نواز شریف کی حالت تشویش ناک، جیل سے سروسز اسپتال منتقل

محمد وارث

لائبریرین
جاسم صاحب یہ ڈھیل ہے یا ڈیل ہے؟ کیا دھرنے کا ایک مقصد دھرنا شروع ہونے سے پہلے ہی پورا ہو رہا ہے؟ سنا ہے فضل الرحمان صاحب نے آرمی چیف سے ملاقات بھی کر لی ہے۔ اور پنجاب کی ڈاکٹر یاسمین صاحبہ نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر نواز شریف ملک سے باہر علاج کروانا چاہئیں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں!
 

جاسم محمد

محفلین
جاسم صاحب یہ ڈھیل ہے یا ڈیل ہے؟ کیا دھرنے کا ایک مقصد دھرنا شروع ہونے سے پہلے ہی پورا ہو رہا ہے؟ سنا ہے فضل الرحمان صاحب نے آرمی چیف سے ملاقات بھی کر لی ہے۔ اور پنجاب کی ڈاکٹر یاسمین صاحبہ نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر نواز شریف ملک سے باہر علاج کروانا چاہئیں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں!


بظاہر لگتا ہے ڈیل دینے والوں نے ڈھیل دے دی ہے۔ اس کے بدلہ نواز شریف اور ان کی شہزادی سیاست سے آؤٹ ہو جائیں گی۔ کیونکہ لوٹا ہوا پیسا واپس کرنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اگر ہم کھل کر کہیں تو مولانا کا دھرنا دراصل جنرل باجوہ اینڈ کمپنی کے خلاف ہے جو عمران حکومت کو لانے والے بھی ہیں اور شاید ان کو مزید کئی برس تک سپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں شبہ ہے کہ تمام جرنیل بھی ایک پیج پر موجود نہیں ہیں اور یہی بات سب سے زیادہ تشویش ناک ہے۔ کاش ایسا نہ ہو، تاہم، مولانا صاحب کی خود اعتمادی کے پیچھے کسی حد تک خفیہ سپورٹ معلوم ہوتی ہے اور شاید یہ دھرنا جنرل باجوہ کو انڈر پریشر لانے کے لیے دیا جا رہا ہے۔ تاہم، یہ معاملہ تبھی کھل کر سامنے آئے گا اگر وہ 'بہت بڑی تعداد' میں افراد اسلام آباد لانے اور نظامِ حکومت معطل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ صرف اسی صورت میں باجوہ صاحب کے رفقائے کار اپنی 'صلاح'دیں گے وگرنہ مولانا کے پاس بظاہر کوئی اور ترپ کا پتہ موجود نہیں ہے یا کم از کم ہمیں ان کی واضح کامیابی کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورت میں شاید وہ جلسہ وغیرہ کر کے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اصرار پر پلٹ جائیں گے، تاہم، دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے!
 

جاسم محمد

محفلین
اگر ہم کھل کر کہیں تو مولانا کا دھرنا دراصل جنرل باجوہ اینڈ کمپنی کے خلاف ہے جو عمران حکومت کو لانے والے بھی ہیں اور شاید ان کو مزید کئی برس تک سپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں شبہ ہے کہ تمام جرنیل بھی ایک پیج پر موجود نہیں ہیں اور یہی بات سب سے زیادہ تشویش ناک ہے۔ کاش ایسا نہ ہو، تاہم، مولانا صاحب کی خود اعتمادی کے پیچھے کسی حد تک خفیہ سپورٹ معلوم ہوتی ہے اور شاید یہ دھرنا جنرل باجوہ کو انڈر پریشر لانے کے لیے دیا جا رہا ہے۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ 'ملکی اداروں کو غیر جانبدار رہنا چاہیے اور کسی ریاستی ادارے کو نامزد حکومت کی پشت پر نہیں آنا چاہیے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اداروں سے جنگ کرنا نہیں چاہتے، اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ ادارے اس تاثر کو زائل کریں کہ حکومت کو ان کی پشت پناہی حاصل ہے اور ان سے جو غلطی ہوئی ہے اس کی تلافی کریں'۔
مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا
 

جاسم محمد

محفلین
تاہم، یہ معاملہ تبھی کھل کر سامنے آئے گا اگر وہ 'بہت بڑی تعداد' میں افراد اسلام آباد لانے اور نظامِ حکومت معطل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ صرف اسی صورت میں باجوہ صاحب کے رفقائے کار اپنی 'صلاح'دیں گے وگرنہ مولانا کے پاس بظاہر کوئی اور ترپ کا پتہ موجود نہیں ہے یا کم از کم ہمیں ان کی واضح کامیابی کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورت میں شاید وہ جلسہ وغیرہ کر کے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اصرار پر پلٹ جائیں گے، تاہم، دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے!
وہ جرنیل جو جرنل باجوہ کی ایکسٹینشن سے "متاثر" ہوئے ہیں، یہ دھرنا ان کی طرف سے آ رہا ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
شہباز شریف نے نواز شریف کو 2قیمے والے نان لا کر دیے جو نواز شریف نے کھائے، نواز شریف نے مکھڈی حلوہ اور قورمہ بھی کھایا: سمیع ابراہیم
ڈاکٹروں نے نواز شریف کو منع کیا تھا کہ برش نہ کریں لیکن انہوں نے برش کیا جس سے خون نکلنا شروع ہو گیا: سینئیر صحافی

pic_cdc0f_1552053663.jpg._1
عثمان خادم کمبوہ جمعہ 25 اکتوبر 2019 00:02
pic_116bd_1571846549.jpg._3


اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 24 اکتوبر2019ء) سینئیر صحافی سمیع ابراہیم نے انکشاف کیا ہے کہ کچھ کھانے پینے کی وجہ سے نواز شریف کی طبیعت خراب نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے نجی ٹیوی پروگرام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے نواز شریف کو 2قیمے والے نان لا کر دیے جو نواز شریف نے کھائے۔ سمیع ابراہیم نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف نے مکھڈی حلوہ اور قورمہ بھی کھایا، کھانے پینے کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب نہیں ہوئی۔ سینئیر صحافی نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے نواز شریف کو منع کیا تھا کہ برش نہ کریں لیکن انہوں نے برش کیا جس سے خون نکلنا شروع ہو گیا۔ اس سے قبل مشیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیماری کے حوالے سے کہا کہ نوازشریف کا مرغن غذاؤں کی وجہ سے کولیسٹرول بڑھا اور وہ بیمار ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے کا فیصلہ عمران خان نہیں ڈاکٹرز کریں گے۔

مشیرِ اطلاعات نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ قانون اور آئین کی بالادستی اور اداروں کی مضبوطی کا عزم دہرایا، ایمرجنسی اور زندگی کو لاحق خطرہ کی تشخیص ماہرین صحت نے کرنی ہے، محمد نواز شریف کی صحت کے حوالے سے عدالت جو بھی فیصلہ کریگی حکومت اس پر من و عن عملدآرمد کریگی،کوئی بھی فیصلہ کسی شخصیت کی خواہشات کے تابع نہیں ہوگا، گزشتہ 72 سال کے دوران اداروں کو کمزور اور تابع رکھا گیا ،نواز شریف کے پلیٹ لیٹس 20ہزار تک آگئے ہیں، ہر آنے والے دن اس میں بہتری آئے گی، صحت مند نواز شریف ہی ہم سب کے لئے اہم ہیں، اب مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی بیماری کی آڑ میں حکومت پر تنقید کی بجائے کوئی اور زریعہ تلاش کرے۔ دوسری جانب مریم نواز شریف کو نواز شریف کے پاس ہسپتال میں رہنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے مریم نواز کو ہسپتال میں رہ کر والد کی دیکھ بھال کرنے کی اجازت دینے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی خصوصی ہدایت سے متعلق پنجاب حکومت کو آگاہ کردیا گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نون لیگ کہاں ہے؟
خورشید ندیم

نواز شریف سیاست کے مقتل میں کھڑے ہیں اور ن لیگ وقت کی عدالت میں۔
ایک طرف نشترِ قاتل سے قطرہ قطرہ موت ٹپک اور رگِ جاں میں اتر رہی ہے۔ نواز شریف اس کی چاپ سن رہے ہیں جو لحظہ لحظہ قریب آتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ن لیگ کی صفوں میں کوئی اضطراب نہیں۔ وقت کے آبِ رواں پر اس کا سفینۂ حیات تیر رہا ہے۔ لہریں پُر سکون ہیں اور مسافر میٹھی نیند سو رہے ہیں۔
ایک حادثہ ہے جو ہماری سیاست پر گزر گیا۔ مولانا مودودی، ولی خان اور نواب زادہ نصراﷲ کیا رخصت ہوئے کہ ہماری اقدار ایک ایک کر کے یہاں سے ہجرت کر گئیں۔ کہتے ہیں‘ جہاں سے ایک بار دریا گزر جائے مدتوں زمین سیراب رہتی ہے۔ زوال کے دور میں بھی آنکھوں کی حیا باقی تھی۔ عمران خان حادثے کا شکار ہوئے تو نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کے رخشِ رواں کو لگام دی اور عیادت کو جا پہنچے۔ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو پر حملے کی خبر ملی تو نواز شریف ہسپتال کی طرف دوڑ پڑے تھے۔ ہم سب نے ان کو آب دیدہ دیکھا۔ پیپلز پارٹی میں بھی اس روایت کی جھلک موجود ہے۔
آج ہم سیاست کے 'دورِ عمران‘ میں زندہ ہیں۔ روایت، قدر، ہر شے بے معنی ہو چکی۔ جیسے کوئی سونامی، یادداشت سمیت، سب کچھ بہا لے جائے اور ایک نئے جزیرے پر ایک نئی بستی نمودار ہو، جس کے مکینوں کا کوئی ماضی نہ ہو۔ اس بستی میں سگا جواں سال چچا زاد بھائی موت کی وادی میں اتر گیا اور عمران خان اسلام آباد میں سالگرہ مناتے رہے۔ وقت کے پاس کوئی ایسا مرہم نہیں جو حفیظ اﷲ خان اور انعام اللہ خان کے سینے کا یہ زخم بھر سکے۔ قمر زمان کائرہ کا جواں سال بیٹا باپ کی آنکھوں کو ویران کر گیا اور انہوں نے فون ہی پر اکتفا کیا۔ خان صاحب کے دورِ اقتدار میں، اس لیے یہ توقع رکھنا کہ نواز شریف یا آصف زرداری سے انسانی بنیادوں پر معاملہ ہو گا، چیل کے گھونسلے میں ماس تلاش کرنا ہے۔
شکایت، اس لیے عمران خان سے نہیں، ن لیگ سے ہے۔ طبیب حیرت میں ہیں کہ نواز شریف بچ کیسے گئے۔ انسانی وجود میں پلیٹ لیٹس کی کم از کم مطلوب تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے۔ دو ہزار تک پہنچ جائے تو جسم و روح کے رشتے کا قائم رہنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی ایک معجزہ ہی تو ہے۔ عالم کا پروردگار جب چاہے، ایک 'کن‘ کی صدا سے دل کی دھڑکن خاموش ہو جائے۔ نواز شریف بچ نکلے، یہ الگ بات کہ انہیں موت کی دہلیز تک لے جانے والے کسی عدالت میں جواب دہ نہیں ہیں۔ قانون سب کے لیے برابر ہے مگر اس سب میں، وہ شامل نہیں جو اپنے تئیں زندگی اور موت کے فیصلے کرتے ہیں۔
شکایت تو ن لیگ سے ہے کہ سینیٹرز کی وہ فوج ظفر موج کہاں ہے جو بے نامی سے نکلے اور نواز شریف کی ایک جنبشِ ابرو سے قانون ساز ادارے تک جا پہنچے۔ کیا اُن پر لازم نہیں تھا کہ جب موت ان کے محسن سے ہم کلام تھی، وہ گھروں سے نکلتے اور اس کا ہاتھ تھامتے؟ کہاں ہیں آصف کرمانی جو 'وزیرِ اعظم‘ نواز شریف کی گاڑی کا دروازہ کھولنے کو باعث فخر سمجھتے تھے؟ کہاں گئی دلاور خان کی دلاوری؟ کہاں ہیں رانا محمودالحسن، رانا مقبول، حافظ عبدالکریم، پیر صابر شاہ، جنرل صلاح الدین ترمذی، جنرل عبدالقیوم، نزہت صادق، کلثوم پروین اور نہ جانے اور کتنے؟ اور تو اور چوہدری تنویر بھی بیرونِ ملک جا بسے۔
لے دے کے ایک پرویز رشید ہیں یا پھر مشاہداللہ خان جو سیاست کے مقتل میں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ احسن اقبال کہتے ہیں: نواز شریف کو کچھ ہوا تو عمران خان ذمہ دار ہوں گے؟ عمران خان ہی کیوں؟ احسن اقبال اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں: عمران خان ہی یا عمران خان بھی؟
عشق کی تیغِ جگر دار اڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
سنتے تو یہ بھی ہے کہ جنہیں بطلِ حریت سمجھا جاتا تھا، اب خیر سے مخبری کرتے ہیں۔ یا پھر شب کی آخری ساعتوں میں‘ جب خدا کے بندے اس کے حضور میں سجدہ ریز ہوتے ہیں، یہ 'مواحد‘ کسی اور چوکھٹ پہ جھکے ہوتے ہیں۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی اپنی اپنی صلیب اپنے کندھے پر اٹھائے مقتل میں کھڑے ہیں اور حواری کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ نواز شریف کو کیا سب کے گناہوں کا کفارہ تنہا ادا کرنا ہے؟
مسلم لیگ کی تاریخ یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں آسودہ رہتی ہے۔ عوامی چوپال اس کے لیے کبھی سازگار نہیں رہے۔ تاثر یہی رہا کہ یہ ایک خاص اعیانی کلچر کی نمائندہ ہے جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا ایک پڑاؤ ہے۔ لوگ اقتدار سے لطف اٹھانے آنے کے لیے یہاں ٹھہرتے ہیں۔ یہ آمروں کا پسندیدہ بازار رہا ہے جہاں سے ان کے لیے حسبِ ضرورت مال دستیاب ہوتا رہا ہے۔
نواز شریف نے سرمایہ دارانہ پس منظر کے باوجود اس کلچر کو بدل ڈالا۔ وہ اسے چوپال اور جرگے تک لے گئے، بھٹو صاحب کی طرح، جنہوں نے جاگیردار ہونے کے باوصف پیپلز پارٹی کو ایک عوامی جماعت بنایا۔ مسلم لیگ اب آمروں کی چراگاہ نہیں رہی۔ نواز شریف پر عوامی اعتماد نے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو بھی مجبور کیا کہ وہ مسلم لیگ سے وابستہ رہیں۔ ان ایوانوں کے آداب سے وہ پہلے ہی واقف تھے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے حکومت اور جماعت کے مناصب پر قبضہ کر لیا۔
نواز شریف اس کا پوری طرح ادراک نہ کر سکے کہ مسلم لیگ کی عوامی حمایت کو سیاسی طور پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے صحیح معنوں میں ایک عوامی جماعت بننا ہے تو اس کی عوامی سطح پر تنظیم ضروری ہے۔ انہوں نے سینیٹ کے ٹکٹ بھی کسی میرٹ پر نہیں دیے۔ اس کا انہیں نقصان ہوا۔ آج ان سینیٹرز میں دو تین کے سوا کوئی ان کے بیانیے کے ساتھ نہیں کھڑا۔ سب خاموش ہیں یا نوحہ خواں کہ نواز شریف نے انہیں بھی مصیبت میں پھنسا دیا۔ اگر عوام استقامت نہ دکھاتے تو یہ کب کے رخصت ہو چکے ہوتے۔
اور تو اور، سید مشاہد حسین بھی کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ نون لیگ ان کے علم و دانش سے محروم ہے۔ انہیں 'پاک چین دوستی‘ کے مشن ہی سے فرصت نہیں کہ وہ نواز شریف کی صحت کے بارے میں پریشان ہوں۔ قیادت کی سطح پر مسلم لیگ کی صفوں میں ایسی بے حسی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ کیا اس جماعت میں کوئی دوسرا رانا ثنااللہ نہیں ہے؟ کوئی دوسرا شاہد خاقان نہیں؟ میں جانتا ہوں کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ مقتل میں کھڑے لوگوں کا ساتھ دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کو اتنی توفیق بھی نہیں کہ وہ کسی مظلوم کے حق میں آواز اٹھا سکیں؟ مظلوم بھی وہ جو ان کا محسن ہے۔ جس نے انہیں لاشے سے ایک با معنی وجود بنا دیا۔
نون لیگ احتجاجی تحریک اٹھانے کا تمام اخلاقی جواز رکھتی ہے۔ اس کا مقدمہ ہے کہ اس پر انصاف کے دروازے بند کر دیے گئے۔ عوام سے مخاطب ہونے کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ اس نے حکومت کو ایک میثاقِ معیشت کی پیش کش کی۔ شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں تعاون کی بات کی جسے زبانِ حال سے مسترد کر دیا گیا۔ اب اگر وہ احتجاج نہ کریں تو کیا کریں؟ افسوس کہ ن لیگ کے یہ سینیٹر اور ارکانِ اسمبلی یہ سادہ مقدمہ بھی پیش نہ کر سکے۔
ن لیگ معرضِ امتحان میں ہے۔ سوال اٹھے گا کہ جب نواز شریف اور مریم نواز استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے تھے، نون لیگ کی قیادت کس حال میں تھی؟ سر افگندہ یا سر بکف؟ وقت کی عدالت کو اس کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ لیگیوں کو سوچنا ہو گا کہ وہ اس عدالت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں یا پھر مسلم لیگ کی تاریخ دہرانا چاہتے ہیں؟ اگر بے حسی اسی طرح غالب رہی تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ مورخ لکھے گا کہ ٹیپو سلطان اور میر جعفر کی داستان، اکیسویں صدی میں ایک بار پھر دھرائی گئی، بس اتنی تبدیلی کے ساتھ کہ ٹیپو سطان تو چند ایک ہی تھے مگر میر جعفروں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وہ جرنیل جو جرنل باجوہ کی ایکسٹینشن سے "متاثر" ہوئے ہیں، یہ دھرنا ان کی طرف سے آ رہا ہے :)
اگر آپ پاکستان آرمی کی تاریخ اور ان کے "فائبر" سے واقف ہیں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ آرمی چیف کے بعد صرف ایک جنرل یعنی آئی ایس آئی کا چیف ایسی حرکت کر سکتا ہے جو کہ ایک طرح سے آرمی چیف کے ماتحت ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی۔ اور اگر کبھی آرمی چیف کو لگے کہ آئی ایس آئی اس سے زیادہ وزیر اعظم کی وفادار ہو گئی ہے تو آئی ایس آئی کا فوج میں "بائیکاٹ" ہو جاتا ہے اور ایم آئی ان کاموں کے لیے فعال ہو جاتی ہے۔ وگرنہ جی ایچ کیو میں موجود دوسرے جنرلز یا کور کمانڈرز اس طرح کی حرکت نہیں کرتے۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں وہ کھل کر بات ضرور کرتے ہیں لیکن پھر ہوتا وہی ہے جو چیف فیصلہ کرتا ہے۔ میجر جنرل اکبر نے راولپنڈی سازش کیس میں چیف کو بائی پاس کر کے ایسا صرف سوچا ہی تھا اور وہ پکڑا گیا۔ میجر جنرل ظہیر السلام نے ایک دو بریگیڈیئرز بھی ساتھ ملا لیے تھے اور اسلحہ بھی خرید لیا تھا، اس کا پلان پوری کور کمانڈرز کانفرنس اڑانے کا تھا کیونکہ اسے علم تھا کہ کوئی کور کمانڈر چیف کے خلاف اس کا ساتھ نہیں دے گا، وہ بھی پکڑا گیا۔

اس لیے اگر دھرنے کے پیچھے آپ کوئی باوردی ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں یا ڈھونڈ لیا ہے تو اسے پہچاننے کی کوشش کریں کہ کہیں کوئی شناسا "دستِ شفقت" ہی نہ ہو!
 

فرقان احمد

محفلین
اگر آپ پاکستان آرمی کی تاریخ اور ان کے "فائبر" سے واقف ہیں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ آرمی چیف کے بعد صرف ایک جنرل یعنی آئی ایس آئی کا چیف ایسی حرکت کر سکتا ہے جو کہ ایک طرح سے آرمی چیف کے ماتحت ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی۔ اور اگر کبھی آرمی چیف کو لگے کہ آئی ایس آئی اس سے زیادہ وزیر اعظم کی وفادار ہو گئی ہے تو آئی ایس آئی کا فوج میں "بائیکاٹ" ہو جاتا ہے اور ایم آئی ان کاموں کے لیے فعال ہو جاتی ہے۔ وگرنہ جی ایچ کیو میں موجود دوسرے جنرلز یا کور کمانڈرز اس طرح کی حرکت نہیں کرتے۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں وہ کھل کر بات ضرور کرتے ہیں لیکن پھر ہوتا وہی ہے جو چیف فیصلہ کرتا ہے۔ میجر جنرل اکبر نے راولپنڈی سازش کیس میں چیف کو بائی پاس کر کے ایسا صرف سوچا ہی تھا اور وہ پکڑا گیا۔ میجر جنرل ظہیر السلام نے ایک دو بریگیڈیئرز بھی ساتھ ملا لیے تھے اور اسلحہ بھی خرید لیا تھا، اس کا پلان پوری کور کمانڈرز کانفرنس اڑانے کا تھا کیونکہ اسے علم تھا کہ کوئی کور کمانڈر چیف کے خلاف اس کا ساتھ نہیں دے گا، وہ بھی پکڑا گیا۔

اس لیے اگر دھرنے کے پیچھے آپ کوئی باوردی ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں یا ڈھونڈ لیا ہے تو اسے پہچاننے کی کوشش کریں کہ کہیں کوئی شناسا "دستِ شفقت" ہی نہ ہو!
آپ کی بات بالکل درست ہے کہ جی ایچ کیو میں موجود دیگر جرنیل یا کور کمانڈرز آرمی چیف کے حکم پر ہی عمل درآمد کرتے ہیں تاہم آرمی چیف کی رائے بدلنے کی تدابیر ضرور اختیار کی جا سکتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے حالیہ بیانات اور شہر اقتدار میں جاری چہ مگوئیاں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ باجوہ ڈاکٹرائن کو کسی حد تک چیلنج ضرور کیا گیا ہے۔ وہ جرنیل جو اب نہیں بول رہے ہیں، وہ حالات کی خرابی پر کم از کم کور کمانڈرز کانفرنس میں اپنے چیف کو 'نیک صلاح' تو دے ہی سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں آرمی چیف کا مزاج بھی موسم کی طرح ہوتا ہے۔ شاید مولانا کو تنکے کا ہی سہارا ہے، مگر وہ یہ چانس لینا چاہتے ہیں وگرنہ باجوہ صاحب کا اگلا شکار غالباََ مولانا ہی تھے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کی بات بالکل درست ہے کہ جی ایچ کیو میں موجود دیگر جرنیل یا کور کمانڈرز آرمی چیف کے حکم پر ہی عمل درآمد کرتے ہیں تاہم آرمی چیف کی رائے بدلنے کی تدابیر ضرور اختیار کی جا سکتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے حالیہ بیانات اور شہر اقتدار میں جاری چہ مگوئیاں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ باجوہ ڈاکٹرائن کو کسی حد تک چیلنج ضرور کیا گیا ہے۔ وہ جرنیل جو اب نہیں بول رہے ہیں، وہ حالات کی خرابی پر کم از کم کور کمانڈرز کانفرنس میں اپنے چیف کو 'نیک صلاح' تو دے ہی سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں آرمی چیف کا مزاج بھی موسم کی طرح ہوتا ہے۔ شاید مولانا کو تنکے کا ہی سہارا ہے، مگر وہ یہ چانس لینا چاہتے ہیں وگرنہ باجوہ صاحب کا اگلا شکار غالباََ مولانا ہی تھے۔
جی ہاں اس بات کے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں سبھی جنرلز کھل کر بات کرتے ہیں اور ان میں اختلاف رائے بھی ہوتا ہے اور وہیں پر فیصلے ہوتے ہیں لیکن یہ انکی روایت ہے کہ ایک بار جو فیصلہ وہ کر لیتے ہیں اس پر سبھی آمین کہتے ہیں اور بعد میں اس سے اختلاف یا انحراف نہیں کرتے۔

باقی شکاری اور شکار کے بارے میں کچھ کہنا "باہر" والوں کی محض قیاس آرائیاں ہیں کیونکہ 'دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا'۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
نواز شریف کی ضمانت ہو گئی!
نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور

لاہور ہائی کورٹ نے نوازشریف کی چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت کی درخواست طبی بنیاد پر منظور کرلی۔

لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نوازشریف اور مریم نواز کی چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے مریم نواز کی ضمانت کی درخواست پر پیر کو جواب طلب کر لیا، جبکہ نواز شریف کی درخواست ضمانت پر کارروائی 10 منٹ تک کیلئے ملتوی کر دی تھی۔
کیس کی سماعت دو بار تھوڑی تھوڑی دیر کے لیےملتوی ہوئی، پہلی بار سمز کے پرنسپل سے نواز شریف کی صحت سے متعلق تازہ رپورٹ پیش کرنے کے لیے ملتوی ہوئی تو دوسری بار عدالت نے درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرکے سماعت ملتوی کی تھی۔

کیس کی سماعت کے دوران ڈاکٹر محمود ایاز نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی اور بتایا کہ نواز شریف کی بیماری کی تشخیص کچھ حد تک ہوچکی ہے، تاہم ابھی مکمل تشخیص نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ رات نوازشریف کے سینے میں تکلیف ہوئی اوربازوں میں بھی تکلیف ہوئی، عدالت نے سوال کیا کہ کیا نواز شریف کی جان خطرے میں ہے؟ جس پر ڈاکٹر محمود ایاز نے کہا کہ جی نواز شریف کی طبیعت تشویشناک ہے۔

ڈاکٹر محمود ایاز نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف تب سفر کر سکتے ہیں جب ان کے پلیٹ لیٹس 30 ہزار ہوں گے، جج نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ کیا آپ اس درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں ؟

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ اگر نواز شریف کی صحت خطرے میں ہے تو ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے ۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر نواز شریف کی سزا معطلی درخواست
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی سزا معطلی کے لئے شہباز شریف کی درخواست پر بھی سماعت جسٹس عامرفاروق اورجسٹس محسن اخترکیانی نے کی۔

جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کی میڈیکل پوزیشن جاننے کے حوالے سے ڈاکٹرز بہتر ججز ہیں۔

جسٹس محسن اختر نے ریمارکس میں کہا کہ ہم میڈیکل ایکسپرٹ نہیں لیکن ڈاکٹر کو بتانا ہوگا کہ ان کی جان کوخطرہ ہے جب کہ نواز شریف کو ضمانت قانونی طور پر نہیں مل سکتی۔

انہوں نے ریمارکس میں کہا کہ نوازشریف کی میڈیکل صورتحال کے مطابق ہم درخواست دیکھ رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی تفصیلی اور تازہ میڈیکل رپورٹس طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کردی۔

شہباز شریف کی والدہ کے ہمراہ سروسز اسپتال آمد
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کے لیے مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف اور ان کی والدہ سروسز اسپتال پہنچ گئیں ۔

ذرائع کے مطابق شہباز شریف اور والدہ نے سروسز اسپتال میں نوازشریف سے ملاقات کی اور ان کی عیادت کی ہے۔

مریم نواز شریف کو سروسز اسپتال پہنچا دیا گیا
مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف کو لاہور کے سروسز اسپتال پہنچا دیا گیا ہے، جہاں اُن کے ٹیسٹ کیے جائیں گے۔

ذرائع کے مطابق مریم نواز اپنے والد نواز شریف کی تیمار داری بھی کریں گی جبکہ مریم نواز کو نواز شریف کے ساتھ والے کمرے میں رکھا جائے گا۔


نوازشریف کو کوئی کینسر نہیں، پروفیسر طاہرسلطان شمسی
ماہرامراض ہیماٹالوجسٹ پروفیسر طاہرسلطان شمسی نے کہا ہے کہ خوشی کی بات یہ ہے کہ نوازشریف کی بیماری کی تشخیص ہوگئی، نواز شریف کو کینسر نہیں ہے، ان کا بون میرو مکمل فنکشنل ہے۔

ڈاکٹر طاہر شمسی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ نوازشریف کا بون میرو جانچنے کیلئے ٹیسٹ کیا گیا، ان کا مرض قابلِ علاج ہے، خوشی کی بات ہے کہ انہیں بون میرو کا کوئی کینسر نہیں ہے۔

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ آئی ٹی پی بیماری عموماً بچوں اورکچھ کیسزمیں بڑی عمر کے لوگوں کوہو جاتی ہے جس کی ریکوری دو میں سے کسی ایک دوا سے ممکن ہوتی ہے۔

واضح رہےکہ سابق وزیر اعظم نوازشریف کے پلیٹیلیٹس میں اچانک غیر معمولی کمی واقع ہوگئی تھی جس کے باعث ان کی حالت تشویشناک ہوگئی، ان کے خون کے نمونوں میں پلیٹیلیٹس کی تعداد 16 ہزار رہ گئی تھی جو اسپتال منتقلی تک 12 ہزار اور پھر خطرناک حد تک گرکر 2 ہزار تک رہ گئی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
7دن میں پلیٹ لیٹس نارمل نہ ہونے پر نوازشریف کے بون میروٹیسٹ کا امکان
طفیل احمد جمع۔ء 25 اکتوبر 2019
1855008-nawazsharifjailed-1571952425-243-640x480.jpg

میڈیکل بورڈ کے ماہرین نے نوازشریف کے پلیٹ لیٹ کم ہونے پر آئی وی آئی جی علاج شروع کردیا۔ فوٹو:فائل


کراچی: حکومت کو جہاں اپوزیشن کے ممکنہ دھرنے کا سامنا ہے وہاں حکمراں جماعت کو نواز شریف کی بیماری سے بھی تشویش لاحق ہوگئی۔

حکومت نے نواز شریف کو بہترین صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کیلیے حکومت پنجاب کوہدایت جاری کردیں اورحکومت نے وزیرصحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین کونوازشریف کی صحت سے متعلق درست معلومات کیلیے فوکل پرسن بھی مقررکیا ہے، نوازشریف کے پلیٹ لیٹ کم ہونے پرحکومت کو شدید دباؤ کا سامنا اور تشویش بھی پائی جاتی ہے۔

جمعرات کوصبح نوازشریف کے میڈیکل بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں رپورٹس کا جائزہ لیا گیا، ابتدائی طبی رپورٹس کے مطابق نواز شریف کے بون میروکو نارمل قرار دیا گیا، نوازشریف کے خون کے ٹیسٹ میں اے پلاسٹک اینیمیا کی رپورٹ بھی نارمل آئی ہے جبکہ HaemogolobinاورWBC اورReticulocutes کی بھی رپورٹ میں نارمل ہیں۔

تاہم انھیںAcutc ITP کی تشخیص کی گئی ہے یہ مرض پاکستان میں قابل علاج ہے اس مرض میں نوازشریف کو جمعرات سے انجکشن کے ذریعے ٰIVIG علاج شروع کردیاگیا ہے، (آئی وی آئی جی)کو طبی زبان میں Intravenous Immunoglobilinکہاجاتا ہے، نواز شریف میڈیکل بورڈ کے ماہرین نے نوازشریف کے پلیٹ لیٹ کم ہونے پر IVIG علاج شروع کردیا۔
 
Top