نماز جمعہ اور نماز تراویح کا باجماعت اہتمام ہوگا

دین کو کاروبار بنانا ، نا شرعی ہے اور نا ہی سنت اور نا ہی فرمان الہی ۔۔۔ دعا کرنے، نماز پڑھانے کے پیسے ڈائریکٹلی یا انڈائیریکٹلی لینا، رشوت خوری ہے ، خیانت ہے اور بد دیانتی ہے۔ تھوڑا سوچئے، طلاق کی تکمیل سے پہلے ، طلاق ہو جانے کا حکم صادر کرنا، بدیانتی ہے۔ پھر ملاء اپنے آپ کو حلالے کے لئے پیش کرتا ہے تو یہ بدمعاشی ہے۔

یہ لوگ خالص اللہ کے لئے کام کررہے ہیں؟
یہ صرف ذاتی خواہشات کی پیروی کررہے ہیں، جناب۔
:)
یقین کریں میں آپ کے من پسند "حلالے" کا انتظار کر ہی رہا تھا۔ سو آپ سے سال دو سال قبل اس پر جو بات ہوئی تھی اس کو پھر پڑھیں۔
آپ کے اس "فری سٹائل" مراسلے سے کوئی ڈھنگ کی بات اخذ کرنا میرے لیے مشکل ہورہا ہے۔ تھوڑا "کول ڈاؤن" ہوجائیں اور مقصد کی بات دلیل سے دوبارہ تحریر کریں۔
 
مساجد میں نہیں، ان مساجد کے بنانے والے ملاؤں کی رشوت خوری اور لالچ میں خرابی ہے۔ جو پیسے بٹورتے ہیں۔
جی میرا مقصد یہی تھا کہ آپ کے پاس رشوت خوری اور لالچ کا کیا ثبوت ہے؟ کیا آپ کو ان کی انتظامیہ کے کسی طریق کار میں کوئی خرابی نظر آئی؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ویسے علماء کرام کو یہ اعتراض کرنا شایاں نہیں کہ دوسری جگہوں پر (مثلاََ بازار یا شاپنگ مال وغیرہ میں ) رش لگتا ہے تو ہمیں بھی رش لگانے کا حق ہے۔
بلکہ انہیں تو لوگوں کی تربیت بطور عام کرنے میں میں اپنا کردار ادا کرکے تعاون کرنا چاہیئے ۔
 
آخری تدوین:

سروش

محفلین
سوال: میرا دوست مشائخ اور ائمہ کرام پریہ تنقید کرتا ہے کہ وہ اپنے کام کی اجرت لیتے ہیں ، اس کا دعوی ہے کہ قرآن و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس میں صحابہ کرام ائمہ اور مشائخ کو دعوتی امور سر انجام دینے پر تنخواہ دیتے ہوں۔
میں نے جس وقت اسے کہا کہ: یہ تو ساری امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوتی امور سر انجام دینے والوں کی مدد کریں؛ کیونکہ وہ اپنا وقت اس عمل میں لگاتے ہیں، تو اس نے کہا کہ: ایسی کوئی دلیل کتاب و سنت میں نہیں ہے کہ وہ ایسا کام کرتے ہوں، وہ قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لینے کے عمل کو حرام قرار دینے کیلیے اس آیت سے استدلال کرتا ہے:
وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ
ترجمہ: اور جو میں نے تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرنے والا [قرآن] نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس پر سب سے پہلے کفر کرنے والے مت بنو، اور نہ ہی میری آیات کے بدلے میں معمولی قیمت بٹورو، اور مجھ ہی سے ڈرو۔[البقرة: 41]
اسی طرح سورہ یاسین کی آیت:
اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ
ترجمہ: تم اس کی اتباع کرو جو تم سے اجرت نہیں مانگتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔[يس: 21] تو کیا کتاب و سنت کی تعلیم دے کر کمانا جائز ہے؟ امید کرتا ہوں کہ اس بارے میں کچھ دلائل سے واضح کریں گے۔
جواب:
الحمد للہ:

اول:

عبادات کیلیے اصول یہی ہے کہ مسلمان عبادات کرنے کے بدلے میں اجرت مت لے، اور جو شخص اپنی عبادت کے بدلے میں دنیاوی اجرت چاہے تو اللہ تعالی کے ہاں اس کیلیے کوئی اجر نہیں ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لا يُبْخَسُونَ[15] أُوْلَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ )
ترجمہ: جو شخص دنیاوی چکا چوند اور دنیاوی زندگی چاہتا ہے تو ہم اس کے اعمال کا پورا بدلہ وہیں دے دیتے ہیں، دنیا میں انہیں اس کا کوئی خسارہ نہیں ہوگا [15] یہی لوگ ہیں جن کیلیے آخرت میں صرف آگ ہے، ان کے دنیا میں کئے ہوئے اعمال رائیگاں ہو جائیں گے اور جو کچھ وہ کرتے رہے وہ بے فائدہ ہو جائے گا۔[هود:15 ، 16]

دوم:

اگر عبادت ایسی ہو کہ جس کا فائدہ دوسروں کو بھی ہو جیسے کہ قرآن کریم کے ذریعے دم کرنا، یا قرآن کریم کی تعلیم دینا، یا حدیث کی تعلیم دینا تو جمہور علمائے کرام کے ہاں ایسی عبادت پر اجرت لینا جائز ہے، لیکن متقدمینِ احناف اس کے خلاف تھے، ان کے ہاں دم یا تعلیم کی وجہ سے دوسروں کو فائدہ پہنچنے کے عوض میں اجرت لینا درست نہیں ۔

سنت نبویہ میں ایسی احادیث موجود ہیں جن سے جمہور کے موقف کی تائید ہوتی ہے:

چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے چند صحابہ بارش کے پانی پر بسر کرنے والوں کے پاس سے گزرے جن میں سے ایک شخص کو سانپ نے کاٹا تھا ، تو ان میں سے ایک آدمی صحابہ کے پاس آیا اور کہا : "تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ پانی میں ایک شخص کو سانپ نے کاٹ لیا ہے" ، اس پر ایک صحابی گئے اور بکریوں کےعوض سورت فاتحہ پڑھ کر دم کر دیا، تو وہ آدمی ٹھیک ہو گیا، چنانچہ وہ صحابہ کے پاس بکریاں لے آئے، لیکن ان کے ساتھیوں نے اسے اچھا نہیں سمجھا اور کہنے لگے کہ تم نے قرآن پڑھنے پر اجرت لی ہے، پھر جب وہ مدینہ پہنچے تو انہوں نے عرض کیا : "اللہ کے رسول! اس نے قرآن پڑھنے پر اجرت لی ہے" تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (جن چیزوں پر اجرت لینی جائز ہے ان میں سب سے مستحق قرآن پاک ہے) بخاری: (5405)

نیز اس روایت کو بخاری: (2156) اور مسلم نے : (2201) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے۔

اس حدیث پر نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں یہ عنوان قائم کیا ہے:
"باب ہے: قرآن اور اذکار کے ذریعے دم کرنے پر اجرت لینے کے بیانِ جواز میں"

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"اس حدیث میں سورہ فاتحہ اور اذکار شرعیہ کے ذریعے دم کرنے پر اجرت لینے کی صراحت کے ساتھ اجازت ہے، نیز یہ بھی کہ یہ اجرت حلال ہے اس میں کراہت والی کوئی بات نہیں ، اسی طرح قرآن کریم کی تعلیم پر بھی اجرت لینا حلال ہے، یہی موقف شافعی، مالک، احمد، اسحاق، ابو ثور اور ان کے بعد آنے والے دیگر سلف کا ہے" انتہی
" شرح النووی" ( 14 / 188 )

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"آپ کیلیے قرآن کریم کی تعلیم دینے پر اجرت لینا جائز ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کو آدمی کے ساتھ اس شرط پر بیاہ دیا تھا کہ وہ لڑکی کو قرآن مجید کی وہ تمام سورتیں یاد کروائے گا جو اسے یاد ہیں، تو یہ سورتیں اس لڑکی کا حق مہر ٹھہریں، اسی طرح ایک صحابی نے کسی کافر مریض پر دم کیا اور دم کرنے سے مریض شفا یاب ہو گیا تو انہوں نے اس پر اجرت لی تھی، اور اسی واقعے کے تناظر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (جن چیزوں پر اجرت لینی جائز ہے ان میں سب سے مستحق قرآن پاک ہے) اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
شریعت میں منع یہ ہے کہ آپ محض تلاوت کرنے کے بدلے میں اجرت لیں، اور قرآن پڑھ پڑھ کر لوگوں سے مانگیں" انتہی

شیخ عبد العزیز بن باز ، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد الله بن غدیان ، شیخ عبد الله بن قعود ۔

" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 15 / 96 )

اسی مسئلہ کے متعلق دیگر فتاوی جات کیلیے سوال نمبر: ( 20100 ) اور ( 95781 ) کا مطالعہ کریں۔

سوم:

آپ کے دوست نے آیات سے جو استدلال کیا ہے وہ درست نہیں ہے؛ کیونکہ ان آیات کا معنی اور مفہوم قرآن و حدیث اور دیگر شرعی علوم کی تعلیم پر اجرت لینے کی ممانعت پر دلالت نہیں کر رہا، اور اگرچہ ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے ہیں کہ کچھ اہل علم نے ان آیات اور اسی طرح کی دیگر آیات سے استدلال کرتے ہوئے قرآن کریم اور علوم شرعیہ کی تعلیم پر اجرت لینے سے منع کیا ہے، لیکن ہم ان کے اس استدلال کو صحیح نہیں سمجھتے اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

پہلی بات:

فرمانِ باری تعالی:
وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ
ترجمہ: اور جو میں نے تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرنے والا [قرآن] نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس پر سب سے پہلے کفر کرنے والے مت بنو، اور نہ ہی میری آیات کے بدلے میں معمولی قیمت بٹورو، اور مجھ ہی سے ڈرو۔[البقرة: 41] یہاں معمولی قیمت سے مراد لوگوں کو راضی رکھنا ہے ، قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لینا اس سے مراد نہیں ہے۔

چنانچہ طاہر ابن عاشور رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی : (لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً) تا کہ وہ اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کر لیں[البقرة:79] یہ اصل میں اس آیت کی طرح ہے: (وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا) اور نہ ہی میری آیات کے بدلے میں معمولی قیمت بٹورو [البقرۃ: 41] اور یہاں پر قیمت سے مراد لوگوں کو راضی رکھنا ہے، کہ وہ احکامِ دین لوگوں کی چاہت کے مطابق بدلتے رہتے ہیں، یا اپنے آپ کو عالم سمجھتے ہیں حالانکہ وہ جاہل ہیں، چنانچہ اپنی اسی جہالت کی بنا پر قصے اور کہانیوں سے بھر پور کتابیں لکھ مارتے ہیں ، اور انتہائی سطحی قسم کی معلومات ان میں درج کرتے ہیں صرف اس لیے کہ مجمعے پر اپنا دھونس جما سکیں، کیونکہ ان کی ذہنی سطح اتنی بلند نہیں تھی کہ صحیح علم تک پہنچ سکیں، لیکن ان میں منظر عام پر آنے اور بڑا بننے کی چاہت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی تو انہوں نے سطحی قسم کی باتیں جوڑیں، من گھڑت باتیں اکٹھی کیں، اور ایسی بے سر و پا چیزیں جمع کیں جو صحیح علم کا بالکل مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں ، پھر انہیں لوگوں میں پھیلانے کا کام شروع کر دیا اور انہیں اللہ اور اس کے دین کی جانب منسوب کرنے لگے، اصل میں جاہل لوگوں کی یہی عادت ہوتی ہے جو نا اہلی کے با وجود بڑا بننے کی چاہت رکھتے ہیں، تا کہ عوام الناس اور ایسے لوگوں کی نظروں میں اہل علم نظر آئیں جو موٹاپے اور سوجن میں فرق نہ کر سکیں" انتہی
" التحرير والتنوير " ( 1 / 577 )

اسی طرح علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت اور اسی موضوع کی آیات کی وجہ سے قرآن کریم اور دیگر علوم کی تعلیم پر اجرت لینے سے متعلق علمائے کرام کا اختلاف ہے، چنانچہ امام زہری اور اصحاب الرائے [احناف] اس سے منع کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ: قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن کریم کی تعلیم واجب امور میں سے ایک ہے جس میں عبادت اور خالص نیت کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا قرآن کریم کی تعلیم دینے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے جیسے نماز، روزہ اور دیگر عبادات پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: (وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا) اور نہ ہی میری آیات کے بدلے میں معمولی قیمت بٹورو [البقرۃ: 41]

جبکہ قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لینے کو امام مالک، شافعی، احمد، ابو ثور اور دیگر اکثر علمائے کرام نے جائز قرار دیا ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ابن عباس رضی اللہ عنہ کی دم والی حدیث میں ہے کہ : (جن چیزوں پر اجرت لینی جائز ہے ان میں سب سے مستحق قرآن پاک ہے) اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے، یہ اختلاف مٹانے کیلیے بالکل واضح اور صریح ہے، اس لیے اس حدیث پر اعتماد کرنا چاہیے۔

اور جو فریقِ مخالف نے قرآن کریم کی تعلیم کو نماز اور روزے پر قیاس کیا ہے تو یہ فاسد ہے؛ کیونکہ یہ قیاس نص کے مقابلے میں ہے، پھر دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے، وہ اس طرح کہ نماز اور روزہ اپنے کرنے والے کو فائدہ پہنچاتے ہیں، جبکہ قرآن کریم کی تعلیم سے دوسروں کو فائدہ ہوتا ہے اور یہ متعدی عبادت ہے ، لہذا قرآن کریم پڑھانے پر اجرت لینا جائز ہے؛ کیونکہ وہ بھی قرآن کو دوسروں تک پہنچا رہا ہے جیسے کہ قرآن کریم لکھنے کی اجرت لینا جائز ہے۔

اور اس آیت کا جواب یہ بھی ہے کہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں ، اور سابقہ شریعتیں کیا ہمارے لیے بھی قابل عمل شریعت ہیں؟ اس میں اختلاف ہے اور [ابو حنیفہ رحمہ اللہ] اس بات کے قائل نہیں ہیں۔

اور اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ:
اس آیت میں وہ شخص مراد ہے جس پر قرآن کی تعلیم دینا متعین اور فرض ہو چکا ہو[یعنی: علاقے میں اس کے علاوہ کوئی اور قرآن کی تعلیم دینے والا نہ ہو] اور وہ بغیر اجرت کے قرآن کی تعلیم دینے سے انکار کر دے، البتہ اگر کسی شخص پر قران کی تعلیم دینا متعین اور فرض نہ ہو اس کیلیے اجرت لینا جائز ہو گا، اس کی دلیل حدیث میں موجود ہے، لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی شخص پر قرآن مجید کی تعلیم دینا متعین ہو جائے لیکن اس کے پاس اپنے اور اہل خانہ کا پیٹ پالنے کیلیے کچھ نہ ہو تو ایسی صورت میں بھی اس پر قرآن کی تعلیم دینا واجب نہیں ہوگا، اس لیے وہ شخص [اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلیے]اپنے کام اور پیشے پر محنت جاری رکھ سکتا ہے، اس صورت میں حکمران کی ذمہ داری ہے کہ اقامت دین کیلیے اقدامات کرے، اگر حکمران نہیں کرتا تو مسلمان خود سے اس ذمہ داری کو نبھائیں؛ کیونکہ جس وقت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو ان کے گھر بار کی ضروریات پوری کرنے کیلیے کوئی ذریعہ نہیں تھا، تو انہوں نے کپڑے اٹھائے اور بازار میں بیچنے کیلیے نکل کھڑے ہوئے، لوگوں نے اس بارے میں ان سے بات کی تو کہنے لگے: میں اپنے گھر والوں کے اخراجات کہاں سے ادا کروں؟ اس پر لوگوں نے آپ کیلیے معقول مشاہرہ مقرر کر دیا۔

اور وہ احادیث جن میں اجرت لینے سے منع کیا گیا ہے ، ان میں سے کوئی بھی اپنے سہارے پر قائم نہیں اہل علم اور محدثین کے ہاں وہ ثابت ہی نہیں ہوتیں، [اس کے بعد قرطبی رحمہ اللہ نے ان روایات پر جرح کی ہے] لہذا سند کے اعتبار سے کوئی بھی روایت ایسی نہیں ہے جس پر عمل کرنا ممکن ہو" انتہی مختصراً
" تفسیر القرطبی " ( 1 / 335 ، 336 )

دوسری بات:

فرمانِ باری تعالی : اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ
ترجمہ: تم اس کی اتباع کرو جو تم سے اجرت نہیں مانگتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔[يس: 21] اور اسی طرح کی دوسری آیات کا جواب:

اہل علم نے ایسی آیات کی روشنی میں بھی قرآن کریم اور شرعی علوم کی تعلیم پر اجرت لینے سے منع کیا ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ یہ رسولوں اور ان کے پیروکاروں کا شیوہ نہیں ہے۔

ان کے اس استدلال کا رد ناقابل تردید ہے، وہ اس طرح کہ یہ آیت صرف ان لوگوں کے بارے میں ہے جن پر تبلیغ، دعوت، اور تعلیم فرض عین ہو جائے، جن پر فرض عین نہیں ہے ان کے بارے میں یہ آیت نہیں ۔

اسی طرح ان آیات کو ایسے شخص کے بارے میں کراہت پر محمول کیا جا سکتا ہے جسے اجرت لینے کی ضرورت نہیں ہے، شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ اسی موقف کے قائل تھے، انہوں نے اس معنی کی متعدد آیات یکجا ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ:
"اس آیت کریمہ سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ : رسولوں کے نقش قدم پر چلنے والے علمائے کرام اور دیگر افراد کیلیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پاس موجود علم بلا معاوضہ آگے پہنچائیں، اس کا معاوضہ مت لیں، وہ کتاب اللہ کی تعلیم دینے پر اجرت نہ لیں، عقائد، حلال و حرام اور دیگر شرعی علوم کی تعلیم پر اجرت مت لیں" انتہی
" أضواء البيان " ( 2 / 179 )

پھر اس کے بعد لکھتے ہیں:
"مجھے لگتا ہے -واللہ اعلم- کہ اگر انسان کو کوئی ضروری حاجت نہ ہو تو ان دلائل کی بنا پر اس کیلیے بہتر یہی ہے کہ قرآن کریم ، عقائد اور حلال و حرام کی تعلیم پر معاوضہ نہ لے، اور اگر اسے ضرورت محسوس ہو تو بقدرِ ضرورت بیت المال سے لے لے؛ کیونکہ بیت المال سے لی ہوئی رقم تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلیے ہے بطور اجرت نہیں ہے۔

لہذا جسے اللہ تعالی نے مال و دولت سے نوازا ہے اس کیلیے بہتر یہی ہے کہ وہ قرآن کریم ، عقائد، اور حلال و حرام کی تعلیم کے بدلے میں کچھ نہ لے" انتہی
" أضواء البيان " ( 2 / 182 )

جو موقف شیخ شنقیطی رحمہ اللہ نے اپنایا ہے ان سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی یہی موقف اپنایا ہے:

آپ رحمہ اللہ سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو اجرت کے بغیر شرعی علوم پڑھانے کیلیے تیار نہیں ہے، تو کیا اس کیلیے ایسا کرنا جائز ہے؟:
تو انہوں نے جواب دیا:
"الحمدللہ، کسی معاوضے اور اجرت کے بغیر قرآن کریم اور شرعی علوم کی تعلیم دینا اللہ تعالی کے ہاں افضل اور محبوب ترین اعمال میں سے ہے، اور یہ بات دین اسلام میں ایک مسلمہ حقیقت ہے، اسلامی خطے میں رہنے والے کسی بھی شخص سے یہ بات مخفی نہیں ہے۔

صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین اور دیگر قرآن و حدیث کے مشہور و معروف علمائے کرام اور فقہاء سب کے سب بغیر اجرت کے تعلیم دیتے تھے، ان میں سے کوئی بھی ایسا فرد نہیں تھا جو اجرت لیکر تعلیم دیتا ہو۔

(علمائے کرام انبیائے عظام کے وارث ہیں، انبیائے کرام کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتی بلکہ ان کی وراثت علم ہے، جس نے بھی علم حاصل کیا اس نے عظیم نصیب پایا) اور انبیائے کرام علم بغیر اجرت کے سکھاتے تھے، جیسے کہ نوح علیہ السلام نے فرمایا:
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ: اور میں تم سے اس پر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا، میرا اجر صرف رب العالمین کے ذمے ہے۔ [الشعراء: 109]

یہی بات ہود، صالح، شعیب، لوط اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام نے کہی تھی اور اسی طرح کی بات خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی:
قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ
ترجمہ: آپ کہہ دیں: میں اس پر کسی اجرت کا تم سے سوال نہیں کرتا، اور نہ ہی میں تکلف میں پڑنے والا ہوں[ص: 86]

اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا:
قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا
ترجمہ: آپ کہہ دیں: میں تم سے اس پر کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا، ما سوائے اس بات کے کہ: تم میں سے جو چاہے وہ اپنے پروردگار کا راستہ اپنا لے۔[الفرقان: 57]

قران کریم، حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم بغیر اجرت کے دینا سب اہل علم کے ہاں متفقہ طور پر عمل صالح ہے، بلکہ یہ فرضِ کفایہ ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ: (میری طرف سے پہنچاؤ چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو ) اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (حاضر غیر حاضر افراد تک بات پہنچا دیں)

اگر علمائے کرام کا اختلاف ہے تو اس بات پر ہے کہ قرآن ، حدیث اور فقہ کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے یا نہیں، اس بارے میں دو موقف ہیں اور امام احمد سے اس کے متعلق دو روایات ہیں:

پہلی یہ ہے کہ: شرعی علوم کی تعلیم دینے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، یہی ابو حنیفہ وغیرہ کا موقف ہے۔

دوسری رائے یہ ہے کہ: اجرت لینا جائز ہے، یہ شافعی اور دیگر ائمہ کا موقف ہے۔

اس کے متعلق حنبلی فقہ میں یہ موقف بھی ہے کہ: اگر ضرورت ہو تو جائز ہے، اگر ضرورت نہیں ہے تو جائز نہیں ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے یتیم کی کفالت کرنے والے کے متعلق فرمایا:
وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ
ترجمہ: اور جو مالدار ہے وہ بچے، اور جو غریب ہے وہ [شرعی]عرف کے مطابق کھا لے۔[النساء: 6]

اسی طرح شرعی علوم کے اساتذہ کو بیت المال سے دینا بھی جائز ہے، جیسے کہ ائمہ، مؤذنین، اور قاضیوں کو مشاہرہ دیا جاتا ہے، یہ بھی اگر ضرورت ہو تو جائز ہے۔

لیکن کیا مالدار ہونے کے با وجود اسے ذریعہ معاش بنانا جائز ہے؟ اس بارے میں دو موقف ہیں۔۔۔

جو علمائے کرام تعلیمی فائدے کا معاوضہ لینے کو ناجائز کہتے ہیں : ان کے مطابق تعلیمی فریضہ ایسے لوگوں کا خاصہ ہے جو قرآن، حدیث، فقہ کی تعلیم اور امامت، اذان وغیرہ عبادت سمجھ کر کریں، کوئی کافر شخص یہ کام نہیں کر سکتا، یہ صرف مسلمان ہی کریگا۔

لیکن راجگیری ، سلائی اور بنائی وغیرہ ایسی خدمات جو مسلمان اور کافر سب کر سکتے ہیں ان کی اجرت لینے کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔

اگر کوئی شخص اجرت کے بدلے میں کوئی کام کرے تو وہ عبادت نہیں رہتا، وہ اجر و ثواب کی بجائے صرف اجرت کا ہی مستحق بنتا ہے؛ کیونکہ اس نے کام اجرت کیلیے کیا ہے اجر کیلیے نہیں، اور اگر کوئی کام معاوضہ لینے کیلیے کیا جائے تو وہ عبادت نہیں رہتا، وہ تو عام پیشے کی طرح ہے۔

لہذا جو علمائے کرام دینی سرگرمیوں پر اجرت لینے کو جائز نہیں سمجھتے ان کا کہنا ہے کہ: دینی سرگرمیاں بطورِ پیشہ سر انجام نہیں دی جا سکتیں کہ وہ عبادت کی بجائے تجارت بن جائیں، جیسے کہ نماز، روزہ، اور تلاوت وغیرہ بطور عبادت تو کی جا سکتی ہیں بطورِ ذریعۂ اجرت اور تجارت نہیں کی جا سکتیں۔

اور جو علمائے کرام اسے جائز کہتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ: چونکہ دینی تعلیم دینے سے علم لینے والے کو بھی فائدہ ہوتا تو اس لیے مستفید شخص فائدے کے عوض میں اجرت دے سکتا ہے ، جیسے کہ دیگر خدمات کے عوض میں اجرت دیتا ہے۔

لیکن جو علمائے کرام محتاج اور غیر محتاج کے ما بین فرق کرتے ہیں تو یہ زیادہ بہتر موقف لگتا ہے: ان کا کہنا ہے کہ: اگر کوئی شخص ضرورت مند ہونے کی وجہ سے شرعی علوم کی تعلیم کو ذریعہ معاش بناتا ہے تو وہ اپنے عمل کو عبادت بنانے کی نیت کر سکتا ہے ، ساتھ میں اسے اجرت لینے کی بھی اجازت ہے، تا کہ اس اجرت کی وجہ سے اس عبادت کیلیے تیار رہے؛ کیونکہ اہل خانہ کا پیٹ پالنا بھی واجب ہے، چنانچہ غریب آدمی شرعی علوم کی تعلیم کے عوض حاصل ہونے والی اجرت سے اپنے اس طرح کے واجبات ادا کرتا ہے، لیکن مالدار شخص کا یہ حکم نہیں ہے؛ کیونکہ اسے تو کمانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، اس لیے اسے تو تعلیمی سرگرمیاں اجرت کیلیے کرنے کی ضرورت ہی نہیں، بلکہ اگر اللہ تعالی نے سے غنی کر دیا ہے اور شرعی علوم کی تعلیم فرضِ کفایہ ہے تو وہ اس حکم کے تحت آئے گا ،اور اگر کوئی بھی اس فریضہ کو ادا نہ کرے گا تو یہ اس مالدار شخص پر فرضِ عین ہو جائے گا۔ واللہ اعلم" انتہی مختصراً
"مجموع الفتاوى" (30/204)

اس بنا پر یہ موقف اپنانا ممکن ہے کہ:

کتاب و سنت میں کوئی بھی ایسی دلیل نہیں ہے جو کہ صراحت کے ساتھ دوسروں کی ضروریات پوری کرنے والی عبادت کے نتیجے میں اجرت لینے کو حرام قرار دیتی ہوں۔

اور سوال میں مذکور آیات کے بارے میں ہم نے دیکھ لیا ہے کہ یہ آیات اس اجرت لینے کو حرام قرار دینے میں صریح نہیں ہیں، بلکہ ان آیات کو دلیل بنانے میں بھی اختلاف ہے۔

جبکہ احادیث تمام کی تمام سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں، اس بارے میں مزید تسلی کیلیے تفسیر قرطبی کا مذکورہ بالا حوالے کا مطالعہ کریں۔

یہ واضح رہے کہ : جس شخص کو اللہ تعالی نے مالدار بنایا ہے وہ شرعی علوم کو آگے سکھانے کے عوض میں کچھ نہ لے اور اس سے بچے۔

واللہ اعلم.

بشکریہ الإسلام سؤال وجواب
 
بحث کا موضوع یہ ہے کہ کیا وبا کے دنوں میں عامۃ المسلمین کو اس ڈر سے مسجد میں جمع نہ ہونے دینا کہ اس سے وبا مسلمانوں میں زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلے گی جائز ہے اور علما کو اس پر اصرار کرنا چاہیے یا اس کے برعکس وہ اجتماعی عبادت و دعا کو وبا کی روک تھا م سے زیادہ اہم تصور کرتے ہیں؟

بنی اسرائیل کو جب بختِ نصر پکڑ کر لے گیا اور بابل میں قید کردیا تو وہ اپنے خداوند کی یاد میں روتے تھے ۔ وہ خداوند جو ہیکل میں پروشلم میں رہ گیا تھا اور وہ اس سے جدا کردئیے گئے تھے۔کیا ہمارے علما کا یہ خیال ہے کہ اللہ صرف مسجد میں رہتا ہے اور دعاؤں کو سنتا ہے؟

علما اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا مسجد میں جمع ہوتا زیادہ ضروری ہے۔ صرف یہ احتیاط کہ بزرگ افراد اور مریض حضرات مسجد نہ آئیں۔ ان افراد کے بارے میں کیا خیال ہے جو خاموش کیریئر ہیں اور خود ان کو اس وائرس سے کوئی خطرہ نہیں لیکن جن دوسرے مسلمانوں سے وہ ملتے ہیں انہیں زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے؟ بظاہر وہ تو صحت مند ہیں اور انہیں دوسروں سے ملنے ملانے سے کوئی نہیں روک رہا اور نہ ہی انہیں مسجد آنے سے منع کیا جارہا ہے؟
 
ویسے علماء کرام کو یہ اعتراض کرنا شایاں نہیں کہ دوسری جگہوں پر (مثلاََ ) رش لگتا ہے تو ہمیں بھی رش لگانے کا حق ہے۔
بلکہ انہیں تو لوگوں کی تربیت بطور عام کرنے میں میں اپنا کردار ادا کرکے تعاون کرنا چاہیئے ۔
عاطف بھائی آپ نے اچھے انداز میں بات کی۔ ورنہ اب تک تو اسے یہاں "علماء کے چندوں اور کاروبار اور مافیا" سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی وجہ مکمل موقف سے ناواقفیت کے ساتھ ساتھ علماء سے نفرت کی حد تک تنگ دلی یا بد دلی ہے۔
ذیل میں تحریری موقف چسپاں کر رہا ہوں۔ اس تحریر میں بار بار احتیاطی تدابیر کو اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن آپ جان جائیں گے کہ یہ رش کا مسئلہ یا چندے کی پرابلم ہرگز نہیں۔
یہاں دیکھیے
 
اور علما کو اس پر اصرار کرنا چاہیے یا اس کے برعکس وہ اجتماعی عبادت و دعا کو وبا کی روک تھا م سے زیادہ اہم تصور کرتے ہیں
مقصد مکمل احتیاط اور مساجد کی آبادی کی کوشش کو حتی الامکان جمع کرنا ہے اور بس۔ اوپر چسپاں کردہ تحریر میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ضرورت ہے کہ ملاء کےپاس روزگار کے لئے تعلیم ہو، روز گار ہو، اور ملاء کو تربیت اور امتحان کے بعد لائسنس جاری کیا جائے امامت کرنے کا، تاکہ قوم جہالت کا شکار نا ہو۔ جو لوگ مذہبی تعلیم میں سپیشلائزیشن کرنا پسند کریں ان کے لئے مناسب تدریسی نصاب ترتیب دیا جائے۔

کس مزے کی بات ہے کہ تعمیرات کے لئے سول انجینئر اور آرکیٹیکٹ ڈھونڈتے ہیں ، دل کی سرجری کے لئے بہتری ڈاکٹر، علاج معالجے کے لئے ایف آر سی پی لیکن معاشرے کی تعمیر ایک بنای کسی سرٹیفیکیٹ ، بناء کسی مناسب نصاب، بناء کسی مناسب امتحان کے ایک نیم ملاء فرد کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے اور ملاء پراپیگنڈے کا شکار ہو کر ، اس نیم حکیم کی صلاحیتوں پر اترایا جاتا ہے، فخر کیا جاتا ہے۔ علماء اور عالم کا خطاب دیا جاتا ہے۔

خود دیکھ لجئے کہ یہ لوگ کیس تعمیری بحث کے قابل بھی نہیں ، ورنہ کچھ نا کچھ تو یہاں موجود ہوتے؟ دوسری طرف ان کے خوف کا عالم یہ ہے کہ یہ بات چیت کرنے کے لئے تیار نہیں صرف وعظ کرنا چاہتے ہیں،جبکہ لیکچر بوسیدہ اور غیر منطقی ہے۔
چک تے پھٹے!!!
 

جاسم محمد

محفلین
کیا تعمیری سوچ میں یہ بات شامل نہ ہونی چاہیے کہ کالج اور یونیورسٹیز میں اسلامک سٹڈیز میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرکے بہتر نصاب تعلیم مرتب کیا جائے تاکہ اسلامک سٹڈیز کے فضلاء مناسب تربیت اور بہتری کے بعد مسجد سنبھال سکیں؟ آپ تو تعمیری سوچ کے قائل ہیں تو پھر آپ نے کس منطق سے اپنی گفتگو کا دائرہ ایک فریق تک محدود رکھا؟
ادھر ناروے کے گرجا گھروں میں سرکاری پادری لگنے کیلئے یونیورسٹی سے 5 سالہ مسیحیت کا کورس لازمی کرنا پڑتا ہے۔ کچھ اسی قسم کا تعلیمی معیار پاکستانی یونیورسٹیرز اپنی اسلامی سٹڈیز میں فراہم کر سکتی ہیں تاکہ فارغ التحصیل طالب علم اسلامی سکالرشپ کے ساتھ ساتھ مساجد و مدرسے کے دینی فرائض بھی سنبھال سکے۔
 

محمد سعد

محفلین
ذیل میں تحریری موقف چسپاں کر رہا ہوں۔ اس تحریر میں بار بار احتیاطی تدابیر کو اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن آپ جان جائیں گے کہ یہ رش کا مسئلہ یا چندے کی پرابلم ہرگز نہیں۔
یہاں دیکھیے
اس کو دیکھنے کے بعد دو امکانات سمجھ آ رہے ہیں۔
۱۔ یہ موقف پیش کرنے والے علماء، وائرسز کے پھیلنے کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہیں اور اس کے باوجود مصر ہیں کہ اس معاملے پر پوری قوم ان سے رہنمائی لے۔
۲۔ یہ لوگ اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود مسلمانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
اب آپ بتائیں کہ ان میں سے کون سی صورت درست ہے؟
یہ تو طے ہے کہ دونوں صورتوں میں ہی یہ لوگ اس معاملے پر اپنی نااہلی ثابت کر رہے ہیں۔ صرف ان پر لگے "عالم دین" کے لیبل کی وجہ سے انہیں کروڑوں زندگیاں خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
 

محمد سعد

محفلین
لوگوں کو دن میں پانچ بار بڑی تعداد میں ایک کمرے میں اکٹھا کرنا ہے، لیکن احتیاطی تدابیر لازم ہیں!
ان اجتماعات میں کئی مریض بھی شامل ہو سکتے ہیں جو مرض کی علامات ظاہر کیے بغیر وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنیں گے، لیکن احتیاطی تدابیر لازم ہیں!
وائرس کو پھر نمازی اپنے اپنے گھروں کی طرف لے کر جائیں گے جہاں بچوں اور بوڑھوں کو بھی اس سے متاثر کریں گے، لیکن احتیاطی تدابیر لازم ہیں!
تراویح کے لیے صحت مند اور ممکنہ طور پر بیمار نمازی ایک گھنٹے سے زائد دورانیے تک ایک ہی ہال میں موجود رہیں گے، لیکن احتیاطی تدابیر لازم ہیں!
جماعت کے لیے تین یا پانچ افراد کی پابندی نہیں کروائی جا سکتی لیکن کسی روحانی کرامات کے ذریعے سب نمازیوں کو یہ پابندی کروا دی جائے گی کہ وہ کھانسی یا چھینک سے سو فیصد پرہیز کریں، کیونکہ احتیاطی تدابیر لازم ہیں!
اور تو چھوڑیے، وائرس کو بھی اس بات کا پابند کیا جائے گا کہ وہ کسی نئے فرد کو متاثر کرنے سے پہلے انتظار کرے کہ ہم جلدی جلدی نماز پڑھ لیں، کیونکہ احتیاطی تدابیر لازم ہیں!

اس حکمت عملی میں کچھ مسئلہ نظر آ رہا ہے؟
 
سوال: میرا دوست مشائخ اور ائمہ کرام پریہ تنقید کرتا ہے کہ وہ اپنے کام کی اجرت لیتے ہیں ، اس کا دعوی ہے کہ قرآن و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس میں صحابہ کرام ائمہ اور مشائخ کو دعوتی امور سر انجام دینے پر تنخواہ دیتے ہوں۔
-----
واللہ اعلم.

بشکریہ الإسلام سؤال وجواب

مجھے اس جواب میں ایک خرابی نظر آتی ہے، وہ یہ کہ کیا وجہ ہے کہ ملاء ملازم نا ہو؟ صرف ڈائریکٹ اور انڈائریکٹ ٹیکس جمع کرکے حکومت کے اندر حکومت چلائے؟
فرض کرلیں کہ ایسا کرنا درست ہے تو کیا یہی اصول "غیر علماء" یعنی ہم جیسوں پر لاگو ہوسکتا ہے؟

یہ جواب ، ملاء کے دوسرے جوبات سے مختلف نہیں۔

ایک لڑکی نے ملاء سے پوچھا:
لڑکی: کسی لڑکے سے محبت کرنا کیسا ہے؟
ملاء : غیر محرم سے محبت کرنا حرام ہے اور اس کی سزا جہنم ہے
لڑکی : وہ لڑکا غیر محرم نہیں ، میرا چچا زاد ہے
ملاء : یہ بھی حرام ہے اور اس کی سزا جہنم ہے
لڑکی : لیکن وہ چچازاد آپ ہیں؟؟
ملاء : بہت چالاک ہو ، سیدی جنت میں جانا چاہتی ہو

اگر ڈائریکٹ تیکسیشن سے ، رقم جمع کر کے ، حکومت کے اندر حکومت چلانا درست ہے ، تو پھر - "ام بولے گا تو بولو گے کہ بولتا ہے " :)

مزید یہ کہ حکومت کے احکامات کو رفع دفع کرنے کا حق ، ملاء کو کس نے دیا کہ ، لاک بندی کا اطلاق مساجد پر نہیں ہوگا۔ یہ تو حکومت کے خلاف حکومت ہوگئی۔ جو کہ غداری ہے۔
 

زیک

مسافر
یہ اعتراض سمجھ نہیں آ رہا کہ تمام مذہبی علما پر تنقید کیوں ہو رہی ہے۔ شاید اس تنقید کی وجہ یہ ہے کہ تمام ہی مساجد اور باجماعت نماز کو بند کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ دنیا میں اکثر مساجد بند ہیں لیکن پاکستان میں اس پر ہر مولوی کو اعتراض ہے
 

محمد سعد

محفلین
مزید یہ کہ حکومت کے احکامات کو رفع دفع کرنے کا حق ، ملاء کو کس نے دیا کہ ، لاک بندی کا اطلاق مساجد پر نہیں ہوگا۔ یہ تو حکومت کے خلاف حکومت ہوگئی۔ جو کہ غداری ہے۔
حکومت کے اندر حکومت تو بعد کی باتیں ہوئیں۔ سیدھا سیدھا زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ یہ حکومت کے اندر حکومت سے کہیں زیادہ سنگین معاملہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
حیرت یہ ہے کہ دنیا میں اکثر مساجد بند ہیں لیکن پاکستان میں اس پر ہر مولوی کو اعتراض ہے
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان میں بفضل تعالیٰ علما کرام ہمیشہ سے خود کو ریاست و حکومت سے اوپر تصور کرتے رہے ہیں۔ اور ان کے اس تصور کو الحمدللہ آج تک کسی نے چیلنج کرنے کی جرات بھی نہیں کی۔
 

جاسم محمد

محفلین
بنی اسرائیل کو جب بختِ نصر پکڑ کر لے گیا اور بابل میں قید کردیا تو وہ اپنے خداوند کی یاد میں روتے تھے ۔ وہ خداوند جو ہیکل میں پروشلم میں رہ گیا تھا اور وہ اس سے جدا کردئیے گئے تھے۔کیا ہمارے علما کا یہ خیال ہے کہ اللہ صرف مسجد میں رہتا ہے اور دعاؤں کو سنتا ہے؟
یہودیوں کی تاریخ میں مُلائیت بھی اسی سانحہ کے بعد شروع ہوئی تھی۔
Origins of Rabbinic Judaism - Wikipedia
 

جاسم محمد

محفلین
مقصد مکمل احتیاط اور مساجد کی آبادی کی کوشش کو حتی الامکان جمع کرنا ہے اور بس۔
عبید بھائی، آپ کی اس بات میں واضح تضاد موجود ہے۔ غور فرمائیں:
لوگوں کو دن میں پانچ بار بڑی تعداد میں ایک کمرے میں اکٹھا کرنا ہے، لیکن احتیاطی تدابیر لازم ہیں!
ان اجتماعات میں کئی مریض بھی شامل ہو سکتے ہیں جو مرض کی علامات ظاہر کیے بغیر وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنیں گے، لیکن احتیاطی تدابیر لازم ہیں!
وائرس کو پھر نمازی اپنے اپنے گھروں کی طرف لے کر جائیں گے جہاں بچوں اور بوڑھوں کو بھی اس سے متاثر کریں گے، لیکن احتیاطی تدابیر لازم ہیں!
تراویح کے لیے صحت مند اور ممکنہ طور پر بیمار نمازی ایک گھنٹے سے زائد دورانیے تک ایک ہی ہال میں موجود رہیں گے، لیکن احتیاطی تدابیر لازم ہیں!
جماعت کے لیے تین یا پانچ افراد کی پابندی نہیں کروائی جا سکتی لیکن کسی روحانی کرامات کے ذریعے سب نمازیوں کو یہ پابندی کروا دی جائے گی کہ وہ کھانسی یا چھینک سے سو فیصد پرہیز کریں، کیونکہ احتیاطی تدابیر لازم ہیں!
اور تو چھوڑیے، وائرس کو بھی اس بات کا پابند کیا جائے گا کہ وہ کسی نئے فرد کو متاثر کرنے سے پہلے انتظار کرے کہ ہم جلدی جلدی نماز پڑھ لیں، کیونکہ احتیاطی تدابیر لازم ہیں!
اس حکمت عملی میں کچھ مسئلہ نظر آ رہا ہے؟
چھا گئے سعد ۔۔ صحیح پکڑا ۔۔۔
What an oxymoron statement
اگر آپ کا مقصد مکمل احتیاط ہی ہے تو جیسے دیگر سیکولر طبقہ جات نے اپنی تمام مجمع والی سرگرمیوں کو کچھ عرصہ کیلئے معطل کر دیا ہے۔ یہی کام آپ کا مذہبی طبقہ کیوں نہیں کر سکتا؟ اگر کچھ عرصہ کیلئے مسلمان باجماعت نمازیں ادا نہ کر سکیں گے تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ اگر آپ کی تھوڑی سے بھی مذہبی سرگرمی سے انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے تو حکمت کا تقاضا ہے اس صورت میں انسانی جان کو فوقیت دی جائے۔
 

اسد

محفلین
عبید بھائی، آپ کی اس بات میں واضح تضاد موجود ہے۔ غور فرمائیں:
اگر آپ کا مقصد مکمل احتیاط ہی ہے تو جیسے دیگر سیکولر طبقہ جات نے اپنی تمام مجمع والی سرگرمیوں کو کچھ عرصہ کیلئے معطل کر دیا ہے۔ یہی کام آپ کا مذہبی طبقہ کیوں نہیں کر سکتا؟ اگر کچھ عرصہ کیلئے مسلمان باجماعت نمازیں ادا نہ کر سکیں گے تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ اگر آپ کی تھوڑی سے بھی مذہبی سرگرمی سے انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے تو حکمت کا تقاضا ہے اس صورت میں انسانی جان کو فوقیت دی جائے۔
نمازیوں کو باجماعت نماز ادا کرنے سے نہیں روکا جا رہا، بلکہ مسجد میں اکٹھا ہونے سے منع کیا جا رہا ہے۔ گھر میں بھی باجماعت نماز ہوتی ہے، بلکہ اس طرح گھر کی خواتین بھی جماعت میں شامل ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس طرح چندہ جمع نہیں ہوتا جو کہ اس سارے معاملے کا مقصد ہے۔

پرانی بات ہے کہ واہ کینٹ میں گھر کے نزدیک بڑی مسجد میں عید کی نماز ادا کرنے گئے، مسجد سرکاری تھی۔ روایتی انداز میں چندہ جمع کیا جا رہا تھا، دو، دو افراد چادر پکڑ کر صفوں میں پھر رہے تھے۔ نماز کا وقت ہوا تو امام صاحب نے چندہ جمع کرنے والوں کو بلایا اور معائنے کے بعد کہا کہ چندہ کم ہے لہٰذا وہ اس وقت تک نماز نہیں پڑھائیں گے جب تک مناسب مقدار میں چندہ جمع نہیں ہو جاتا۔ وقت اتنا ہو چکا تھا کہ کسی دوسری جگہ نماز نہ مل سکتی تھی۔ چندے والے دوبارہ صفوں سے گزرے اور خود مغویان سے تاوان وصول کیا۔ اس دن کے بعد میں اس مسجد میں نہیں گیا۔
 
آخری تدوین:

جا ن

محفلین
نمازیوں کو باجماعت نماز ادا کرنے سے نہیں روکا جا رہا، بلکہ مسجد میں اکٹھا ہونے سے منع کیا جا رہا ہے۔ گھر میں بھی باجماعت نماز ہوتی ہے، بلکہ اس طرح گھر کی خواتین بھی جماعت میں شامل ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس طرح چندہ جمع نہیں ہوتا جو کہ اس سارے معاملے کا مقصد ہے۔

پرانی بات ہے کہ واہ کینٹ میں گھر کے نزدیک بڑی مسجد میں عید کی نماز ادا کرنے گئے، مسجد سرکاری تھی۔ روایتی انداز میں چندہ جمع کیا جا رہا تھا، دو، دو افراد چادر پکڑ کر صفوں میں پھر رہے تھے۔ نماز کا وقت ہوا تو امام صاحب نے چندہ جمع کرنے والوں کو بلایا اور معائنے کے بعد کہا کہ چندہ کم ہے لہٰذا وہ اس وقت تک نماز نہیں پڑھائیں گے جب تک مناسب مقدار میں چندہ جمع نہیں ہو جاتا۔ وقت اتنا ہو چکا تھا کہ کسی دوسری جگہ نماز نہ مل سکتی تھی۔ چندے والے دوبارہ صفوں سے گزرے اور خود مغویان سے تاوان وصول کیا۔ اس دن کے بعد میں اس مسجد میں نہیں گیا۔
افسوسناک!
 
Top