ٹیگ کے ایک سرے سے بندھا ہوا یہاں آیا تو آپ کا انٹر ویو دیکھنے کو ملا، شروع سے بڑھا ۔ ماشا ٔاللہ انٹرویوو کو خوبصورت انداز میں آگے پڑھایا جا رہا ہے۔ گوکہ گفتگو کہیں آگے پہنچ چکی ہے لیکن مجھے ابتدائی نوعیت کا ایک سوال کرنا ہے ۔
آپ نے گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر ۲ ناڑہ گاؤں کا ذکر کیا تو میں نے یہ رائے قائم کر لی کہ آپ ناڑہ کے رہائشی ہیں ۔ ناڑہ سے میرا بھی ایک قلبی اور روحانی سا تعلق ہے ۔۔ میرے والد و مرشد وہیں آسودۂ خاک ہیں، میرے محترم استاد سعداللہ خان کلیم کا تعلق وہیں سے ہے، رفعت اقبال آف ناڑہ میرا دوست ہے۔
آگے بڑھے سے پہلے کچھ ناڑہ گاؤں کے بارے میں لکھیے ۔۔ آپ سے باتیں تو ہوتی رہیں گی اس طرح اٹک کے ایک گاؤں کے بارے میں کچھ مستند معلوماتا جمع ہو جائیں گی، یہ ضرور بتایئے گا کہ ناڑہ کو ناڑہ کیوں کہتے ہیں؟ آپ نے اپنے بچپن کا کتنا حصہ ناڑہ میں گزارہ، آجکل کہاں ہے؟ اس مردم خیز گاؤں کے ساتھ آپ کی کچھ یادیں وابستہ ہونگی انہیں یہاں پر لکھیئے گا۔ اس طرح آپ کے ماضی میں آپ کے ایک معصوم، بھولے بھالے، نٹ کھٹ، شرارتی آشنا کامران عرف کامی کے کچھ حالات سامنے آجائیں گے
جی شکریہ سر
آپ کی رائے 100 فیصد ٹھیک ہے جی۔
میں پیدائش سے میٹرک تک مستقل گاؤں میں ہی رہا۔ میرے لئے ایک فخر کی بات ہے کہ میں نے سعداللہ کلیم کی دھرتی پہ جنم لیا۔شرمندگی کی بات یہ کہ میں اپنی دھرتی کی تاریخ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتا ۔
میں نے گورنمنٹ ہائی سکول ناڑہ سے 2005میں میٹرک کیا۔یہ وہ دور تھا جب ہم سردیوں میں کھلے میدان میں بیٹھ کر پڑھتے تھے اور گرمیوں میں ٹاہلی کے درختوں کے نیچے بیٹھ کر پڑھتے تھے۔اول سے لیکر ساتویں کلاس تک ہم کلاس روم سے محروم رہے۔ حتی کہ ٹاٹ تک نہیں تھے، ٹھنڈی صاف ریت پر بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ نہم کلاس تک میں گاؤں کے اس محلے میں رہتا تھا جہاں بجلی کی سہولت نہیں تھی۔ ہمارا ایک کچا مکان تھا۔ اور لالٹین کی روشنی۔
ناڑہ ایسا گاؤں ہے کہ جہاں آج بھی فصلوں کو پانی دینے کے لیے رہٹ پر بیلوں سے کام لیا جاتا ہے۔ چند سال قبل تک ہل چلانے کے لیے بھی بیل ہی استعمال ہوتا تھا۔ خود ہمارے والد مرحوم نے بھی فوج سے واپس آکر بطور مضارع کھیتی باڑی کا پیشہ اپنایا۔ اور آج بھی میرے بڑے بھائی اعجاز صاحب بطور مضارع اسی پیشے سے منسلک ہیں۔
زیادہ لوگ سرکاری نوکری کو ترجیح دیتے ہیں۔ خصوصا فوج کی طرف زیادہ رجحان ہے۔میر ے والد ، چاچو، کزن اور 2 بھائی فوجی ہیں۔ تعلیم کا بہت چرچا ہے۔ اب تو پرائیوٹ سکول اور کالج بھی کھل گیا ہے۔ تاہم علاقے کے مکینوں میں سادگی کم نہیں ہوئی۔ آج بھی گارے کے مکان اور پرانے لکڑی کے دروازے خود ہمارے گھر میں نصب ہیں۔ شدید بارش میں اب بھی ہمارے مکان ٹپکنے لگتے ہیں۔
شمال ، جنوب اور مغرب کی طر ف نگاہ اٹھائیں تو خشک پہاڑوں کی فصیل نظر آتی ہے۔ گاؤں امن کا گہوارہ ہے۔ سال دو سال میں اگر کبھی کہیں کوئی قتل ہو جائے تو شدید بے چینی پھیل جاتی ہے۔
شادی کی رسوم دلچسپ ہیں۔ بذریعہ کارڈ دعوت دینے کا رواج نہیں۔ خود جا کر دعوت دینا ضروری تصور کیا جاتا ہے۔
میرا خیال ہے اتنا کافی ہے۔ اگر آپ بور نہ ہوئے تو ہو سکتا ہے مزید باتیں بھی شیئر کر وں۔