سب سے پہلے میں معذرت خواہ ہوں کہ اتنے لمبے عرصے کے بعد جواب دے رہاہوں۔ اُن دنوں ملازمت اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے انٹرنیٹ سے رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ محفل کے اکاؤنٹ کا پاس ورڈ بھی بھول چکا تھا لہذا بروقت جواب نہ دے سکا۔
محترم علیم احمد صاحب کےمتعلق میرے ذیل کے مراسلے
آج میں ایک بار پھر گلوبل سائنس کے مدیر محترم علیم احمد صاحب کو داد دیتا ہوں ۔جن کی تربیت اور طریقہ استدلال نے ہمیں پرویز ہود اور دیگر نام نہاد سائنسدانوں کا اصل چہرہ دیکھنے کے قابل بنایا۔
کے جواب میں آپ کا جوابی مراسلہ ملاحظہ کیا:
تاہم آپ علیم صاحب کو ضرور داد دیجئے کہ ان سے ملنے سے پہلے میں بھی ہارون یحییٰ صاحب کو درست سمجھتا تھا اور نظریہ ارتقاء کو ایک دھوکہ اور فریب ۔ تاہم جب دسمبر ٢٠١٤ میں علیم صاحب سے ملاقات گوبل سائنس کے دفتر میں ہوئی تو میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ جناب آپ نے ہارون یحییٰ کی صرف ایک ہی کتاب کا ترجمہ کیا تھا اور وہ زبردست ہٹ ہوئی تھی ۔ اس کے بعد آپ نے ان کی دوسری کتابوں کا ترجمہ کیوں نہیں کیا۔ ان کا جواب تھا کہ ان کے ادارے کا ہارون یحییٰ کے ساتھ تین مزید کتب کے اردو ترجمے کا معاہدہ ہوگیا تھا تاہم ان کی ملاقات کسی صاحب سے ہوئی (معذرت کہ ان صاحب کا نام مجھے یاد نہیں) جنہوں نے ان کے دماغ سے کریشنسٹ کا خبط نکالا ۔ لہٰذا کیونکہ وہ اب ہارون یحییٰ کو (جو کہ ان کی دانست میں کریشنسٹ ہیں) درست نہیں سمجھتے تھے لہٰذا ان کی مزید کتب کا ترجمہ نہیں کیا۔
اس وقت میں نے ان سے حیرت سے پوچھا تھا "کیا آپ بھی ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں؟" ۔ ان کے جواب کا خلاصہ کچھ یوں تھا ۔ بگ بینگ سے لے کر اب تک کائنات میں ارتقائی عمل جاری و ساری ہے ۔ ہائیڈروجن ہیلیم میں ہیلیئم کاربن میں بدلی جارہی ہے ۔ لہٰذا ارتقاء کا مشاہدہ جب ہم روز مرہ کائنات میں کرتے ہیں تو اس سے انکار کی گنجائش نہیں بچتی۔
تو جناب یہ ہیں آپ کے استاد محترم جن کے طفیل سے میں نے بھی نظریہ ارتقاء کو سمجھنا شروع کیا ورنہ میں بھی اس سے پہلے ہارون یحییٰ کو درست اور نظریہ ارتقاء کو غلط سمجھتا تھا ۔
میں یہ جواب محض غلط فہمی کے ازالہ کے طور پر لکھ رہاہوں۔
استادِ محترم کے حوالے سے آپ نے جس واقعے کا ذکر کیا ہے یہی سب کچھ میں بھی دیکھتارہا۔ ان کا یہی زاویۂ فکر ہی تو تھا جس کا میں نے تعریفاً ذکر کیا تھا۔ کیا استدلال اور فیصلہ سازی کا اس سے بہتر اور کوئی طریقہ ہوسکتاہے کہ کوئی دلیل کی بنیاد پر اپنے سوچ میں تبدیلی پیدا کرے؟ اگر انہوں نے (مذکورہ شخصیت ) کے دلائل سے متاثر ہوکر اتنا بڑا قدم اُٹھایا تو کیا یہ متاثر کن نہیں۔۔!وگرنہ یہاں تو جسے سائنس کے الف بے کا علم نہیں وہ ڈاروِن کا دم پکڑے جھولے جھول رہے ہیں۔اور کسی کے لیے اسلام کے خلاف مذکورہ نظریۂ ارتقاء سے اچھا ہتھیار کوئی اور نہیں۔ اسی طرح کے افراد کا کافی عرصے سے سامنا کرنے کے بعد میرا یہ ردعمل کچھ غیر فطری نہیں تھا۔ لیکن آپ کے مخلصانہ وضاحت کے بعد میں اپنے اس ردعمل سے رجوع کرنے میں خوشی محسوس کرتاہوں۔البتہ اب بھی اپنے اس مؤقف پر قائم ہوں کہ جب تک ہم (انسانی) نظریۂ ارتقاء کو سوفیصد(جی ہاں سو فیصد)سمجھ نہ پائے اس کا پرچار نہ کریں۔ بصورتِ دیگر خداکے منکرین میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملے گا۔جس کی وجہ میں نے اوپر بیان کردی ہے۔
علیم احمد صاحب کے حوالے سے یہ بات ضرور ہے کہ مجھے ان کے اس فیصلے پر (کہ انسانی ارتقاء ڈاروِنی نظریے کی بنیادپر ہوا)حیرت اور کچھ تحفظات ہیں ۔کئی سالوں کے وقفے کے بعد ان سے عن قریب ملاقات طے ہوئی ہے جس میں ان کے مذکورہ فیصلے پر تبادلۂ خیال کرکے ان کے نقظۂ نظر کو جاننے کی کوشش کروں گا۔
والسلام۔