زرقا، آپ جس نقطہء نظر کے حق میں ہیں اس کی حمایت کا آپ کو پورا حق ہے مگر نیب کی جانب سے ان ریمارکس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ نواز شریف نادہندہ ثابت ہوگئے ہیں۔ جس ریفرنس نمبر کے حوالے سے نیب نے اسٹے کی بات کی ہے، اس مقدمے کو اکتوبر 2011ء میں شریف خاندان لاہور ہائیکورٹ میں لے کر گیا تھا اور اس پر ایک سال بعد یعنی اکتوبر 2012ء میں لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بنچ میں جسٹس خواجہ امتیاز احمد اور جسٹس محمد فرخ عرفان خان کے سامنے بحث ہوئی تھی اور اس وقت شریف خاندان نے عدالت کے سامنے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ بارہ برس سے ان مقدمات کو معرضِ التواء میں کیوں ڈالے رکھا گیا۔ اس کے جواب میں نیب کے پراسیکیوٹر چوہدری محمد ریاض نے کہا تھا کہ 2007ء تک شریف برادران کے ملک میں نہ ہونے کی وجہ سے یہ مقدمات چلائے نہیں جاسکے۔ شریف خاندان نے جواب میں کہا کہ 2008ء سے اب تک ان مقدمات کو لٹکائے رکھنے کی وجہ کیا ہے جبکہ ہم تو تب سے پاکستان میں ہی موجود ہیں۔ اس پر نیب کا جواب تھا کہ ہمارے پاس چونکہ کوئی مستقل چیئرمین ہی نہیں تھا، لہٰذا یہ مقدمات ملتوی ہوتے رہے۔
شریف خاندان کا مؤقف تھا کہ سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں ان کے خلاف مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے، لہٰذا ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ ان مقدمات میں صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کے نو دیگر افراد بھی نامزد ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے دسمبر 2012ء کے میں اس کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا مگر اللہ ہی جانتا ہے کہ چار مہینے سے زائد عرصہ گزر چکنے کے باوجود وہ فیصلہ سنایا کیوں نہیں گیا۔
پسِ تحریر: میں نواز شریف کا حامی ہرگز نہیں ہوں اور یہ معلومات میں نے ایک صحافی کی حیثیت سے فراہم کی ہیں۔
بہرحال جب تک فیصلہ نہ آ جائے وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ نادہندہ نہیں ہیں۔ اور فیصلہ تو الیکشن کے بعد ہی آئے گا نا یہ بھی سب جانتے ہیں
یوں تو زرداری صاحب کا بھی یہی فرمانا ہے کہ ان پر مقدمات نوازشریف نے قائم کئے تھے وہ معصوم اور بے قصور ہیں
جبکہ زمینی حقائق کہتے ہیں کہ دونوں ہی جھوٹے ہیں۔
آپ این آر او ٹو سے بھی وقف ہونگے کچھ اس پر بھی روشنی ڈالیے
عاطف صاحب ہم سب جانتے ہیں کہ شریف برادران کی دولت جائز طریقوں سے نہیں بڑھی۔ اور نہ ہی اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے انہوں نے رائج شرح سود سے کہیں کم پر قرض لئے ۔ ہزاروں بے قاعدگیاں کی گئیں ۔ کہیں کولیٹرل نہیں تھا اور کہیں مطلوبہ سرمایہ ۔ اپنے عہدے کو کاروبار کے لئے جس بے دردی سے استعمال کیا اس کی نظیر ملنی مشکل ہے
یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ عدلیہ جس سرعت سے پی پی پی کے خلاف فیصلے سُناتی ہے اُتنی سختی یا سُرعت ن کے معاملات میں نہیں دکھائی جاتی۔