العزیزیہ کیس: نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور
Last Updated On 26 October,2019 06:54 pm
اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ میں العزیزیہ کیس میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صحت سے متعلق دائر ضمانت کی درخواست منظور کر لی۔ ن لیگی قائد کی طبی بنیادوں پر منگل تک عبوری ضمانت منظور کر لی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا معطلی کے لیے شہباز شریف کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی، جسٹس عامر فاروق کو چھٹی پر ہونے کے باعث بینچ کا حصہ نہیں تھے۔
فیصلے میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف 20.20 لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے حکومت کو تمام قانونی گنجائشیں بتا دیں۔ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں۔ رپورٹ رجسٹرار ہائیکورٹ جمع کرائی جائے۔ وفاقی حکومت پوچھے کہ بیمار قیدیوں سے متعلق صوبائی حکومتوں نے کیا اقدامات کئے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سیکرٹری داخلہ پندرہ دن میں رپورٹ جمع کرائیں۔ رپورٹ میں بتایا جائے کہ کتنے قیدی دوران قید صوبائی حکومت کے اختیارات پر عمل نہ کرنے پر انتقال کرگئے۔ ہم نے حکومت کو تمام قانونی گنجائشیں بتائیں۔ سیکرٹری داخلہ دو ہفتوں میں صوبائی حکومتوں سے جواب آنے کے بعد رپورٹ دیں۔
فیصلے میں قیدیوں سے متعلق عدالتی حکم پر عملدرآمد سے متعلق حکومت سے جواب طلب کر لیا گیا، فیصلے میں کہا گیا کہ جب عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پوچھا کہ سیکشن 143 کے تحت انہوں نے کیا اقدامات کیئے دونوں حکومتیں جواب نہ دے سکیں۔
تیسری بار کیس کی سماعت
قبل تیسری بار کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے پنجاب حکومت کے نمائندے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کہتے تو درخواست خارج کر دیتے ہیں، آپ مخالفت کرتے ہیں تو ذمہ داری آپ کی ہو گی۔ درخواست ضمانت پر عدالت میں ہاں یا ناں کا جواب دیں۔ آپ درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں تو درخواست مسترد کر دیتے ہیں، ہم وزیراعلیٰ پنجاب کو طلب کر لیتے ہیں، عدالت کے ساتھ فیئر رہیں۔ وفاقی حکومت کی یہ حالت ہے کہ انکا اپنا بورڈ ہے مگر زمہ داری نہیں لے رہے اگر آپ زمہ داری نہیں لے رہے تو کچھ خرابی ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ پنجاب کا کہنا تھا کہ طبی بنیاد پر دائر درخواست کی ذمہ داری ہم نہیں لے سکتے، ہم نوازشریف کی صحت کی ذمہ داری نہیں لیتے، آپ میرٹ پر فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کورٹ کے ساتھ سیاست نا کھیلی جائے۔
نمائندہ پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ تمام معاملے پر وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت معاملات کی ذمہ داری نہیں ہو گی۔ اگر نواز شریف کو کچھ ہو جاتا ہے تو آپ ذمہ دار ہونگے۔ میڈیکل بورڈ آپ کا ہے آپ نے بتانا ہے۔ ہمیں ہاں یا ناں میں جواب دیں۔ آپ ریاست ہیں۔ دیگر ہزاروں قیدیوں سے متعلق آپ کیا کہیں گے، ہر کوئی ہمیں الزام دے رہا ہے، یہ کام ریاست کا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون میں یہ ذمہ داری حکومت کی ہے، اگر کل کو علاج کرانے کے لیے باہر جانا پڑتا ہے تو کون ای سی ایل سے نام نکالے گا۔ جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام شہریوں کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ رول 143 واضح ہے کہ حکومت کو ایسے معاملات میں قیدی کو رہا کرنے کا اختیار ہے۔
دوسری بار کیس کی سماعت
دوسری باری کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈیل کے حوالے سے طلب کیے گئے اینکرز پرسنز کو روسٹرم پر بلایا، اس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ بڑی معذرت کے ساتھ اینکرز کو بلایا ہے۔ اینکرز اپنے تحریری جواب داخل کرائیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ افسوس ہوتا ہے جب آپ ڈیل سے متعلق بات کرتے ہیں، بہت تحمل کا مظاہرہ کیا گیا جب ڈیل کی باتیں کی گئیں۔ اس سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے، کیس بعد میں آتا ہے میڈیا ٹرائل پہلے ہو جاتا ہے، سوشل میڈیا پر ججز کا ٹرائل کیا جاتا ہے، عدلیہ ایک معتبر ادارہ ہے، قانون کے مطابق سیاسی کیسز سنتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے دوران کیس ریمارکس دیئے کہ کیا ججز اپنے حلف کے پابند نہیں رہے، ججز کسی کے قابل رسائی نہیں، عدلیہ ایک ادارہ ہے، ہم اپنے حلف کی پاسداری کریں گے۔ کیا ادارے ڈیل کا حصہ ہے؟ کیا دوسرے اور وزیراعظم ڈیل کا حصہ ہیں۔ منتخب وزیراعظم کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ حساس اداروں کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے دوران کیس ریمارکس دیئے کہ میڈیکل کی بنیاد پر ضمانت کی درخواست عدالت میں نہیں آنی چاہیے، میڈیکل بورڈ نے کہا نوازشریف کی بیماری جان لیوا ہے۔ طبی بنیادپردرخواست ضمانت عدالت میں نہیں آنی چاہیے۔ میڈیکل بورڈنےکہاکہ نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے۔ یہ نواز شریف کا مقدمہ نہیں ہے، ایسے بھی لوگ ہیں جو درخواست نہیں لکھ سکتے، پنجاب حکومت نے اب تک کیا کیا۔ ہر بندہ کہہ رہا ہے عدالت ذمہ دار ہے۔ ہر بندہ کہہ رہا ہے جو عدالت کہے گی وہ حکومت کرے گی۔ ان لوگوں کا کیا بنے گا جو عدالت نہیں آ سکتے۔
اس دوران وکیل پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ مجھے پنجاب حکومت سے ہدایات لینے دیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت خود فیصلہ کیوں نہیں کرتی، پنجاب حکومت اگر صحت سے مطمئن ہے تو بیان حلفی دیں۔ ہم ٹال مٹول والا رویہ بالکل برداشت نہیں کرینگے، پنجاب حکومت ان کے لیے کیا کیا جو جیلوں میں علاج نہ ملنے پر مر گئے، اس کا بھی جواب دیا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نیب کی حراست میں ہیں، نیب ضمانت کی مخالفت کرتا ہے تو بیان حلفی دے۔اس دوران نیب پراسیکیوٹر کو آدھے گھنٹے میں ہدایت لینے کا حکم دیا گیا۔
کیس کی سماعت کے دوران بنچ کے دوسرے رکن جسٹس محسن اختر کیانی نے چیئر مین پیمرا کی جانب سے عدالت میں پیش نہ ہونے پر سختی برہمی کا اظہار کیا۔ دوران کیس چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ چیئر مین پیمرا کہاں ہیں؟ ادارے کے نمائندے نے جواب دیا کہ وہ شہر سے باہر ہیں جس پر فاضل بنچوں نے سختی برہمی کا اظہار کیا۔
کیس کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے پیمرا نمائندے کو جھاڑ بھی پلا دی۔ اس دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے موقف اختیار کیا کہ پیمرا والے آپ نے دیکھا رات کے پروگرام میں کیا تماشا بنا ہوا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پیمرا نے ابتک کتنے ایکشن لیے؟ عدالت پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے، پیمرا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ لوگ کہاں ہیں؟ ساری قوم کو ذہنی مریض بنا دیا ہے آپ نے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکرٹری داخلہ کو روسٹرم پر بلایا گیا اور انہیں کوپرزن رولز پڑھنے کی ہدایت بھی کی گئی۔
پہلی بار کیس کی سماعت
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کی صحت سے متعلق عدالت میں نئی رپورٹ پیش کی گئی تھی، عدالت نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، چیئرمین نیب کو نوٹس جاری کیا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کی۔
وکلاء نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی کاپی عدالت میں پیش کی، جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا فریقین نے مخالفت کی، جس پر وکیل نے جواب دیا زیادہ مخالفت نہیں کی، نواز شریف کو معمولی ہارٹ اٹیک ہوا ہے، کل کے بعدان کی طبعیت مزید خراب ہوئی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ڈویژن بنچ نے اس معاملے کو منگل کے لیے رکھا ہے، سزا یافتہ قیدی کے معاملے میں صوبائی حکومت کو اختیار ہے وہ سزا معطل کرسکتی ہے، یہ بتا دیں کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں کیا ایمرجنسی ہے، فریقین اور پنجاب حکومت کو بلاکر پوچھ لیتے ہیں، ایسی صورت میں معاملہ عدالت میں نہیں آنے چاہیے۔
دوسری جانب نواز شریف کی طبیعت بددستور ناساز ہے، سابق وزیراعظم کے دل کے ٹیسٹ ٹروپ ٹی اور ٹروپ آئی کی رپورٹ پازیٹو آئی، رپورٹ پازیٹو آنے کا مطلب ہارٹ اٹیک کی ابتدائی علامات کا ظاہر ہونا ہے، فوری طور پر خون پتلا کرنے والی دوائی کا استعمال شروع کرا دیا گیا۔
ہسپتال ذرائع کے مطابق ایک طرف نواز شریف کو پلیٹ لیٹس کی کمی جبکہ دوسری طرف دل کے عارضہ کا پرانا مسئلہ ہے، نواز شریف 18 سال سے دل کے عارضے میں مبتلا ہیں، سابق وزیراعظم 10 سال سے شوگر اور بلڈ پریشر کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں۔ نواز شریف کی ایکو کارڈیو گرافی نارمل اور ای سی جی کی رپورٹ بہتر ہے۔
میڈیکل بورڈ کی جانب سے نواز شریف کو انجائنا کی درد کی وجہ سے دل کے ٹیسٹ تجویز کیے گئے تھے، نواز شریف کی 2 دفعہ انجیو پلاسٹی اور 2 دفعہ اوپن ہارٹ سرجری بھی ہو چکی ہے، نواز شریف کو گردوں، کولیسٹرول اور جوڑوں کے درد کا بھی سامنا ہے۔