سیدہ شگفتہ
لائبریرین
فطرت
سوچتے کیا ہو
بے رحم اندھی ہوا
پیڑ کے زرد پتوں سے کیوں آ کے ٹکرا گئی
شاخ در شاخ کن آرزوؤں کا نوحہ لکھا ہے
پیڑ کے نرم سائے کو دم توڑتے دیکھ کر
دھوپ کے لمس کو اپنی محرومیوں میں نہ شامل کرو
سارے لمحات بے رحم اندھی ہوا کے قدموں سے لپٹے ہوئے ہیں
سوچتے کیا ہو
ٹوٹے ہوئے زرد پتے کہاں جا رہے ہیں
اپنی تنہائی کا کوئی ساتھی نہیں
جسم کے گرد آلود ملبوس ہیں
آنسوؤں کی قطاریں بھی گُم ہو گئیں
دھند میں چُھپ کے سورج کے مانند رونے سے کیا
اور جیون کی مالا میں کانٹے پرونے سے کیا
آتی جاتی رتوں سے الجھتی ہوا کے اشاروں پہ چلتے رہو
اپنے قدموں تلے خشک پتّے مسلتے رہو