نقد و نظر

سید عاطف علی

لائبریرین
اجازت ہو تو ہم اپنی ایک پرانی کہانی پیش کردیں؟
ہمہ تن چشم ہیں خلیل بھائی۔ یہ انٹرنیٹ کا پردہ ء سیمیں اب ہمارے محاوروں میں بھی مداخلت کرنے لگا ہے دراں حالیکہ کہ نہ اس پر احباب کے غیاب یعنی آف لائن کا پتہ ہے نہ حضور یعنی آن لائن کا یقین ہے ۔البتہ ہماری نشست اس کی محتاج ِمطلق ہو گئی۔
 

ایوب ناطق

محفلین
کوئی تخصیص نہیں استادِ محترم' اور ایک اور بات' ان نشستوں کا مقصد فن پارے کی قدر و قیمت کا تعین' تفہیم اور کسی بھول چوک کی نشاندہی ہے' اصلاح یا نئے مصرعے وضع کرنا نہیں' کہ یہ مستحسن طریقہ نہیں۔۔ احباب کی رائے حتمی ہو گی
 
کوئی تخصیص نہیں استادِ محترم' اور ایک اور بات' ان نشستوں کا مقصد فن پارے کی قدر و قیمت کا تعین' تفہیم اور کسی بھول چوک کی نشاندہی ہے' اصلاح یا نئے مصرعے وضع کرنا نہیں' کہ یہ مستحسن طریقہ نہیں۔۔ احباب کی رائے حتمی ہو گی

اس نکتے پر میں پہلے (اسی دھاگے میں) جو کچھ عرض کر چکا ہوں، اس پر کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گا۔
 

منیر انور

محفلین
السلام علیکم احباب ۔۔ دیر سے آنے کی وجہ حسب معمول پاسورڈ بھول جانا ہے اور اس بار غضب یہ ہوا کہ ہم ای میل کا پاسورڈ بھی بھول گئے تاہم اب کے کچھ ایسا اہتمام کر رہے ہیں کہ پھر ایسی پیچیدہ صورت حال سے واسطہ نہ پڑے :)
اچھا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور یقینآ اس سے ہم سب کے علم میں اضافہ ہو گا ۔۔ لیکن تمام تر تبصرہ جات پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ تبصرہ نگار کے افکار پر شخصیت کا دباؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ کھل کر اظہار رائے نہیں کر پا رہا ، کسی تخلیق پر بات کرنا ہرگز یہ معنی نہیں رکھتا کہ ہم کسی ذاتی تنقیص یا تحسین کے عمل سے گذر رہے ہیں اس لئے دیانتدارانہ رائے ظاہر کرنے مین خدا نخواستہ کسی قسم کی گستاخی کے مرتکب نہیں ہو رہے ہوتے ہم ۔۔ اللہ سب احباب کو خوشیاں اور بہتری عطا فرمائے ۔۔
پیش کردہ غزل یقنی طور پر ایک اچھی غزل ہے اور اس میں مجموعی طور پر کلاسیکی رنگ نمایاں ہے جو شاعر کے میلان کی طرف اشارہ کرتا ہے مجھے یہ غزل پڑھتے ہوئے جن احساسات کا سامنا کرنا پڑا وہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔۔

آنا تو انہیں تھا، پہ نہیں آئے تو کیا ہے
اشکوں نے بھگوئے بھی ہیں کچھ سائے تو کیا ہے

پہلے مصرع ایک تضاد کی سی کیفیت نمایاں ہے ۔۔ آنا تو انہیں تھا ۔۔ یعنی یہ طے تھا ۔۔ یعنی اس کا یقین تھا منتظر کو ۔۔ ایسی صورت مین نہ آنا اختیاری فعل ہونے کی بجائے کسی مجبوری کا شاخسانہ ہو سکتا ہے جبکہ مصرع کا دوسرا ٹکڑا ذاتی اختیار کی جانب اشارہ کر رہا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ لفظ " پہ " بمعنی " لیکن " بڑی حد تک متروک ہو چکا ہے جس کی بنا پر اس کا استعمال کچھ بھلا نہیں معلوم ہوا ۔۔ دوسرا مصرع عمدہ ہے ، ایک خاص روانی کی کیفیت پائی جاتی ہے اس میں گو " اشکوں کا سائے بھگونا " بجائے خود بات واضح ہونے میں حائل ہے ۔۔

2
ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا
اک بات اگر لب پہ نہیں لائے تو کیا ہے
۔۔۔۔۔
تخیل کی سطح پر اچھا شعر کہا جا سکتا ہے لیکن پہلے مصرع میں " تو " واضح طور پر وزن کی مجبوری ظاہر کر رہا ہے ورنہ بیان میں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی بلکہ یہ لفظ یہاں معنوی ترسیل کو گنجلک بنا رہا ہے ۔ میرے خیال سے دوسرے مصرع کی مناسبت سے پہلے مصرع میں " نہیں ہو گا " کی بجائے " نہیں ہو سکتا " کا احتمام کیا جاتا تو شعر زیادہ بھرپور تاثر مرتب کر سکتا تھا ۔۔

3
غمزے کو روا ہے کہ ہو اغماض پہ ناخوش
فرمائے تو کیا ہے جو نہ فرمائے تو کیا ہے

بہت اچھا شعر ہے ۔۔

4
کم کوش! تجھے اس سے سروکار؟ کہ خود کو
تاریخ جو سو بار بھی دہرائے تو کیا ہے

معنوی سطح پر عمدہ شعر ۔۔ مبلغانہ پیرایہ اظہار ۔۔ سچ کہا اور کسی حد تک " ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات " کا سا رنگ لئے ہوئے ۔۔ موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مزید بامعنی ہو جاتا ہے ۔۔


5
جو اونچی فضاؤں میں اُڑے گا وہ گرے گا
اک فرش نشیں گِر بھی اگر جائے تو کیا ہے

مذکورہ شعر میں عجز بیاں کی سی کیفیت پائی جاتی ہے ۔۔ شاعر جو کہنا چاہتا ہے وہ پوری طرح منتقل نہیں ہو رہا ۔۔ پہلے مصرع میں ایک سٹیٹمنٹ ہے " جو اونچی فضاؤں میں اڑے گا وہ گرے گا " اونچی فضاؤں میں اڑنے والے کے لئے گرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے جو میرے نکتہ نظر سے تو ضروری نہیں ہے پھر دوسرے مصرع میں فرش نشیں کے گر جانے کو معمولی بات قرار دیا گیا ہے جیسا کہ اوپر ایک محترم دوست نے کہا شاید یہ گرتے ہوئے چوٹ کی کمی بیشی کے فرق کو ظاہر کرتا ہے ، اگر ایسا ہے بھی تو یہ شعر اس کا ابلاغ کرنے سے قاصر ہے ۔۔ محض اپنی بات واضح کرنے کے لئے ، اگر پہلا مصرع یوں ہو جائے کہ " جو اونچی فضاؤں سے گرے گا وہ مرے گا " تو مفہوم واضح ہو جاتا ہے شعر کا ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل کی مجموعی فضا میں پہلے تینوں اشعار ایک الگ اکائی کی صورت جلوہ گر ہیں جبکہ چوتھا اور پانچواں شعر بالکل مختلف تاثر کا حامل ہے ۔۔ محترم محمد یعقوب آسی ایک کہنہ مشق ، منجھے ہوئے اور وسیع مطالعہ رکھنے والے حساس شاعر ہیں ان کا بہت عمدہ کلام پڑھنے کو ملا ہے وقتآ فوقتآ ۔۔ اللہ انہیں صحت اور زندگی دے کہ وہ ہم جیسے بہت سے طالبان علم کے لئے نعمت ہیں ۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
السلام علیکم احباب ۔۔ دیر سے آنے کی وجہ حسب معمول پاسورڈ بھول جانا ہے اور اس بار غضب یہ ہوا کہ ہم ای میل کا پاسورڈ بھی بھول گئے تاہم اب کے کچھ ایسا اہتمام کر رہے ہیں کہ پھر ایسی پیچیدہ صورت حال سے واسطہ نہ پڑے :)
اچھا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور یقینآ اس سے ہم سب کے علم میں اضافہ ہو گا ۔۔ لیکن تمام تر تبصرہ جات پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ تبصرہ نگار کے افکار پر شخصیت کا دباؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ کھل کر اظہار رائے نہیں کر پا رہا ، کسی تخلیق پر بات کرنا ہرگز یہ معنی نہیں رکھتا کہ ہم کسی ذاتی تنقیص یا تحسین کے عمل سے گذر رہے ہیں اس لئے دیانتدارانہ رائے ظاہر کرنے مین خدا نخواستہ کسی قسم کی گستاخی کے مرتکب نہیں ہو رہے ہوتے ہم ۔۔ اللہ سب احباب کو خوشیاں اور بہتری عطا فرمائے ۔۔
پیش کردہ غزل یقنی طور پر ایک اچھی غزل ہے اور اس میں مجموعی طور پر کلاسیکی رنگ نمایاں ہے جو شاعر کے میلان کی طرف اشارہ کرتا ہے مجھے یہ غزل پڑھتے ہوئے جن احساسات کا سامنا کرنا پڑا وہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔۔

آنا تو انہیں تھا، پہ نہیں آئے تو کیا ہے
اشکوں نے بھگوئے بھی ہیں کچھ سائے تو کیا ہے

پہلے مصرع ایک تضاد کی سی کیفیت نمایاں ہے ۔۔ آنا تو انہیں تھا ۔۔ یعنی یہ طے تھا ۔۔ یعنی اس کا یقین تھا منتظر کو ۔۔ ایسی صورت مین نہ آنا اختیاری فعل ہونے کی بجائے کسی مجبوری کا شاخسانہ ہو سکتا ہے جبکہ مصرع کا دوسرا ٹکڑا ذاتی اختیار کی جانب اشارہ کر رہا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ لفظ " پہ " بمعنی " لیکن " بڑی حد تک متروک ہو چکا ہے جس کی بنا پر اس کا استعمال کچھ بھلا نہیں معلوم ہوا ۔۔ دوسرا مصرع عمدہ ہے ، ایک خاص روانی کی کیفیت پائی جاتی ہے اس میں گو " اشکوں کا سائے بھگونا " بجائے خود بات واضح ہونے میں حائل ہے ۔۔

2
ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا
اک بات اگر لب پہ نہیں لائے تو کیا ہے
۔۔۔۔۔
تخیل کی سطح پر اچھا شعر کہا جا سکتا ہے لیکن پہلے مصرع میں " تو " واضح طور پر وزن کی مجبوری ظاہر کر رہا ہے ورنہ بیان میں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی بلکہ یہ لفظ یہاں معنوی ترسیل کو گنجلک بنا رہا ہے ۔ میرے خیال سے دوسرے مصرع کی مناسبت سے پہلے مصرع میں " نہیں ہو گا " کی بجائے " نہیں ہو سکتا " کا احتمام کیا جاتا تو شعر زیادہ بھرپور تاثر مرتب کر سکتا تھا ۔۔

3
غمزے کو روا ہے کہ ہو اغماض پہ ناخوش
فرمائے تو کیا ہے جو نہ فرمائے تو کیا ہے

بہت اچھا شعر ہے ۔۔

4
کم کوش! تجھے اس سے سروکار؟ کہ خود کو
تاریخ جو سو بار بھی دہرائے تو کیا ہے

معنوی سطح پر عمدہ شعر ۔۔ مبلغانہ پیرایہ اظہار ۔۔ سچ کہا اور کسی حد تک " ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات " کا سا رنگ لئے ہوئے ۔۔ موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مزید بامعنی ہو جاتا ہے ۔۔


5
جو اونچی فضاؤں میں اُڑے گا وہ گرے گا
اک فرش نشیں گِر بھی اگر جائے تو کیا ہے

مذکورہ شعر میں عجز بیاں کی سی کیفیت پائی جاتی ہے ۔۔ شاعر جو کہنا چاہتا ہے وہ پوری طرح منتقل نہیں ہو رہا ۔۔ پہلے مصرع میں ایک سٹیٹمنٹ ہے " جو اونچی فضاؤں میں اڑے گا وہ گرے گا " اونچی فضاؤں میں اڑنے والے کے لئے گرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے جو میرے نکتہ نظر سے تو ضروری نہیں ہے پھر دوسرے مصرع میں فرش نشیں کے گر جانے کو معمولی بات قرار دیا گیا ہے جیسا کہ اوپر ایک محترم دوست نے کہا شاید یہ گرتے ہوئے چوٹ کی کمی بیشی کے فرق کو ظاہر کرتا ہے ، اگر ایسا ہے بھی تو یہ شعر اس کا ابلاغ کرنے سے قاصر ہے ۔۔ محض اپنی بات واضح کرنے کے لئے ، اگر پہلا مصرع یوں ہو جائے کہ " جو اونچی فضاؤں سے گرے گا وہ مرے گا " تو مفہوم واضح ہو جاتا ہے شعر کا ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل کی مجموعی فضا میں پہلے تینوں اشعار ایک الگ اکائی کی صورت جلوہ گر ہیں جبکہ چوتھا اور پانچواں شعر بالکل مختلف تاثر کا حامل ہے ۔۔ محترم محمد یعقوب آسی ایک کہنہ مشق ، منجھے ہوئے اور وسیع مطالعہ رکھنے والے حساس شاعر ہیں ان کا بہت عمدہ کلام پڑھنے کو ملا ہے وقتآ فوقتآ ۔۔ اللہ انہیں صحت اور زندگی دے کہ وہ ہم جیسے بہت سے طالبان علم کے لئے نعمت ہیں ۔۔
ماشاءاللہ بہت خوب نقدونظر فرمائی ہے آپ نے۔ تشکر بسیار!!!
 
السلام علیکم احباب ۔۔ دیر سے آنے کی وجہ حسب معمول پاسورڈ بھول جانا ہے اور اس بار غضب یہ ہوا کہ ہم ای میل کا پاسورڈ بھی بھول گئے تاہم اب کے کچھ ایسا اہتمام کر رہے ہیں کہ پھر ایسی پیچیدہ صورت حال سے واسطہ نہ پڑے :)
اچھا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور یقینآ اس سے ہم سب کے علم میں اضافہ ہو گا ۔۔ لیکن تمام تر تبصرہ جات پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ تبصرہ نگار کے افکار پر شخصیت کا دباؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ کھل کر اظہار رائے نہیں کر پا رہا ، کسی تخلیق پر بات کرنا ہرگز یہ معنی نہیں رکھتا کہ ہم کسی ذاتی تنقیص یا تحسین کے عمل سے گذر رہے ہیں اس لئے دیانتدارانہ رائے ظاہر کرنے مین خدا نخواستہ کسی قسم کی گستاخی کے مرتکب نہیں ہو رہے ہوتے ہم ۔۔ اللہ سب احباب کو خوشیاں اور بہتری عطا فرمائے ۔۔
پیش کردہ غزل یقنی طور پر ایک اچھی غزل ہے اور اس میں مجموعی طور پر کلاسیکی رنگ نمایاں ہے جو شاعر کے میلان کی طرف اشارہ کرتا ہے مجھے یہ غزل پڑھتے ہوئے جن احساسات کا سامنا کرنا پڑا وہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔۔

آنا تو انہیں تھا، پہ نہیں آئے تو کیا ہے
اشکوں نے بھگوئے بھی ہیں کچھ سائے تو کیا ہے

پہلے مصرع ایک تضاد کی سی کیفیت نمایاں ہے ۔۔ آنا تو انہیں تھا ۔۔ یعنی یہ طے تھا ۔۔ یعنی اس کا یقین تھا منتظر کو ۔۔ ایسی صورت مین نہ آنا اختیاری فعل ہونے کی بجائے کسی مجبوری کا شاخسانہ ہو سکتا ہے جبکہ مصرع کا دوسرا ٹکڑا ذاتی اختیار کی جانب اشارہ کر رہا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ لفظ " پہ " بمعنی " لیکن " بڑی حد تک متروک ہو چکا ہے جس کی بنا پر اس کا استعمال کچھ بھلا نہیں معلوم ہوا ۔۔ دوسرا مصرع عمدہ ہے ، ایک خاص روانی کی کیفیت پائی جاتی ہے اس میں گو " اشکوں کا سائے بھگونا " بجائے خود بات واضح ہونے میں حائل ہے ۔۔

2
ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا
اک بات اگر لب پہ نہیں لائے تو کیا ہے
۔۔۔۔۔
تخیل کی سطح پر اچھا شعر کہا جا سکتا ہے لیکن پہلے مصرع میں " تو " واضح طور پر وزن کی مجبوری ظاہر کر رہا ہے ورنہ بیان میں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی بلکہ یہ لفظ یہاں معنوی ترسیل کو گنجلک بنا رہا ہے ۔ میرے خیال سے دوسرے مصرع کی مناسبت سے پہلے مصرع میں " نہیں ہو گا " کی بجائے " نہیں ہو سکتا " کا احتمام کیا جاتا تو شعر زیادہ بھرپور تاثر مرتب کر سکتا تھا ۔۔

3
غمزے کو روا ہے کہ ہو اغماض پہ ناخوش
فرمائے تو کیا ہے جو نہ فرمائے تو کیا ہے

بہت اچھا شعر ہے ۔۔

4
کم کوش! تجھے اس سے سروکار؟ کہ خود کو
تاریخ جو سو بار بھی دہرائے تو کیا ہے

معنوی سطح پر عمدہ شعر ۔۔ مبلغانہ پیرایہ اظہار ۔۔ سچ کہا اور کسی حد تک " ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات " کا سا رنگ لئے ہوئے ۔۔ موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مزید بامعنی ہو جاتا ہے ۔۔


5
جو اونچی فضاؤں میں اُڑے گا وہ گرے گا
اک فرش نشیں گِر بھی اگر جائے تو کیا ہے

مذکورہ شعر میں عجز بیاں کی سی کیفیت پائی جاتی ہے ۔۔ شاعر جو کہنا چاہتا ہے وہ پوری طرح منتقل نہیں ہو رہا ۔۔ پہلے مصرع میں ایک سٹیٹمنٹ ہے " جو اونچی فضاؤں میں اڑے گا وہ گرے گا " اونچی فضاؤں میں اڑنے والے کے لئے گرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے جو میرے نکتہ نظر سے تو ضروری نہیں ہے پھر دوسرے مصرع میں فرش نشیں کے گر جانے کو معمولی بات قرار دیا گیا ہے جیسا کہ اوپر ایک محترم دوست نے کہا شاید یہ گرتے ہوئے چوٹ کی کمی بیشی کے فرق کو ظاہر کرتا ہے ، اگر ایسا ہے بھی تو یہ شعر اس کا ابلاغ کرنے سے قاصر ہے ۔۔ محض اپنی بات واضح کرنے کے لئے ، اگر پہلا مصرع یوں ہو جائے کہ " جو اونچی فضاؤں سے گرے گا وہ مرے گا " تو مفہوم واضح ہو جاتا ہے شعر کا ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل کی مجموعی فضا میں پہلے تینوں اشعار ایک الگ اکائی کی صورت جلوہ گر ہیں جبکہ چوتھا اور پانچواں شعر بالکل مختلف تاثر کا حامل ہے ۔۔ محترم محمد یعقوب آسی ایک کہنہ مشق ، منجھے ہوئے اور وسیع مطالعہ رکھنے والے حساس شاعر ہیں ان کا بہت عمدہ کلام پڑھنے کو ملا ہے وقتآ فوقتآ ۔۔ اللہ انہیں صحت اور زندگی دے کہ وہ ہم جیسے بہت سے طالبان علم کے لئے نعمت ہیں ۔۔

شکریہ
 
السلام و علیکم محترم آپ کا تنقیدی جائزہ پڑھ کر بہت اچھا لگا اسطرح کے بے لاگ تبصرے ہی تنقید کا حسن ہیں تاہم کچھ باتیں کہنے کی جسارت کروں گا
پہلے مصرع ایک تضاد کی سی کیفیت نمایاں ہے
بصدِ احترام کہنے کی جسارت کروں گا کہ تضادات ہی تو شاعری کا حسن ہوتے ہیں مرزا غالب کا ایک شعر ہے
یہ ضد کہ آج نہ آوے ، اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کِس قدر ہے ، کیا کہیے!
دوسرے مصرع کی مناسبت سے پہلے مصرع میں " نہیں ہو گا " کی بجائے " نہیں ہو سکتا " کا احتمام کیا جاتا تو شعر زیادہ بھرپور تاثر مرتب کر سکتا تھا ۔۔
ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا
اک بات اگر لب پہ نہیں لائے تو کیا ہے
مزکورہ بالا شعر میں "نہ ہو گا" لکھا ہے اور آپ نے "نہیں ہو گا" لکھا ہے :)
محترم محمد یعقوب آسی صاحب آپ کا غائبانہ تعارف کروا چکے ہیں آپ کو ادھر دیکھ کر خوشی ہوئی امید ہے کہ آپ یہاں آتے رہیں گے
بہت آداب :)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
ارے ہاں! سید فصیح احمد ان دنوں کچھ غیر معمولی طور پر مصروف ہیں۔ آپ دعوتِ عام (آم نہیں) دیجئے کہ "ہے کوئی اور جسے ناز ہو زیبائی پر؟"

ایوب ناطق

محترم سید فصیح احمد کو ذاتی پیغام اور دعوتِ کلام بھیج دیا ہے استاد محترم


السلام علیکم!

پیارے استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی اور جناب ایوب ناطق کا بہت شکریہ کہ ایسی اچھی اور علم افزا نشست میں خاکسار کو یاد رکھا۔ استاد محترم آسی صاحب جانتے ہیں کہ دیارے سخن میں میرا شمار ابھی ابجد خوانوں میں ہوتا ہے تو میں سخن کی کسی بھی صنف پر تبصرے سے بھی پرہیز ہی میں اپنا بھلا سمجھوں گا۔ البتہ نثر میں اب تک جو ایک دو بار طبع آزمائی وہ اجازت ہو تو حاضر کیئے دیتا ہوں۔ اور باقی دوست بھی جو نثری کاوشیں پیش کریں گے ان پر اپنے قد کے مطابق تبصرہ کرنے کی کوشش بھی کرتا رہوں گا۔
جناب ایوب ناطق صاحب کو میری طرف سے ایسا اچھا سلسلہ شروع کرنے پر بہت مبارک باد! اللہ آپ کو کامیاب کرے آمین! :) :)
 
آخری تدوین:
السلام علیکم!

پیارے استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی اور جناب ایوب ناطق کا بہت شکریہ کہ ایسی اچھی اور علم افزا نشست میں خاکسار کو یاد رکھا۔ استاد محترم آسی صاحب جانتے ہیں کہ دیارے سخن میں میرا شمار ابھی ابجد خوانوں میں ہوتا ہے تو میں سخن کی کسی بھی صنف پر تبصرے سے بھی پرہیز ہی میں اپنا بھلا سمجھوں گا۔ البتہ نثر میں اب تک جو ایک دو بار طبع آزمائی وہ اجازت ہو تو حاضر کیئے دیتا ہوں۔ اور باقی دوست بھی جو نثری کاوشیں پیش کریں گے ان پر اپنے قد کے مطابق تبصرہ کرنے کی کوشش بھی کرتا رہوں گا۔
جناب ایوب ناطق صاحب کو میری طرف سے ایسا اچھا سلسلہ شروع کرنے پر بہت مبارک باد! اللہ آپ کو کامیاب کرے آمین! :) :)

اتنے سارے "پرہیز"؟ ۔۔۔ اور وہ بھی بہ یک وقت! یعنی پرہیز میں "بدپرہیزی"!!
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
اتنے سارے "پرہیز"؟ ۔۔۔ اور وہ بھی بہ یک وقت! یعنی پرہیز میں "بدپرہیزی"!!

کافی دیر سوچا کہ اتنے سارے پرہیز کیسے ہوئے؟ پھر دوسری نشست میں جو اپنا مراسلہ دیکھا تو تب سمجھا کہ وہاں بھی ہم نے کافی پرہیز سے کام لیا تھا :rolleyes: ۔۔۔۔ :) :)
 
10425457_640750142735114_2692338902734629262_n.jpg
 
Top