار یا پانچ بہن بھائیوں کو دیکھ کر انکے ایک ہی ماں باپ ہونے کا احساس انکی ملتی جلتی شکلیں دیکھ نہیں ہوتا؟

آپنے تو کام بہت ہی آسان کر دیا۔ بندہ ان مذہبی لوگوں سے پوچھے اگر تمام انسان آدم اور حوا کی اولاد سے ہیں تو یہ رنگ و نسل کا اتنا واضح فرق کیوں:
jaden-smith-net-worth1.jpg

2013TySimpkinsPA-16364755151013.jpg

otona-drop-6.jpg
 

حمیر یوسف

محفلین
ایک اور اسی مماثلت کے موضوع پر واضح ثبوت کہ ارتقاء کا وجود ہوا تھا۔ اور وہ یہ کہ بہت سے غیر مشترک جانداروں کے بازؤں میں پائے جانے والی پانچ انگلیاں۔ یہ جاندار جو الگ الگ آب و ہوا میں رہنے کے عادی ہیں اور شکلا اور فطرت مختلف دکھائی دیتے ہیں، انکے ڈھانچے کی اندرونی ساخت ایک ہی جیسی پانچ انگلیوں والی ہے جسکو انگریزی کی اصطلاح میں Tetrapod limbکہتے ہیں۔ اسمیں جن جانداروں کے ہاتھ کی اندرونی بتائی گئی ہے انمیں انسان، چھپکلی، بلی، وہیل، چمگاڈر، مینڈک اور کسی پرندے کے بازوں، ہاتھوں کی ساخت نظر آرہی ہے، اور پانچ انگلیوں کا واضح ثبوت مل رہا ہے۔ صرف پرندے کے پر میں موجود چار انگلیاں نظر آرہی ہیں، جو کہ اسکے انگلیوں کے کم استعمال کی وجہ سے ہے

 

arifkarim

معطل
ایک اور اسی مماثلت کے موضوع پر واضح ثبوت کہ ارتقاء کا وجود ہوا تھا۔ اور وہ یہ کہ بہت سے غیر مشترک جانداروں کے بازؤں میں پائے جانے والی پانچ انگلیاں۔ یہ جاندار جو الگ الگ آب و ہوا میں رہنے کے عادی ہیں اور شکلا اور فطرت مختلف دکھائی دیتے ہیں، انکے ڈھانچے کی اندرونی ساخت ایک ہی جیسی پانچ انگلیوں والی ہے جسکو انگریزی کی اصطلاح میں Tetrapod limbکہتے ہیں۔ اسمیں جن جانداروں کے ہاتھ کی اندرونی بتائی گئی ہے انمیں انسان، چھپکلی، بلی، وہیل، چمگاڈر، مینڈک اور کسی پرندے کے بازوں، ہاتھوں کی ساخت نظر آرہی ہے، اور پانچ انگلیوں کا واضح ثبوت مل رہا ہے۔ صرف پرندے کے پر میں موجود چار انگلیاں نظر آرہی ہیں، جو کہ اسکے انگلیوں کے کم استعمال کی وجہ سے ہے


شکریہ جناب۔ یہ تو زیادہ تر وہ مخلوق ہے جسے ہم اچھی طرح سے واقف ہیں۔ سمندر کی تہہ میں رہنے والی پیشتر مخلوقات کو تو ہم جانتے ہی نہیں۔ سائنسدانوں نے وہاں ایسی مچھلیاں ڈھونڈی ہیں جو مستقل اندھیر نگری میں رہنے کی وجہ سے ارتقائی طور پر "اندھی" ہو چکی ہیں لیکن انہیں آنکھیں نہ ہونے کے باوجود سب نظر آتا ہے۔ اسی طرح اخبوط یا آکٹوپس کی بہت سی اقسام ہیں جو اپنے ماحول کو اپنے جسم پروارد کر کے بصری طور پر نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں:
 
جناب حمیر صاحب نے تبصرہ لکھ کر ایک نئے سرے سے گفتگو کا آغاز کیا ہے۔ گو کہ آج کل سخت مصروفیات میں مبتلا ہوں تو مسلسل گفتگو میں تو حصہ نہیں لے سکتا۔ البتہ وقتاً فوقتاً شریک ہوتا رہوں گا۔
یہاں فی الحال میں تنقیح لکھنے سے پہلے ایک بات واضح کردوں کہ میں نظریۂ ارتقا کو بطور ایک سائنسی نظریہ تسلیم کرتا ہوں۔ لیکن اس پر میرے چند تحفظات بھی ہیں جن کی وجہ سے اسے "حتمی توجیہہ" (پھر کہوں گا کہ "حتمی توجیہہ")نہیں سمجھتا۔ تاہم مجھے یہ بات دل و جان سے قبول ہے کہ سائنسی طور پر نظریۂ ارتقا ایک جاندار اور بہترین نظریہ ہے۔ میری گزارش ہوگی کہ کسی بھی مذہبی بحث کو درمیان میں لائے بغیر گفتگو کی جائے تو میرا اور باقی سب کا فائدہ ہوگا۔

جیسا کہ میں نے عرض کی کہ نظریۂ ارتقا جانداروں کے مختلف انواع کے ظہور پذیر ہونے کی تاحال بہترین توجیہہ ہے۔ لیکن نتائجیت کی دوڑ میں ہم اس نظریے کو اس سے بھی کہیں آگے لے گئے ہیں جتنا کہ اسے ہونا چاہیے تھا۔ جب ہم نظریۂ ارتقا پر بات کرتے ہیں تو اس میں عام طور پر دو ہی صورتیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ یا تو اس کو بھر پور طریقے سے مانتے ہیں اور منوانے پر اصرار کرتے ہیں۔ یا پھر اسے مردود قرار دیتے ہیں اور اس کے رد پر اصرار کرتے ہیں۔ میری نظر میں یہ دونوں ہی طریق مناسب نہیں ہیں۔ نظریۂ مذکور میں کئی ایسے نکات ہیں کہ جن سے اس نظریے کی طاقت اور جامعیت کا سراغ ملتا ہے۔ دوسری طرف اس میں کئی ایسے فکری مغالطات بھی ہیں جن سے معاملہ بین بین کا ہوا چاہتا ہے۔
طبیعی انتخاب اور جینیاتی تبدیلیاں واقعی بہت اہم نکات ہیں جو نظریۂ ارتقا کے مکانیکی اطوار کو سمجھایا کرتے ہیں۔ تاہم فوصلی شہادتیں، جینیاتی اور جسمانی مماثلتوں سے جب ہم اپنا مدعا پیش کر رہے ہوتے ہیں تو ہم اپنے استخراج کو حتمی استخراج کے طور پر پیش کرتے ہیں جیسا کہ قبلہ حمیر صاحب نے اپنے گزشتہ تبصروں فرمایا۔ میرے ناقص خیال میں جینیاتی یا جسمانی مماثلتیں نظریۂ ارتقا کے ثبوت ہیں۔ لیکن یہ دونوں ہی چیزیں نظریۂ ارتقا کے حتمی ہونے کی "کافی دلیل" نہیں ہیں۔ غلطی کا بہت بڑا امکان اس میں باقی ہے۔ یعنی دو یا چند مماثل ڈھانچوں سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ان میں سے ایک دوسرے کا جد ہے یا دوسرا پہلے سے ارتقا کرکے وجود میں آیا ہے، یہ بات محض قیاس ہے۔ کیونکہ عام حالات میں یکسانیت کے ایک سے زیادہ معانی ہوتے ہیں۔ اسے صرف ارتقا ہی تک محدود رکھنا اور باقی احتمالات کو محلِ نظر جاننا ایک فکری مغالطہ بھی ہوسکتا ہے۔

آداب۔
 

حمیر یوسف

محفلین
اب مزمل حسین صاحب نے جب اتنی بات کہہ دی تو اس کے بدلے میں میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اگر ان جانداروں کی ساخت یکساں ہونا اور اسکے نتیجے میں انکا ماخذ ایک ہونا اگر آپکے حساب سے ایک قیاس ہے، تو میرے بھائی آپ ان مشترکہ خصوصیات کو پھر کیا نام دوگے؟ :) کیوں تمام ممالیہ جانداروں اور ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانداروں کے اگلے پیروں میں پانچ پانچ انگلیاں ہوتی ہیں؟ چھ چھ، سات سات یا ہر ایک نسل کی الگ الگ انگلیاں کیوں نہیں ہوتی؟ آپ کے پاس اسکا سادہ ترین جواب کیا ہوگا پھر؟ کسطرح آپ ان مماثلت کا جواب دے سکے گے، اگر آپ کی نظر میں یہ ارتقا کا حتمی ثبوت نہیں ہے؟
ایک طرف تو آپ ارتقا کو مان بھی رہے ہو اور دوسری طرف اسکے شواہد کو حتمی بھی نہی سمجھ رہے؟ :roll: اسطرح تو گویا یہ بات ہوسکتی ہے کہ آپ کشش ثقل کو مانتے تو ہو، لیکن نیوٹن کے قانون کائناتی ثقل کو ماننے سے انکار کرتے ہو، کہ کشش ثقل گریٹوی تو صرف زمین پر پائی جاتی ہے، اس قانون کو ماننے کی حتمی دلیل نہیں ہے۔اگر آپ چاند کی گریوٹی کی بات کرتے ہو، تو کیا چاند کی گریوٹی آپ نے اسی طرح محسوس کی، جیسے زمین کی کی ہے؟ حالانکہ نیوٹن نے اسی زمین پر رہتے ہوئے کشش ثقل کو محسوس کیا اور ایک کائناتی ثقل کا فارمولا و قانون بنادیا، جسکو کوئی سائنسدان آج چیلنچ نہیں کرتا۔ کیا نیوٹن کائنات یا خلاء میں گیا تھا جسکی بنیاد پر اسنے کائناتی ثقل کا قانون بنایا؟
 

حمیر یوسف

محفلین
میرے نزدیک ارتقا نے خدا کے وجود کوeliminate نہیں کیا بلکہ خدا نے ارتقاء کے tool کو استعمال کرتے ہوئے زمین پر موجود جانداروں کو اپنی موجودہ ہیئت دی اور اسی ٹول کو استعمال کرتے ہوئے جاندار اپنی سادہ شکلوں سے ترقی پاتے ہوئے موجودہ شکلوں اور حالتوں میں آگئے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
میرے نزدیک ارتقا نے خدا کے وجود کوeliminate نہیں کیا بلکہ خدا نے ارتقاء کے tool کو استعمال کرتے ہوئے زمین پر موجود جانداروں کو اپنی موجودہ ہیئت دی اور اسی ٹول کو استعمال کرتے ہوئے جاندار اپنی سادہ شکلوں سے ترقی پاتے ہوئے موجودہ شکلوں اور حالتوں میں آگئے ہیں۔
میری سمجھ سے باہر ہے کہ خدا کے وجود کا دفاع یا رد انسانوں کو کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جسکا وجود ہے جیسے کشش ثقل، ہوا، حرارت وہ اپنے ہونے کا اثبوت خود دیتا ہے۔ ایسے میں انسانوں کو اس مسئلہ میں پڑھنا ہی نہیں چاہئے کہ اس سائنسی نظریہ سے خدانخواستہ خدا کا وجود رد ہو جائے گا۔ کیا خدا کا وجود اتنا ہی کمزور ہے کہ چنداں جدید سائنسی نظریات سے پورے کا پورا فلسفہ خدا جو کہ کئی ہزار سالوں پہ محیط ہے رد ہو جائے گا؟ :)
 

حمیر یوسف

محفلین
کیا خدا کا وجود اتنا ہی کمزور ہے کہ چنداں جدید سائنسی نظریات سے پورے کا پورا فلسفہ خدا جو کہ کئی ہزار سالوں پہ محیط ہے رد ہو جائے گا؟ :)
عارف بھائی، جو لوگ ارتقاء کے نظریے کی مخالفت کرتے ہیں، وہ بالکل ایسا ہی سوچتے ہیں کہ ارتقاء کا مطلب خدا کا وجود صفر۔ اور ارتقاء کا جھٹلادو اور خدا کے وجود کا اقرار کرلو۔ یعنی دو انتہاؤں پر ہے یہ معاملہ
 

arifkarim

معطل
جسکو کوئی سائنسدان آج چیلنچ نہیں کرتا۔
نیوٹن کے قوانین کائنات انتہائی شدید کمیت رکھنے والے اجسام جیسے بلیک ہولز، نیوٹران ستارے نیز روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرنے والے اجسام پر کام نہیں کرتے۔ آئن اسٹائن نے ان قوانین کو سب سے پہلے چیلنج کیا تھا اپنے مشہور زمانہ نظریہ اضافیت کے بعد۔
 

arifkarim

معطل
عارف بھائی، جو لوگ ارتقاء کے نظریے کی مخالفت کرتے ہیں، وہ بالکل ایسا ہی سوچتے ہیں کہ ارتقاء کا مطلب خدا کا وجود صفر۔ اور ارتقاء کا جھٹلادو اور خدا کے وجود کا اقرار کرلو۔ یعنی دو انتہاؤں پر ہے یہ معاملہ
جی میرا بھی یہی مشاہدہ ہے کہ نظریہ ارتقاء کو جھٹلانے والوں میں مذہبی رجحان رکھنے والے زیادہ ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ امریکہ جیسے جدید ملک میں آج بھی ایک بڑا عیسائی قدامت پسند طبقہ یہی مانتا ہے کہ نظریہ ارتقاء غلط ہے اور اسے اسکولوں میں نہیں پڑھانا چاہئے زیک
 

حمیر یوسف

محفلین
نیوٹن کے قوانین کائنات انتہائی شدید کمیت رکھنے والے اجسام جیسے بلیک ہولز، نیوٹران ستارے نیز روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرنے والے اجسام پر کام نہیں کرتے۔ آئن اسٹائن نے ان قوانین کو سب سے پہلے چیلنج کیا تھا اپنے مشہور زمانہ نظریہ اضافیت کے بعد۔
عارف بھائی اتنی چھوٹ تو دنیا کے ہر قانون میں پائی جاتی ہے۔ :wink:
 

حمیر یوسف

محفلین
جی مگر یاد رہے کہ نیوٹن کے قوانین کائنات کو 300 سال بعد چیلنج کیا گیا تھا :)
چلیں ٹھیک ہے جی چیلنج کیا گیا، لیکن چونکہ ہمارے نظامِ شمسی کے آس پاس کوئی بلیک ہول یا نیوٹران ستارہ نہیں ہے، اسی لئے ہم اسی فرسودو "نیوٹن کے کائناتی ثقل" کے قانون کو ماننے پر مجبور ہیں۔ اسکے علاوہ نیوٹن صاحب نے کیونکہ کوئی بلیک ہول یا نیوٹران ستارہ دریافت نہیں کیا تھا، اس لئے وہ اپنے قانون میں یہ "لچک" بھی نہ لاسکا۔ اگر اسکے عہد میں 300 سال پہلے بلیک ہول وغیرہ دریافت ہوجاتے تو شائد اسکے قانون کی بھی وہ شکل نہ ملتی جو آج ہم اپنے اسکول کالج میں پڑھتے ہیں :cool2:
 

arifkarim

معطل
چلیں ٹھیک ہے جی چیلنج کیا گیا، لیکن چونکہ ہمارے نظامِ شمسی کے آس پاس کوئی بلیک ہول یا نیوٹران ستارہ نہیں ہے، اسی لئے ہم اسی فرسودو "نیوٹن کے کائناتی ثقل" کے قانون کو ماننے پر مجبور ہیں۔ اسکے علاوہ نیوٹن صاحب نے کیونکہ کوئی بلیک ہول یا نیوٹران ستارہ دریافت نہیں کیا تھا، اس لئے وہ اپنے قانون میں یہ "لچک" بھی نہ لاسکا۔ اگر اسکے عہد میں 300 سال پہلے بلیک ہول وغیرہ دریافت ہوجاتے تو شائد اسکے قانون کی بھی وہ شکل نہ ملتی جو آج ہم اپنے اسکول کالج میں پڑھتے ہیں :cool2:
ویسے تو بلیک ہولز کے وجود کا اثبوت ہمیں حال ہی میں ملا ہے اور ایٹم کا روشنی کی رفتار پر سفر ناممکن ہونا بھی CERN جیسی جدید مشینوں میں ہی ثابت ہواہے البتہ آئن اسٹائن جیسے سائنسدان سو سال قبل ہی محض حسابی تھیوریوں سے یہ سب ثابت کر چکے تھے جنہیں عملی تجربات کے ذریعہ کئی دہائیوں کے بعدتصدیق کیا گیا ہے۔
http://hubblesite.org/reference_desk/faq/answer.php.id=64&cat=exotic
یاد رہے کہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے اسکے ایک جزیرہ پر قیام کے دوران اور وہاں پر موجود مخلوقات کا قریب سے مشاہدہ کے بعد جنم لیا تھا۔ یوں سائنسی طریقہ کے مطابق پہلے تھیوری آتی ہے جو بعد میں عملی تجربہ و مشاہدہ کے ذریعہ صادق ہوتی ہے یا اسکے بالمقابل پہلے مشاہدہ یا تجربہ ہوتا ہے اور اسے تھیورائز کر کے اسکی تصدیق کر لی جاتی ہے۔
پہلے طریقہ میں آئن اسٹائن کا نظریہ ہے جبکہ دوسرے طریقہ میں ڈارون کا نظریہ۔
 
آخری تدوین:
مجھے پہلے ہی اس بات کا اندازہ تھا کہ بات موضوع سے نکل کر خدا کے وجود و عدم کی بحث پر آجائے گی۔ اور باوجود تمام گزارش کے ایسا ہی ہوا۔ :)

سلامت رہیں۔
بار دگر۔
آداب۔..
 
عارف بھائی، جو لوگ ارتقاء کے نظریے کی مخالفت کرتے ہیں، وہ بالکل ایسا ہی سوچتے ہیں کہ ارتقاء کا مطلب خدا کا وجود صفر۔ اور ارتقاء کا جھٹلادو اور خدا کے وجود کا اقرار کرلو۔ یعنی دو انتہاؤں پر ہے یہ معاملہ
میرا خیال ہے کہ مذہبی لوگوں کو نظریہ ارتقاء سے اس وقت تکلیف ہوتی ہے جب انسان کو نظریہ ارتقاء آدم علیہ السلام کی بجائے بندر کی اولاد ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
 
Top