سیدہ شگفتہ
لائبریرین
عرصہ جنگ
عرصہ زیست ہے وہ عرصہ جنگ
جس میں ہر ہر قدم پہ ہے پیکار
کہیں کہسار کشتہ تیشہ
کہیں دریا کی راہ میں کہسار
ہے کہیں نوک خار قاتل گُل
کہیں صر صر ہے یرغمال بہار
سوچتا ہوں تو ہر دغا میں مجھے
اپنی صورت دکھائی دیتی ہے
ہے مرا جسم ہی بہت شاطر
میرے ہی رُوپ ہیں بہار و خزاں
میرے ہی ہات ہیں تفنگ و سناں
کار زار حیات میں آخر
میں خود اپنے پہ کیسے تیر چلاّں
خود کو کس طرح دار پر کھینچوں
اپنے ہونٹوں پہ کیسے مُہر لگاّں
اپنی آنکھوں پہ کیسے وار کروں
خنجر بے نیام کے مانند
اپنے سینے میں کس طرح اُتروں
ہے ہر اک شخص پر گماں اپنا
کون دُشمن ہے کون دوست کہ میں
خود ہی اپنا ہوں ، خود پرایا ہوں
نُور و ظلمت کی رزم گاہوں میں
میں ہی سورج ہوں ، میں سایہ ہوں
---------------------
اے مہر تابناک تری روشنی کی خیر
کچھ لوگ زیر سایہ دیوار جل گئے