جاسم محمد
محفلین
جج ویڈیو اسکینڈل: ’یہ مرحلہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کورٹ ویڈیو اور اس کے اثرات میں مداخلت کرے‘
فوٹو: فائل
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل سے متعلق کیس کا فیصلہ سنا دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جج ارشد ملک سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا۔
جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی بینچ میں موجود رہے۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے بتایا کہ تفصیلی فیصلہ ویب سائٹ پر جاری کر دیا ہے، میڈیا اور فریقین فیصلے کو ویب سائٹ پر دیکھیں۔
پانچ اہم سوال
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس کیس میں 5 اہم سوال تھے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو لیکس کے معاملے پر ایف آئی اے نے تفتیش شروع کر دی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات پر حکومت یا عدالت کی طرف سے کسی کمیشن کے قیام کی رائے کا کوئی فائدہ نہیں۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا، ارشد ملک لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت ہیں جو ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماتحت احتساب عدالت نمبر 2 میں تعینات ہوئے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ارشد ملک کو احتساب عدالت کے جج سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ ارشد ملک کو اب تک لاہور ہائی کورٹ نہیں بھجوایا گیا ہے اس لیے محکمانہ کارروائی کا ابھی آغاز نہیں ہوا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی ان کے خلاف فرد جرم ہے۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ویڈیو مستند شہادت ثابت ہونے کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ یا نواز شریف سیمت فریقین اسے اضافی شہادت کے طور پر لا سکتے ہیں، 428 سی آر پی سی کے قانون کے تحت اس ویڈیو کو شہادت کے طور پر لایا جا سکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج کے کنڈکٹ کے قابل اعتراض ہونے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرنا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ شہادتیں یا ٹرائل جج کے کنڈکٹ کے متاثر نہ ہونے کا فیصلہ کرے گی، اسلام آباد ہائی کورٹ کا اختیار ہے کہ وہ شہادتوں کا دوبارہ خود جائزہ لے، اپیلوں کو میرٹ پر دستیاب شہادتوں سے فیصلہ کرے۔
چیف جسٹس کے تحریر کردہ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ کنڈکٹ متاثر ہونے کی صورت میں اسلام آباد ہائیکورٹ فریقین کے دلائل سننے کے بعد دوبارہ ٹرائل کے لیے فاضل عدالت کو بھیج سکتی ہے لیکن ویڈیو اسکینڈل سے متعلق کمیشن بنانے کی آئینی درخواستیں نمٹا دی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ارشد ملک نے بیان حلفی اور پریس ریلیز میں خود تسلیم کیا کہ وہ بلیک میل ہوئے، ارشد ملک ملزم فریق کے ہاتهوں بلیک میل ہوئے، جج کا تسلیم کرنا ہمارے لیے چونکا دینے کے مترادف ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج کے کنڈکٹ سے ملک کے ہزاروں ایماندار اپ رائٹ اور شفاف ججوں کے سرشرم سے جهک گئے ہیں، امید ہے ارشد ملک کو ان کے اصل محکمے میں بھیج کر انضباطی کاروائی کا آغاز کیا جائے گا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ویڈیو اور ٹیپ اسوقت تک بطور شہادت پیش نہیں ہو سکتی جب تک یہ اصل ثابت نہ ہو جائے، ہائی کورٹ میں اگر کوئی فریق ویڈیو پیش کرے تو عدالت اس پر فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔
یہ بھی لکھا گیا ہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے حلفیہ بیان میں ویڈیو کا اعتراف کیا، کسی بھی ویڈیو کو بطور شہادت قبول کرنا متعلقہ عدالت کا حق ہے، متعلقہ عدالت کو دیکھنا ہو گا کہ یہ ویڈیو ایڈٹ شدہ ہے یا حقیقی، ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے، ویڈیو کو عدالت میں چلایا جانا بھی ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ ویڈیو میں موجود اور بولنے والوں کی آواز کی شناخت ہونی چاہیے، ویڈیو کی بحفاظت کسٹڈی اور عدالت میں پیش و ثابت کرنا بہت ضروری ہے، کوئی فریق جو اس کو بطور شہادت پیش کرے اس کو ویڈیو کے تمام متعلقہ معاملات کو ثابت کرنا ہو گا۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کے کردار سے ملک بھر کی عدلیہ کی بدنامی ہوئی، ٹرائل کے دوران جج ملزمان سے ہمدردی رکھنے والوں سے ملتا رہا، جج ارشد ملک نے بلیک میل ہونے کے حوالے سے کسی اعلیٰ اتھارٹی کو نہیں بتایا، جج ارشد ملک نے نہ ہی خود کو ٹرائل سے الگ کیا، جج کے اعتراف سے ہمیں شدید دھچکہ پہنچا اور ججز کے سر شرم سے جھک گئے۔
سپریم کورٹ نے 20 اگست کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں بھی لاہور ہائیکورٹ کو جج ارشد ملک کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر
6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔
تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی۔ فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔
اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔
ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔
اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔
جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے وڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔
بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔
ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر 16 جولائی کو سماعت ہوگی۔ اس حوالے سے تین رکنی بنچ قائم کیا گیا جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں جبکہ دیگر ارکان میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطاء بندیال شامل ہیں۔
خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔
فوٹو: فائل
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل سے متعلق کیس کا فیصلہ سنا دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جج ارشد ملک سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا۔
جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی بینچ میں موجود رہے۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے بتایا کہ تفصیلی فیصلہ ویب سائٹ پر جاری کر دیا ہے، میڈیا اور فریقین فیصلے کو ویب سائٹ پر دیکھیں۔
پانچ اہم سوال
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس کیس میں 5 اہم سوال تھے۔
- پہلا سوال یہ تھا کہ کیا ویڈیو مستند ہے؟
- دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر ویڈیو مستند ہے تو اسے کس فورم پر کیسے ثابت کیا جائے؟
- تیسرا سوال یہ تھا کہ ویڈیو کے نواز شریف کے کیس پر کیا اثرات ہوں گے؟
- چوتھا سوال یہ تھا کہ ویڈیو کے جج کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
- پانچواں سوال یہ تھا کہ جج ارشد ملک کے رویے کو کس فورم پر دیکھا جائے گا؟
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو لیکس کے معاملے پر ایف آئی اے نے تفتیش شروع کر دی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات پر حکومت یا عدالت کی طرف سے کسی کمیشن کے قیام کی رائے کا کوئی فائدہ نہیں۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا، ارشد ملک لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت ہیں جو ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماتحت احتساب عدالت نمبر 2 میں تعینات ہوئے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ارشد ملک کو احتساب عدالت کے جج سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ ارشد ملک کو اب تک لاہور ہائی کورٹ نہیں بھجوایا گیا ہے اس لیے محکمانہ کارروائی کا ابھی آغاز نہیں ہوا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی ان کے خلاف فرد جرم ہے۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ویڈیو مستند شہادت ثابت ہونے کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ یا نواز شریف سیمت فریقین اسے اضافی شہادت کے طور پر لا سکتے ہیں، 428 سی آر پی سی کے قانون کے تحت اس ویڈیو کو شہادت کے طور پر لایا جا سکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج کے کنڈکٹ کے قابل اعتراض ہونے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرنا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ شہادتیں یا ٹرائل جج کے کنڈکٹ کے متاثر نہ ہونے کا فیصلہ کرے گی، اسلام آباد ہائی کورٹ کا اختیار ہے کہ وہ شہادتوں کا دوبارہ خود جائزہ لے، اپیلوں کو میرٹ پر دستیاب شہادتوں سے فیصلہ کرے۔
چیف جسٹس کے تحریر کردہ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ کنڈکٹ متاثر ہونے کی صورت میں اسلام آباد ہائیکورٹ فریقین کے دلائل سننے کے بعد دوبارہ ٹرائل کے لیے فاضل عدالت کو بھیج سکتی ہے لیکن ویڈیو اسکینڈل سے متعلق کمیشن بنانے کی آئینی درخواستیں نمٹا دی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ارشد ملک نے بیان حلفی اور پریس ریلیز میں خود تسلیم کیا کہ وہ بلیک میل ہوئے، ارشد ملک ملزم فریق کے ہاتهوں بلیک میل ہوئے، جج کا تسلیم کرنا ہمارے لیے چونکا دینے کے مترادف ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج کے کنڈکٹ سے ملک کے ہزاروں ایماندار اپ رائٹ اور شفاف ججوں کے سرشرم سے جهک گئے ہیں، امید ہے ارشد ملک کو ان کے اصل محکمے میں بھیج کر انضباطی کاروائی کا آغاز کیا جائے گا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ویڈیو اور ٹیپ اسوقت تک بطور شہادت پیش نہیں ہو سکتی جب تک یہ اصل ثابت نہ ہو جائے، ہائی کورٹ میں اگر کوئی فریق ویڈیو پیش کرے تو عدالت اس پر فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔
یہ بھی لکھا گیا ہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے حلفیہ بیان میں ویڈیو کا اعتراف کیا، کسی بھی ویڈیو کو بطور شہادت قبول کرنا متعلقہ عدالت کا حق ہے، متعلقہ عدالت کو دیکھنا ہو گا کہ یہ ویڈیو ایڈٹ شدہ ہے یا حقیقی، ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے، ویڈیو کو عدالت میں چلایا جانا بھی ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ ویڈیو میں موجود اور بولنے والوں کی آواز کی شناخت ہونی چاہیے، ویڈیو کی بحفاظت کسٹڈی اور عدالت میں پیش و ثابت کرنا بہت ضروری ہے، کوئی فریق جو اس کو بطور شہادت پیش کرے اس کو ویڈیو کے تمام متعلقہ معاملات کو ثابت کرنا ہو گا۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کے کردار سے ملک بھر کی عدلیہ کی بدنامی ہوئی، ٹرائل کے دوران جج ملزمان سے ہمدردی رکھنے والوں سے ملتا رہا، جج ارشد ملک نے بلیک میل ہونے کے حوالے سے کسی اعلیٰ اتھارٹی کو نہیں بتایا، جج ارشد ملک نے نہ ہی خود کو ٹرائل سے الگ کیا، جج کے اعتراف سے ہمیں شدید دھچکہ پہنچا اور ججز کے سر شرم سے جھک گئے۔
سپریم کورٹ نے 20 اگست کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں بھی لاہور ہائیکورٹ کو جج ارشد ملک کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر
6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔
تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی۔ فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔
اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔
ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔
اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔
جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے وڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔
بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔
ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر 16 جولائی کو سماعت ہوگی۔ اس حوالے سے تین رکنی بنچ قائم کیا گیا جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں جبکہ دیگر ارکان میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطاء بندیال شامل ہیں۔
خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔