محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
چھوٹے بچوں میں کتب بینی کے فروغ کیلیے والدین کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بچے لاشعوری طور پر اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں، انہیں جو کچھ کرتے یا کہتے دیکھتے ہیں اسی کو نقل کرتے ہیں، اگر والدین گھر میں خود کتب بینی کریں اور بچوں کے ساتھ کتابوں پر بحث کریں تو ضرور بچوں میں بھی یہ عادت آئے گی اور جب کچھ ان کا دھیان اس طرف آئے تو ان کو دلچپسپ کتابیں دے کر اس شوق کو بڑھایا جا سکتا ہے (یہ اس خاکسار کا ذاتی تجربہ ہے)، لیکن افسوس وہی بات جو اوپر ایک دوست نے کہی، کتابیں بہت مہنگی ہو گئی ہیں اور اس پر ستم یہ کہ بچوں کی کتابیں اور زیادہ مہنگی ہیں، افسوس صد افسوس۔
ہم وارث بھائی و دیگر اصحاب سے قطعی طور پر متفق ہیں، لیکن ہمارا مسئلہ ذرا دوسری نوعیت کا ہے۔
ہم نے اپنے گھر کو کتابوں سے بھر دیا ہے ، یہاں تک کہ بیٹھنے کے لیے بھی مناسب جگہ ملنی دشوار ہے۔ ادھر بچوں میں گھر کی کتابیں دیکھ کر کتب بینی کا شوق تو ضرور پیدا ہوگیا ہے لیکن انگلش میڈیم اسکول سے اے لیول کرنے کی وجہ سے انگلش تو فر فر پڑھ جاتے ہیں، بلکہ اسکول اور پیر پریشر ہی کی وجہ سے پاپولر فکشن کی طرف راغب ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اسکول ہی کی کوششوں کی وجہ سے ( کہ انھوں نے اردو لینگویج کے بجائے اردو لٹریچر پڑھا ہے )اور بہترین اردو بول اور لکھ پڑھ سکتے ہیں ۔
ادھر چاروں انگلش کتابوں کی طرف تو بہت زیادہ مائل ہیں لیکن اردو پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اسی طرح انگلش پاپولر فکشن کی علت سے انہیں کیسے نکالا جائے۔ بڑی بیٹی کو بڑی مشکل سے ڈیفنی ڈی موریر پڑھوایا تو وہ اسے چاٹ گئی۔ اسی طرح دونوں بیٹے اگاتھا کرسٹی کے عاشق ہوگئے اور ان کی سب کتابیں انھیں ازبر ہیں۔ ہماری چھوٹی والی ( جو ابھی تیسرے درجے میں ہیں) ابھی سے رول ڈاہل کی فین ہیں اور ان کی تمام کتابیں پڑھ چکی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ انگلش پر ماسٹری اور پیر پریشرکے ہوتے ہوئے انھیں اردو کی طرف کیسے مائل کریں؟