سیدہ شگفتہ
لائبریرین
خزاں کا چاند
گرجا کے ستوں کے پاس ہے چاند
عیسٰی کی طرح اُداس ہے چاند
کیا جانے کدھر گئے حواری
تارے ۔۔۔ در ماہ کے بھکاری
خاموش سی اک صلیب سنگیں
تصویر وفور جاں سپاری
تثلیث کا مرمریں تبسم
کفّارہ دہِ گناہ گاری
بھیگی ہوئی رات میں صنوبر
کچھ سوچ رہا ہے سر جھکائے
اُلجھی ہوئی شرمسار شاخیں
ہنگامِ وصالِ بے محابا
تکتی ہیں اُداس چاند کی سمت
گرجا کے قریب چند سائے
بکھری ہوئی زرد چاندنی میں
حیراں ہیں کہ نصف شب کو میں نے
آنکھوں میں سجائی بے قراری
میں جاگ رہا ہوں اور ہر سُو
عالم پہ ہے خوابِ عیش طاری
پھیلی ہوئی کُہر کی ردا میں
لمحات ہیں محو اشکباری
کیا سود و زیاں کی فکر کیجیے
ہر شئے ہے یہاں کی اعتباری
انعام شعور و آگہی ہے
احساسِ زیاں کی ضربِ کاری
ماحول کی بے حسی سلامت
کیا کربِ نہاں کی پردہ داری
اصحابِ یمین کی نظر میں
میں روزِ ازل سے ہوں یساری