جاسم محمد
محفلین
معلوم نہیں اب جاتی امرا میں کس جج کو خریدنے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔
نواز شریف سروسز ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد جاتی امرا پہنچ گئے
ویب ڈیسک | عدنان شیخ | کنزہ ملکاپ ڈیٹ 06 نومبر 2019
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف سروسز ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد جاتی امرا میں واقع اپنی رہائش گاہ پہنچ گئے۔
قبل ازیں لاہور کی احتساب عدالت سے رہائی کے روبکار جاری ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو چوہدری شوگر ملز کیس ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
جس کے بعد نواز شریف کو مریم نواز کے ہمراہ شریف سٹی ہسپتال منتقل کیا جانے کی اطلاعات سامنے آئیں تھیں۔
شریف سٹی میڈیکل ہسپتال کی ایمبولینس میں نواز شریف کے ہمراہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر بھی موجود تھے۔
تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے نواز شریف کی صحت سے متعلق بیان میں کہا کہ 'نواز شریف کے علاج کے لیے ان کی رہائش گاہ پر انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) قائم کیا گیا ہے'۔
مریم اورنگزیب نے بتایا کہ نواز شریف کی صحت کی نازک صورتحال کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کی ملاقاتوں پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے مریم نواز کو والد کی صحت سے متعلق سخت حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ترجمان مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ آئی سی یو میں وینٹی لیٹر (مصنوعی تنفس) اور کارڈیک کی سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ نواز شریف کے پلیٹلیٹس کی تعداد کم ہونے کے باعث نواز شریف کو انفیکشن ہونے کا شدید خطرہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹرز نے طبی خطرات کے پیش نظر نوازشریف کے لیے گھر پر خصوصی میڈیکل یونٹ بنانے کی تجویز دی تھی۔
ترجمان مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ڈاکٹر عدنان کی زیر نگرانی شریف میڈیکل سٹی ہسپتال نے نوازشریف کی رہائش گاہ پر انتہائی نگہداشت یونٹ قائم کیا، آئی سی یو یونٹ میں ڈاکٹرز 24 گھنٹے موجود رہیں گے۔
گزشتہ روز نواز شریف کو ان کی رضامندی سے ڈسچارج کیا گیا تھا اور انہیں شریف میڈیکل سٹی منتقل کیا جانا تھا تاہم ان کی صاحبزادی کے روبکار جاری نہ ہونے کی وجہ سے سابق وزیراعظم نے اپنی روانگی میں تاخیر کا فیصلہ کیا تھا تاکہ دونوں ایک ساتھ ہسپتال سے جاسکیں۔
نواز شریف کی خرابی صحت
خیال رہے کہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کی صحت اچانک خراب ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے بعد انہیں قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست سے لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد کے پلیٹلیٹس خطرناک حد تک کم ہوگئے تھے جس کے بعد انہیں ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کی گئی تھیں۔
سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر محمود ایاز کر رہے ہیں جبکہ اس بورڈ میں سینئر میڈیکل اسپیشلسٹ گیسٹروم انٹرولوجسٹ، انیستھیزیا اور فزیشن بھی شامل ہیں۔
بعد ازاں اس میڈیکل بورڈ میں نواز شریف کے ذاتی معالج سمیت مزید دیگر ڈاکٹرز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔
طبیعت کی ناسازی کو دیکھتے ہوئے نواز شریف کے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی ضمانت کے لیے 2 درخواستیں دائر کی تھیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی نیب حراست سے رہائی سے متعلق تھی، جس پر 25 اکتوبر کو سماعت کی تھی اور اس کیس میں ایک کروڑ روپے کے 2 مچلکوں کے عوض نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے سزا 8 ہفتوں کے لیے معطل کردی تھی۔
بیرون ملک علاج سے متعلق قیاس آرائیاں
قبل ازیں ماہرین پر مشتمل ٹیم اب تک کوششوں میں مصروف ہے کہ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے پلیٹلیٹس میں اچانک کمی کی وجہ جان سکیں۔
تاہم ساتھ ہی یہ قیاس آرائیاں جارہی ہیں کہ نواز شریف کو علاج کے لیے بیرونِ ملک لے جایا جاسکتا ہے جہاں ان کا مزید بہتر علاج ہوسکے۔
دوسری جانب لیگی رہنماؤں نے یہ کہتے ہوئے اس امکان کو مسترد کردیا تھا کہ ان کی صحت کی صورتحال بہتر ہونے سے پہلے یہ ممکن نہیں۔
26 اکتوبر کو وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا تھا کہ سابق وزاعظم نواز شریف کو انجائنا کی تکلیف ہوئی اور معمولی ہارٹ اٹیک آیا لیکن بروقت طبی سہولت کی وجہ سے دل کا کوئی حصہ متاثرہ نہیں ہوا۔
یہ بات بھی مدنظر رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف کی صحت کے حوالے سے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو انہیں علاج کی بہترین سہولیات کی فراہمی کی ہدایت کی تھی۔
وزیراعظم نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو خصوصی طور پر ہدایات جاری کی تھیں کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کی جائی
نواز شریف سروسز ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد جاتی امرا پہنچ گئے
ویب ڈیسک | عدنان شیخ | کنزہ ملکاپ ڈیٹ 06 نومبر 2019
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف سروسز ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد جاتی امرا میں واقع اپنی رہائش گاہ پہنچ گئے۔
قبل ازیں لاہور کی احتساب عدالت سے رہائی کے روبکار جاری ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو چوہدری شوگر ملز کیس ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
جس کے بعد نواز شریف کو مریم نواز کے ہمراہ شریف سٹی ہسپتال منتقل کیا جانے کی اطلاعات سامنے آئیں تھیں۔
شریف سٹی میڈیکل ہسپتال کی ایمبولینس میں نواز شریف کے ہمراہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر بھی موجود تھے۔
تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے نواز شریف کی صحت سے متعلق بیان میں کہا کہ 'نواز شریف کے علاج کے لیے ان کی رہائش گاہ پر انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) قائم کیا گیا ہے'۔
مریم اورنگزیب نے بتایا کہ نواز شریف کی صحت کی نازک صورتحال کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کی ملاقاتوں پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے مریم نواز کو والد کی صحت سے متعلق سخت حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ترجمان مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ آئی سی یو میں وینٹی لیٹر (مصنوعی تنفس) اور کارڈیک کی سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ نواز شریف کے پلیٹلیٹس کی تعداد کم ہونے کے باعث نواز شریف کو انفیکشن ہونے کا شدید خطرہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹرز نے طبی خطرات کے پیش نظر نوازشریف کے لیے گھر پر خصوصی میڈیکل یونٹ بنانے کی تجویز دی تھی۔
ترجمان مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ڈاکٹر عدنان کی زیر نگرانی شریف میڈیکل سٹی ہسپتال نے نوازشریف کی رہائش گاہ پر انتہائی نگہداشت یونٹ قائم کیا، آئی سی یو یونٹ میں ڈاکٹرز 24 گھنٹے موجود رہیں گے۔
گزشتہ روز نواز شریف کو ان کی رضامندی سے ڈسچارج کیا گیا تھا اور انہیں شریف میڈیکل سٹی منتقل کیا جانا تھا تاہم ان کی صاحبزادی کے روبکار جاری نہ ہونے کی وجہ سے سابق وزیراعظم نے اپنی روانگی میں تاخیر کا فیصلہ کیا تھا تاکہ دونوں ایک ساتھ ہسپتال سے جاسکیں۔
نواز شریف کی خرابی صحت
خیال رہے کہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کی صحت اچانک خراب ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے بعد انہیں قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست سے لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد کے پلیٹلیٹس خطرناک حد تک کم ہوگئے تھے جس کے بعد انہیں ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کی گئی تھیں۔
سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر محمود ایاز کر رہے ہیں جبکہ اس بورڈ میں سینئر میڈیکل اسپیشلسٹ گیسٹروم انٹرولوجسٹ، انیستھیزیا اور فزیشن بھی شامل ہیں۔
بعد ازاں اس میڈیکل بورڈ میں نواز شریف کے ذاتی معالج سمیت مزید دیگر ڈاکٹرز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔
طبیعت کی ناسازی کو دیکھتے ہوئے نواز شریف کے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی ضمانت کے لیے 2 درخواستیں دائر کی تھیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی نیب حراست سے رہائی سے متعلق تھی، جس پر 25 اکتوبر کو سماعت کی تھی اور اس کیس میں ایک کروڑ روپے کے 2 مچلکوں کے عوض نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے سزا 8 ہفتوں کے لیے معطل کردی تھی۔
بیرون ملک علاج سے متعلق قیاس آرائیاں
قبل ازیں ماہرین پر مشتمل ٹیم اب تک کوششوں میں مصروف ہے کہ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے پلیٹلیٹس میں اچانک کمی کی وجہ جان سکیں۔
تاہم ساتھ ہی یہ قیاس آرائیاں جارہی ہیں کہ نواز شریف کو علاج کے لیے بیرونِ ملک لے جایا جاسکتا ہے جہاں ان کا مزید بہتر علاج ہوسکے۔
دوسری جانب لیگی رہنماؤں نے یہ کہتے ہوئے اس امکان کو مسترد کردیا تھا کہ ان کی صحت کی صورتحال بہتر ہونے سے پہلے یہ ممکن نہیں۔
26 اکتوبر کو وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا تھا کہ سابق وزاعظم نواز شریف کو انجائنا کی تکلیف ہوئی اور معمولی ہارٹ اٹیک آیا لیکن بروقت طبی سہولت کی وجہ سے دل کا کوئی حصہ متاثرہ نہیں ہوا۔
یہ بات بھی مدنظر رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف کی صحت کے حوالے سے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو انہیں علاج کی بہترین سہولیات کی فراہمی کی ہدایت کی تھی۔
وزیراعظم نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو خصوصی طور پر ہدایات جاری کی تھیں کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کی جائی