نواز شریف کو سزا دباؤ پر سنائی، احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو جاری

جاسم محمد

محفلین
جج وڈیو اسکینڈل غیر معمولی واقعہ ہے، چیف جسٹس
ویب ڈیسک منگل 16 جولائ 2019

آزاد لوگ خود کام کرتے ہیں کسی کے کہنے پر نہیں، چیف جسٹس


اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جج ارشد ملک کے وڈیو اسکینڈل پر دائر درخواستوں کی سماعت کے ریمارکس دیئے ہیں کہ آزاد لوگ خود کام کرتے ہیں کسی کے کہنے پر نہیں اور کمیشن بن بھی گیا تو اس کی رائے ثبوت نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل 3 رکنی بینچ احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی وڈیو اسکینڈل کی سماعت کر رہا ہے، سماعت کے موقع پر محمود خان اچکزئی ، طارق فضل چوہدری، جاوید ہاشمی اور رفیق رجوانہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ الزام عائد کیا گیا کہ جج نے فیصلہ کسی کی ایما پر دیا، جج نے الزامات کی تردید کر دی، جج نے کہا ویڈیو کے مختلف حصوں کو جوڑا گیا ہے،جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں بلیک میلنگ کی تفصیلات بتائیں، عدلیہ پر سنگین الزامات عوامی مفاد کا معاملہ ہے، وزیر اعظم نے بھی عدلیہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے بھی تحقیقات کی بات کی، سیاسی جماعتوں نے بھی عدالت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

منیر صادق کے دلائل پر چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ آزاد لوگ خود کام کرتے ہیں کسی کے کہنے پر نہیں، سوموٹو عدالت خود لیتی ہے، کسی کی ڈیمانڈ پر لیا گیا نوٹس سوموٹو نہیں ہوتا، آپ کی درخواست بھی یہی ہے کہ ججز ڈیمانڈ پر نہ چلیں،لوگوں کے کہنے پر نوٹس لینے سے عدلیہ کی آزادی پر سوال نہیں اٹھیں گے؟،آپ کی کیا تجویز ہے عدالت کیا کرے؟۔

چیف جسٹس کے استفسار پر منیر صادق نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے لئے متعدد اقدامات کی ضرورت ہے، عدالت جوڈیشل انکوائری کرائے تو زیادہ بہتر ہے، انکوائری کمیشن میں جو چاہے بیان ریکارڈ کرائے، انکوائری کمیشن الزامات اور جواب کی سچائی کا تعین کرے گا،منیر بہتر ہو گا کہ کوئی جج کمیشن کی سربراہی کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ذمہ دار لوگوں کو عمومی بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے، یہ کہنا درست نہیں کہ سب وکیل ، جج ، پولیس اور سیاست دان برے ہیں، جو لوگ برے نہیں ہوتے ان کی دل آزاری ہوتی ہے ، انسان کی پیدائش سے ہی سچ کی تلاش جاری ہے، سچ عدالت نے تلاش کیا تو اپیل لانے والے کیا کریں گے، کمیشن بن بھی گیا تو اس کی رائے ثبوت نہیں ہو گی۔

’کسی میں جرات نہیں ہونی چاہیے کہ جج کو بلیک میل کرے‘

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ نواز شریف کی اپیل ہائی کورٹ میں زیر التواء ہے، کمیشن کی رپورٹ ہائی کورٹ میں اپیل پر اثر انداز ہو سکتی ہے، کیا آپ کو ہائی کورٹ پر اعتماد نہیں ہے۔ منیر صادق نے کہا کہ کسی میں جرات نہیں ہونی چاہیے کہ جج کو بلیک میل کرے، عدالت پاناما طرز کی جے آئی ٹی بنا سکتی ہے، جے آئی ٹی عدالت نے اپنی معاونت کے لئے بنائی تھی لیکن اس سے کم ازکم سچائی سامنے تو آگئی تھی۔

’مریم نواز نے مزید ثبوتوں کا دعوی کیاہے‘

منیر صادق کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار سہیل اختر کے وکیل اکرام چوہدری نے اپنے دلائل میں کہا کہ نواز شریف کے خلاف دباؤ کے تحت فیصلے کا الزام عائد کیا گیا ،مریم نواز نے مزید ثبوتوں کا بھی دعوی کیاہے، جج نے کہا ناصر بٹ سے میری شناسائی ہے ، جج نے کہا دبائو ہوتا تو ایک کیس میں بری نہ کرتا، حسین نواز نے جج کے ساتھ مدینہ منورہ میں ملاقات کی، فرانزک آڈٹ اور تحقیقات کے تحت تمام فریقین کے جواب لئے جائیں۔ توہین عدالت کی کارروائی ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ ویڈیو میں ہائی پروفائل لوگ ہیں تو سب آ گئے لیکن عدالت کے سامنے سب برابر ہیں کوئی ہائی پروفائل نہیں، ویڈیو اسکینڈل غیر معمولی واقعہ ہے، سوال یہ ہے جائزہ کون اور کس طرح لے گا، ایسے واقعات سے نظام عدل متاثر ہونے کا کسی نے نہیں کہا ، توہین عدالت کا مطلب ہوگا جج پر الزام غلط ہیں۔

’فیصلہ درست ہے یا غلط فیصلہ اعلی عدلیہ کرے گی‘

جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جو دھول ابھی اٹھ رہی ہے اسے چھٹنا بھی ہے، عدلیہ کو جذبات نہیں سنجیدگی سے معاملہ دیکھنا ہے ، پہلا سوال عدلیہ کی ساکھ کا ہے ، دوسرا سوال فیصلہ درست ہونے یا نہ ہونے کا ہے، تیسرا سوال جج کے کنڈکٹ کا ہے، جج کے کنڈکٹ پر قانون موجود ہے، نواز شریف کے خلاف فیصلہ درست ہے یا غلط فیصلہ اعلی عدلیہ کرے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ممکن ہے ارشد ملک کا تبادلہ پنجاب کر دیا جائے، لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت جانے پر ہی ارشد ملک کیخلاف کارروائی ہو سکتی ہے، معاملے پر اٹارنی جنرل کی بھی رائے جاننا چاہتے ہیں، عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل سے معاونت طلب کرتے ہوئے درخواستوں پرمزید سماعت 23 جولائی تک ملتوی کردی۔
 

فرقان احمد

محفلین
پہلا سوال عدلیہ کی ساکھ کا ہے ، دوسرا سوال فیصلہ درست ہونے یا نہ ہونے کا ہے، تیسرا سوال جج کے کنڈکٹ کا ہے
عدلیہ کی ساکھ؛ فی الوقت صفر جب تک یہ معاملہ نپٹ نہیں جاتا ہے۔
فیصلہ درست ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ؛ فیصلہ ہائی کورٹ کرے گی؛ معاملہ وہی ساکھ کا۔
جج کا کنڈکٹ؛ وہ تو پہلے ہی فارغ ہیں۔

نتیجہ: عدلیہ بیک فٹ پر ہے اور خود فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ دراصل، اس سارے معاملے میں دوسری ویڈیو اہم ہے جس میں کچھ ججوں کے نام ہیں اور شاید سپریم کورٹ یہ چاہتی ہے کہ وہ ویڈیو سامنے آ جائے تاکہ وہ کوئی حتمی فیصلہ کر سکے۔ اگر وہ ویڈیو سامنے آ گئی تو سپریم کورٹ کے معزز ججز اس معاملے کو شاید 'کور' کر لیں گے۔ ممکن ہے، ایک دو ججز کو فارغ کر دیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
لالچ یا بلیک میلنگ!
16/07/2019 ارشاد بھٹی
کہانی کمال کی، فلمی بلکہ ویری فلمی، یہ بتاتا چلوں، بہت کچھ سامنے آچکا، کافی کچھ بتانے کے لئے مگر چونکہ معاملہ عدالت میں، اس لئے وہی لکھ رہا جو مریم نواز نے بتایا، جو جج صاحب کے بیانِ حلفی میں، جو میڈیا میں آچکا، بس سب باتوں کو ایک ترتیب سے لکھ رہا، بات شروع کرتے ہیں 16 سال پہلے سے، ملتان کا ایک چلتا پرزہ، سیاستدانوں، افسروں کی دعوتیں کرتا، عالم مدہوشی، نازک لمحوں کی وڈیوز بناتا، بوقت ضرورت بلیک میل کرتا، جج ارشد ملک کی پوسٹنگ ملتان ہوئی، چلتے پرزے سے سلام دعا، آنا جانا، دوستی، دعوتیں، وڈیوز بنیں، محفلیں سجتی رہیں، وقت گزرتا رہا، پاناما لیکس ہوئیں، وزیراعظم نواز شریف کا نام آیا، معاملہ پارلیمنٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ جا پہنچا، یکم نومبر 2016 کو باقاعدہ سماعت، 20 اپریل 2017 کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ کا فیصلہ، 2 ججز نواز شریف کے خلاف، 3 حق میں، میاں صاحب بال بال بچے، جے آئی ٹی بنی، 5 رکنی عملدرآمد بنچ بنا، 10 جولائی کو جے آئی ٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی، 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے فیصلہ سنا دیا، نواز شریف نا اہل، سپریم کورٹ کا 6 ہفتوں کے اندر میاں صاحب کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم، 8 ستمبر 2017 کو نیب ایگزیکٹیو بورڈ نے ایون فیلڈ، فلیگ شپ، العزیزیہ 3 ریفرنس احتساب عدالت بھجوا دیے، 19 ستمبر 2017 کو جج بشیر نے ایون فیلڈ کی سماعت شروع کی، 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ فیصلہ آیا، نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر کو سزائیں۔

یہ کہانی یہیں روک کر واپس جج ارشد ملک کی طرف چلتے ہیں، دعوتوں کے دوران مبینہ طور پر غیر اخلاقی وڈیوز بن چکیں، سنا جا رہا ایک نہیں کئی وڈیوز، جج ارشد ملک کی بہت پرانی یاری ناصر بٹ اور اس کے بھائی سے، ناصر بٹ نواز شریف کا خدمتگار، بٹ صاحب کو جج کی ’غیر نصابی‘ سرگرمیوں کا علم، ملتان کہانیوں کا بھی پتا، جب میاں صاحب کا کیس ایون فیلڈ جج بشیر کی عدالت میں چلا، دفاع مشکل ہوا، روز بروز حالات خراب ہونے لگے، تب لیگیوں نے سر جوڑے، فلیگ شپ، العزیزیہ ریفرنسز کے لئے حکمت عملی، وہی پرانا حربہ، اپنا بندہ لگواؤ، وہی ہمارے کیس سنے، نظر ارشد ملک پر پڑی، فروری 2018 میں انہیں احتساب عدالت ٹو کا جج لگوا دیا گیا، یاد رہے یہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا دور، اِدھر یہ احتساب عدالت کے جج لگے، اُدھر چند دنوں بعد ایک روز جج صاحب کے ملتانی میزبان نے نواز کیمپ کے ایک شخص کو ان کی وڈیو دکھائی، بس پھر کیا، یہ وڈیو مہنگے داموں خرید لی گئی، فروری 2018 یہ احتساب عدالت کے جج لگے، 6 جولائی 2018 کو جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ کا فیصلہ سنایا تو خواجہ حارث نے درخواست کی ہمارے باقی دونوں کیس دوسری عدالت کو منتقل کر دیے جائیں، جج بشیر نے یہ درخواست مسترد کر دی، خواجہ حارث اسلام آباد ہائیکورٹ چلے گئے، گو کہ ہائیکورٹ نے بھی جج بشیر کے حق میں فیصلہ دیا، لیکن 16 جولائی 2018 کو جج بشیر نے خود ہی کیسز سننے سے معذرت کرلی، دونوں کیس جج ارشد ملک کی عدالت میں لگے، 27 اگست 2018 کو جج ارشد ملک نے فلیگ شپ، العزیزیہ کی سماعت شروع کر دی۔

اب 4 مہینوں 80 سماعتوں کے دوران کیا ہوا، جج ارشد ملک کس کس سے ملتے رہے، کیا کیا ہوتا رہا، خرید و فروخت یا غیر اخلاقی وڈیو کا دباؤ یا میرٹ پر کیس سنے، میرٹ پر فیصلے، یہ عدالت پتا چلا لے گی، اس پر بات نہیں کرتے مگر یہ تو آپ کو معلوم، پاناما لیکس ہوئیں، نواز شریف نے اپنے دفاع کی بنیاد رکھی جھوٹ پر، قومی اسمبلی میں ’جناب اسپیکر یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن فلیٹس خریدے‘ والی تقریر کرکے، سپریم کورٹ میں اس جھوٹ کا دفاع ناممکن ہوا تو تقریر کو ایک سیاسی بیان بنا دیا، پھر 7 فورمز، ڈھائی سالوں میں قانونی جنگ جان بوجھ کر سیاسی جنگ کے طور پر لڑی اور پھر ہاؤس آف شریفس سمیت پوری نون لیگ نے پہلے دن سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت احتساب کو سیاسی انتقام، اسٹیبلشمنٹ کی سازش کہہ کر مشکوک، کمزور بنانے کی کوششیں جاری رکھیں۔

بتانے کا مقصد، وہ نون لیگ جس کا دفاع اتنا کمزور، بنیاد جھوٹ پر، جس سے قانونی جنگ نہ لڑی گئی تو اسے سیاسی جنگ بنایا اور جس نے قدم قدم پر فوج، جوڈیشری پر چڑھائیاں کیں، نت نئی سازشی تھیوریاں گھڑ کر احتسابی عمل کو مشکوک بنایا، اسی نون لیگ کی کمال کی چال، ایک ایسا جج لائی جس کی غیر اخلاقی وڈیو پاس، جس سے برسوں کی شناسائی، سوچئے، اب اگر یہ جج بری کر دے تو بھی ٹھیک، اگر سزا دے دے تو خرید، بلیک میل کرکے پورا احتسابی عمل مشکوک بنا دو، یہی کچھ کیا گیا، یہی کچھ ہو رہا، سوچئے، جج ارشد ملک نون لیگ کا جاننے والا، اسے احتساب عدالت میں لگوایا نون لیگ نے، اس کی عدالت میں اپنے کیس ٹرانسفر کروائے نون لیگ نے، جج مسلسل ملتا رہا نون لیگ سے، جج لیگیوں کی من مرضی کی آڈیو، وڈیوز بنواتا رہا، جج لیگیوں کو قانونی مشورے دیتا رہا اور نون لیگ کہانی یہ سنا رہی، جج پردباؤ اسٹیبلشمنٹ کا، چونکہ فیصلہ دباؤ میں دیا، ضمیر ملامت کر رہا تھا، ڈراؤنے خواب آ رہے، اس لئے ہم سے ملا، پہلی بات، چلو ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک ملاقات، دو ملاقاتیں، یہ کیا ملاقاتوں پر ملاقاتیں، وڈیوز پر وڈیوز، ڈراؤنے خوابوں سے ڈرنے والے جج صاحب کو کیا ہوا کہ پوری ریاست کا ڈر ایک طرف رکھ کر، اپنے نام، مقام کی پروا کیے بنا ملزم پارٹی سے اسلام آباد، لاہور، مدینہ ملاقاتیں، کیا یہ اعلیٰ درجے کا لالچ یا کمال کی بلیک میلنگ نہیں، پھر یہ کیسا اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ کہ جج نہ صرف ناصر بٹ، میاں طارق، ناصر جنجوعہ، مہر جیلانی، خرم قیوم سمیت 20 لیگی زعماء سے بار بار ملا بلکہ حسین نواز سے مدینہ، نواز شریف سے مبینہ طور پر جاتی امراء جا کر مل لیا اور پھر یہ بھی سبحان اللہ کہ تحقیق و تفتیش سے پہلے ہی مریم نواز کی آڈیو، وڈیوز سب کچھ اصلی جبکہ جج کی پریس ریلیز، بیانِ حلفی سمیت سب کچھ جعلی۔

جیسے پہلے کہا معاملہ عدالت میں، عدالت کا ہر فیصلہ قبول، مگر جج ارشد ملک کا کردار افسوسناک، شرمناک، مثالِ عبرت بنانا چاہیے، لیکن آڈیو، وڈیوز اصلی نکلیں یا نقلی، میاں صاحب کا ٹرائل دوبارہ ہو یا نہیں، ایک جج کو لالچ دینے، بلیک میل کرنے والوں کو بھی مثالِ عبرتناک بنانا ہوگا، ورنہ گاڈ فادر، سسلین مافیا رہی سہی کسر بھی نکال دے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
نتیجہ: عدلیہ بیک فٹ پر ہے اور خود فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ دراصل، اس سارے معاملے میں دوسری ویڈیو اہم ہے جس میں کچھ ججوں کے نام ہیں اور شاید سپریم کورٹ یہ چاہتی ہے کہ وہ ویڈیو سامنے آ جائے تاکہ وہ کوئی حتمی فیصلہ کر سکے۔ اگر وہ ویڈیو سامنے آ گئی تو سپریم کورٹ کے معزز ججز اس معاملے کو شاید 'کور' کر لیں گے۔ ممکن ہے، ایک دو ججز کو فارغ کر دیا جائے۔
جج ویڈیو اسکینڈل کا اہم کردار میاں طارق محمود گرفتار
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1746653-tariqmahmood-1563354628-715-640x480.jpg

عدالت نے ملزم میاں طارق محمود کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔ فوٹو:اسکرین گریب

اسلام آباد: جج ارشد ملک کے خلاف ویڈیو اسکینڈل میں ملوث ملزم طارق محمود کو گرفتار کرلیا گیا۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے طارق محمود سمیت ویڈیو اسکینڈل میں ملوث افراد کیخلاف مقدمہ درج کرلیا۔ ایف آئی اے نے ملزم کو بکتر بند گاڑی میں انتہائی سخت سیکورٹی میں سول جج شائستہ کنڈی کی عدالت میں پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹادیا گیا

دوران سماعت ایف آئی اے تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم طارق محمود ملتان کا رہائشی و کاروباری شخصیت ہے اور جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل میں بھی ملوث ہے، اسے اسلام آباد کے علاقے ایف سیون سے 16 جولائی کو گرفتار کیا گیا۔

جج شائستہ کنڈی نے ملزم سے پوچھا کہ آپ کیا کاروبارکرتے ہیں؟۔ ملزم طارق محمود نے جواب دیا کہ میں ملتان میں ایل ای ڈیز کا بزنس کرتا ہوں۔ جج شائستہ کنڈی نے ملزم سے استفسار کیا کہ آپ پر تشدد کیا گیا ہے؟۔ ملزم نے کہا کہ اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کا ہاتھ بھی توڑ دیا گیا ہے۔ اس نے اپنی شرٹ اتار کر دکھائی۔ جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ ملزم کے جسم پر تشدد کے نشانات ہیں۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم جھوٹ بول رہا ہے، یہ بہت تیز اور مکمل منظم لوگ ہیں جو پورے نظام کو پٹری سے اتارنا چاہتے تھے۔

ایف آئی اے نے ملزم کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی۔ عدالت نے ملزم میاں طارق محمود کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ تفتیشی افسر ملزم کو 19 جولائی کو میڈیکل رپورٹ کیساتھ پیش کریں۔ میاں طارق محمود پر الزام ہے کہ اس نے اپنے بھائی کی مدد سے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو بنائی اور نواز شریف کو فروخت کی۔

واضح رہے کہ نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے خلاف مبینہ ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا ہے اور ن لیگ نے الزام لگایا ہے کہ ارشد ملک کو بلیک میل کرکے نواز شریف کو سزا دینے پر مجبور کیا گیا۔ جج ارشد ملک نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ن لیگ نے انہیں نواز شریف کے حق میں فیصلہ سنانے کے لیے رشوت کی پیش کش کی اور دھمکیاں دیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جج ویڈیو اسکینڈل کا اہم کردار میاں طارق محمود گرفتار
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1746653-tariqmahmood-1563354628-715-640x480.jpg

عدالت نے ملزم میاں طارق محمود کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔ فوٹو:اسکرین گریب

اسلام آباد: جج ارشد ملک کے خلاف ویڈیو اسکینڈل میں ملوث ملزم طارق محمود کو گرفتار کرلیا گیا۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے طارق محمود سمیت ویڈیو اسکینڈل میں ملوث افراد کیخلاف مقدمہ درج کرلیا۔ ایف آئی اے نے ملزم کو بکتر بند گاڑی میں انتہائی سخت سیکورٹی میں سول جج شائستہ کنڈی کی عدالت میں پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹادیا گیا

دوران سماعت ایف آئی اے تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم طارق محمود ملتان کا رہائشی و کاروباری شخصیت ہے اور جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل میں بھی ملوث ہے، اسے اسلام آباد کے علاقے ایف سیون سے 16 جولائی کو گرفتار کیا گیا۔

جج شائستہ کنڈی نے ملزم سے پوچھا کہ آپ کیا کاروبارکرتے ہیں؟۔ ملزم طارق محمود نے جواب دیا کہ میں ملتان میں ایل ای ڈیز کا بزنس کرتا ہوں۔ جج شائستہ کنڈی نے ملزم سے استفسار کیا کہ آپ پر تشدد کیا گیا ہے؟۔ ملزم نے کہا کہ اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کا ہاتھ بھی توڑ دیا گیا ہے۔ اس نے اپنی شرٹ اتار کر دکھائی۔ جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ ملزم کے جسم پر تشدد کے نشانات ہیں۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم جھوٹ بول رہا ہے، یہ بہت تیز اور مکمل منظم لوگ ہیں جو پورے نظام کو پٹری سے اتارنا چاہتے تھے۔

ایف آئی اے نے ملزم کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی۔ عدالت نے ملزم میاں طارق محمود کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ تفتیشی افسر ملزم کو 19 جولائی کو میڈیکل رپورٹ کیساتھ پیش کریں۔ میاں طارق محمود پر الزام ہے کہ اس نے اپنے بھائی کی مدد سے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو بنائی اور نواز شریف کو فروخت کی۔

واضح رہے کہ نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے خلاف مبینہ ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا ہے اور ن لیگ نے الزام لگایا ہے کہ ارشد ملک کو بلیک میل کرکے نواز شریف کو سزا دینے پر مجبور کیا گیا۔ جج ارشد ملک نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ن لیگ نے انہیں نواز شریف کے حق میں فیصلہ سنانے کے لیے رشوت کی پیش کش کی اور دھمکیاں دیں۔
جو ہونا تھا، ہو چکا۔ ویڈیو اصل ہے، جس نے بھی بنائی ہے۔ کیچڑ ہے یہ، اور بس۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ یا پارلیمنٹ میں حل ہونے کا امکان ہے؛ یا پھر وہیں، جہاں عام طور پر ہوتا ہے۔ سانپ گزر گیا، لکیر کو پیٹا جا رہا ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
لکیر کو پیٹا جا رہا ہے۔
پردے کے پیچھے کیا ہوتا رہا
جاوید چوہدری منگل 16 جولائ 2019

یہ کہانی نومبر 2001ء میں ملتان میں شروع ہوئی‘ ملتان میں چرس کی اسمگلنگ کا ایک بین الاقوامی ریکٹ تھا‘ سرغنہ ملک مشتاق تھا‘ یہ دوستوں میں بلیک پرنس مشہور تھا‘ خوش حال‘ فراخ دل اور بااثر تھا چناں چہ یہ ڈاکٹر عبدالقدیر اور آصف علی زرداری کے دوستوں میں شامل ہو گیا‘ یہ بیک وقت اچھا اور برا انسان تھا‘ یہ یورپ میں چرس بھی اسمگل کرتا تھا‘ بلیک پرنس کی بیوی ہالینڈ سے تعلق رکھتی تھی اور یہ لوگ ہالینڈ سے اپنا ریکٹ چلاتے تھے۔

ملتان کا ایک کردار میاں ادریس اور بلیک پرنس کا بھتیجا ملک پرویز اس مافیا کے اہم رکن تھے‘ علی پور کے قریب اس زمانے میں ڈرائی پورٹ ہوتی تھی‘ یہ لوگ اس پورٹ کے ذریعے منشیات اسمگل کرتے تھے‘ بلیک پرنس نے 2001ء میں ساڑھے پانچ ہزار کلو گرام چرس اکٹھی کی اور یہ چرس کنٹینروں کی دیواروں میں چھپانا شروع کر دی‘ یہ لوگ یہ کنٹینر ہالینڈ بھجوانا چاہتے تھے لیکن پھر مخبری ہو گئی۔

اے این ایف نے چھاپا مارا اور 20 نومبر 2001ء کو ساڑھے پانچ ہزار کلو گرام چرس پکڑ لی‘ یہ پاکستان کی تاریخ میں منشیات کی سب سے بڑی کھیپ تھی‘ ملک مشتاق (بلیک پرنس)‘ میاں ادریس اور ملک پرویز تینوں گرفتار ہو گئے‘ کراچی کا ایک بزنس مین ملک احمد بھی اس ریکٹ کا حصہ نکلا‘ یہ کراچی میں راڈو گھڑیوں کا ’’فرنچائز ہولڈر‘‘ تھا‘ جج ارشد ملک اس وقت ملتان میں ایڈیشنل سیشن جج ہوتے تھے‘ میاں ادریس کا بھائی میاں طارق اس وقت ملتان میں ٹیلی ویژن سیٹ بیچتا تھا‘ یہ بھائی کی مدد کے لیے گھر سے نکلا اور کورٹ کچہریوں کے چکر لگانے لگا‘ یہ چکر عدالتوں اور جوڈیشل سیکٹر میں اس کے تعلقات بڑھاتے چلے گئے۔

آصف علی زرداری کے حکم پر لطیف کھوسہ نے بلیک پرنس اور میاں ادریس کا کیس لے لیا ‘ کیس کی پیروی کے دوران میاں طارق لطیف کھوسہ کا دوست بھی بن گیا‘ میاں طارق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وکیلوں‘ ججوں‘ پولیس اور آئی بی کا ’’فسیلی ٹیٹر‘‘ بنتا چلا گیا‘ یہ ان کے لیے ایک دوسرے کے درمیان رابطہ بھی بن جاتا تھا‘ یہ ان کے لیے پارٹیاں بھی کراتا تھا اور لین دین کا بندوبست بھی کرتا تھا‘ یہ اس دوران پکا کام کرنے کے لیے تمام فریقین کی ’’ویڈیوز‘‘ بنا لیتا تھا‘ جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت نے آصف علی زرداری کے خلاف درج منشیات کے مقدمے کو منطقی نتیجے تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔

بلیک پرنس واحد کردار تھا جو حکومت کی بھرپور مدد کر سکتا تھا چناں چہ ایجنسیوں نے سینٹرل جیل ملتان میں بلیک پرنس سے رابطہ کیا اور یہ آصف علی زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے تیار ہو گیا لیکن یہ عین گواہی کے دن مکر گیا‘ ایجنسیوں نے اس پر بھرپور دباؤ ڈالا لیکن یہ نہ مانا‘ آصف علی زرداری نے اس کے اس احسان کا بدلا 2008ء میں دیا‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی‘ عبدالحمید ڈوگر چیف جسٹس آف پاکستان تھے‘ لطیف کھوسہ اٹارنی جنرل‘ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور آصف علی زرداری صدر‘ بلیک پرنس کی پٹیشن سپریم کورٹ پہنچی‘ کورٹ نمبر ون میں سماعت ہوئی اور چاروں ملزمان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

کیس بھی بعد ازاں ختم ہو گیا‘ بلیک پرنس لاہور میں آباد ہو گیا اور یہ عام اور گم نام لوگوں جیسی زندگی گزارنے لگا‘ میاں ادریس باہر آ کر خاندان سے لڑ پڑا‘ اپنی جائیداد بیچی‘ پیسا اکٹھا کیا اور ملک سے باہر (غالباً بحرین) چلا گیا‘ پیچھے رہ گیا میاں طارق‘اس نے ملتان میں اسمگلڈ اور جعلی ایل سی ڈیز کی دکان کھول لی تاہم یہ جوڈیشری‘ وکلاء برادری‘ پولیس اور آئی بی کے ساتھ رابطوں میں رہا‘ یہ اس دوران اپنے تمام دوستوں کی ویڈیوز بھی بناتا رہا‘ اس کے بیٹے بھی بعد ازاں والد کے اس کام میں شامل ہو گئے‘ یہ لوگ اسلام آباد اور لاہور بھی جاتے تھے‘ دوستوں کی ’’خدمت‘‘ کرتے تھے اور اس خدمت کی ویڈیو بنا لیتے تھے‘ جج ارشد ملک بھی اس خدمت کی زد میںآ گیا‘ اس کی صوفے کے اوپر ویڈیو بنی اور یہ ویڈیو ارشد ملک کے ساتھ ساتھ پوری جوڈیشری کی ساکھ نگل گئی‘ میاں طارق اپنے دوستوں کو برملا یہ بھی بتاتا تھا میرے پاس لطیف کھوسہ کے بڑے بڑے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں‘ ہم یہ کہانی یہاں روکتے ہیں اور کہانی کے دوسرے کرداروں کی طرف آتے ہیں۔

جج ارشد ملک راولپنڈی کے رہائشی ہیں‘یہ جج بننے سے پہلے راولپنڈی میں پریکٹس کرتے تھے‘ راولپنڈی میں ان کے چار لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے‘ پہلا شخص ناصر جنجوعہ تھا‘ یہ لالہ موسیٰ سے تعلق رکھتا ہے‘ اس کے والد امام دین جنجوعہ شہر کی مشہور ترین ہستی تھے‘ یہ ملٹری اور سول کنٹریکٹر تھے۔ ’’مڈ جیک‘‘ ان کی کمپنی تھی‘ یہ ایوب خان کے دور ہی میں کروڑپتی بن چکے تھے‘امام دین جنجوعہ کے انتقال کے بعد کمپنی ناصر جنجوعہ کے پاس چلی گئی‘ یہ 35 سال سے میاں نواز شریف کے دوستوں کے حلقے میں بھی شامل ہے‘ یہ بیورو کریسی‘ جوڈیشری اور آرمی آفیسرز کے ساتھ تعلقات بھی رکھتا تھا‘ حلقہ وسیع تھا‘ لوگ اپنی پروموشن اور تبادلوں کے لیے اس کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔

دوسرا کردار ناصر بٹ کا بڑا بھائی تھا‘یہ لوگ دھڑے باز اور دشمن دار تھے یا کورٹ کچہری کے چکر لگاتے رہتے تھے اور ان چکروں میں وکیلوں‘ ججوں اور پولیس افسروں کو اپنا دوست بنالیتے تھے‘ ناصر بٹ بعد ازاں میاں نواز شریف کے قریب پہنچ گیا‘ یہ ان کا جاں نثار بن گیا‘ تیسرا کردار مہر جیلانی تھا‘ یہ میاں طارق سے ملتا جلتا کردار تھا‘ یہ راولپنڈی میں سرکاری ملازموں کا ٹاؤٹ مشہور تھا‘ یہ ہر اہم جج‘ پولیس افسر اور سیاستدان کے قریب پہنچ جاتا تھا اور ان کے گندے ’’کچھے‘‘ دھونا شروع کر دیتا تھا اور چوتھا کردار خرم یوسف تھا‘ یہ پراپرٹی ڈیلر ہے اور اہم لوگوں کے ساتھ تصویریں کھینچوا کر خود کو اہم ثابت کرنے کی لت میں مبتلا ہے‘ جج ارشد ملک سمیت یہ سارے کردار ناصر جنجوعہ کے حلقے میں شامل تھے۔

ناصر جنجوعہ کے حلقے میں دو اور لوگ بھی شامل تھے (یہ آج بھی ہیں)‘ میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر اور نیب کے سابق چیئرمین قمر زمان چوہدری‘ یہ دونوں ناصر جنجوعہ کے روزانہ کے ملاقاتی ہیں‘ ہم اب میاں نواز شریف کے کیس کی طرف آتے ہیں‘ میاں نواز شریف کا کیس نیب کورٹ نمبر ایک میں شروع ہوا‘ شروع میں جج محمد بشیر کیس سن رہے تھے‘ میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے 9 جولائی 2018ء کو جج محمد بشیر کی غیرجانبداری پر سوال اٹھایا اور کہا’’آپ شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ دے چکے ہیں لہٰذا مناسب یہی ہے کہ آپ دیگر 2 ریفرنسز العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کی سماعت نہ کریں‘‘جج محمد بشیر نے 16 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھ کردونوں ریفرنسز کی سماعت سے معذرت کر لی یوں8 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر یہ کیس احتساب عدالت نمبردو کے جج ارشد ملک کے حوالے کر دیا گیا۔

ارشد ملک کے بقول نواز شریف کے مقدمات کی منتقلی کے بعد مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے ان سے رابطہ کیا‘ ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا اس نے مسلم لیگ ن کی حکومت کی ایک با اثر شخصیت کے ذریعے انھیں احتساب عدالت کا جج لگوایا ہے‘ آپ اب صورت حال دیکھیے‘ سابق چیئرمین نیب بھی ناصر جنجوعہ کے دوست‘ کیپٹن صفدر بھی ناصر جنجوعہ کے دوست اور جج ارشد ملک بھی ناصر جنجوعہ کے دوست‘ میں نے جب اس اسٹوری پر کام شروع کیا تو مجھے پتا چلا جج ارشد ملک ناصر جنجوعہ کے ذریعے تمام پس پردہ انفارمیشن شریف فیملی تک پہنچا دیتے تھے۔

آپ ان دنوں کی ن لیگ کے لیڈرز کی پریس ٹاکس نکالیں اور یہ پریس ٹاکس آج کی کہانی کے قریب رکھ کر دیں تو آپ بڑی آسانی سے خفیہ انفارمیشن کے سورس تک پہنچ جائیں گے‘ بہرحال قصہ مختصر ارشد ملک کے بقول ناصر جنجوعہ اور مہر جیلانی نے انھیں 10 کروڑ روپے مالیت کے یوروز کی پیش کش کی‘ ناصر جنجوعہ نے یہ بھی کہا‘ دو کروڑ روپے مالیت کے یوروز اس وقت بھی میری گاڑی میں پڑے ہیں‘ آپ یہ فوری طور پر وصول کر لیں‘ یہ رقم ناصر جنجوعہ خود نہیں دے رہا تھا‘ یہ میاں نواز شریف کے ایک جیالے نے فراہم کی تھی لیکن جج صاحب کے بقول ’’میں نے انکار کر دیا‘‘۔

میں اب کہانی کو مزید آگے بڑھاتا ہوں‘ عمران خان کی حکومت آ گئی‘ ملک کے زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا یہ حکومت کام یاب ہو جائے گی لیکن حکومت کم زور ثابت ہوئی اور مارچ 2019ء تک صاف نظر آنے لگا یہ حکومت نہیں چل سکے گی‘ سپریم کورٹ نے 26 مارچ کو میاں نواز شریف کو ڈیڑھ ماہ کے لیے گھر جانے کی اجازت بھی دے دی‘ یہ اجازت بھی تبدیلی کا اشارہ ثابت ہوئی‘ اب شریف فیملی کے بقول جج ارشد ملک ڈر گیا‘ اس نے سوچا میاں نواز شریف واپس آ جائے گا اور یہ مجھے نہیں چھوڑے گا چناں چہ یہ ناصر بٹ کے بڑے بھائی‘ مہر جیلانی اور خرم یوسف کے ذریعے شریف فیملی سے رابطے کرنے لگا‘ یہ ناصر بٹ سے بھی ملا اور اس سے میاں نواز شریف سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ ناصر بٹ نے میاں نواز شریف سے پوچھا اور 6 اپریل 2019ء کو جج ارشد ملک کو جاتی عمرہ لے گیا‘ ملاقات میں کیا ہوا؟

یہاں دو ورژن ہیں‘ شریف فیملی اور ناصر بٹ کے بقول جج ارشد ملک نے میاں نواز شریف سے معافی بھی مانگی اور ان کرداروں کے نام بھی دیے جنہوں نے اس پر دباؤ ڈال کر فیصلہ لیا تھا‘ ارشد ملک نے فیصلہ لکھنے اور ان میں ترمیم کرنے والے لوگوں کے نام بھی بتائے تھے جب کہ جج صاحب کے بقول میں نے میاں نواز شریف سے کہا ‘ میں نے فیصلہ میرٹ پر کیا تھا جس پر میاں نواز شریف ناراض ہو گئے‘ یہ جج ارشد ملک کی شریف فیملی سے پہلی ملاقات تھی‘ دوسری اور تیسری ملاقات جدہ میں ہوئی اور خرم یوسف جج صاحب کو لے کر سعودی عرب گیا اور یہ دونوں ملاقاتیں انتہائی خطرناک اور ہوش ربا ہیں۔

جج محمد ارشد ملک نے 6 اپریل 2019 کو جاتی عمرہ میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی لیکن اس ملاقات سے پہلے ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا‘ جج کے بقول فروری میں ناصر بٹ اور خرم یوسف میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا ’’کیا ناصر جنجوعہ نے آپ کو ملتان کی ویڈیو دکھا دی تھی‘ میں یہ سن کر حیران رہ گیا‘‘ میں کہانی آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو ملتان کی ویڈیو کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ یہ ویڈیو میاں طارق نے ملتان میں بنائی تھی‘ یہ کسی ایسے گھر کی ویڈیو ہے جس میں دیواروں پر تصویریں لگی ہیں‘ سامنے صوفہ رکھا ہوا ہے اور اس صوفے پر غیر اخلاقی حرکتیں ہو رہی ہیں۔

ویڈیو میں نظر آنے والے لوگ اس قدر مدہوش ہیں کہ یہ کیمرہ مین کی موجودگی سے بھی بے پروا ہو چکے ہیں‘اس ویڈیو کے بارے میں بھی تین ورژن ہیں‘ شریف فیملی کا کہنا ہے یہ ویڈیو میاں طارق نے ریاستی اداروں کو دے دی تھی اور اداروں نے یہ ویڈیو دکھا کر جج صاحب کو میاں نواز شریف کے خلاف فیصلے پر مجبور کیا تھا‘یہ موقف مریم نواز نے چھ جولائی کی پریس کانفرنس میں بھی دیا تھا جب کہ جج صاحب کا دعویٰ ہے یہ ویڈیو میاں طارق سے ناصر جنجوعہ‘ خرم یوسف اور ناصر بٹ نے خریدی تھی۔

میری اپنی اطلاع کے مطابق یہ ویڈیو ناصر جنجوعہ اور خرم یوسف نے لاہور کے فائیو اسٹار ہوٹل میں پانچ کروڑ روپے اور ایک جیپ کے بدلے خریدی ‘ رقم میاں نواز شریف کے ایک عزیز نے ادا کی تھی اور سودا پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک اہم لیڈر نے کرایا تھا‘ یہ لیڈر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور اٹھارہ سال سے میاں طارق کو جانتے ہیں‘ سودے میں ملتان کے ایک اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

ویڈیو میں جج صاحب کا چہرہ کلیئر نہیں تھا‘خریدار فیس میچنگ چاہتے تھے‘ اس فیس میچنگ کے لیے ایک لمبا اسٹیج سجایا گیا‘ ناصر بٹ نے ویڈیو کا حوالہ دیا‘ جج صاحب میاں طارق سے رابطے پر مجبور ہو گئے‘ میاں طارق نے جج صاحب کو ملتان بلایا اور یہ کہہ کر انھیں اخبار کے دفتر لے گیا ’’آپ کی جان صرف یہ ایڈیٹر چھڑوا سکتا ہے‘‘ اور جج صاحب مجبوری میں میاں طارق کے ساتھ اخبار کے دفتر چلے گئے‘ دفتر میں کیمرے لگے تھے‘ جج صاحب کی ہر اینگل سے فلم بنا لی گئی‘ یہ فلم بعد ازاں غیر اخلاقی ویڈیو سے ’’میچ‘‘ کی گئی‘ ویڈیو میچ کر گئی اور یوں بات سودے تک پہنچ گئی۔

میں نے جج صاحب کی ملتان آمد اور اخبار کے دفتر جانے کی معلومات کے لیے ایکسپریس ملتان کے بیورو چیف شکیل انجم سے رابطہ کیا‘ یہ پرانے صحافی ہیں‘ بلیک پرنس اور ساڑھے پانچ ہزار کلو گرام چرس کی خبر بھی شکیل انجم نے 2001 میں بریک کی تھی‘ شکیل انجم نے تھوڑا سا وقت لیا اور جج صاحب کی ملتان آمد‘ ہوٹل گریس میں قیام اور اخبار کے دفتر کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوا کر بھجوا دی‘ میں شکیل انجم کے ’’ذرایع‘‘ پر حیران رہ گیا بہرحال قصہ مختصر جج صاحب کا چہرہ میچ ہوا اور ویڈیو بک گئی اور تیسرا ورژن جج ارشد ملک کا ہے‘ یہ دعویٰ کرتے ہیں یہ ویڈیو ن لیگ نے میاں طارق سے حاصل کی اور یہ لوگ مجھے اس کے ذریعے مسلسل بلیک میل کرتے رہے۔

ہم اب مین اسٹوری کی طرف واپس آتے ہیں‘ جج ارشد ملک6 اپریل کو جاتی عمرہ میں میاں نواز شریف سے ملے‘ ملاقاتی روم میں بھی کیمرے لگے تھے اور جج صاحب اور میاں صاحب کی ساری گفتگو ریکارڈ ہو رہی تھی‘ جج صاحب بعد ازاں 28 مئی کو فیملی سمیت سعودی عرب چلے گئے۔

جج صاحب کا کہنا ہے یہ ان کا ذاتی دورہ تھا جب کہ دوسرے فریقین کا دعویٰ ہے خرم یوسف اور ناصر بٹ انھیں عمرے پر لے کر گئے تھے تاہم یکم جون کو مدینہ منورہ میں جج ارشد ملک اور حسین نواز کی ملاقات ہوئی‘ یہ ملاقات بھی باقاعدہ ریکارڈ ہوئی‘ شریف فیملی نے دعویٰ کیا یہ ملاقات جج صاحب کی مرضی اور خواہش سے ہوئی تھی اور اس میں انھوں نے ان تمام لوگوں کا ذکر کیا تھا جو نواز شریف کے مقدمات کے دوران جج صاحب سے ملاقات کرتے رہے۔

جج ارشد ملک نے ان سینئر ججوں کا تذکرہ بھی کیا جو بات کرنے سے پہلے ان سے حلف لیتے تھے اور انھیں پھر ہدایات دیتے تھے‘ حسین نواز کے ساتھ ملاقات کی ویڈیو اس اسکینڈل میں بہت اہم ہے‘ یہ ویڈیو ثابت کرے گی یہ ملاقات جج صاحب کی مرضی سے ہوئی تھی یا پھر یہ بلیک میل ہو کر سعودی عرب پہنچے تھے‘ یہ ویڈیو یہ بھی ثابت کرے گی 50 کروڑ روپے اور کینیڈا میں سیٹل منٹ کی پیش کش حسین نواز نے کی تھی یا پھر یہ جج صاحب کی ڈیمانڈ تھی تاہم یہ درست ہے مدینہ منورہ میں 50 کروڑ روپے کی بات ہوئی تھی اور کرنے اور سننے والے دونوں کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوا تھا یہ مدینہ منورہ میں بیٹھ کر کیا بات کر رہے ہیں‘ یہ روضہ رسولؐ کے سامنے کیا گندگی پھیلا رہے ہیں؟۔

ہم اگر یہاں تک کی کہانی کا تجزیہ کریں تو ہمیں اس کہانی کے تمام کردار ننگے اور قابل افسوس دکھائی دیتے ہیں‘ آپ جج صاحب کا کردار دیکھیے‘ یہ 2001میں ملتان میں منشیات کے اسمگلروں سے بھی ملتے رہے‘ یہ ان کی پرائیویٹ پارٹیوں میں بھی شریک ہوتے رہے اور ان کی غیر اخلاقی ویڈیوز بھی بنتی رہیں لیکن ریاست کے کسی ادارے کو کانوںکان خبر نہیں ہو ئی‘ یہ جج صاحب بعد ازاں ترقی کرتے کرتے اس لیول پر آگئے جہاں ان کی عدالت میں چار سابق وزراء اعظم اور ایک سابق صدر کا کیس چلنے لگا۔

یہ میاں نواز شریف کے کیس کے دوران شریف فیملی کے ایجنٹوں سے بھی ملتے رہے ‘ ان سے پیش کشیں اور دھمکیاں بھی وصول کرتے رہے اور یہ اپنے کسی سینئر کو اطلاع تک نہیں دیتے تھے‘ یہ ناصر جنجوعہ سے یہ تک بھی سن لیتے تھے’’ میں نے میاں نواز شریف کے ذریعے آپ کو احتساب عدالت کا جج لگوایاتھا‘‘ اور یہ اس انکشاف کے باوجود اپنی کرسی پر بھی بیٹھے رہے‘یہ فیصلہ سنانے کے بعد بھی ناصر بٹ‘ خرم یوسف‘ مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ جیسے لوگوں کے ساتھ ملتے رہے۔

یہ جاتی عمرہ میں اس مجرم سے بھی ملاقات کے لیے گئے جسے انھوں نے اپنے ہاتھوں سے سزا دی تھی‘ یہ ناصربٹ اور خرم یوسف سے اپنے گھر میں بھی ملاقات کرتے رہے اور یہ پورے ہوش و حواس میں انھیں یہ بھی بتاتے رہے سازوں کے سُر کس طرح سیدھے اور رواں کیے جاتے ہیں اور میں اس فیصلے پر کس طرح مجبور ہوا تھا اور یہ مدینہ میں حسین نواز سے بھی مل لیتے ہیں اور یہ انھیں یہ بھی بتا دیتے ہیں مجھ سے کب اور کہاں کہاں حلف لیا گیا تھا اور یہ جسارت کس نے کی تھی‘ یہ 50 کروڑ روپے کی آفر بھی سن لیتے ہیں اور یہ واپس آ کر اپنے ادارے کے کسی سینئر کو اعتماد میں نہیں لیتے اور یہ اپنی ویڈیو کا پیچھا کرتے کرتے ملتان بھی پہنچ جاتے ہیں اور ویڈیو کے سوداگر ایڈیٹر کے دفتر سے بھی ہو آتے ہیں اور کسی ادارے کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور آپ یہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ مریم نواز کیا کر رہی ہیں؟یہ خاتون اور جوان بچوں کی ماں ہو کر ویڈیوز بنوا رہی ہیں۔

غیر اخلاقی ویڈیوز خرید رہی ہیں اور پریس کانفرنس کر کے یہ گند پورے ملک میں پھیلا رہی ہیں‘ میاں نواز شریف تین بار ملک کے وزیراعظم رہے ہیں‘ میں آج بھی سمجھتا ہوں میاں نواز شریف کو غلط سزا دی گئی تھی لیکن مجھے اس کے باوجود میاں نواز شریف سے یہ توقع نہیں تھی یہ جج ارشد ملک سے جاتی عمرہ میں ملاقات کریں گے اور یہ اپنی نگرانی میں جج کی ویڈیو بنوائیں گے‘ کم از کم میاں نواز شریف جیسے سیریس اور سینئر سیاست دان کو اس گند کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا اور حسین نواز بھی مدینہ میں جج صاحب سے مل رہے ہیں اور اس کی ویڈیو بنا رہے ہیں‘کیا اخلاقیات ان لوگوں کو اس کی اجازت دیتی ہے؟

شریف فیملی کو جب سسلین مافیا کا خطاب دیا گیا تھاتو ہم سب نے اس پر احتجاج کیا تھا لیکن کیا شریف فیملی نے اس گند کا حصہ بن کر خود کو مافیا ثابت نہیں کردیا؟آپ لیڈر ہیں‘ آپ قوم کے باپ ہیں کم از کم آپ کو اس لیول تک نہیں گرنا چاہیے تھا‘ مجھے میاں نواز شریف سے ہرگز ہرگز یہ توقع نہیں تھی اور پھرآپ صحافیوں کا کردار بھی دیکھیے‘ یہ اپنے دفتر میں کیمرے لگا کر غیر اخلاقی ویڈیو کی خرید وفروخت میں شامل ہو رہے ہیں‘ یہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ اور یہ تمام لوگ مل کر کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ۔

میں نہیں جانتا جج ارشد ملک سچے ہیں یا پھر نواز شریف فیملی سچ کہہ رہی ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں یہ کیس اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو گا‘ یہ ثابت کر دے گا ملک کا کوئی ادارہ قابل احترام نہیں اور عوام اب ملک کے کسی ادارے کی ساکھ‘ ایمان داری اور نیک نیتی کی قسم نہیں کھا سکتے ‘ اللہ تعالیٰ منصف ہے اور جج انصاف میں اللہ کے نائب ہوتے ہیں لیکن یہ نائب اس ملک میں کیا کر رہے ہیں؟ خدا کی پناہ یہ بلیک میل بھی ہو رہے ہیں اوریہ ملزموں اور مجرموں کے ایجنٹوں سے بھی مل رہے ہیں‘ سیاست دان قوم کے سر کی چادر ہوتے ہیں‘ یہ قوم کے عیب ڈھانپتے ہیں لیکن ہمارے سیاست دان کیا کر رہے ہیں؟ یہ ججوں کی خریدو فروخت میں بھی ملوث ہیں‘ یہ ان کی ویڈیوز بھی بنا رہے ہیں اور یہ ان کی آڈیوزبھی ریکارڈ کر رہے ہیں۔

بیورو کریسی ملکوں کا گیئر باکس ہوتی ہے مگر ہمارا گیئر باکس سال سے بند پڑا ہے اور پیچھے رہ گئی حکومت تو آپ سینیٹ کے چیئرمین کی تبدیلی پر حکومت کا کردار بھی دیکھ لیجیے گا‘ آپ کو اپنے آپ سے نفرت ہو جائے گی‘ مجھے نہیں معلوم جج ارشد ملک کے ایشو کا کیا حل نکلتا ہے؟ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کس نتیجے پر پہنچتا ہے لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں جج ارشد ملک نے ملک کا عدل اور انصاف کا پورا نظام داؤ پر لگا دیا۔

موصوف نے ثابت کر دیا قوم گندگی کے ایک ایسے ڈھیر پر بیٹھی ہے جس کے نیچے بدبودار بیماری کے سوا کچھ نہیں اور میاں نواز شریف نے بھی یہ کھیل‘ کھیل کر اپنی اخلاقی سیاست کا جنازہ نکال دیا‘ یہ ثابت کر بیٹھے ہیں یہ ناصر بٹ اور مہر جیلانی جیسے ٹاؤٹوں میں گھرے ہوئے ہیں اور یہ بھی گھی نکالنے کے لیے کسی بھی سطح تک جا سکتے ہیں‘ افسوس ہم واقعی گندگی کے ایک ایسے ڈھیر پر ہیں جس میں اوپر نیچے اور دائیں بائیں گندگی کے سوا کچھ نہیں‘ اب صرف اللہ ہی ہماری حفاظت کرسکتاہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
پردے کے پیچھے کیا ہوتا رہا
جاوید چوہدری منگل 16 جولائ 2019

یہ کہانی نومبر 2001ء میں ملتان میں شروع ہوئی‘ ملتان میں چرس کی اسمگلنگ کا ایک بین الاقوامی ریکٹ تھا‘ سرغنہ ملک مشتاق تھا‘ یہ دوستوں میں بلیک پرنس مشہور تھا‘ خوش حال‘ فراخ دل اور بااثر تھا چناں چہ یہ ڈاکٹر عبدالقدیر اور آصف علی زرداری کے دوستوں میں شامل ہو گیا‘ یہ بیک وقت اچھا اور برا انسان تھا‘ یہ یورپ میں چرس بھی اسمگل کرتا تھا‘ بلیک پرنس کی بیوی ہالینڈ سے تعلق رکھتی تھی اور یہ لوگ ہالینڈ سے اپنا ریکٹ چلاتے تھے۔

ملتان کا ایک کردار میاں ادریس اور بلیک پرنس کا بھتیجا ملک پرویز اس مافیا کے اہم رکن تھے‘ علی پور کے قریب اس زمانے میں ڈرائی پورٹ ہوتی تھی‘ یہ لوگ اس پورٹ کے ذریعے منشیات اسمگل کرتے تھے‘ بلیک پرنس نے 2001ء میں ساڑھے پانچ ہزار کلو گرام چرس اکٹھی کی اور یہ چرس کنٹینروں کی دیواروں میں چھپانا شروع کر دی‘ یہ لوگ یہ کنٹینر ہالینڈ بھجوانا چاہتے تھے لیکن پھر مخبری ہو گئی۔

اے این ایف نے چھاپا مارا اور 20 نومبر 2001ء کو ساڑھے پانچ ہزار کلو گرام چرس پکڑ لی‘ یہ پاکستان کی تاریخ میں منشیات کی سب سے بڑی کھیپ تھی‘ ملک مشتاق (بلیک پرنس)‘ میاں ادریس اور ملک پرویز تینوں گرفتار ہو گئے‘ کراچی کا ایک بزنس مین ملک احمد بھی اس ریکٹ کا حصہ نکلا‘ یہ کراچی میں راڈو گھڑیوں کا ’’فرنچائز ہولڈر‘‘ تھا‘ جج ارشد ملک اس وقت ملتان میں ایڈیشنل سیشن جج ہوتے تھے‘ میاں ادریس کا بھائی میاں طارق اس وقت ملتان میں ٹیلی ویژن سیٹ بیچتا تھا‘ یہ بھائی کی مدد کے لیے گھر سے نکلا اور کورٹ کچہریوں کے چکر لگانے لگا‘ یہ چکر عدالتوں اور جوڈیشل سیکٹر میں اس کے تعلقات بڑھاتے چلے گئے۔

آصف علی زرداری کے حکم پر لطیف کھوسہ نے بلیک پرنس اور میاں ادریس کا کیس لے لیا ‘ کیس کی پیروی کے دوران میاں طارق لطیف کھوسہ کا دوست بھی بن گیا‘ میاں طارق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وکیلوں‘ ججوں‘ پولیس اور آئی بی کا ’’فسیلی ٹیٹر‘‘ بنتا چلا گیا‘ یہ ان کے لیے ایک دوسرے کے درمیان رابطہ بھی بن جاتا تھا‘ یہ ان کے لیے پارٹیاں بھی کراتا تھا اور لین دین کا بندوبست بھی کرتا تھا‘ یہ اس دوران پکا کام کرنے کے لیے تمام فریقین کی ’’ویڈیوز‘‘ بنا لیتا تھا‘ جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت نے آصف علی زرداری کے خلاف درج منشیات کے مقدمے کو منطقی نتیجے تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔

بلیک پرنس واحد کردار تھا جو حکومت کی بھرپور مدد کر سکتا تھا چناں چہ ایجنسیوں نے سینٹرل جیل ملتان میں بلیک پرنس سے رابطہ کیا اور یہ آصف علی زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے تیار ہو گیا لیکن یہ عین گواہی کے دن مکر گیا‘ ایجنسیوں نے اس پر بھرپور دباؤ ڈالا لیکن یہ نہ مانا‘ آصف علی زرداری نے اس کے اس احسان کا بدلا 2008ء میں دیا‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی‘ عبدالحمید ڈوگر چیف جسٹس آف پاکستان تھے‘ لطیف کھوسہ اٹارنی جنرل‘ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور آصف علی زرداری صدر‘ بلیک پرنس کی پٹیشن سپریم کورٹ پہنچی‘ کورٹ نمبر ون میں سماعت ہوئی اور چاروں ملزمان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

کیس بھی بعد ازاں ختم ہو گیا‘ بلیک پرنس لاہور میں آباد ہو گیا اور یہ عام اور گم نام لوگوں جیسی زندگی گزارنے لگا‘ میاں ادریس باہر آ کر خاندان سے لڑ پڑا‘ اپنی جائیداد بیچی‘ پیسا اکٹھا کیا اور ملک سے باہر (غالباً بحرین) چلا گیا‘ پیچھے رہ گیا میاں طارق‘اس نے ملتان میں اسمگلڈ اور جعلی ایل سی ڈیز کی دکان کھول لی تاہم یہ جوڈیشری‘ وکلاء برادری‘ پولیس اور آئی بی کے ساتھ رابطوں میں رہا‘ یہ اس دوران اپنے تمام دوستوں کی ویڈیوز بھی بناتا رہا‘ اس کے بیٹے بھی بعد ازاں والد کے اس کام میں شامل ہو گئے‘ یہ لوگ اسلام آباد اور لاہور بھی جاتے تھے‘ دوستوں کی ’’خدمت‘‘ کرتے تھے اور اس خدمت کی ویڈیو بنا لیتے تھے‘ جج ارشد ملک بھی اس خدمت کی زد میںآ گیا‘ اس کی صوفے کے اوپر ویڈیو بنی اور یہ ویڈیو ارشد ملک کے ساتھ ساتھ پوری جوڈیشری کی ساکھ نگل گئی‘ میاں طارق اپنے دوستوں کو برملا یہ بھی بتاتا تھا میرے پاس لطیف کھوسہ کے بڑے بڑے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں‘ ہم یہ کہانی یہاں روکتے ہیں اور کہانی کے دوسرے کرداروں کی طرف آتے ہیں۔

جج ارشد ملک راولپنڈی کے رہائشی ہیں‘یہ جج بننے سے پہلے راولپنڈی میں پریکٹس کرتے تھے‘ راولپنڈی میں ان کے چار لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے‘ پہلا شخص ناصر جنجوعہ تھا‘ یہ لالہ موسیٰ سے تعلق رکھتا ہے‘ اس کے والد امام دین جنجوعہ شہر کی مشہور ترین ہستی تھے‘ یہ ملٹری اور سول کنٹریکٹر تھے۔ ’’مڈ جیک‘‘ ان کی کمپنی تھی‘ یہ ایوب خان کے دور ہی میں کروڑپتی بن چکے تھے‘امام دین جنجوعہ کے انتقال کے بعد کمپنی ناصر جنجوعہ کے پاس چلی گئی‘ یہ 35 سال سے میاں نواز شریف کے دوستوں کے حلقے میں بھی شامل ہے‘ یہ بیورو کریسی‘ جوڈیشری اور آرمی آفیسرز کے ساتھ تعلقات بھی رکھتا تھا‘ حلقہ وسیع تھا‘ لوگ اپنی پروموشن اور تبادلوں کے لیے اس کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔

دوسرا کردار ناصر بٹ کا بڑا بھائی تھا‘یہ لوگ دھڑے باز اور دشمن دار تھے یا کورٹ کچہری کے چکر لگاتے رہتے تھے اور ان چکروں میں وکیلوں‘ ججوں اور پولیس افسروں کو اپنا دوست بنالیتے تھے‘ ناصر بٹ بعد ازاں میاں نواز شریف کے قریب پہنچ گیا‘ یہ ان کا جاں نثار بن گیا‘ تیسرا کردار مہر جیلانی تھا‘ یہ میاں طارق سے ملتا جلتا کردار تھا‘ یہ راولپنڈی میں سرکاری ملازموں کا ٹاؤٹ مشہور تھا‘ یہ ہر اہم جج‘ پولیس افسر اور سیاستدان کے قریب پہنچ جاتا تھا اور ان کے گندے ’’کچھے‘‘ دھونا شروع کر دیتا تھا اور چوتھا کردار خرم یوسف تھا‘ یہ پراپرٹی ڈیلر ہے اور اہم لوگوں کے ساتھ تصویریں کھینچوا کر خود کو اہم ثابت کرنے کی لت میں مبتلا ہے‘ جج ارشد ملک سمیت یہ سارے کردار ناصر جنجوعہ کے حلقے میں شامل تھے۔

ناصر جنجوعہ کے حلقے میں دو اور لوگ بھی شامل تھے (یہ آج بھی ہیں)‘ میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر اور نیب کے سابق چیئرمین قمر زمان چوہدری‘ یہ دونوں ناصر جنجوعہ کے روزانہ کے ملاقاتی ہیں‘ ہم اب میاں نواز شریف کے کیس کی طرف آتے ہیں‘ میاں نواز شریف کا کیس نیب کورٹ نمبر ایک میں شروع ہوا‘ شروع میں جج محمد بشیر کیس سن رہے تھے‘ میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے 9 جولائی 2018ء کو جج محمد بشیر کی غیرجانبداری پر سوال اٹھایا اور کہا’’آپ شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ دے چکے ہیں لہٰذا مناسب یہی ہے کہ آپ دیگر 2 ریفرنسز العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کی سماعت نہ کریں‘‘جج محمد بشیر نے 16 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھ کردونوں ریفرنسز کی سماعت سے معذرت کر لی یوں8 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر یہ کیس احتساب عدالت نمبردو کے جج ارشد ملک کے حوالے کر دیا گیا۔

ارشد ملک کے بقول نواز شریف کے مقدمات کی منتقلی کے بعد مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے ان سے رابطہ کیا‘ ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا اس نے مسلم لیگ ن کی حکومت کی ایک با اثر شخصیت کے ذریعے انھیں احتساب عدالت کا جج لگوایا ہے‘ آپ اب صورت حال دیکھیے‘ سابق چیئرمین نیب بھی ناصر جنجوعہ کے دوست‘ کیپٹن صفدر بھی ناصر جنجوعہ کے دوست اور جج ارشد ملک بھی ناصر جنجوعہ کے دوست‘ میں نے جب اس اسٹوری پر کام شروع کیا تو مجھے پتا چلا جج ارشد ملک ناصر جنجوعہ کے ذریعے تمام پس پردہ انفارمیشن شریف فیملی تک پہنچا دیتے تھے۔

آپ ان دنوں کی ن لیگ کے لیڈرز کی پریس ٹاکس نکالیں اور یہ پریس ٹاکس آج کی کہانی کے قریب رکھ کر دیں تو آپ بڑی آسانی سے خفیہ انفارمیشن کے سورس تک پہنچ جائیں گے‘ بہرحال قصہ مختصر ارشد ملک کے بقول ناصر جنجوعہ اور مہر جیلانی نے انھیں 10 کروڑ روپے مالیت کے یوروز کی پیش کش کی‘ ناصر جنجوعہ نے یہ بھی کہا‘ دو کروڑ روپے مالیت کے یوروز اس وقت بھی میری گاڑی میں پڑے ہیں‘ آپ یہ فوری طور پر وصول کر لیں‘ یہ رقم ناصر جنجوعہ خود نہیں دے رہا تھا‘ یہ میاں نواز شریف کے ایک جیالے نے فراہم کی تھی لیکن جج صاحب کے بقول ’’میں نے انکار کر دیا‘‘۔

میں اب کہانی کو مزید آگے بڑھاتا ہوں‘ عمران خان کی حکومت آ گئی‘ ملک کے زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا یہ حکومت کام یاب ہو جائے گی لیکن حکومت کم زور ثابت ہوئی اور مارچ 2019ء تک صاف نظر آنے لگا یہ حکومت نہیں چل سکے گی‘ سپریم کورٹ نے 26 مارچ کو میاں نواز شریف کو ڈیڑھ ماہ کے لیے گھر جانے کی اجازت بھی دے دی‘ یہ اجازت بھی تبدیلی کا اشارہ ثابت ہوئی‘ اب شریف فیملی کے بقول جج ارشد ملک ڈر گیا‘ اس نے سوچا میاں نواز شریف واپس آ جائے گا اور یہ مجھے نہیں چھوڑے گا چناں چہ یہ ناصر بٹ کے بڑے بھائی‘ مہر جیلانی اور خرم یوسف کے ذریعے شریف فیملی سے رابطے کرنے لگا‘ یہ ناصر بٹ سے بھی ملا اور اس سے میاں نواز شریف سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ ناصر بٹ نے میاں نواز شریف سے پوچھا اور 6 اپریل 2019ء کو جج ارشد ملک کو جاتی عمرہ لے گیا‘ ملاقات میں کیا ہوا؟

یہاں دو ورژن ہیں‘ شریف فیملی اور ناصر بٹ کے بقول جج ارشد ملک نے میاں نواز شریف سے معافی بھی مانگی اور ان کرداروں کے نام بھی دیے جنہوں نے اس پر دباؤ ڈال کر فیصلہ لیا تھا‘ ارشد ملک نے فیصلہ لکھنے اور ان میں ترمیم کرنے والے لوگوں کے نام بھی بتائے تھے جب کہ جج صاحب کے بقول میں نے میاں نواز شریف سے کہا ‘ میں نے فیصلہ میرٹ پر کیا تھا جس پر میاں نواز شریف ناراض ہو گئے‘ یہ جج ارشد ملک کی شریف فیملی سے پہلی ملاقات تھی‘ دوسری اور تیسری ملاقات جدہ میں ہوئی اور خرم یوسف جج صاحب کو لے کر سعودی عرب گیا اور یہ دونوں ملاقاتیں انتہائی خطرناک اور ہوش ربا ہیں۔

جج محمد ارشد ملک نے 6 اپریل 2019 کو جاتی عمرہ میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی لیکن اس ملاقات سے پہلے ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا‘ جج کے بقول فروری میں ناصر بٹ اور خرم یوسف میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا ’’کیا ناصر جنجوعہ نے آپ کو ملتان کی ویڈیو دکھا دی تھی‘ میں یہ سن کر حیران رہ گیا‘‘ میں کہانی آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو ملتان کی ویڈیو کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ یہ ویڈیو میاں طارق نے ملتان میں بنائی تھی‘ یہ کسی ایسے گھر کی ویڈیو ہے جس میں دیواروں پر تصویریں لگی ہیں‘ سامنے صوفہ رکھا ہوا ہے اور اس صوفے پر غیر اخلاقی حرکتیں ہو رہی ہیں۔

ویڈیو میں نظر آنے والے لوگ اس قدر مدہوش ہیں کہ یہ کیمرہ مین کی موجودگی سے بھی بے پروا ہو چکے ہیں‘اس ویڈیو کے بارے میں بھی تین ورژن ہیں‘ شریف فیملی کا کہنا ہے یہ ویڈیو میاں طارق نے ریاستی اداروں کو دے دی تھی اور اداروں نے یہ ویڈیو دکھا کر جج صاحب کو میاں نواز شریف کے خلاف فیصلے پر مجبور کیا تھا‘یہ موقف مریم نواز نے چھ جولائی کی پریس کانفرنس میں بھی دیا تھا جب کہ جج صاحب کا دعویٰ ہے یہ ویڈیو میاں طارق سے ناصر جنجوعہ‘ خرم یوسف اور ناصر بٹ نے خریدی تھی۔

میری اپنی اطلاع کے مطابق یہ ویڈیو ناصر جنجوعہ اور خرم یوسف نے لاہور کے فائیو اسٹار ہوٹل میں پانچ کروڑ روپے اور ایک جیپ کے بدلے خریدی ‘ رقم میاں نواز شریف کے ایک عزیز نے ادا کی تھی اور سودا پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک اہم لیڈر نے کرایا تھا‘ یہ لیڈر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور اٹھارہ سال سے میاں طارق کو جانتے ہیں‘ سودے میں ملتان کے ایک اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

ویڈیو میں جج صاحب کا چہرہ کلیئر نہیں تھا‘خریدار فیس میچنگ چاہتے تھے‘ اس فیس میچنگ کے لیے ایک لمبا اسٹیج سجایا گیا‘ ناصر بٹ نے ویڈیو کا حوالہ دیا‘ جج صاحب میاں طارق سے رابطے پر مجبور ہو گئے‘ میاں طارق نے جج صاحب کو ملتان بلایا اور یہ کہہ کر انھیں اخبار کے دفتر لے گیا ’’آپ کی جان صرف یہ ایڈیٹر چھڑوا سکتا ہے‘‘ اور جج صاحب مجبوری میں میاں طارق کے ساتھ اخبار کے دفتر چلے گئے‘ دفتر میں کیمرے لگے تھے‘ جج صاحب کی ہر اینگل سے فلم بنا لی گئی‘ یہ فلم بعد ازاں غیر اخلاقی ویڈیو سے ’’میچ‘‘ کی گئی‘ ویڈیو میچ کر گئی اور یوں بات سودے تک پہنچ گئی۔

میں نے جج صاحب کی ملتان آمد اور اخبار کے دفتر جانے کی معلومات کے لیے ایکسپریس ملتان کے بیورو چیف شکیل انجم سے رابطہ کیا‘ یہ پرانے صحافی ہیں‘ بلیک پرنس اور ساڑھے پانچ ہزار کلو گرام چرس کی خبر بھی شکیل انجم نے 2001 میں بریک کی تھی‘ شکیل انجم نے تھوڑا سا وقت لیا اور جج صاحب کی ملتان آمد‘ ہوٹل گریس میں قیام اور اخبار کے دفتر کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوا کر بھجوا دی‘ میں شکیل انجم کے ’’ذرایع‘‘ پر حیران رہ گیا بہرحال قصہ مختصر جج صاحب کا چہرہ میچ ہوا اور ویڈیو بک گئی اور تیسرا ورژن جج ارشد ملک کا ہے‘ یہ دعویٰ کرتے ہیں یہ ویڈیو ن لیگ نے میاں طارق سے حاصل کی اور یہ لوگ مجھے اس کے ذریعے مسلسل بلیک میل کرتے رہے۔

ہم اب مین اسٹوری کی طرف واپس آتے ہیں‘ جج ارشد ملک6 اپریل کو جاتی عمرہ میں میاں نواز شریف سے ملے‘ ملاقاتی روم میں بھی کیمرے لگے تھے اور جج صاحب اور میاں صاحب کی ساری گفتگو ریکارڈ ہو رہی تھی‘ جج صاحب بعد ازاں 28 مئی کو فیملی سمیت سعودی عرب چلے گئے۔

جج صاحب کا کہنا ہے یہ ان کا ذاتی دورہ تھا جب کہ دوسرے فریقین کا دعویٰ ہے خرم یوسف اور ناصر بٹ انھیں عمرے پر لے کر گئے تھے تاہم یکم جون کو مدینہ منورہ میں جج ارشد ملک اور حسین نواز کی ملاقات ہوئی‘ یہ ملاقات بھی باقاعدہ ریکارڈ ہوئی‘ شریف فیملی نے دعویٰ کیا یہ ملاقات جج صاحب کی مرضی اور خواہش سے ہوئی تھی اور اس میں انھوں نے ان تمام لوگوں کا ذکر کیا تھا جو نواز شریف کے مقدمات کے دوران جج صاحب سے ملاقات کرتے رہے۔

جج ارشد ملک نے ان سینئر ججوں کا تذکرہ بھی کیا جو بات کرنے سے پہلے ان سے حلف لیتے تھے اور انھیں پھر ہدایات دیتے تھے‘ حسین نواز کے ساتھ ملاقات کی ویڈیو اس اسکینڈل میں بہت اہم ہے‘ یہ ویڈیو ثابت کرے گی یہ ملاقات جج صاحب کی مرضی سے ہوئی تھی یا پھر یہ بلیک میل ہو کر سعودی عرب پہنچے تھے‘ یہ ویڈیو یہ بھی ثابت کرے گی 50 کروڑ روپے اور کینیڈا میں سیٹل منٹ کی پیش کش حسین نواز نے کی تھی یا پھر یہ جج صاحب کی ڈیمانڈ تھی تاہم یہ درست ہے مدینہ منورہ میں 50 کروڑ روپے کی بات ہوئی تھی اور کرنے اور سننے والے دونوں کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوا تھا یہ مدینہ منورہ میں بیٹھ کر کیا بات کر رہے ہیں‘ یہ روضہ رسولؐ کے سامنے کیا گندگی پھیلا رہے ہیں؟۔

ہم اگر یہاں تک کی کہانی کا تجزیہ کریں تو ہمیں اس کہانی کے تمام کردار ننگے اور قابل افسوس دکھائی دیتے ہیں‘ آپ جج صاحب کا کردار دیکھیے‘ یہ 2001میں ملتان میں منشیات کے اسمگلروں سے بھی ملتے رہے‘ یہ ان کی پرائیویٹ پارٹیوں میں بھی شریک ہوتے رہے اور ان کی غیر اخلاقی ویڈیوز بھی بنتی رہیں لیکن ریاست کے کسی ادارے کو کانوںکان خبر نہیں ہو ئی‘ یہ جج صاحب بعد ازاں ترقی کرتے کرتے اس لیول پر آگئے جہاں ان کی عدالت میں چار سابق وزراء اعظم اور ایک سابق صدر کا کیس چلنے لگا۔

یہ میاں نواز شریف کے کیس کے دوران شریف فیملی کے ایجنٹوں سے بھی ملتے رہے ‘ ان سے پیش کشیں اور دھمکیاں بھی وصول کرتے رہے اور یہ اپنے کسی سینئر کو اطلاع تک نہیں دیتے تھے‘ یہ ناصر جنجوعہ سے یہ تک بھی سن لیتے تھے’’ میں نے میاں نواز شریف کے ذریعے آپ کو احتساب عدالت کا جج لگوایاتھا‘‘ اور یہ اس انکشاف کے باوجود اپنی کرسی پر بھی بیٹھے رہے‘یہ فیصلہ سنانے کے بعد بھی ناصر بٹ‘ خرم یوسف‘ مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ جیسے لوگوں کے ساتھ ملتے رہے۔

یہ جاتی عمرہ میں اس مجرم سے بھی ملاقات کے لیے گئے جسے انھوں نے اپنے ہاتھوں سے سزا دی تھی‘ یہ ناصربٹ اور خرم یوسف سے اپنے گھر میں بھی ملاقات کرتے رہے اور یہ پورے ہوش و حواس میں انھیں یہ بھی بتاتے رہے سازوں کے سُر کس طرح سیدھے اور رواں کیے جاتے ہیں اور میں اس فیصلے پر کس طرح مجبور ہوا تھا اور یہ مدینہ میں حسین نواز سے بھی مل لیتے ہیں اور یہ انھیں یہ بھی بتا دیتے ہیں مجھ سے کب اور کہاں کہاں حلف لیا گیا تھا اور یہ جسارت کس نے کی تھی‘ یہ 50 کروڑ روپے کی آفر بھی سن لیتے ہیں اور یہ واپس آ کر اپنے ادارے کے کسی سینئر کو اعتماد میں نہیں لیتے اور یہ اپنی ویڈیو کا پیچھا کرتے کرتے ملتان بھی پہنچ جاتے ہیں اور ویڈیو کے سوداگر ایڈیٹر کے دفتر سے بھی ہو آتے ہیں اور کسی ادارے کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور آپ یہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ مریم نواز کیا کر رہی ہیں؟یہ خاتون اور جوان بچوں کی ماں ہو کر ویڈیوز بنوا رہی ہیں۔

غیر اخلاقی ویڈیوز خرید رہی ہیں اور پریس کانفرنس کر کے یہ گند پورے ملک میں پھیلا رہی ہیں‘ میاں نواز شریف تین بار ملک کے وزیراعظم رہے ہیں‘ میں آج بھی سمجھتا ہوں میاں نواز شریف کو غلط سزا دی گئی تھی لیکن مجھے اس کے باوجود میاں نواز شریف سے یہ توقع نہیں تھی یہ جج ارشد ملک سے جاتی عمرہ میں ملاقات کریں گے اور یہ اپنی نگرانی میں جج کی ویڈیو بنوائیں گے‘ کم از کم میاں نواز شریف جیسے سیریس اور سینئر سیاست دان کو اس گند کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا اور حسین نواز بھی مدینہ میں جج صاحب سے مل رہے ہیں اور اس کی ویڈیو بنا رہے ہیں‘کیا اخلاقیات ان لوگوں کو اس کی اجازت دیتی ہے؟

شریف فیملی کو جب سسلین مافیا کا خطاب دیا گیا تھاتو ہم سب نے اس پر احتجاج کیا تھا لیکن کیا شریف فیملی نے اس گند کا حصہ بن کر خود کو مافیا ثابت نہیں کردیا؟آپ لیڈر ہیں‘ آپ قوم کے باپ ہیں کم از کم آپ کو اس لیول تک نہیں گرنا چاہیے تھا‘ مجھے میاں نواز شریف سے ہرگز ہرگز یہ توقع نہیں تھی اور پھرآپ صحافیوں کا کردار بھی دیکھیے‘ یہ اپنے دفتر میں کیمرے لگا کر غیر اخلاقی ویڈیو کی خرید وفروخت میں شامل ہو رہے ہیں‘ یہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ اور یہ تمام لوگ مل کر کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ۔

میں نہیں جانتا جج ارشد ملک سچے ہیں یا پھر نواز شریف فیملی سچ کہہ رہی ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں یہ کیس اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو گا‘ یہ ثابت کر دے گا ملک کا کوئی ادارہ قابل احترام نہیں اور عوام اب ملک کے کسی ادارے کی ساکھ‘ ایمان داری اور نیک نیتی کی قسم نہیں کھا سکتے ‘ اللہ تعالیٰ منصف ہے اور جج انصاف میں اللہ کے نائب ہوتے ہیں لیکن یہ نائب اس ملک میں کیا کر رہے ہیں؟ خدا کی پناہ یہ بلیک میل بھی ہو رہے ہیں اوریہ ملزموں اور مجرموں کے ایجنٹوں سے بھی مل رہے ہیں‘ سیاست دان قوم کے سر کی چادر ہوتے ہیں‘ یہ قوم کے عیب ڈھانپتے ہیں لیکن ہمارے سیاست دان کیا کر رہے ہیں؟ یہ ججوں کی خریدو فروخت میں بھی ملوث ہیں‘ یہ ان کی ویڈیوز بھی بنا رہے ہیں اور یہ ان کی آڈیوزبھی ریکارڈ کر رہے ہیں۔

بیورو کریسی ملکوں کا گیئر باکس ہوتی ہے مگر ہمارا گیئر باکس سال سے بند پڑا ہے اور پیچھے رہ گئی حکومت تو آپ سینیٹ کے چیئرمین کی تبدیلی پر حکومت کا کردار بھی دیکھ لیجیے گا‘ آپ کو اپنے آپ سے نفرت ہو جائے گی‘ مجھے نہیں معلوم جج ارشد ملک کے ایشو کا کیا حل نکلتا ہے؟ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کس نتیجے پر پہنچتا ہے لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں جج ارشد ملک نے ملک کا عدل اور انصاف کا پورا نظام داؤ پر لگا دیا۔

موصوف نے ثابت کر دیا قوم گندگی کے ایک ایسے ڈھیر پر بیٹھی ہے جس کے نیچے بدبودار بیماری کے سوا کچھ نہیں اور میاں نواز شریف نے بھی یہ کھیل‘ کھیل کر اپنی اخلاقی سیاست کا جنازہ نکال دیا‘ یہ ثابت کر بیٹھے ہیں یہ ناصر بٹ اور مہر جیلانی جیسے ٹاؤٹوں میں گھرے ہوئے ہیں اور یہ بھی گھی نکالنے کے لیے کسی بھی سطح تک جا سکتے ہیں‘ افسوس ہم واقعی گندگی کے ایک ایسے ڈھیر پر ہیں جس میں اوپر نیچے اور دائیں بائیں گندگی کے سوا کچھ نہیں‘ اب صرف اللہ ہی ہماری حفاظت کرسکتاہے۔
چوہدری صاحب! ویڈیو کی کہانی لکھنا چاہتے تھے اور بالآخر لکھ دی۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
دراصل، اس سارے معاملے میں دوسری ویڈیو اہم ہے جس میں کچھ ججوں کے نام ہیں اور شاید سپریم کورٹ یہ چاہتی ہے کہ وہ ویڈیو سامنے آ جائے تاکہ وہ کوئی حتمی فیصلہ کر سکے۔ اگر وہ ویڈیو سامنے آ گئی تو سپریم کورٹ کے معزز ججز اس معاملے کو شاید 'کور' کر لیں گے۔ ممکن ہے، ایک دو ججز کو فارغ کر دیا جائے۔
ویڈیو تو نہیں آئی البتہ کل کی پریس کانفرس میں پس پردہ قوتیں کے بیانات منظر عام پر آگئے ہیں۔ سیاسی مافیا اور اسٹیبلشمنٹ مافیا کا کھیل دلچسپ مرحلہ میں داخل :)
 

جاسم محمد

محفلین
ویڈیو سکینڈل: مسلم لیگ ن نے العزیزیہ ریفرنس میں ری ٹرائل کی مخالفت کر دی
24 جولائی ، 2019
پاکستان میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد ان کو کٹہرے میں لایا جائے اور کیس کا ری ٹرائل کرنے کے بجائے نواز شریف کو باعزت بری کیا جائے۔
لاہور میں پارٹی کے رہنماؤں جاوید ہاشمی، پرویز رشید اور عظمیٰ بخاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی نے کہا کہ میڈیا پر سنسرشپ کی وجہ سے ان کی آواز دبائی جا رہی ہے۔
پاکستان کے مین سٹریم میڈیا میں کسی بھی نیوز چینل نے مریم نواز کی پریس کانفرنس نشر نہیں کی تاہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے یہ پریس کانفرنس براہ راست نشر کی گئی۔
خیال رہے کہ اپنے دورہ امریکہ میں وزیراعظم عمران خان نے دعوی کیا تھا کہ پاکستان کا میڈیا برطانیہ سے بھی زیادہ آزاد ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ جب ویڈیو ثبوت کے بعد احتساب جج کو ہٹا دیا ہے تو ان کا فیصلہ کیسے برقرار ہے؟ ان کو کٹہرے میں لایا جائے، ان سے پوچھا جائے کہ کس نے بلیک میل کیا۔ میرے پاس مزید ثبوت بھی موجود ہیں، اور ایسے نام ہیں کہ وہ سامنے آنے پر کہرام مچ جائے لیکن میرا مقصد کہرام مچانا نہیں بلکہ اپنے بے گناہ والد کو رہا کروانا ہے۔
انہوں نے سنسرشپ کے حوالے سے کہا کہ ہماری آواز دبائی جا رہی ہے
انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران پوچھا کہ کیا ’سوشل میڈیا کور کر رہا ہے؟‘ ہاں میں جواب آنے پر مریم نواز نے کہا کہ ’ویری گُڈ‘۔

000_1go16f.jpg

مریم نواز نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے ری ٹرائل کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ احتساب جج نے جو بیان حلفی جمع کروایا اس پر ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ جب ان کو بلیک میل یا رشوت دینے کی بقول ان کے کوشش کی گئی تو انہوں نے دوران سماعت کیوں نہیں بتایا؟
یہ سوال کیوں غیر اہم سمجھے جا رہے ہیں کہ ان کی دو ہزار تین کی ویڈیو کس نے بنائی، کس نے ان کو نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے پر مجبور کیا گیا؟
’مجھے معلوم تھا کہ ویڈیو ریلیز کرنے کے بعد ایکشن ہو گا اور وہی ہوا پھر سے عدالت طلب کر لیا گیا ہے، وہاں ضرور پیش ہوں گی یہ دیکھنے کے لیے اب ان کی یادداشت کیوں واپس آئی ہے‘
انہوں نے اعلیٰ عدلیہ سے درخواست کرتے ہوئے کہ ویڈیو کی شکل میں ثبوت سامنے رکھ دیا ہے اب آپ بے گناہ کو انصاف دیں۔
انہوں نے کہا کہ حکمران خوفزدہ ہیں، اسی لیے گرفتاریاں کی جا رہی ہیں، سنسرشپ ہو رہی ہے۔ فیصل آباد اور منڈی بہاوالدین کے جلسوں نے ان کو پریشان کر دیا ہے۔ امریکا میں بھی نواز شریف عمران خان کے اعصاب پر سوار ہیں۔
مریم نواز نے نواز شریف کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی بورڈ کے ڈاکٹرز کی ہدایت کے باوجود نواز شریف کو جیل میں داخل نہیں کروایا جا رہا حالانکہ واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ان کو بے شمار صحت کے مسائل ہیں۔ کمرے کا ٹمپریچر برقرار رہنا ضروری ہے لیکن وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اے سی نکلوا دوں گا۔ گھر کا کھانا فراہم نہیں کیا جا رہا۔ ان تمام معاملات کو عدالت لے کر جائوں گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد ان کو کٹہرے میں لایا جائے اور کیس کا ری ٹرائل کرنے کے بجائے نواز شریف کو باعزت بری کیا جائے۔
تاریخ میں پہلی بار ایک سزا یافتہ مجرم کوپوری ڈھٹائی سے جج، جیوری اور جلاد بنتے دیکھا ہے۔
یعنی جج کی ویڈیو بھی خود بنائی، اس کی بنیاد پر فیصلہ بھی خود سنایا، اور مطالبہ بھی خود ہی کر دیا کہ نواز شریف کو فوری رہا کیا جائے۔
یہ ہے وہ سیاسی مافیا جسے سپریم کورٹ کے 5 ججوں نے سسیلین مافیا کہا تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
تاریخ میں پہلی بار ایک سزا یافتہ مجرم کوپوری ڈھٹائی سے جج، جیوری اور جلاد بنتے دیکھا ہے۔
یعنی جج کی ویڈیو بھی خود بنائی، اس کی بنیاد پر فیصلہ بھی خود سنایا، اور مطالبہ بھی خود ہی کر دیا کہ نواز شریف کو فوری رہا کیا جائے۔
یہ ہے وہ سیاسی مافیا جسے سپریم کورٹ کے 5 ججوں نے سسیلین مافیا کہا تھا۔
اگر نئی ویڈیو میں یہ پانچ جج یا مبینہ طورپر ان میں سے کوئی ایک دو ججز بھی اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر ہیرا پھیری کرتے پائے گئے تو امید ہے کہ آپ انہیں بھی اسی طرح صلواتیں سنائیں گے۔ :) یہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
اگر نئی ویڈیو میں یہ پانچ جج یا مبینہ طورپر ان میں سے کوئی ایک دو ججز بھی اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر ہیرا پھیری کرتے پائے گئے تو امید ہے کہ آپ انہیں بھی اسی طرح صلواتیں سنائیں گے۔ :) یہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے۔ :)
اگر ملک کی اعلی ترین عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا شکار تھی تو میاں صاحب اپنا پاناما کیس وہاں لیکر ہی کیوں گئے کہ لو کر لو میرا احتساب۔ سیدھا سیدھا عوام کی عدالت میں جاتے یعنی فوری ری الیکشن کرواتے اور اگر عوام ان کے ساتھ ہوتی تو دوبارہ اقتدار میں آجاتے۔
پہلا اپنا کیس اپنی مرضی سے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر وہاں بھجوایا۔ پارلیما ن میں اپنی مرضی سے تقریر کی کہ "جناب سپیکر یہ ہیں وہ ذرائع"۔ قوم سے خطاب اپنی مرضی سے کیا جہاں وہ ذرائع بتائے جن سے یہ فلیٹس خریدے گئے۔
جب کیس سپریم کورٹ میں گیا تو ان ذرائع کا دور دور تک کوئی ثبوت پیش نہ کیا۔ الٹا عدالت عظمیٰ کو گمراہ کرنے کی خاطر ایک جعلی قطری خط جمع کروا دیا ۔
فلیٹس خود خریدے، کسی نے مجبور نہیں کیا۔ اپنا کیس خود عدالت میں لے کر گئے، کسی نے مجبور نہیں کیا۔ اپنی صفائی خود پیش نہیں کی، کسی نے مجبور نہیں کیا۔
اب جب اپنے کرتوتوں پر عدالت نے فیصلہ سنا دیا تو کیوں نکالا کا بیانیہ لے کر قوم کو گمراہ کرنے چل پڑے۔
جب عدالت عظمیٰ میں قطری خط سے دال نہیں گلی تو احتساب عدالت میں ہی منی ٹریل پیش کر دیتے۔ وہاں انہوں نے ججوں کو ہی متنازعہ بنا دیا۔
قوم کب تک اس سیاسی مافیا کی غلامی کرےگی۔ اسٹیبلشمنٹ مافیا کی تو کر ہی رہی ہے :)
 

فرقان احمد

محفلین
اگر ملک کی اعلی ترین عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا شکار تھی تو میاں صاحب اپنا پاناما کیس وہاں لیکر ہی کیوں گئے کہ لو کر لو میرا احتساب۔ سیدھا سیدھا عوام کی عدالت میں جاتے یعنی فوری ری الیکشن کرواتے اور اگر عوام ان کے ساتھ ہوتی تو دوبارہ اقتدار میں آجاتے۔
پہلا اپنا کیس اپنی مرضی سے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر وہاں بھجوایا۔ پارلیما ن میں اپنی مرضی سے تقریر کی کہ "جناب سپیکر یہ ہیں وہ ذرائع"۔ قوم سے خطاب اپنی مرضی سے کیا جہاں وہ ذرائع بتائے جن سے یہ فلیٹس خریدے گئے۔
جب کیس سپریم کورٹ میں گیا تو ان ذرائع کا دور دور تک کوئی ثبوت پیش نہ کیا۔ الٹا عدالت عظمیٰ کو گمراہ کرنے کی خاطر ایک جعلی قطری خط جمع کروا دیا ۔
فلیٹس خود خریدے، کسی نے مجبور نہیں کیا۔ اپنا کیس خود عدالت میں لے کر گئے، کسی نے مجبور نہیں کیا۔ اپنی صفائی خود پیش نہیں کی، کسی نے مجبور نہیں کیا۔
اب جب اپنے کرتوتوں پر عدالت نے فیصلہ سنا دیا تو کیوں نکالا کا بیانیہ لے کر قوم کو گمراہ کرنے چل پڑے۔
جب عدالت عظمیٰ میں قطری خط سے دال نہیں گلی تو احتساب عدالت میں ہی منی ٹریل پیش کر دیتے۔ وہاں انہوں نے ججوں کو ہی متنازعہ بنا دیا۔
قوم کب تک اس سیاسی مافیا کی غلامی کرےگی۔ اسٹیبلشمنٹ مافیا کی تو کر ہی رہی ہے :)
اسٹیبلشمنٹ ایسا ہی چاہتی تھی کہ معاملہ سپریم کورٹ جائے! اور، خان صاحب بھی! میاں صاحب کے لیے بہتر آپشن مستعفی ہونا تھا۔ تاہم، انہیں شاید یہ خدشہ تھا کہ ان کی عدم موجودگی میں چوہدری نثار وزیراعظم بنتے ہیں، تو وہ عمران خان اینڈ کمپنی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔ بہرصورت، یہ تو اگر مگر والی صورت حال ہے۔ حتمی طور پر، کوئی نتیجہ اخذ کرنا دشوار ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسٹیبلشمنٹ ایسا ہی چاہتی تھی کہ معاملہ سپریم کورٹ جائے! اور، خان صاحب بھی!
ٹھیک ہے یہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی خواہش ہوگی۔ لیکن کیا نواز شریف کے کروڑوں روپے کی فیسیں لینے وکلا بھی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان نے لگائے تھے؟
ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اتنی ڈھٹائی سے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی؟
عدالت کو سب کچھ سچ سچ بتاتے کہ 1990 میں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد موٹر وے کے کنٹریکٹس میں گھپلے کر کے کک بیکس لیں۔ اس پیسے کو 1992 میں اکانامک ریفارمز ایکٹ پاس کر کے ملک سے باہر لانڈر کیا ۔ جس سے 1993 میں اپنے بچوں کے نام پاناما میں آفشور کمپنی کھلوا کر لندن فلیٹس خریدے۔
اگر یہ تمام حقائق عدالت کے سامنے رکھ دیتے تو سزا تب بھی ہوتی لیکن سچ بولنے اور اقبال جرم کرنے پر قانونی ریلیف مل جاتا۔ قوم بھی سمجھ جاتی کہ اب شریف خاندان کرپشن سے توبہ کر کے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر چکا ہے اس لئے اسے سیاست میں دوبارہ موقع ملنا چاہئے۔
اس کی بجائے انتہاہی بھونڈے طریقہ سے قطری خط، کیلبری فانٹ، جج ارشد ملک کی ویڈیو پیش کر کے سارا کیس خود خراب کیا۔ اور الزام اسٹیبلشمنٹ پر۔ حد ہے ڈھٹائی کی۔
 

فرقان احمد

محفلین
ٹھیک ہے یہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی خواہش ہوگی۔ لیکن کیا نواز شریف کے کروڑوں روپے کی فیسیں لینے وکلا بھی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان نے لگائے تھے؟
ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اتنی ڈھٹائی سے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی؟
عدالت کو سب کچھ سچ سچ بتاتے کہ 1990 میں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد موٹر وے کے کنٹریکٹس میں گھپلے کر کے کک بیکس لیں۔ اس پیسے کو 1992 میں اکانامک ریفارمز ایکٹ پاس کر کے ملک سے باہر لانڈر کیا ۔ جس سے 1993 میں اپنے بچوں کے نام پاناما میں آفشور کمپنی کھلوا کر لندن فلیٹس خریدے۔
اگر یہ تمام حقائق عدالت کے سامنے رکھ دیتے تو سزا تب بھی ہوتی لیکن سچ بولنے اور اقبال جرم کرنے پر قانونی ریلیف مل جاتا۔ قوم بھی سمجھ جاتی کہ اب شریف خاندان کرپشن سے توبہ کر کے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر چکا ہے اس لئے اسے سیاست میں دوبارہ موقع ملنا چاہئے۔
اس کی بجائے انتہاہی بھونڈے طریقہ سے قطری خط، کیلبری فانٹ، جج ارشد ملک کی ویڈیو پیش کر کے سارا کیس خود خراب کیا۔ اور الزام اسٹیبلشمنٹ پر۔ حد ہے ڈھٹائی کی۔
یہ الزامات آپ عائد کر رہے ہیں۔ میاں صاحب پر ایسا کوئی کیس نہیں ہے کہ موٹر وے کے کنٹریکٹس وغیرہ میں کک بیکس لیے۔ کہاں ہیں یہ ثبوت؟
 

جاسم محمد

محفلین
یہ الزامات آپ عائد کر رہے ہیں۔ میاں صاحب پر ایسا کوئی کیس نہیں ہے کہ موٹر وے کے کنٹریکٹس وغیرہ میں کک بیکس لیے۔ کہاں ہیں یہ ثبوت؟
جس جنوبی کورین کمپنی نے موٹرویز بنائی تھیں ( Daewoo) وہ 90 کی دہائی میں بڑے پیمانہ پر کرپشن اسکینڈل کی ز د میں آکر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے۔ یہ کمپنی اس وقت کوریا کی دوسری بڑی کمپنی شمار ہوتی تھی۔ اور 2006 میں اس کمپنی کے مالک کو وسیع پیمانہ پر کرپشن اور فراڈ کرنے پرکوریا کی حکومت نے10 سال کی سزا اور 23 بلین ڈالر جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
سزا سنتے وقت کمرہ عدالت میں ان کو ڈرپ لگی ہوئی تھی۔
dae.395.1.jpg

Motorway cost exceeds Rs60 billion - Newspaper - DAWN.COM
Daewoo's Founder Is Given 10-Year Sentence for Fraud
 

فرقان احمد

محفلین
جس جنوبی کورین کمپنی نے موٹرویز بنائی تھیں ( Daewoo) وہ 90 کی دہائی میں بڑے پیمانہ پر کرپشن اسکینڈل کی ز د میں آکر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے۔ یہ کمپنی اس وقت کوریا کی دوسری بڑی کمپنی شمار ہوتی تھی۔ اور 2006 میں اس کمپنی کے مالک کو وسیع پیمانہ پر کرپشن اور فراڈ کرنے پرکوریا کی حکومت نے10 سال کی سزا اور 23 بلین ڈالر جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
سزا سنتے وقت کمرہ عدالت میں ان کو ڈرپ لگی ہوئی تھی۔
dae.395.1.jpg

Motorway cost exceeds Rs60 billion - Newspaper - DAWN.COM
Daewoo's Founder Is Given 10-Year Sentence for Fraud
واہ! کیا ثبوت تراشا ہے ۔۔۔! :) اس میں میاں صاحب کہاں ہیں؟ :) یوں تو، ہر دوسرا تیسرا فرد قصور وار ٹھہرے گا؟ آپ نے فلاں کمپنی سے معاملہ کیا، کمپنی کا مالک پکڑا گیا تو آپ بھی دنیا کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔! :) ناطقہ سربگریباں ہے! :)
 

فرقان احمد

محفلین
تفصیل
ایف آئی اے نے باقاعدہ موٹر وے کنٹریکس کا جائزہ لے کر 6 ارب روپے کی خردبرد پکڑی تھی۔
وہ تو بعد میں پاؤں بھی پکڑ لیتے ہیں۔ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے: آپ کی حکومت ہے؛ آپ اُن پر مقدمہ بنا دیجیے۔ :) وہ تو اب براہ راست آپ کی دسترس میں ہیں۔ :) وزراتِ داخلہ آپ کے ما تحت ہے۔ اُن کے تین ادوار کا سب ریکارڈ آپ کے سامنے موجود ہے۔ :) انتقام کی آگ کے اندر سے بھی کچھ برآمد نہیں ہو رہا ہے تو پھر کیا نتیجہ نکالا جائے؟
 
Top