محمداحمد
لائبریرین
خالی ہاتھ
کل ترے جنم دن پر ، کتنے لوگ آئے تھے
کیسے کیسے تحفوں میں آس رکھ کے لائے تھے
زر نگار تحفوں سے چشم چشم خیرہ تھی
چار سو تصنُع تھا، ساری بزم خنداں تھی
اِ س نمودِ ثروت میں ، ایک نادر و نادار
خود سے بے پناہ نالاں، دل سے برسرِ پیکار
صرف تجھ سے ملنے کو ایسا بھی تو آیا تھا
جس کے زرد چہرے پر دھوپ تھی نہ سایہ تھا
لیکن اُس کے آنے سے بام و در مہکتے تھے
سنگ و خشت گلیوں کے سر بہ سر مہکتے تھے
تو بھی جانتا ہوگا، یہ ترے گلی کوچے
گو صبا سے واقف تھے، نخلِ گل نہ تھے پہلے
پر یہ بزمِ کیف آگیں کیا کسی کو سمجھائے
ملتفت جہاں تجھ پر کون تجھ کو بتلائے
وہ جو تیرے ملنے کو خالی ہاتھ آیا تھا
دامنِ دریدہ میں پھول رکھ کے لایا تھا
محمد احمدؔ
کل ترے جنم دن پر ، کتنے لوگ آئے تھے
کیسے کیسے تحفوں میں آس رکھ کے لائے تھے
زر نگار تحفوں سے چشم چشم خیرہ تھی
چار سو تصنُع تھا، ساری بزم خنداں تھی
اِ س نمودِ ثروت میں ، ایک نادر و نادار
خود سے بے پناہ نالاں، دل سے برسرِ پیکار
صرف تجھ سے ملنے کو ایسا بھی تو آیا تھا
جس کے زرد چہرے پر دھوپ تھی نہ سایہ تھا
لیکن اُس کے آنے سے بام و در مہکتے تھے
سنگ و خشت گلیوں کے سر بہ سر مہکتے تھے
تو بھی جانتا ہوگا، یہ ترے گلی کوچے
گو صبا سے واقف تھے، نخلِ گل نہ تھے پہلے
پر یہ بزمِ کیف آگیں کیا کسی کو سمجھائے
ملتفت جہاں تجھ پر کون تجھ کو بتلائے
وہ جو تیرے ملنے کو خالی ہاتھ آیا تھا
دامنِ دریدہ میں پھول رکھ کے لایا تھا
محمد احمدؔ
۔۔