محمداحمد
لائبریرین
آنگن
یہ میرا گھر ہے
یہ میرا کمرہ کہ جس میں بیٹھا
میں اپنے آنگن کو دیکھتا ہوں
کشادہ آنگن کہ جس میں مٹی کی سُرخ
اینٹیں بچھی ہوئی ہیں
کیاریوں میں سجیلے گُل ہیں
حسین بیلیں قطار اندر قطار دیوار پر چڑھی ہیں
بسیط آنگن کے ایک کونے میں اک شجر ہے
شجر کے پتے ہوا کے ہمراہ جھومتے ہیں
میں اپنے کمرے سے دیکھتا ہوں
کہ میرے بچے شجر کے اطراف
اپنے ہمجولیوں کے ہمراہ گھومتے ہیں
عجب مُسرت سے اُن کی آنکھیں دمک رہی ہیں
اور اُن کے چہرے خوشی سے پیہم چمک رہے ہیں
ہوا میں نکہت ہے اور شجر پر
پرندے بیٹھے چہک رہے ہیں
اِک ایسا منظر کہ جس کی ضو سے
چمک رہا ہے مرا بھی چہرہ
سکوں کا احساس ہے فزوں تر
خوشی کا ہر رنگ، ہر تاثر
ہر ایک پل ہو رہا ہے گہرا
میں سوچتا ہوں کہ اس مسرت سے بڑھ کے کوئی خوشی نہیں ہے
جہاں کا سب سے حسین منظر
یہاں نہیں تو کہیں نہیں ہے
مگر یکایک!
مگر یکا یک! یہ سارا منظر ہوا میں تحلیل ہو گیا ہے
میں اپنے بستر پہ ہوں، کوئی ہے
جو مجھ کو پیہم پکارتا ہے
میں دیکھتا ہوں کہ میرے بچے
مجھے مسلسل ہلا رہے ہیں، جگا رہے ہیں
میں اُٹھ کے بیٹھا ہوں اپنی آنکھوں کو مل رہا ہوں
میں دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ آنگن نہ وہ شجر ہے
طیور ہی ہیں نہ تو ہواؤں کی رہگزر ہے
میں دیکھتا ہوں کہ میرے آنگن پہ چھت پڑی ہے
کہیں سے آنگن میں ایک دیوار آ گڑی ہے
میں دیکھتا ہوں، کشادہ آنگن جو تھا کبھی اب
وہ تِیرہ کمروں میں بٹ گیا ہے
اُجالوں جیسا تھا خواب میرا جو
تیرہ بختی سے اَٹ گیا ہے
میں دیکھتا ہوں کہ میرے بچے
مجھے جگاتے ہیں ،
پارک چلنے کا کہہ رہے ہیں
میں سوچتا ہوں!
میں سوچتا ہوں کہ اُن کو کیسے بتاؤں آخر
کہ پارک جو تھا
وہ زرپرستوں کی حرص کی نذر ہو چکا ہے
وہاں پہ اب اِک پلازہ تعمیر ہو رہا ہے
محمد احمد ؔ
یہ میرا گھر ہے
یہ میرا کمرہ کہ جس میں بیٹھا
میں اپنے آنگن کو دیکھتا ہوں
کشادہ آنگن کہ جس میں مٹی کی سُرخ
اینٹیں بچھی ہوئی ہیں
کیاریوں میں سجیلے گُل ہیں
حسین بیلیں قطار اندر قطار دیوار پر چڑھی ہیں
بسیط آنگن کے ایک کونے میں اک شجر ہے
شجر کے پتے ہوا کے ہمراہ جھومتے ہیں
میں اپنے کمرے سے دیکھتا ہوں
کہ میرے بچے شجر کے اطراف
اپنے ہمجولیوں کے ہمراہ گھومتے ہیں
عجب مُسرت سے اُن کی آنکھیں دمک رہی ہیں
اور اُن کے چہرے خوشی سے پیہم چمک رہے ہیں
ہوا میں نکہت ہے اور شجر پر
پرندے بیٹھے چہک رہے ہیں
اِک ایسا منظر کہ جس کی ضو سے
چمک رہا ہے مرا بھی چہرہ
سکوں کا احساس ہے فزوں تر
خوشی کا ہر رنگ، ہر تاثر
ہر ایک پل ہو رہا ہے گہرا
میں سوچتا ہوں کہ اس مسرت سے بڑھ کے کوئی خوشی نہیں ہے
جہاں کا سب سے حسین منظر
یہاں نہیں تو کہیں نہیں ہے
مگر یکایک!
مگر یکا یک! یہ سارا منظر ہوا میں تحلیل ہو گیا ہے
میں اپنے بستر پہ ہوں، کوئی ہے
جو مجھ کو پیہم پکارتا ہے
میں دیکھتا ہوں کہ میرے بچے
مجھے مسلسل ہلا رہے ہیں، جگا رہے ہیں
میں اُٹھ کے بیٹھا ہوں اپنی آنکھوں کو مل رہا ہوں
میں دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ آنگن نہ وہ شجر ہے
طیور ہی ہیں نہ تو ہواؤں کی رہگزر ہے
میں دیکھتا ہوں کہ میرے آنگن پہ چھت پڑی ہے
کہیں سے آنگن میں ایک دیوار آ گڑی ہے
میں دیکھتا ہوں، کشادہ آنگن جو تھا کبھی اب
وہ تِیرہ کمروں میں بٹ گیا ہے
اُجالوں جیسا تھا خواب میرا جو
تیرہ بختی سے اَٹ گیا ہے
میں دیکھتا ہوں کہ میرے بچے
مجھے جگاتے ہیں ،
پارک چلنے کا کہہ رہے ہیں
میں سوچتا ہوں!
میں سوچتا ہوں کہ اُن کو کیسے بتاؤں آخر
کہ پارک جو تھا
وہ زرپرستوں کی حرص کی نذر ہو چکا ہے
وہاں پہ اب اِک پلازہ تعمیر ہو رہا ہے
محمد احمد ؔ