نظم اصلاح کے لئے۔۔۔

السلام علیکم
ایک نظم اصلاح کے لئے پیش ہے۔
کچھ دن پہلے اس نظم کے اشعار قلم بند کئے تھے ۔
بحر کامل مثمن سالم
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن

اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
مانیں یا نہ مانیں یہ نظم مشاہدات ہی نہیں ذاتی تجربات کا شاخسانہ بھی ہے۔:)
ویسے تو نظم کا عنوان "بچپن کی یاد" ہے لیکن احباب سے درخواست ہے کہ نام کے سلسلے میں بھی رہنمائی فرمائیں۔
*********** --------------------***********
میں سفر میں ہوں، مری گاڑی طے کئے جا رہی ہے طوالتیں

مرے سامنے سے گزر رہے ہیں، یہ کچے گھر، وہ عمارتیں !

مرے پیچھے چھٹ گیا گاؤں بھی، وہ رہٹ پہ نیم کی چھاؤں بھی!
یہ ٹرین تیز ہے کس قدر، اڑی جا رہیں ہیں مسافتیں !

وہ جو وقت اپنا گزر گیا، مجھے یاد سب ہے ذرا ذرا
جو ابھی بھی ذہن میں تازہ ہیں، وہ حدیثِ دل کی ہیں آیتیں!

مری زندگی میں نہ آئے پھر، میں نے کوششوں سے نہ پائے پھر
وہ جو موج مستی کے دَور تھے، وہ جو میں نے کیں تھیں شرارتیں!

کڑے زندگی کے اصول ہیں، یہ جو رات دن ہیں ملول ہیں
جو گزر گئے وہ تو خواب تھے، بچیں ساری تلخ حقیقتیں!

وہ چمن ہے دیکھو اسی جگہ، وہیں باغ ہے، وہی عیدگاہ
جو نہیں ہے باقی تو وقت وہ!، جو گزر گئیں وہی ساعتیں!

نہ پتنگ ہے، نہ ہی ڈور ہے، نہ وہ "کٹ گئی!" کا ہی شور ہے
نہ وہ گرم چھت کی منڈیر ہے، نہ وہ دوپہر کی طوالتیں!

نہ وہ ڈبّہ بھر کے ہیں گولیاں، نہ وہ ساتھیوں کی ہیں ٹولیاں
نہ صدا ہے، "لال کو مار دے!"، نہ وہ چُوکنے پہ ہزیمتیں!

نہ اُچھلتے ناچتے "لٹّؤں" کا نظارہ، اب مرے سامنے
نہ رہی، ہوا میں ہی ہاتھ پہ، اُنھیں تھامنے کی مہارتیں!

نہ وہ نرم "بَال" سے، ٹھیکروں کو گِرا کے "پِٹھّو" کا پھوڑنا
نہ وہ ٹھیکروں کو "جَما" کے، "پِٹھّو گَرم!" کے نعرے کی عجلتیں!

وہ گلی میں رات کو، سب کا آنکھ مچولی کھیلنا اور پھر
وہ "دَھپّا" مارنا "چور" کو، وہ شرارتیں، وہ حجامتیں!

وہ جو دن تھے سارے گزر گئے ، وہ بچھڑ گئے مرے یار سب
نہ وہ ساتھ ہے، نہ وہ کھیل ہے، کہاں کھو گئیں وہ مسرّتیں!

اسی ایک پل کی تلاش میں مرے ماہ و سال گزر گئے
وہ جو دور تھا وہ غضب کا تھا، ہیں اسی سے میری عقیدتیں

مرے لب پہ بس ہے یہی دعا، اے کریم رب، اے مرے خدا
وہ شرارتیں، وہ محبتیں، عطا سب کو ہوں وہ وراثتیں!

سیّدکاشف

*********** --------------------***********
شکریہ
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
دوسری بات یہ کہ آپ نے اس کلام کو نظم کا نام دیا جب کہ ہیئت کے اعتبار سے یہ غزل ہے؟؟؟ اور غزل کا کوئی نام نہیں ہوتا
 
دوسری بات یہ کہ آپ نے اس کلام کو نظم کا نام دیا جب کہ ہیئت کے اعتبار سے یہ غزل ہے؟؟؟ اور غزل کا کوئی نام نہیں ہوتا
کیا نظم میں ردیف اور قوافی کی کو نبھانے پر پابندی ہے رضا بھائی؟
کیا نظم میں ایک شعر میں ایک بات پوری کرنا معیوب ہے؟
کیا ہیئت کے حساب سے یہ اشعار نظم ہونے کی نفی کرتے ہیں؟
میں آپ کا اعتراض سمجھنے سے قاصر ہوں۔
(n)
 
استاد محترم جناب الف عین صاحب
میں نے تدوین کر دی ہے۔ اور چونکہ ایک ہی مصرع میں تبدیلی کرنی تھی سو پہلی پوسٹ میں ہی کر دی ہے۔
آگے اگر کچھ اور تبدیلیاں ہوئیں تو نئے مراسلے میں لکھونگا۔
جزاک اللہ۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
کیا نظم میں ردیف اور قوافی کی کو نبھانے پر پابندی ہے رضا بھائی؟
کیا نظم میں ایک شعر میں ایک بات پوری کرنا معیوب ہے؟
کیا ہیئت کے حساب سے یہ اشعار نظم ہونے کی نفی کرتے ہیں؟
میں آپ کا اعتراض سمجھنے سے قاصر ہوں۔
(n)
محترم ہم خود ایک مبتدی ہیں اصنافِ نظم کی پہچان کے جو قاعدے سیکھے ان کے حساب سے آپ سے استفسار کر لیا اب آپ نے ہم سے ہی یکے بعد دیگرے کئی سوال پوچھ لیے۔۔۔ اب ہم ٹھہرے طفلِ مکتب تو پریشانی تو بنتی ہے۔ مزید براں یہ کہ غزل از خود ایک نظم ہی ہے تاہم غزل کی پہچان کے لیے سادہ سی بات سیکھی ہے کہ
1-زمین یعنی بحر،قافیہ و ردیف
2-مطلع و مقطع
3-ہر شعر ایک مکمل مضمون
ان چیزوں کا التزام کیا جائے تو غزل ہو گی
اسی طرح نظم کی مختلف اقسام میں آزاد نظم، معریٰ مثنوی وغیرہ کے لیے اپنی ہیئت کے اعتبار سے الگ قاعدے ہیں۔ باقی آپ کو جو اچھا لگے کیجیے۔
 
آخری تدوین:
محترم ہم خود ایک مبتدی ہیں اصنافِ نظم کی پہچان کے جو قاعدے سیکھے ان کے حساب سے آپ سے استفسار کر لیا اب آپ نے ہم سے ہی یکے بعد دیگرے کئی سوال پوچھ لیے۔۔۔ اب ہم ٹھہرے طفلِ مکتب تو پریشانی تو بنتی ہے۔ مزید براں یہ کہ غزل از خود ایک نظم ہی ہے تاہم غزل کی پہچان کے لیے سادہ سی بات سیکھی ہے کہ
1-زمین یعنی بحر،قافیہ و ردیف
2-مطلع و مقطع
3-ہر شعر ایک مکمل مضمون
ان چیزوں کا التزام کیا جائے تو غزل ہو گی
اسی طرح نظم کی مختلف اقسام میں آزاد نظم، معریٰ مثنوی وغیرہ کے لیے اپنی ہیئت کے اعتبار سے الگ قاعدے ہیں۔ باقی آپ کو جو اچھا لگے کیجیے۔
آپ نے ایک سوال کا بھی جواب نہیں دیا رضا بھائی۔
غزل کے ان اصولوں سے مجھےبھی واقفیت ہے۔ سرسری ہی صحیح۔
یہ ایک نظم کیوں نہیں ہے اسے سمجھائیں ذرا۔
جب تک مجھے تشفی نہیں ہوتی تب تک اپنی رائے پر قائم رہونگا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
آپ نے ایک سوال کا بھی جواب نہیں دیا رضا بھائی۔
غزل کے ان اصولوں سے مجھےبھی واقفیت ہے۔ سرسری ہی صحیح۔
یہ ایک نظم کیوں نہیں ہے اسے سمجھائیں ذرا۔
جب تک مجھے تشفی نہیں ہوتی تب تک اپنی رائے پر قائم رہونگا۔
چلیے اس سوال کو اساتذہ کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں تاکہ آپ کی تشفی بھی ہوجائے اور ہمیں بھی کچھ سیکھنے کو مل جائے گا
 

الف عین

لائبریرین
یہ مسلسل غزل کے فارم میں نظم ہے۔
میرامشورہ ہے کہ مطلع میں قافیہ مسافتیں لایا جائے۔ اور دوسرے شعر کو تیسرا بنا دیا جائے تاکہ مسافتیں قافیہ میں ایک شعر کا فاصلہ ہو جائے۔ طوالتیں لفظ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔
حجامتیں قافیہ کا استعال سمجھ میں نہیں آیا۔
اور یہ
اسی ایک پل کی تلاش میں مرے ماہ و سال گزر گئے
وہ جو دور تھا وہ غضب کا تھا، ہیں اسی سے میری عقیدتیں
کچھ دو لخت بھی ہے۔ اور عقیدتیں کا استعمال بھی سوال اٹھاتا ہے۔
 
یہ مسلسل غزل کے فارم میں نظم ہے۔
میرامشورہ ہے کہ مطلع میں قافیہ مسافتیں لایا جائے۔ اور دوسرے شعر کو تیسرا بنا دیا جائے تاکہ مسافتیں قافیہ میں ایک شعر کا فاصلہ ہو جائے۔ طوالتیں لفظ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔
حجامتیں قافیہ کا استعال سمجھ میں نہیں آیا۔
اور یہ
اسی ایک پل کی تلاش میں مرے ماہ و سال گزر گئے
وہ جو دور تھا وہ غضب کا تھا، ہیں اسی سے میری عقیدتیں
کچھ دو لخت بھی ہے۔ اور عقیدتیں کا استعمال بھی سوال اٹھاتا ہے۔
بہت بہتر سر۔
لفظ "حجامتیں" کا استعمال دوستوں کی طرف کی جانے والی سبکی کی طرف ہے۔:)
"عقیدتیں" والا شعر فی الحال ہٹا رہا ہوں ۔ کچھ بہتر کر سکا تو دوبارہ پیش کرونگا۔
جزاک اللہ استاد محترم
 
میں سفر میں ہوں، مری گاڑی طے کئے جا رہی ہے مسافتیں
مرے سامنے سے گزر رہے ہیں، یہ کچے گھر، وہ عمارتیں !

وہ جو وقت اپنا گزر گیا، مجھے یاد سب ہے ذرا ذرا
جو ابھی بھی ذہن میں تازہ ہیں، وہ حدیثِ دل کی ہیں آیتیں!

مرے پیچھے چھٹ گیا گاؤں بھی، وہ رہٹ پہ نیم کی چھاؤں بھی!
یہ ٹرین تیز ہے کس قدر، اڑی جا رہیں ہیں مسافتیں !

مری زندگی میں نہ آئے پھر، میں نے کوششوں سے نہ پائے پھر
وہ جو موج مستی کے دَور تھے، وہ جو میں نے کیں تھیں شرارتیں!

کڑے زندگی کے اصول ہیں، یہ جو رات دن ہیں ملول ہیں
جو گزر گئے وہ تو خواب تھے، بچیں ساری تلخ حقیقتیں!

وہ چمن ہے دیکھو اسی جگہ، وہیں باغ ہے، وہی عیدگاہ
جو نہیں ہے باقی تو وقت وہ!، جو گزر گئیں وہی ساعتیں!

نہ پتنگ ہے، نہ ہی ڈور ہے، نہ وہ "کٹ گئی!" کا ہی شور ہے
نہ وہ گرم چھت کی منڈیر ہے، نہ وہ دوپہر کی طوالتیں!

نہ وہ ڈبّہ بھر کے ہیں گولیاں، نہ وہ ساتھیوں کی ہیں ٹولیاں
نہ صدا ہے، "لال کو مار دے!"، نہ وہ چُوکنے پہ ہزیمتیں!

نہ اُچھلتے ناچتے "لٹّؤں" کا نظارہ، اب مرے سامنے
نہ رہی، ہوا میں ہی ہاتھ پہ، اُنھیں تھامنے کی مہارتیں!

نہ وہ نرم "بَال" سے، ٹھیکروں کو گِرا کے "پِٹھّو" کا پھوڑنا
نہ وہ ٹھیکروں کو "جَما" کے، "پِٹھّو گَرم!" کے نعرے کی عجلتیں!

وہ گلی میں رات کو، سب کا آنکھ مچولی کھیلنا اور پھر
وہ "دَھپّا" مارنا "چور" کو، وہ شرارتیں، وہ حجامتیں!

وہ جو دن تھے سارے گزر گئے ، وہ بچھڑ گئے مرے یار سب
نہ وہ ساتھ ہے، نہ وہ کھیل ہے، کہاں کھو گئیں وہ مسرّتیں!

اسی ایک پل کی تلاش میں مرے ماہ و سال گزر گئے
وہ جو دور تھا وہ غضب کا تھا، ہیں اسی سے میری عقیدتیں ۔۔(درست کرنا باقی ہے)

مرے لب پہ بس ہے یہی دعا، اے کریم رب، اے مرے خدا
وہ شرارتیں، وہ محبتیں، عطا سب کو ہوں وہ وراثتیں!

سیّدکاشف

*********** --------------------***********
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ تمام صاحبان کی رائے کا بھی منتظر ہوں۔
ٹیگ نامہ: جناب سید عاطف علی ، جناب ادب دوست ، جناب محمد اسامہ سَرسَری اور دیگر احباب
کاشف بھائی ۔ رابرٹ لوئی سٹیوینسن کے ایک ریل کی نظم یاد آگئی ۔ آپ کی نظم کے کچھ اشعار سے۔آپ خؤد زباان و بیان کے انداز پر غور کریں ۔ کچھ جگہ ناہمواریاں محسوس ہو رہی ہیں ۔ مثلاؐ بال کی جگہ باآسانی گیند کہا جاسکتا ہے ۔دھپا مارنا والا شعر تو وزن میں بہت واضح طور پر لڑکھڑا رہا ہے۔
اس طرح لٹو کو محض گھومنے پر مذکور کیا جانا بہتر ہوگا لٹو کے لیے ناچنا اور اچھلنا غیر ضروری تکلف تک لیجا تا ہے ۔اور شستگی جاتی رہتی ہے۔میری رائے میں اسی طرح ذرا اور غور کر کے خود بہتری لاسکتے ہیں۔
 
کاشف اسرار احمد، بھائی بہت ہی اچھی نظم ہے بہت شاندار مضمون ، جاندار گرفت بہت بہت داد قبول کیجئے ۔ جن امور کی طرف استادِ محترم نے اشارہ کیا ہے انہیں دیکھ لیں۔ مجموعی اعتبار سے ایک خوبصورت نظم ہے ۔ جس خوبصورتی سے آپ نے بچپن کے کھیلوں کو نام لے لے کر نظم کیا ہے مزہ آگیا۔

نہ اُچھلتے ناچتے "لٹّؤں" کا نظارہ، اب مرے سامنے
نہ رہی، ہوا میں ہی ہاتھ پہ، اُنھیں تھامنے کی مہارتیں!

یہ مہارت ہمیں بھی حاصل تھی، ہم اسے "ہاتھ جالی" کہتے تھے ۔
 
کاشف بھائی ۔ رابرٹ لوئی سٹیوینسن کے ایک ریل کی نظم یاد آگئی ۔ آپ کی نظم کے کچھ اشعار سے۔آپ خؤد زباان و بیان کے انداز پر غور کریں ۔ کچھ جگہ ناہمواریاں محسوس ہو رہی ہیں ۔ مثلاؐ بال کی جگہ باآسانی گیند کہا جاسکتا ہے ۔دھپا مارنا والا شعر تو وزن میں بہت واضح طور پر لڑکھڑا رہا ہے۔
اس طرح لٹو کو محض گھومنے پر مذکور کیا جانا بہتر ہوگا لٹو کے لیے ناچنا اور اچھلنا غیر ضروری تکلف تک لیجا تا ہے ۔اور شستگی جاتی رہتی ہے۔میری رائے میں اسی طرح ذرا اور غور کر کے خود بہتری لاسکتے ہیں۔
بے حد شکریہ عاطف بھائی۔
میں آپ کے مشورے ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بار اور بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
شاید تھوڑا وقت لگے، لیکن ان شا اللہ آپ کی تجاویز پر ضرورعمل کرونگا۔
جزاک اللہ
 
Top