ناعمہ عزیز
لائبریرین
صفحہ نمبر 204
کہا تھا کہ چینی اور ترک تو فاتحانہ یا عقیدت مندانی حرم تک آگئے لیکن مرد حرم نیند کے مزے لے رہا ہے۔
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں پے ذوق ہے صہبا
نہ ایراں میں رہے باقی نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر وکسریٰ
یہی شیخ حرم ہے ، جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذدرد لق اویس و اچار زہرا
ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے
گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در نطحا
شاعر اس کے بعد مغربی تہذیب اور یورپ کی پیدا کردہ تمدن کا حکیمانہ تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ حیات انسانی منقی اور مثبت اور مثبت قدروں کے اجتماع باطل کے افکار اور حق پر اصرار کے بغیر مستحکم اور متوازن نہیں ہو سکتی یہی لاالہ الا اللہ کا رمز ہے جس کا پہلا جز تمام معبودانِ باطل، اور مادی طواغیت کی کلی لفی اور دوسرا خدائے برحق کے یقینی اثبات پر مشتمل ہے ، مگر یورپ کی بدنصیبی ہے کہ اس نے پہلا دور ت وبڑی تیزی سے ختم کر لیا، اس نے قرون وسطیٰ میں کلیسا کی بیخ کنی شروع کر دی اور پوپ کی دینی سخت گیریوں کا خاتمہ کر دیا یہ اقدام یقینا مستحسن تھا۔لیکن وہ زندگی کے دوسرے اثباتی دور میں بالکل ناکام اور محروم رہا حالانکہ انسان معاشرہ اور تہذیب صرف منفی اقدار کے سہارے نہیں چل سکتے اس کا انجام یہ ہوا کہ وہ پورپ جس نے علم و تنظیم اور قوت تسخیر سے دنیا کو زیر فرمان کر لیا تھا زندگی کے صحرا میں حیران و ہلکان نظر انے لگا ، نہ اس کے پاس ایمان تھا نہ پاک جذبات تھے ، نہ صالح مقاصد و غایات تھیں ، اس لئے لازمی طور پر وہ زوال و فنا کے راستے پر چل پڑا ، اس طرح اقبال نے ان لفظوں کی تاریخٰی وتمدنی تصویر کھینچ کر
کہا تھا کہ چینی اور ترک تو فاتحانہ یا عقیدت مندانی حرم تک آگئے لیکن مرد حرم نیند کے مزے لے رہا ہے۔
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں پے ذوق ہے صہبا
نہ ایراں میں رہے باقی نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر وکسریٰ
یہی شیخ حرم ہے ، جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذدرد لق اویس و اچار زہرا
ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے
گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در نطحا
شاعر اس کے بعد مغربی تہذیب اور یورپ کی پیدا کردہ تمدن کا حکیمانہ تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ حیات انسانی منقی اور مثبت اور مثبت قدروں کے اجتماع باطل کے افکار اور حق پر اصرار کے بغیر مستحکم اور متوازن نہیں ہو سکتی یہی لاالہ الا اللہ کا رمز ہے جس کا پہلا جز تمام معبودانِ باطل، اور مادی طواغیت کی کلی لفی اور دوسرا خدائے برحق کے یقینی اثبات پر مشتمل ہے ، مگر یورپ کی بدنصیبی ہے کہ اس نے پہلا دور ت وبڑی تیزی سے ختم کر لیا، اس نے قرون وسطیٰ میں کلیسا کی بیخ کنی شروع کر دی اور پوپ کی دینی سخت گیریوں کا خاتمہ کر دیا یہ اقدام یقینا مستحسن تھا۔لیکن وہ زندگی کے دوسرے اثباتی دور میں بالکل ناکام اور محروم رہا حالانکہ انسان معاشرہ اور تہذیب صرف منفی اقدار کے سہارے نہیں چل سکتے اس کا انجام یہ ہوا کہ وہ پورپ جس نے علم و تنظیم اور قوت تسخیر سے دنیا کو زیر فرمان کر لیا تھا زندگی کے صحرا میں حیران و ہلکان نظر انے لگا ، نہ اس کے پاس ایمان تھا نہ پاک جذبات تھے ، نہ صالح مقاصد و غایات تھیں ، اس لئے لازمی طور پر وہ زوال و فنا کے راستے پر چل پڑا ، اس طرح اقبال نے ان لفظوں کی تاریخٰی وتمدنی تصویر کھینچ کر