السلام علیکم احباب ۔۔ دیر سے آنے کی وجہ حسب معمول پاسورڈ بھول جانا ہے اور اس بار غضب یہ ہوا کہ ہم ای میل کا پاسورڈ بھی بھول گئے تاہم اب کے کچھ ایسا اہتمام کر رہے ہیں کہ پھر ایسی پیچیدہ صورت حال سے واسطہ نہ پڑے
اچھا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور یقینآ اس سے ہم سب کے علم میں اضافہ ہو گا ۔۔ لیکن تمام تر تبصرہ جات پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ تبصرہ نگار کے افکار پر شخصیت کا دباؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ کھل کر اظہار رائے نہیں کر پا رہا ، کسی تخلیق پر بات کرنا ہرگز یہ معنی نہیں رکھتا کہ ہم کسی ذاتی تنقیص یا تحسین کے عمل سے گذر رہے ہیں اس لئے دیانتدارانہ رائے ظاہر کرنے مین خدا نخواستہ کسی قسم کی گستاخی کے مرتکب نہیں ہو رہے ہوتے ہم ۔۔ اللہ سب احباب کو خوشیاں اور بہتری عطا فرمائے ۔۔
پیش کردہ غزل یقنی طور پر ایک اچھی غزل ہے اور اس میں مجموعی طور پر کلاسیکی رنگ نمایاں ہے جو شاعر کے میلان کی طرف اشارہ کرتا ہے مجھے یہ غزل پڑھتے ہوئے جن احساسات کا سامنا کرنا پڑا وہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔۔
آنا تو انہیں تھا، پہ نہیں آئے تو کیا ہے
اشکوں نے بھگوئے بھی ہیں کچھ سائے تو کیا ہے
پہلے مصرع ایک تضاد کی سی کیفیت نمایاں ہے ۔۔ آنا تو انہیں تھا ۔۔ یعنی یہ طے تھا ۔۔ یعنی اس کا یقین تھا منتظر کو ۔۔ ایسی صورت مین نہ آنا اختیاری فعل ہونے کی بجائے کسی مجبوری کا شاخسانہ ہو سکتا ہے جبکہ مصرع کا دوسرا ٹکڑا ذاتی اختیار کی جانب اشارہ کر رہا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ لفظ " پہ " بمعنی " لیکن " بڑی حد تک متروک ہو چکا ہے جس کی بنا پر اس کا استعمال کچھ بھلا نہیں معلوم ہوا ۔۔ دوسرا مصرع عمدہ ہے ، ایک خاص روانی کی کیفیت پائی جاتی ہے اس میں گو " اشکوں کا سائے بھگونا " بجائے خود بات واضح ہونے میں حائل ہے ۔۔
2
ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا
اک بات اگر لب پہ نہیں لائے تو کیا ہے
۔۔۔۔۔
تخیل کی سطح پر اچھا شعر کہا جا سکتا ہے لیکن پہلے مصرع میں " تو " واضح طور پر وزن کی مجبوری ظاہر کر رہا ہے ورنہ بیان میں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی بلکہ یہ لفظ یہاں معنوی ترسیل کو گنجلک بنا رہا ہے ۔ میرے خیال سے دوسرے مصرع کی مناسبت سے پہلے مصرع میں " نہیں ہو گا " کی بجائے " نہیں ہو سکتا " کا احتمام کیا جاتا تو شعر زیادہ بھرپور تاثر مرتب کر سکتا تھا ۔۔
3
غمزے کو روا ہے کہ ہو اغماض پہ ناخوش
فرمائے تو کیا ہے جو نہ فرمائے تو کیا ہے
بہت اچھا شعر ہے ۔۔
4
کم کوش! تجھے اس سے سروکار؟ کہ خود کو
تاریخ جو سو بار بھی دہرائے تو کیا ہے
معنوی سطح پر عمدہ شعر ۔۔ مبلغانہ پیرایہ اظہار ۔۔ سچ کہا اور کسی حد تک " ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات " کا سا رنگ لئے ہوئے ۔۔ موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مزید بامعنی ہو جاتا ہے ۔۔
5
جو اونچی فضاؤں میں اُڑے گا وہ گرے گا
اک فرش نشیں گِر بھی اگر جائے تو کیا ہے
مذکورہ شعر میں عجز بیاں کی سی کیفیت پائی جاتی ہے ۔۔ شاعر جو کہنا چاہتا ہے وہ پوری طرح منتقل نہیں ہو رہا ۔۔ پہلے مصرع میں ایک سٹیٹمنٹ ہے " جو اونچی فضاؤں میں اڑے گا وہ گرے گا " اونچی فضاؤں میں اڑنے والے کے لئے گرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے جو میرے نکتہ نظر سے تو ضروری نہیں ہے پھر دوسرے مصرع میں فرش نشیں کے گر جانے کو معمولی بات قرار دیا گیا ہے جیسا کہ اوپر ایک محترم دوست نے کہا شاید یہ گرتے ہوئے چوٹ کی کمی بیشی کے فرق کو ظاہر کرتا ہے ، اگر ایسا ہے بھی تو یہ شعر اس کا ابلاغ کرنے سے قاصر ہے ۔۔ محض اپنی بات واضح کرنے کے لئے ، اگر پہلا مصرع یوں ہو جائے کہ " جو اونچی فضاؤں سے گرے گا وہ مرے گا " تو مفہوم واضح ہو جاتا ہے شعر کا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل کی مجموعی فضا میں پہلے تینوں اشعار ایک الگ اکائی کی صورت جلوہ گر ہیں جبکہ چوتھا اور پانچواں شعر بالکل مختلف تاثر کا حامل ہے ۔۔ محترم محمد یعقوب آسی ایک کہنہ مشق ، منجھے ہوئے اور وسیع مطالعہ رکھنے والے حساس شاعر ہیں ان کا بہت عمدہ کلام پڑھنے کو ملا ہے وقتآ فوقتآ ۔۔ اللہ انہیں صحت اور زندگی دے کہ وہ ہم جیسے بہت سے طالبان علم کے لئے نعمت ہیں ۔۔